گزشتہ دنوں 15 مئی 2021ء کو خاکسار کا ایک آرٹیکل بعنوان ’’کانوں کی افادیت‘‘ شائع ہوا تھا جس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کو دیئے گئے اعضا ء میں سے کان کی اہمیت وافادیت بیان کی گئی تھی۔ اس آرٹیکل کے طبع ہونے کے بعد مطالعہ کے دوران سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک حوالہ نظروں سے گزرا جو میرے آرٹیکل کی تائید کر رہا تھا۔ حضرت حکیم الامت (حکیم نورالدین خلیفۃ المسیح الاولؓ) نے (حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے) عرض کی کہ حضور !یہ ایک بڑی عجیب بات ہے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہؓ میں سے ایک بھی بہرا نہ تھا (ہاں اندھے تھے۔ البدر) اس پر امام الملۃ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام) نے فرمایا کہ :
’’چونکہ اُس وقت خدا تعالیٰ کا کلام نازل ہو رہا تھا اور اس امر کی ضرورت تھی کہ صحابہؓ اسے سنیں اور روایت کر کے دوسروں تک پہنچائیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس نظام کو قائم رکھنے کے لیے صحابہؓ کو اس بہرہ پن سے محفوظ رکھا۔ ایسے وقت اگر آنکھ نہ ہو تو کام ہو سکتا ہے لیکن کان کے بغیر کام نہیں چل سکتا۔ ان حقائق و معارف کوجو خدا تعالیٰ کامرسل لے کر آتا ہے سننے کی بہت بڑی ضرورت ہوتی ہے‘‘
(ملفوظات، جلد ششم صفحہ 273 ۔274 ایڈیشن1984ء)
اس ارشاد سے واضح طور پر اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ صحابہ کے نیک اعمال دراصل اُن ارشادات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کےسانچے سے تیار ہوئے تھے جو صحابہ ؓ نے براہ راست آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنے تھے جن پر عمل کر کے وہ رضی اللّٰہ عنہم و رضوا عنہ کے مصداق ٹھہرے۔ انسان کے عمل یا اس کے فعل سے اس کی شخصیت کی ایک تصویر بنتی یا ابھرتی ہے ۔ جس سے وہ جانا اور پہچانا جاتا ہے۔ اسی لئے توکہتے ہیں کہ اگر انسان کی شخصیت کو پہچاننا ہو تو اس کے کردار کو دیکھو نہ کہ گفتار کو۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس سلسلہ میں ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں۔
’’ایک دفعہ ایک شخص نے ابوبکرؓ کو پیغمبر جان کر ان سے مصافحہ کیا اور تعظیم و تکریم کرنے لگا۔ آخر ابوبکر ؓ اُٹھ کر پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو پنکھا جھلنے لگ گئے اور اپنے قول سے نہیں بلکہ فعل سے بتلا دیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ ہیں میں تو خادم ہوں‘‘
(ملفوظات جلد6 صفحہ411 ایڈیشن1984ء)
پھر آپ علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’انسان سمجھتا ہے کہ نرا زبان سے کلمہ پڑھ لینا ہی کافی ہے یا نرا اَستغفراللّہ کہہ دینا ہی کافی ہے مگر یاد رکھو زبانی لاف و گزاف کافی نہیں۔ خواہ انسان زبان سے ہزار مرتبہ اَستغفراللّہ کہے یا سو مرتبہ تسبیح پڑھے اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ خدا نے انسان کو انسان بنایا ہے، طوطا نہیں بنایا۔ یہ طوطا کا کام ہے کہ وہ زبان سے تکرارا کرتا رہے اور سمجھے خاک بھی نہیں۔ انسان کا کام تو یہ ہے کہ جو کچھ منہ سے کہتا ہےاس کو سوچ کر کہے اور پھر اس کے موافق عمل درآمد بھی کرے ۔ لیکن اگر طوطا کی طرح بولتا جاتا ہے تو یاد رکھو نری زبان سے کوئی برکت نہیں ہے ۔ جب تک دل سےاُس کے ساتھ نہ ہو اور اس کے موافق اعمال نہ ہوں ۔ وہ نری باتیں سمجھی جائیں گی جن میں کوئی خوبی اور برکت نہیں کیونکہ وہ نرا قول ہے خواہ قرآن شریف اور استغفار ہی کیوں نہ پڑھتا ہو ۔ خدا تعالیٰ اعمال چاہتا ہے اس لئے بار بار یہی حکم دیا کہ اعمال صالحہ کرو۔ جب تک یہ نہ ہو خدا کے نزدیک نہیں جا سکتے ۔ بعض نادان کہتے ہیں کہ آج ہم نے دن بھر میں قرآن ختم کر لیا ہے ۔ لیکن کوئی اُن سے پوچھے کہ اس سے کیا فائدہ ہوا؟ نری زبان سے تم نے کام لیا مگر باقی اعضاء کو بالکل چھوڑ دیا ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تمام اعضاء اس لئے بنائے ہیں کہ اُن سے کام لیا جاوے ۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث میں آیا ہے کہ بعض لوگ قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اور قرآن اُن پر لعنت کرتا ہے کیونکہ ان کی تلاوت نرا قول ہی قول ہوتا ہے اور اس پر عمل نہیں ہوتا۔‘‘
(ملفوظات، جلد6 صفحہ399-398 ایڈیشن 1984ء)
پھر آپ علیہ السلام ‘‘جماعت کو عمل کی ضرورت ہے’’ کے تحت فرماتے ہیں :
’’یاد رکھو کہ ہماری جماعت اس بات کے لئے نہیں ہے جیسے عام دنیا دار زندگی بسر کرتے ہیں۔ نرا زبان سے کہہ دیا کہ ہم اسلام میں داخل ہیں اور عمل کی ضرورت نہ سمجھی جیسے بد قسمتی سے مسلمانوں کا حال ہے کہ پوچھو تم مسلمان ہو؟ تو کہتے ہیں شکر الحمدللّہ۔ مگر نماز نہیں پڑھتے اور شعائر اللہ کی حرمت نہیں کرتے۔ پس میں تم سے یہ نہیں چاہتا کہ صرف زبان سے ہی اقرار کرو اور عمل سے کچھ نہ دکھاؤ یہ نکمی حالت ہے خدا تعالی اس کو پسند نہیں کرتا ۔۔۔۔۔۔۔۔ پس اب اگر کوئی میرے ساتھ تعلق رکھ کر اپنی حالت کی اصلاح نہیں کرتا اور عملی قوتوں کو ترقی نہیں دیتا بلکہ زبانی اقرارہی کو کافی سمجھتا ہے۔ وہ گویا اپنے عمل میں میری عدم ضرورت پر زور دیتا ہے۔ پھر تم اگر اپنے عمل سے ثابت کرنا چاہتے ہو کہ میرا آنا بے سُود ہے تو پھر میرے ساتھ تعلق کرنے کے کیا معنے ہیں؟ میرے ساتھ تعلق پیدا کرتے ہو تو میری اغراض اور مقاصد کو پورا کرو اور وہ یہی ہیں کہ خدا تعالیٰ کے حضور اپنا اخلاص اور وفا داری دکھاؤ اور قرآن شریف کی تعلیم پر اسی طرح عمل کرو جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کر کے دکھایا اور صحابہؓ نے کیا ۔ قرآن شریف کے صحیح منشا کو معلوم کرو اور اس پر عمل کرو۔ خدا تعالیٰ کے حضور اتنی ہی بات کافی نہیں ہو سکتی کہ زبان سے اقرار کر لیا اور عمل میں کوئی روشنی اور سرگرمی نہ پائی جاوے۔ یاد رکھو کہ وہ جماعت جو خدا تعالیٰ قائم کرنی چاہتا ہے وہ عمل کے بدوں زندہ نہیں رہ سکتی۔ یہ وہ عظیم الشّان جماعت ہے جس کی تیاری حضرت آدم ؑ کے وقت سے شروع ہوئی ہے کہ کوئی نبی دنیا میں نہیں آیا جس نے دعوت کی خبر نہ دی ہو۔ پس اس کی قدر کرو اور اس کی قدر یہی ہے کہ اپنے عمل سے ثابت کر کے دکھاؤ کہ اہل ِحق کا گروہ تم ہی ہو۔‘‘
(ملفوظات جلد3 صفحہ164-163،ایڈیشن1984ء)
آپؑ نے عمل اور ایمان کے رشتے کو بہت اچھوتے اور اچھے انداز میں مختلف جگہوں پر بیان فرمایا ہے جیسے ایمان، اعمال صالحه کے بغیر ادھورا ہے ۔ بغیر ایمان کے عمل مثل مُردہ کے ہیں ۔ فرمایا:
’’ایمان کے ساتھ عمل کی ضرورت ہے ورنہ ایمان بدوں عمل مُردہ ہے ۔اور جب تک عمل نہ ہو وہ ثمرات اور نتائج پیدا نہیں ہوتے جو اعمال کے ساتھ وابستہ ہیں ۔ مگر اعمال کی قوت اور توفیق معرفت اور یقین سے پیدا ہوتی ہے۔ جس قدر یہ قوت بڑھتی ہے اسی قدر اعمال صالحہ کی توفیق ملتی ہے اوروہ برکات حاصل ہوتی ہیں جن سے انسان آسمان کی طرف اٹھایا جاتا ہے۔‘‘
(الحکم 10اگست 1903ء صفحہ20)
ایمان اور عمل کے درمیان رشتے کوآپؑ نے ایک جگہ یوں بیان فرمایا:
’’ایمان اور اعمال کی مثال قرآن شریف میں درختوں سے دی گئی ہے۔ ایمان کو درخت بتایا ہے اور اعمال اس کی آبپاشی کے لئے بطور نہروں کے ہیں۔ جب تک اعمال سے ایمان کے پودہ کی آبپاشی نہ ہو اس وقت تک وہ شیریں پھل حاصل نہیں ہوتے۔‘‘
(ملفوظات جلد5 صفحہ225۔226 ایڈیشن 2016ء)
پھر عمل کو ایمان کا زیور قرار دے کر کیا خوب فرمایا ہے:
’’اپنے ایمان کا وزن کرو ۔عمل ایمان کا زیور ہے ۔اگر عملی حالت درست نہیں ہے تو حقیقت میں ایمان بھی نہیں ہے ۔ مومن حسین ہوتا ہے جیسے ایک خوبصورت کو معمولی اور ہلکا سا کڑا بھی پہنا دیا جاوے تو وہ ا سے زیادہ خوبصورت بنا دیتا ہے ۔اسی طرح پر ایماندار کو عمل اور بھی خوبصورت دکھاتا ہے۔ اور اگر بدعمل ہے تو کچھ بھی نہیں‘‘
( ملفوظات جلد اول صفحہ340 ایڈیشن 2016ء)
الغرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایمان اور عمل، قول و فعل میں مطابقت کو نہایت پیارے انداز میں مختلف جگہوں پر بیان فرمایا ہے ۔ جن میں سے چند ایک ارشادات کو اس مضمون کا حصہ بنایا گیا ہے۔ تاہم اپنے ایمان کو اپنے اعمال سے سجائیں ۔اللہ کی طرف جھکیں، نماز پڑھیں، تلاوت قرآن کیا کریں۔ اللہ کی مخلوق سے پیار اور محبت سے پیش آئیں۔ بالخصوص اپنے اہل خانہ اور عزیز و اقارب سے شفقت سے پیش آئیں۔ ایسا نہ ہو کہ ہم آج کے دور میں غیروں کے نزدیک تو غیر مسلم ٹھہرے ہی ہیں اپنے اعمال نہ ہونے کی وجہ سے خدا کے دربار میں بھی اسلام کو اپنی طرف منسوب نہ کر سکیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’حقیقت میں اس امر کی بہت بڑی ضرورت ہے کہ انسان کا قول اور فعل باہم ایک مطابقت رکھتے ہوں۔ اگر ان میں مطابقت نہیں تو کچھ بھی نہیں اس لئے اللہ تعالی قرآن شریف میں فرماتا ہے اَتَاْ مُرُوْنَ النَّا سَ بِالْبِرِّ وَ تَنْسَوْنَ اَنْفُسَکُمْ (البقرہ : 45) یعنی تم لوگوں کو تو نیکی کا امر کرتے ہو مگر اپنے آپ کو اس امر نیکی کا مخاطب نہیں بناتے ،بلکہ بھول جاتے ہو۔ اور پھر دوسری جگہ فرمایا لمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ (الصف: 3) مومن کو دو رنگی اختیار نہیں کرنی چاہیے ۔ یہ بزدلی اور نفاق اس سے ہمیشہ دور ہوتا ہے۔ ہمیشہ اپنے قول اور فعل کو درست رکھو اور ان میں مطابقت دکھاؤ ۔جیسا کہ صحابہ ؓنے اپنی زندگیوں میں دکھایا، ایسا ہی تم بھی ان کے نقش قدم پر چل کر اپنے صدق و وفا کے نمونے دکھاؤ‘‘
(ملفوظات جلد اول صفحہ339-338 ایڈیشن 2016ء)
آپ ؑ نے ایک موقع پر بیعت لینے کے بعد نو مبائعین کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا :
’’تم لوگوں نے اس وقت جو بیعت کی ہے اس کا زبان سے کہہ دینا اوراقرا ر کر لینا تو بہت ہی آسان ہے مگر اس اقرار بیعت کانبھانا اور اس پر عمل کرنا بہت ہی مشکل ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یاد رکھو! نری بیعت سے کچھ نہیں ہوتا ۔اللہ تعالیٰ اس رسم سے راضی نہیں ہوتا جب تک کہ حقیقی بیعت کے مفہوم کو ادا نہ کرے اس وقت تک یہ بیعت، بیعت نہیں نری رسم ہے ۔ اس لئے ضروری ہے کہ بیعت کے حقیقی منشا کو پورا کرنے کی کوشش کرو ۔ یعنی تقویٰ اختیار کرو۔ قرآن شریف کو خوب غور سے پڑھو اور اس پر تدبّر کرو اور پھر عمل کرو کیونکہ سنت اللہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نرے اقوال اور باتوں سے کبھی خوش نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالی ٰکی رضا کےحاصل کرنے کے واسطے ضروری ہے کہ اس کے احکام کی پیروی کی جاوے اور اس کے نواہی سے بچتے رہو اور یہ ایک ایسی صاف بات ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ انسان بھی نری باتوں سے خوش نہیں ہوتا بلکہ وہ بھی خدمت ہی سے خوش ہوتا ہے‘‘
(ملفوظات جلد ششم، صفحہ405-392 ایڈیشن 1984ء)
(ابو سعید)