• 1 مئی, 2024

خدمت دین میں مالی قربانی کی اہمیت

اللہ تعالیٰ قرآن کریم سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 250 میں بیان فرماتا ہے؛
’’پھر جب طالوت اپنی فوجوں کو لے کر نکلا تو اس نے کہا کہ اللہ ایک ندی کے ذریعہ سے یقیناً تمہارا امتحان لینے والا ہے۔ پس جس نے اس (نہر) میں سے (پیٹ بھر کرپانی) پی لیا وہ مجھ سے (وابستہ) نہیں (رہے گا) اور جس نے اس سے نہ چکھا وہ یقیناً مجھ سے وابستہ ہوگا سوائے اس کے جس نے اُس میں سے (فقط) اپنے ہاتھوں سے ایک چُلّو لے (کرپی) لیا (کہ اس پر کوئی الزام نہ ہوگا) پھر (ہُوا یہ کہ) ان میں سے چند ایک کے سوا (باقی سب نے) اس میں سے (پانی) پی لیا۔ پھر جب وہ خود اور (نیز) وہ لوگ جو اس کے ساتھ ایمان لائے تھے اس ندی سے پار اتر گئے (تو) انہوں نے کہا کہ آج ہم میں جالوت اور اس کے لشکروں کے مقابلہ کی بالکل طاقت نہیں (مگر) جو لوگ یقین رکھتے تھے کہ وہ (ایک دن) اللہ سے ملنے والے ہیں انہوں نے کہا کہ بہت سے چھوٹی جماعتیں اللہ کے حکم سے بڑی جماعتوں پر غالب آچکی ہیں اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ (ہوتا) ہے (پس ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں)‘‘

(ترجمہ بیان فرمودہ حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ از تفسیر صغیر صفحہ نمبر80 کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن)

حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ اس آیت کی مختصر تفسیر بیان فرماتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ
’’نـَھَر کا ترجمہ ندی کیا گیا ہے۔ لیکن ھَـا کی زبر سے جب یہ لفظ ہو تو اس کے دو معنی ہوتے ہیں۔ (1) ندی (2) فراخی اور وسعت (مفردات) چنانچہ کہتے ہیں۔ نـَھَرُ نـَھِرُ بہت پانی والی ندی (مفردات) اس آیت میں دونوں معنے ہی لگ سکتے ہیں۔ اگر فراخی اور وسعت کے معنے کئے جائیں تو آیت کا یہ مطلب ہو گا کہ اللہ تعالیٰ نے بادشاہ کے ذریعہ سے فوجیوں کو اطلاع دی کہ تمہارا امتحان مال و دولت سے لیا جائے گا۔ اگر تم مال و دولت کے پیچھے پڑ گئے تو خدا تعالیٰ کا کام نہ کر سکو گے اور اگر تم مال و دولت سے متاثر نہ ہوئے تو تم کو کامیابی ہو گی۔ جیسا کہ پہلے نوٹ میں بتایا جا چکا ہے۔ طالوت سے مراد جدعون ہے اور یہ صفاتی نام ہے پرانے عہد نامہ کی کتاب قاضیوں باب 7 آیت 5تا 7 سے معلوم ہوتا ہے کہ جدعون کے ساتھیوں کا نہر کے ذریعہ امتحان لیا گیاتھا۔ پس ظاہری معنے لینے میں کوئی حرج نہیں۔ جنگ کی ضرورتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ امتحان نہایت لطیف ہے۔ جنگ میں جلدی اور تیز حرکت کی ضرورت ہوتی ہے اور پیٹ کا پانی سے بھر لینا تیز حرکت سے انسان کو محروم کر دیتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ ہلکے پیٹ رہو اور پانی کم پیو تاکہ جنگ میں عمدگی سے کام کر سکو۔ اکثر نے اس حکمت کو نہ سمجھا اور خوب پیٹ پھر کر پانی پیا اور بہت تھوڑی سی تعداد نے جو بائبل کے بیان کے مطابق صرف تین سو تھی جنگی ضرورتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے یونہی چند گھونٹ پانی پیا تا لڑائی کے وقت و ہ اچھی طرح کام کر سکیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی قربانیوں کا بدلہ دینے کے لئے اور ان کے اخلاص کی قدر کرنے کے لئے فیصلہ کیا کہ صرف انہی کے ہاتھ پر فتح ہو اور حکم دیا کہ انہی تین سو کو جنگ میں شامل کیا جائے باقی کو نہیں۔ چنانچہ انہی تین سو کو طالوت یا جدعون نے جنگ میں شامل کیا اور اللہ تعالیٰ نے انہی کے ہاتھ پر فتح دی‘‘

(تفسیر صغیر صفحہ نمبر80 کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن)

اس آیت کریمہ کے مطالب پر غور کرنے سے یہ بات بخوبی سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال و دولت کے ذریعہ سے بھی امتحان لیا جاتا ہے اور جس مال و دولت کے امتحان کا اس آیت میں ذکر ہے، وہ ایسا امتحان ہے جس میں تمام مواقع اور سہولیات میسر ہونے کے باوجود اپنے نفس کی خواہشات پر قابو پا کر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی خاطر اور اللہ تعالیٰ کی جماعت کے امام کی کامل اطاعت و فرمانبرداری میں مالی قربانی کرتے ہوئے اپنے آپ کو خدمت دین کے لئے پیش کرنا ہے۔

واقفین زندگی خدمت دین اور خدمت خلق کی خاطر اپنی زندگی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئےاور خلیفئہ وقت کی کامل اطاعت اور فرمانبرداری کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ اپنے شب و ر وز اللہ تعالیٰ کی حمد و تسبیح کرنے میں، حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ پر درود شریف بھیجنے میں، حضرت مسیح موعود ؑ کی اور حضرت مصلح موعودؓ کی کتب کا مطالعہ کرنے میں اور حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کی صحت و سلامتی کے لئے اور آپ کی روح القدس کے ساتھ تائید و نصرت کے لئے دعائیں کر رہے ہیں۔ یہ خدمت دین کے واقفین دنیاوی ما ل و دولت سے متاثر ہوئے بغیر قلیل آمدنی وصول کرنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں جیسا کہ جالوت کے مخلص فوجیوں نے صرف چلّو بھر پانی ہی پیا تھا۔ بس فرق صرف اتنا ہے کہ جالوت کے فوجیوں نے میدان جنگ میں دشمن پر فتح پائی تھی اور موجودہ دور میں خدمت دین کے واقفین اپنی دعاؤں کے ہتھیاروں سے، اپنی صبر و استقامت اور اخلاص و وفا سے کی جانے والی انتھک محنت سے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کی امامت میں اللہ تعالیٰ کے فضل اور تائیدو نصرت سے حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کی تبلیغ کو دنیا کے تمام کناروں میں پھیلا رہے ہیں اور اسلام احمدیت کے جھنڈے کو جو کہ حقیقت میں ہمارے پیارے آقا حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ کا جھنڈا ہے دنیا کے تمام جھنڈوں سے اونچا لہرا نے کی ہر دم سعی کر رہے ہیں اور اُس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک یہ ممکن نہ ہو جائے۔ ان شاء اللہ ایک دن یہ ضرور ممکن ہو گا اور تمام دنیا میں اسلام احمدیت اکثریت حاصل کر لے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ تعلیم و تربیت کا کام بھی جاری ہے جو کہ ایک نہ ختم ہونے والا مستقل کام ہے۔ اس لئے ہم سب کو مداومت عمل اور مستقل مزاجی سے اس مشن کی تکمیل کے لئے اپنی تمام استعدادوں کو استعمال میں لاتے رہنا چاہیئے۔

اللہ تعالیٰ اس آیت کریمہ میں یہ بھی خوشخبری بیان فرماتا ہے کہ اگر تم صبر، حوصلےاور خلوص نیّت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے دین کی عظمت کے لئے کام کرتے رہوگے تو تمہاری تعداد کتنی ہی تھوڑی کیوں نہ ہو، تمہارا کام کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہواور تمہارا مشن کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو، تم ضرور اپنے کام میں، اپنے عظیم مقصد میں اور اپنے مشن میں کامیاب ہو جاؤ گے اور اللہ تعالیٰ تمہیں حکمت اور مالی فراخی بھی عطا کرے گا۔ لیکن بہرحال تمہیں ایک امتحان میں سے لازمی گزرنا پڑے گا تاکہ تم آزمائے جاؤ اور تاکہ اللہ تعالیٰ صدق و صفا، اطاعت و فرمانبرداری اور خلوص میں ترقی کرنے والوں کو نتھار کر الگ کر دے۔

آج کل کے دور میں مختلف شعبوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلباء و طالبات اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد تجربہ حاصل کرنے کے لئے کچھ عرصے کے لئے ایک قلیل آمدنی پر کام کرتے ہیں جیسا کہ ایک ڈاکٹر تعلیم مکمل ہونے کے بعد ہاؤس جاب کرتاہے، ایک چارٹرڈ اکائونٹنٹ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ articleship کرتا ہے اور اکثر طلباء و طالبات تعلیم مکمل ہونے کے بعد انٹرنشپ کرتے ہیں۔ یہ سب اس لئے قلیل آمدنی یا الاؤ نس پر کام کرتے ہیں کیونکہ ان کو دنیاوی ادارہ جات پر یقین ہوتا ہے کہ اگر ابھی یہ قلیل آمدنی پر کام کر کے ضروری مدت کا تجربہ حاصل کر لیں گے اور اپنی اسناد حاصل کرلیں گے تو ضرور ان کی آمدنی میں کئی گنا تک اضافہ ہو جائے گا۔ ان میں سے اکثر ایسے بھی ہوں گے جن کو ان کے والدین نے بچپن میں وقف کردیا تھا اور خلیفئہ وقت سے یہ عہد کیا تھا کہ یہ بچے اپنی بلوغت کی عمر کو پہنچنے پر، اپنی تعلیم مکمل کرنے پر اپنے آپ کو جماعتی خدمت کے لئے پیش کردیں گے لیکن ابھی تک اِن میں سے اکثر نے جماعتی ضرورت کے باوجود اپنے آپ کو خدمت دین کے لئے پیش نہیں کیا اور اپنی پیشہ وارانہ زندگی مختلف دنیاوی ادارہ جات میں شروع کردی ہے۔ اُن کو اِس بات پر تو یقین ہے کہ کچھ عرصہ قلیل آمدنی پر کام کرکے تجربہ حاصل کرلینے کے بعد دنیاوی ادارہ جات اُن کی آمدنی کئی گنا بڑھا دیں گے لیکن اس بات پر یقین نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری کے ساتھ خدمت دین میں مالی قربانی کرنے سے اور قلیل آمدنی پر خدمات سر انجام دینے سے اللہ تعالیٰ اُن کو بے شمار فضائل سے نوازے گا اور اُن کی آمدنی کئی سو گنا تک بڑھا دے گا۔

خدمت دین کی راہ میں اپنے آپ کو وقف کرنے والے کو بہرحال مشکلات و مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جن میں مالی مشکلات، دوسروں کے سخت روّیے، بعض اوقات اپنی پروفیشنل qualification سے کم درجہ پر تقرری، رہائش کی مشکلات اور راستے کی مشکلات شامل ہیں لیکن اگر صبر، ہمت، حوصلے اور استقامت سے خدمت دین پر قائم رہو گے تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ جس کو یہ یقین ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُس کے ساتھ ہے، تو وہ پھر اپنی تمام حاجات اور ضروریات اللہ تعالیٰ کے سامنے ہی بیان کرتا ہےاور لوگوں کے سامنے پے درپے درخواستیں جمع نہیں کرواتا۔ جب اُس کو مال کی ضرورت ہوتی ہے تو قرضے کی درخواستیں دینے کی بجائے اور لوگوں سے مانگنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کے حضور متواتر تہجد اور پنجوقتہ نماز میں مستقل مزاجی سے دعا کرتا ہے اور صرف اپنے لئے ہی نہیں بلکہ اپنے دوسرے بہن بھائیوں کی مشکلات دور کرنے کے لئے، بیماروں کی شفایابی کے لئے، اسیرانِ راہ مولیٰ کی رہائی کے لئے، مالی وسعت عطا فرمانے کے لئے اور تمام افراد جماعت احمدیہ کے حفظ و امان میں رہنے کے لئے دعا کرتا ہے۔ غرض یہ کہ کئی دفعہ اپنے سے زیادہ دوسروں کے دکھ درد اور تکلیف کا احساس کرتے ہوئے اُن کے لئے دعا کرتا ہے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل و کرم سے، اپنی بے پناہ سایہ رحمت کا جلوہ دکھاتے ہوئے اور اپنے بندے پر ذرّہ نوازی فرماتے ہوئے اُس کی تمام دعا ئیں قبول فرماتا ہے اور اُس کو اُن راہوں سے نوازتا ہے جس کا اُس کو وہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔ جس پر بندے کا بھی فرض ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید میں، عبادات، خدمت دین اور مالی قربانی کے معیار میں، شکر گزاری کے جذبات کے ساتھ آگے سے آگے بڑھتا چلا جائے۔

اس ضمن میں درثمین میں سے حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کا ایک شعرذیل میں درج ہے؛

حاجتیں پوری کریں گے کیا تیری عاجز بشر
کربیاں سب حاجتیں حاجت روا کے سامنے

(درثمین)

یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی خاطر خدمت دین اور خدمت خلق کے لئے اپنے آپ کو وقف کرنے کی راہ میں آنے والی تمام مشکلات عارضی ہوتی ہیں اور اگر یہ یقین ہوجائے کہ ان مشکلات کو صبر و استقامت کے ساتھ برداشت کرنے کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو تا ہے تو یہ مشکلات نعمتیں معلوم ہونے لگتیں ہیں۔

پس ہم سبھوں کو جنہوں نے اپنی زندگیاں وقف کرکے میدان عمل میں قدم رکھ دیا ہے یا اور وہ سب بھی جو تحریک وقف نو میں شامل ہونے کے باوجود اپنی تعلیم مکمل کر نے کے بعد خدمت دین کے لئےاپنے آپ کو پیش نہیں کیا، یہ یاد رکھنا چاہئے کہ وقف کی راہ میں قربانی دینی پڑتی ہے اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل ورحم اور انعامات بھی اُنہیں لوگوں پر نازل ہوتے ہیں جو ان تمام امتحانات سے اطاعت اور فرمانبرداری کا نمونہ دکھاتے ہوئے سرخرو ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اِن لوگوں کے مال میں، اولاد میں، صحت میں برکت ڈال دیتا ہے اور ان کے دل میں نیکی، تقویٰ اور قرب الہٰی میں ترقی کرنے کی تحریک پیدا کرتا ہے۔

یہاں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ جماعتی ضرورت اور تحریک کے باوجود اگر آپ پھر بھی اپنے آپ کو جماعتی خدمت کے لئے وقف نہیں کر رہے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ دنیاوی مصائب اور معاملات کی دلدل میں پھنس جائیں اور اس میں سے نکل ہی نہ سکیں یا پھر اللہ تعالیٰ کی تقدیر آپ کو خود کھینچ کر جماعتی خدمت کی طرف لے آئے اور آپ کے لئے اس راہ کے علاوہ کوئی اور راستہ نہ رہے۔ پس یہ ایک سمجھنے کی بات ہے اگر کوئی سمجھنا چاہے۔

اس وقت جماعتی ہسپتالوں میں مریضوں کی کثرت سے آمد اور مختلف نئے شعبہ جات کے اجراء کی وجہ سے ماہرین ڈاکٹرز، سینئیر ڈاکٹرز اور جونئیر ڈاکٹرز کی ضرورت ہے۔ ایسے واقفین نو جو کہ ڈاکٹرز بن چکے ہیں یا ابھی ہاؤس جاب کر رہے ہیں اپنے والدین کے کئے گئے عہد کو نبھاتے ہوئے اپنے آپ کو وقف کے لئے پیش کریں۔ یہ خیال غلط ہے کہ وقف کر دینے کے بعد آئندہ تعلیم حاصل کرنے کے امکانات نہیں ہوتے یا پھر بیرون ملک جانے کی ممانعت ہوتی ہے۔ آپ وقف کرنے کے بعد خدمت دین کے ساتھ ساتھ نہ صرف اپنی تعلیم جاری رکھ سکتے ہیں بلکہ اجازت ملنے کے بعد بیرون ملک میں کچھ عرصہ کے لئے دورہ جات کے لئے بھی جا سکتے ہیں اور واپس آنے کے بعد دوبارہ خدمت دین جاری رکھ سکتے ہیں۔

اس ضمن میں یہ بات بھی عرض کردینی ضروری ہے کہ جماعتی ہسپتالوں فضل عمر ہسپتال اور طاہر ہارٹ ا نسٹیٹیوٹ میں گزشتہ کئی سال سے حکومتی ادارے سے منظوری حاصل کرنے کے بعد ہاؤس جاب کروائی جارہی ہے۔ حال ہی میں فضل عمر ہسپتال کو FCPS Paeds میں ٹریننگ کروانے کی منظوری حاصل ہو گئی ہے۔ جبکہ طاہر ہارٹ ا نسٹیٹیوٹ میں FCPS Cardiology اور FCPS Cardiac Surgery میں ٹریننگ کے لئے منظوری حاصل کرنے کی کارروائی جاری ہے۔ اس لئے ایسے واقفین نو ڈاکٹرز جنہوں نے ابھی تک اپنے آپ کو وقف کے لئے پیش نہیں کیا اُن کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے، حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشادات کو سامنے رکھتے ہوئے اور اپنے والدین کے عہد کو نبھاتے ہوئے جلد از جلد میدان عمل میں قدم رکھیں اور اپنے آپ کو وقف کے لئے پیش کریں۔ جماعتی ہسپتالوں فضل عمر ہسپتال اور طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ میں خدمت کرنے سے آپ کو بزرگان سلسلہ کی صحبت حاصل ہوگی،آپ جماعتی روایات سے روشناس ہوں گے، آپ کو پسماندہ علاقوں میں پائی جانی والی مختلف بیماریوں اور ان کے علاج معالجہ کے بارہ میں معلوم ہوگا، آپ کو مختلف میڈیکل موضوعات پر تحقیق و ریسرچ کا موقع ملے گا، آپ کو ربوہ میں رہنے والے پاکستان کے مایہ ناز ڈاکٹرز سے اُن کے وسیع تجربہ سے ٹریننگ اورعلم حاصل کرنے کا موقع ملے گا، آپ کو بیرون ملک سے آنے والے ماہرین ڈاکٹرز سے بات چیت کرنے اور بیرون ملک میں specialization حاصل کرنے کے بارہ میں راہنمائی حاصل ہوگی اور سب سے بڑھ کر یہ اعتماد اور سکون ہو گا کہ آپ نے اللہ تعالیٰ کی خاطر اور حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشادات پر عمل کرتے ہوئے خدمت انسانیت اور خدمت دین کے لئے اپنے آپ کو وقف کیا ہے۔

آپ کے لئے یہ بھی ممکن ہے کہ آپ زندگی وقف کرنے سے پہلے جماعتی ہسپتالوں میں کچھ عرصہ کے لئے وقف عارضی کے لئے تشریف لائیں۔ چاہے وہ پندرہ دن کیلئے ہو، تین سے چھ مہینے کے لئے ہو یا پھر ایک سال سے تین سال کے لئے ہو اور اگر نو سال یا دس سال کے لئے ہو تو سب سے بہتر ہے۔

اس مضمون کے آخر پر یہ بات بھی عرض کرنی ضروری ہے کہ اُن والدین کابھی فرض ہے جنہوں نے اپنے بچوں کو حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کے ارشاد پر لَبَّیْکَ کہتے ہوئے اُن کو تحریک وقف نو میں شامل کیا تھا کہ اپنے بچوں کو نہ صرف تحریک کریں، اُن کے لئے دعائیں کریں، اُن کو اس بات کی یاد دہانی اور احساس دلائیں کہ اُنھوں نے اپنی زندگی جماعت کی خدمت کے لئے وقف کر نی ہے۔ اس ضمن میں اُن کی ہر ممکن مدد بھی کریں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی رضا کی راہوں پر چلتے ہوئے نیکی اور تقویٰ میں ترقی عطا فرمائے، مقبول خدمت دین کی توفیق عطا فرماتا چلا جائے اور ہمیں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا قرب عطا فرمانے کے ساتھ آپ کا سلطان نصیر وجود بنائے۔ آمین

(حماد احمد ریحان)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 جولائی 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ