• 9 مئی, 2025

تقویٰ کے ساتھ دنیا کی نعمتوں سے فائدہ اٹھائیں

ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر کسی نے اعتراض کیا اور حضرت خلیفہ اوّل سے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پلاؤ بھی کھا لیتے ہیں؟ اعتراض کرنے والے نے کہا سنا ہے مرزا صاحب پلاؤ کھاتے ہیں؟ حضرت خلیفہ اوّل نے کہا کہ میں نے تو کہیں نہیں پڑھا، نہ قرآن میں نہ حدیث میں کہ اچھا کھانا کھانا نبیوں کو جائز نہیں۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ (غیر مطبوعہ) جلد5 صفحہ48 روایات حضرت نظام الدین صاحب ٹیلرؓ)۔ کھاتے ہیں تو کیا ہو گیا۔ تو اس قسم کے بھی لوگوں کے اعتراض ہوتے رہتے ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ صرف کڑوے کھانے کھانا ہی بڑی بزرگی ہے۔ حالانکہ یہ غلط ہے۔ اسی سنّت پہ ہمیں چلنا چاہئے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے پیش فرمائی۔ آپ نے ایک صحابی کو فرمایا تھا میں اچھا کھانا بھی کھاتا ہوں۔ میں اچھے کپڑے بھی پہنتا ہوں۔ میں نے شادیاں بھی کی ہیں۔ میری اولاد بھی ہے۔ میں سوتا بھی ہوں۔ میں عبادت بھی کرتا ہوں۔ پس یہ میری سنت ہے جس پر تمہیں چلنا چاہئے۔

(تفسیر الدر المنثور جلد 3 صفحہ 131 تفسیر سورۃ المائدۃ 78 تا 88 مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 2001ء)

بہرحال آگے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’انبیاء کا یہ دستور نہ تھا کہ اس میں ہی منہمک ہو جاتے۔‘‘ (یعنی دنیاوی چیزوں میں منہمک نہیں ہوتے۔) ’’انہماک بیشک ایک زہر ہے۔ ایک بدقماش آدمی جو کچھ چاہتا ہے کرتا ہے اور جو چاہتا ہے کھاتا ہے۔ اسی طرح اگر ایک صالح بھی کرے تو خدا کی راہیں اس پر نہیں کھلتیں۔‘‘ (ایک بدقماش آدمی تو دنیاوی نظر سے کھاتا پیتا اور وہ دنیا داری کے سب کام کر رہا ہوتا ہے لیکن ایک صالح آدمی نہیں۔ اگر وہ اس طرح کرے گا تو پھر خدا کی راہیں اس پہ نہیں کھلیں گی۔) فرمایا کہ ’’جو خدا کے لئے قدم اٹھاتا ہے خدا کو ضرور اس کا پاس ہوتا ہے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے اِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی (المائدۃ:9)‘‘ فرمایا کہ ’’تنعّم اور کھانے پینے میں بھی اعتدال کرنے کا نام تقویٰ ہے۔ صرف یہی گناہ نہیں ہے کہ انسان زنا نہ کرے۔ چوری نہ کرے۔ بلکہ جائز امور میں حد اعتدال سے نہ بڑھے۔‘‘

(ملفوظات جلد 4صفحہ375۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

جو جائز چیزیں ہیں ان میں اعتدال رکھنا یہ بھی تقویٰ ہے اور یہ بھی نیکی ہے۔ اپنی تعلیم کے اس حصہ کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ حُکّام کے ساتھ نیکی کیا ہے؟ اور عام تعلقات اور جو عزیزوں سے تعلقات ہیں اس میں نیکی کیا ہے؟ آپ فرماتے ہیں کہ ’’ہماری تعلیم تو یہ ہے کہ سب سے نیک سلوک کرو۔ حُکّام کی سچی اطاعت کرنی چاہئے کیونکہ وہ حفاظت کرتے ہیں۔‘‘ (حکومت اور گورنمنٹ کی بھی اطاعت کرنی چاہئے کیونکہ وہ اپنے شہریوں کے صحیح طرح فرائض ادا کر رہے ہیں۔) فرمایا کہ ’’جان اور مال ان کے ذریعہ امن میں ہیں اور برادری کے ساتھ بھی نیک سلوک اور برتاؤ کرنا چاہئے کیونکہ برادری کے بھی حقوق ہیں۔‘‘ فرمایا ’’البتہ جو متقی نہیں اور بدعات و شرک میں گرفتار ہیں اور ہمارے مخالف ہیں ان کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی چاہئے۔‘‘ (نیک برتاؤ کرنا ہے کرو۔ لیکن نیکی کا یہ مطلب نہیں کہ جو ہمارے مخالف ہیں اور ہمارے پہ فتوے لگانے والے ہیں، بدعات میں گرفتار ہیں ان کے پیچھے نمازیں پڑھنے لگ جاؤ۔ وہ نہیں پڑھنیں۔) فرمایا کہ ’’تاہم ان سے نیک سلوک کرنا ضرور چاہئے۔‘‘ (لیکن نیک سلوک ان سے بہرحال کرنا ہے۔ جتنے مرضی ہمارے مخالف ہوں۔) فرمایا کہ ’’ہمارا اصول تو یہ ہے کہ ہر ایک سے نیکی کرو۔ جو دنیا میں کسی سے نیکی نہیں کر سکتا وہ آخرت میں کیا اجر لے گا۔ اس لئے سب کے لئے نیک اندیش ہونا چاہئے۔ ہاں مذہبی امور میں اپنے آپ کو بچانا چاہئے۔ جس طرح پر طبیب ہر مریض کی خواہ ہندو ہو یا عیسائی یا کوئی ہو سب کی تشخیص اور علاج کرتا ہے۔ اسی طرح پر نیکی کرنے میں عام اصولوں کو مدّنظر رکھنا چاہئے۔‘‘ فرمایا ’’اگر کوئی یہ کہے کہ پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں کفّار کو قتل کیا گیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ لوگ اپنی شرارتوں اور ایذا رسانیوں سے بسبب بلا وجہ قتل کرنے مسلمانوں کے مجرم ہو چکے تھے۔‘‘ (مسلمانوں کو قتل کرتے تھے۔ ان پر ظلم کرتے تھے۔ ان کی سزا کے طور پر ان کو سزا دی گئی) ’’ان کو جو سزا ملی مجرم ہونے کی حیثیت سے تھی۔ (اس لئے نہیں تھی کہ انہوں نے انکار کیا۔)‘‘ محض انکار اگر سادگی سے ہو اور اس کے ساتھ شرارت اور ایذا رسانی نہ ہو تو وہ اس دنیا میں عذاب کا موجب نہیں ہوتا۔‘‘

(ملفوظات جلد 3صفحہ319-320۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

نیکی کے دائرے کو کس قدر وسیع کرنا چاہئے؟ اس بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ: ’’یاد رکھو ہمدردی کا دائرہ میرے نزدیک بہت وسیع ہے۔ کسی قوم اور فرد کو الگ نہ کرے۔ میں آجکل کے جاہلوں کی طرح یہ نہیں کہنا چاہتا کہ تم اپنی ہمدردی کو صرف مسلمانوں سے ہی مخصوص کرو۔ نہیں۔ مَیں کہتا ہوں کہ تم خدا تعالیٰ کی ساری مخلوق سے ہمدردی کرو۔ خواہ وہ کوئی ہو۔ ہندو ہو یا مسلمان یا کوئی اور۔ مَیں کبھی ایسے لوگوں کی باتیں پسندنہیں کرتا جو ہمدردی کو صرف اپنی ہی قوم سے مخصوص کرنا چاہتے ہیں۔ ان میں بعض اس قسم کے خیالات بھی رکھتے ہیں کہ اگر ایک شِیرے کے مٹکے میں ہاتھ ڈالا جاوے اور پھر اس کو تِلوں میں ڈال کر تِل لگائے جاویں تو جس قدر تل اس کو لگ جاویں اس قدر دھوکہ اور فریب دوسرے لوگوں کو دے سکتے ہیں۔‘‘ (یہ بعض غیر احمدیوں کے نظریے ہیں کہ شیرا یا شہد کوئی میٹھی چیز لیں۔ ہاتھ ڈالو باہر نکالو باہر نکال کے تلوں کے ڈھیر میں ہاتھ ڈالو اور جتنے تل ہاتھ کے ساتھ لگ جائیں اتنا تم دھوکہ دے سکتے ہو۔ اتنا دھوکہ دینا جائز ہے۔ اتنے لوگوں کے حقوق غصب کرنا جائز ہیں۔ فرمایا کہ یہ سب چیزیں انتہائی گناہ ہیں۔ یہ بالکل جائز نہیں)۔ فرمایا کہ ’’ان کی ایسی بیہودہ اور خیالی باتوں نے بہت بڑا نقصان پہنچایا ہے اور ان کو قریباً وحشی اور درندہ بنا دیا ہے۔‘‘ (یہی آجکل مسلمانوں کی حالت ہے۔) ’’مگر مَیں تمہیں بار بار یہی نصیحت کرتا ہوں کہ تم ہرگز ہرگز اپنی ہمدردی کے دائرے کو محدودنہ کرو اور ہمدردی کے لئے اُس تعلیم کی پیروی کرو جو اللہ تعالیٰ نے دی ہے۔ یعنی اِنَّ اللّٰہَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَآءِ ذِی الْقُرْبٰی (النحل:91) یعنی اوّل نیکی کرنے میں تم عدل کو ملحوظ رکھو۔ جو شخص تم سے نیکی کرے تم بھی اس کے ساتھ نیکی کرو۔ اور پھر دوسرا درجہ یہ ہے کہ تم اس سے بھی بڑھ کر اس سے سلوک کرو۔ یہ احسان ہے۔ احسان کا درجہ اگرچہ عدل سے بڑھا ہوا ہے اور یہ بڑی بھاری نیکی ہے لیکن کبھی نہ کبھی ممکن ہے احسان والا اپنا احسان جتلاوے۔ مگر ان سب سے بڑھ کر ایک درجہ ہے کہ انسان ایسے طور پر نیکی کرے جو محبتِ ذاتی کے رنگ میں ہو جس میں احسان نمائی کا بھی کوئی حصہ نہیں ہوتا ہے۔ جیسے ماں اپنے بچّہ کی پرورش کرتی ہے۔ وہ اس پرورش میں کسی اجر اور صلہ کی خواستگار نہیں ہوتی بلکہ ایک طبعی جوش ہوتا ہے جو بچے کے لئے اپنے سارے سکھ اور آرام قربان کر دیتی ہے۔ یہاں تک کہ اگر کوئی بادشاہ کسی ماں کو حکم دے دے کہ تُو اپنے بچّہ کو دودھ مت پلا اور اگر ایسا کرنے سے بچہ ضائع بھی ہو جاوے تو اس کو کوئی سزا نہیں ہو گی۔ تو کیا ماں ایسا حکم سن کر خوش ہو گی؟ اور اس کی تعمیل کرے گی؟ ہرگز نہیں۔ بلکہ وہ تو اپنے دل میں ایسے بادشاہ کو کوسے گی کہ کیوں اس نے ایسا حکم دیا۔ پس اس طریق پر نیکی ہو کہ اسے طبعی مرتبہ تک پہنچایا جاوے کیونکہ جب کوئی شئے ترقی کرتے کرتے اپنے طبعی کمال تک پہنچ جاتی ہے اُس وقت وہ کامل ہوتی ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد 7صفحہ282-283۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پس نیکیاں ایسی ہوں کہ دل سے ہر وقت نیکیوں کا خیال آتا رہے۔ آپ نے فرمایا کہ ’’طبعی جوش سے نوع انسان کی ہمدردی کا نام ایتاءِ ذی القربٰی ہے اور اس ترتیب سے خدا تعالیٰ کا یہ منشاء ہے کہ اگر تم پورا نیک بننا چاہتے ہو تو اپنی نیکی کو ایتاءِ ذی القربی۔ یعنی طبعی درجہ تک پہنچاؤ۔ جب تک کوئی شئے ترقی کرتی کرتی اپنے اس طبعی مرکز تک نہیں پہنچتی تب تک وہ کمال کا درجہ حاصل نہیں کرتی۔‘‘

(ملفوظات جلد7 صفحہ283 حاشیہ۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

فرمایا کہ ’’یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ نیکی کو بہت پسند کرتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اس کی مخلوق سے ہمدردی کی جاوے۔ اگر وہ بدی کو پسند کرتا تو بدی کی تاکید کرتا مگر اللہ تعالیٰ کی شان اس سے پاک ہے۔ (سبحانہ تعالیٰ شانہ۔)‘‘

(ملفوظات جلد 7صفحہ284۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ نیکیوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر بجا لانے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ نے فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ کا جو مطمح نظر، جو ٹارگٹ ہمارے لئے مقرر فرمایا ہے اسے ہم حاصل کرنے والے ہوں۔

(خطبہ جمعہ 27؍ اکتوبر 2017ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 اگست 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 اگست 2020