ہمارے پیارے ابی جان
محترم چودھری محمد اکرام اللہ صاحب (آف ملتان)
ابن محترم بابو اکبر علی صاحب مرحوم
ہمارے پیارے والد محترم چودھری محمد اکرام اللہ صاحب مرحوم (پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ ملتان چھاؤنی) ابن محترم بابو اکبر علی صاحب مرحوم صحابی (سٹارھوزری، قادیان) کی پیدائش 28 فروری 1933 کو پاکستان کے شہر روہڑی میں ہوئی۔ آپ کی وفات 80 سال کی عمر میں 5فروری 2003ء کو دوبئی میں ہوئی۔اناللّٰہ وانا الیہ راجعون۔ آپ کی تدفین 10 فروری 2003ء کو مقبرہ بہشتی ربوہ میں ہوئی۔ الحمدللّٰہ۔
جماعتی خدمات
محترم والد صاحب کی پیدائش پہ ان کی والدہ محترمہ اقبال بیگم صاحبہ نے خواب میں دیکھا کہ انھوں نے پانی کی گھاگھرسرپہ اٹھائی ہے اور کہتی ہیں ’’میں باغ احمد کو پانی دینے جا رہی ہوں۔‘‘ محترمہ دادی جان صاحبہ نے اس کی تعبیریہ کی کہ ’’آنے والا بچہ دین کی خدمت کرے گا، لیکن جماعت سے کبھی معاوضہ نہیں لے گا۔‘‘ محترم والد صاحب مرحوم نے ساری عمر اپنے آپ کو واقف زندگی سمجھا اور وقف کی روح سے ہی زندگی گذاری۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکی قائم کردہ فرقان فورس میں شامل ہو کر کشمیر کے محاذ پر جہاد میں شریک ہونے کی سعادت پائی۔ 1945ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے وقف تجارت کی تحریک فرمائی، جس کا مقصد تجارت کے ذریعہ دعوتی سنٹر قائم کرنا تھا۔ محترم والد صاحب نے اپنے آپ کو اس وقف کے لئے پیش کیا اورخدمت کی توفیق پائی۔ 1947ء میں جب آپ نے قادیان سے پاکستان ہجرت کی توحضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے آپ کے لئے دو شہروں کو تجویز کیا: ملتان یا راولپنڈی۔ آپ ملتان تشریف لائے اور اپنی تجارت کا اجراء کیا، حضرت صاحب نے اس پر خوشنودگی کا اظہار فرمایا۔ محترم والد صاحب مرحوم نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی منظوری سے جماعت احمدیہ ملتان چھاؤنی قائم کی اوریہاں دس سال تک بحیثیت پریذیڈنٹ جما عت خدمت انجام دی۔
1953ء میں احرار کے فتنہ کا مرکز ملتان تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس وقت اپنے فضل سے محترم والد صاحب کو نمایاں خدمت کی توفیق عطا فرمائی۔ آپ اپنے تعلقات اورذہانت سے مخالفین کی تمام پلاننگ کی پیشگی خبریں حاصل کرتے اورحضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں فوری طور پر بھجواتے تھے۔ اس طرح جماعت کو بر وقت احتیاطی تدابیر اختیار کرنے میں مدد ملتی۔ محترم والد صاحب انتہائی نڈراوردلیر تھے۔ ملتان میں 1953ء کے فسادات کا گڑھ علاقہ حسین آگاہی تھا۔ یہاں چند احمدی گھرانے تھے جن کی خیریت جماعت کے لئے پریشانی کا باعث تھی۔ محترم والد صاحب نے اپنی فرقان فورس کی وردی بمعہ تمام میڈل پہنی اور بلا خوف حسین آگاہی پہنچ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کا ایسا رعب قائم کیا کہ کسی کو آپ کو روکنے کی جرأت نہ ہوئی۔ آپ سب احمدی گھرانوں کو بحفاظت نکال لائے اور اپنے گھر میں پناہ دی۔ اس دوران آپ بے خطر اپنے گھر نماز جمعہ کا اہتمام کرتے رہے۔ ہماری والدہ صاحبہ مرحومہ بیان کرتی تھیں کہ احرار کا جلوس ہمارے گھر کے سامنے آتا تھا لیکن والد صاحب مرحوم بالکل نہ گھبراتے تھے، نہ ہی ان کی جماعتی کاوشوں میں اس وجہ سے کچھ فرق آیا۔ فسادات کے بعد محترم والد صاحب مرحوم، محترمہ والدہ صاحبہ کے ہمراہ ربوہ حضرت خلیفۃ الثانیؓ سے ملاقات کے لئے تشریف لے گئے۔ ملاقات میں حضرت مصلح موعودؓ نے محترمہ والدہ صاحبہ کو مخاطب کر کے فرمایا ’’پہلے تم ہمیں بہت پیاری تھیں لیکن اب تمھارے میاں زیادہ پیارے ہیں۔‘‘ (محترمہ والدہ صاحبہ نے بچپن قادیان میں محترمہ صاحبزادی امۃ النصیر صاحبہ کے ساتھ گزارہ تھا۔ اکثر دارالمسیح میں رہنے کا اتفاق ہوا جہاں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی تربیت سے براہ راست مستفیذ ہوئیں۔ نکاح کے وقت والدہ صاحبہ کے والد صاحب کاروبار کے سلسلہ میں ہندوستان سے باہر تھے اس لئے والدہ صاحبہ کے نانا جان ولی کی حیثیت سے پیش ہوئے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نانا جان کے بجائے کمال شفقت سے از خود والدہ صاحبہ کے ولی بنے اور نکاح کا اعلان فرمایا۔ اسی طرح حضرت مصلح موعودؓ کی شفقت کے متعدد واقعات محترمہ والدہ صاحبہ سے سننے کا اتفاق ہوا۔)
محترم والد صاحب کی جماعتی خدمات کا تعلق عہدے سے منسلک نہ تھا۔ خدمت دین کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہ دیتے۔ ملتان میں ایک مقامی مسجد کی صدرانجمن احمدیہ کے نام رجسٹری کروانے میں جماعت کو بہت دقت پیش آ رہی تھی۔ والد صاحب نے اس نوعیت کا کام کبھی نہیں کیا تھا۔ جماعتی کام ہو اور وہ بھی مسجد کا، اسے کرنا تو آپ فرض اوّلین سمجھتے تھے۔ پہلے آپ نے رجسٹری کےبارے میں قانونی علم حاصل کیا اور پھر مکمل جانفشانی سے اس کام کو حل کرنے میں مصروف ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ان کوششوں کو شرف قبولیت بخشا اور مدت کا پھنسا کام احسن رنگ میں حل ہو گیا اور رجسٹری صدرانجمن احمدیہ کے نام ہو گئی الحمد للہ۔ والد صاحب مرحوم نے رجسٹری کے کاغذات حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی خدمت میں پیش کر دیئے۔ اکثر ذکر کرتے تھے کہ خدا کے گھر کی رجسٹری کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے اپنے اور بچوں کے گھروں کی رجسٹری آسانی سے کروادی۔ الحمدللہ۔
خلافت احمدیہ سے وابستگی
محترم والد صاحب مرحوم کا تعلق خلافت احمدیہ سے انتہاائی ادب اور اطاعت شعاری کا تھا۔ خلیفۃ المسیح کا کوئی بھی ارشاد ہو اس پر فوری عمل کرتے اور حسب ضرورت افراد خانہ سے بھی عمل کرواتے۔ تقسیم ہند کے بعد قادیان سے پاکستان آنے پروالد صاحب مرحوم کو کویت میں ایک بہت اچھی ملازمت کی آفر ہوئی۔ والدہ صاحبہ بیان کرتی تھیں کہ انھوں نے آپ کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ سے اجازت لینے کو کہا۔ آپ اس سلسلہ میں ربوہ تشریف لے گئے۔ آپ بیان کرتے تھے کہ حضورؓ اس وقت ٹہل رہے تھے۔ پہلے کچھ دیر خاموش رہے، پھر ہاتھ میں پکڑی سوٹی کو اپنی ٹھوڑی کے نیچے رکھ کر کھڑے ہو گئے اور سنجیدگی سے فرمایا ’’ہم یہ بھی سوچتے ہیں کہ کچھ جو شیلے نوجوان یہاں بھی ہونے چاہیے ہیں۔‘‘ والد صاحب مرحوم بیان کرتے تھے کہ اس کے بعد ان کے دل میں کبھی باہرجانے کا خیال نہیں آیا۔
خلفائےوقت سے ملاقات کے لئےخود بھی باقاعدگی سے ربوہ جاتے اور ہمیں بھی لے کر جانے کا اہتمام کرتے۔ جب خاکسار اوربھا ئی ایک ہی وقت میں لاہورہوسٹلز میں زیر تعلیم تھے توآپ خاص طور پر ملتان سے لاہور آ کر ہمیں ایک دن کے لئے ربوہ لے کر جاتے تا کہ ہماری حضور انور سے ملاقات ہوسکے اور عملی طور پہ درخواست دعا کی اہمیت اور برکت کو سمجھ سکیں۔
آپ نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں قصر خلافت ربوہ کے لئے جنیریٹر کا تحفہ پیش کیا اور از خود اس کو نصب کرنے کی سعادت پاائی۔ جب حضرت مصلح موعودؓپر قاتلانہ حملہ کے بعد ڈاکٹر صاحبان نے حضورؓ کا کامیاب آپریشن کے دوران اسی جنریٹر کو چلایا گیا۔ اس کے علاوہ والد صاحب مرحوم نے حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد پر جابہ میں بھی جنریٹر لگانے کی سعادت پائی۔
اطاعت بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی بات پہ کرتے۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے تحریک جدید سے متعلق ارشاد پرعمل کرتے ہوئے ہمیشہ ایک سالن کھایا۔ محترمہ والدہ صاحبہ مرحومہ کو گوشت اورسبزیاں پسند تھیں، جبکہ محترم والد صاحب کی غذا بہت سادہ تھی اور دال پسند کرتے تھے۔ (البتہ کباب اورکوفتے بھی کھا لیتے تھے، بشرطیکہ وقفہ سے پکیں)۔ اگر کھانے کی میز پہ سبزی پہلے آ گئی اور آپ نے پلیٹ میں سبزی ڈال لی اوردال بعد میں آئی توپھر سبزی ہی کھاتے تھے خواہ کم کھائیں، مگر دوسرا سالن نہیں لیتے تھے۔ اس ضمن میں ایک واقعہ قابل ذکرہے۔ محترمہ والدہ صاحبہ مرحومہ کو محترم والد صاحب مرحوم کی خوراک میں مناسب غذائیت کا بہت خیال رہتا تھا، اس لئےکھانے میں نئی نئی ترکیبیں ڈھونڈتی رہتی تھیں۔ محترم والد صاحب کو بھی ان کی اس کاوش کا علم تھا اورقدرکی نگاہ سے دیکھنے کے ساتھ ساتھ ان کوحضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کا بیان فرمودہ حلال اورطیب کا فلسفہ بھی سمجھاتے تھے۔ ایک مرتبہ محترمہ والدہ صاحبہ نے مچھلی کے کباب بنائے لیکن محترم والد صاحب کو نہیں بتایا، تا اس بہانے آپ مچھلی کھا لیں۔ جب آپ نے کباب منہ میں ڈالا تو ذائقہ فرق لگنے کی وجہ پوچھی، والدہ صاحبہ نے بتایا دیا۔ اس پرمحترم والد صاحب نےصرف اتنا کہا ’’یہ تقویٰ کی باریک راہوں کے خلاف ہے‘‘ لیکن کباب پورا کھایا تا رزق کی نا شکری نہ ہو، نہ ہی والدہ صاحبہ کی دل شکنی۔ اس کے بعد محترمہ والدہ صاحبہ نے بغیر بتائے ان کی پسند سے ہٹ کر کچھ پیش نہیں کیا۔
توکل علیٰ اللہ اور خوابوں پر ایمان
والد صاحب مرحوم مخفی شرک سے شدید نفرت کرتے تھےاور یہ سوچ ان کے ہر عمل سے عیاں تھی۔ ایک مرتبہ بنکاک میں تفریحی سفر کے دوران گائیڈ ایک مشہور مندر میں لے کر گیا جہاں مہاتما بدھ کا بڑا سا سونے کا بت تھا اور پجاری احترام سے آ کر بت کو سجدہ کر رہے تھے والد صاحب مرحوم یہ دیکھ کر یک لخت باہر تشریف لے گئے اور ساتھ موجود اہل خانہ کو بھی فوری باہر نکلنے اور درور شریف پڑھنے کی تاکید کی۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ نظارہ آپکے لئے ناقابل برداشت تھا۔ بعد ازاں کافی دیر تک درود شریف پڑھتے رہے، کہا ’’ہم پر اللہ تعالیٰ کا کتنا احسان ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ واحد خدا کے وجود کا علم عطا ہوا اور ہمیں اسلام قبول کرنے کی توفیق ملی‘‘ سبحان اللّٰہ وبحمدہ سبحان اللّٰہ العظیم، اللّٰھم صل علی محمد وعلی آل محمد ـ
محترم والد صاحب مرحوم کا توکل علیٰ اللہ بہت بلند پایہ کا تھا۔ یہ وصف آپکے قول وفعل سے عیاں تھا۔ تجارت میں اتار چڑھاؤ ایک معمول کی بات ہے۔ دن فراخی کے ہوں یا تنگی کے، والد صاحب کے پائے ثبات میں کبھی لغزش نہیں آئی۔ ہر سال آپ سب افراد خانہ کولے کرجلسہ سالانہ پرربوہ جاتے تھے۔ کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ گھر میں سفر خرچ کی رقم نہیں لیکن آپ محترمہ والدہ صاحبہ مرحومہ کو تاکید کر رہے ہیں کہ سفر کی تیاری کریں کیونکہ جلسہ سے ایک دن قبل ربوہ روانگی ہے۔ سبحان اللہ عین ایک دن قبل غیب سے اللہ تعالیٰ سفر خرچ بھجوا دیتا اور ہم ربوہ جا رہے ہوتے۔ صرف ایک سال آپ نے جلسہ سالانہ پرافراد خانہ کے بغیرسفر کیا کیونکہ خاکسار شدید بیمار تھی اوروالدہ صاحبہ کے بغیر بچوں کا جانا ممکن نہ تھا۔
محترم والد صاحب کا توکل علی اللہ ہی تھا کہ ہر ضرورت کے وقت اللہ تعالیٰ کے حضور ہی جھکتے اور انتہائی عاجزی اور رقّت سے دعائیں مانگتے۔ محترمہ والدہ صاحبہ مرحومہ بچپن کا ایک واقعہ بیان کرتی تھیںکہ ایک دن محترم والد صاحب مرحوم اشراق کے نفل پڑھ رہے تھے۔ بھائی محترم مونس احمد چودھری صاحب (جو اس وقت غالبا تین یا چار سال کے تھے) کا اس کمرے میں جانا ہوا جہاں محترم والد صاحب سجدے میں دعا مانگ رہے تھے۔بھائی صاحب دوڑ کرمحترمہ والدہ صاحبہ کے پاس آئے اور انہیں پریشانی کے عالم میں بتایا گیا کہ گویا کوئی ابی جان کو مار رہا ہے اور ابی جان بہت رو رہے ہیں۔اسی طرح بھائی صاحب کا ہی کم عمری کا واقعہ ہے جب ایک رات آپ محترم والدین مرحومین کے کمرے میں سوئے۔ صبح اٹھ کر محترمہ والدہ صاحبہ سے کہا ’’اب میں کبھی آپ کے کمرے میں نہیں سؤوں گا۔‘‘ محترمہ والدہ صاحبہ نے وجہ پوچھی تو جواب دیا ’’ابی جان توساری رات ہی نفل پڑھنے کے لئے اٹھتے رہتے ہیں اس لئے میں آرام سے نہیں سو سکتا۔‘‘
آپ بچوں سے اکثر دعا کرواتے، نیز کہتے کہ بچے معصوم ہوتے ہیں اس لئے ان کی دعا بارگاہ ایزدی میں جلد مقبول ہوتی ہے۔ ایک مرتبہ ہماری ہمشیرہ صاحبہ کا تین، چار سالہ بیٹا ان سے سوجی کا حلوہ کھانے کی ضد کر رہا تھا۔ ہمشیرہ صاحبہ نے کچھ دیر قبل ہی بچے کو ناشتہ کروایا تھا اس لئے اٹھ کر حلوہ بنانے سے انکارکررہی تھیں۔ اتفاق سے محترم والد صاحب کمرے میں تشریف لائے۔ جب یہ نظارہ دیکھا تو ہمشیرہ صاحبہ کوفوری حلوہ بنا کر دینے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ’’بچے کا دل خوش کروتا اللہ تعالیٰ بھی اپنے کرم سے آپ کی دعائیں قبول کرے۔‘‘
ہم بچوں کو باقا عدگی سے دعا کرنے کے تلقین کرتے۔ ایسے ہی اکثر پوچھتے کہ کوئی خواب دیکھا ہو تو بتائیں۔ آپ کو خود بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت سچے خواب آتے تھے۔ ہمارے بڑے بھائی محترم انیس احمد چودھری صاحب بچپن میں بہت شرارتیں کرتے تھے۔ محترم والد صاحب کو اکثراس بارے پہلے سے خواب آ جاتا تھا۔ بھائی صاحب اکثر کہتے، ’’ابی جان سے تو بات چھپانا بہت مشکل ہے، اللہ میاں انھیں سب کچھ بتا دیتاہے۔‘‘ یہ سلسلہ بھائی صاحب کےبڑے ہونے پر بھی جاری رہا۔ آپ کو اپنی ملازمت یا کسی وجہ سے پریشانی ہوتی تو محترم والد صاحب کو فون کرتے۔ اگرمحترم والد صاحب سے گفتگو معمول کے مطابق ہوتی تو کہتے کہ یہ پریشانی عارضی ہے اور کوئی فکر کی بات نہیں، کیونکہ ابی جان کو اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے کوئی خواب نہیں دکھایا۔ ایسے ہی بعض اوقات پریشانی گھمبیر ہوتی تو محترم والد صاحب کو بتانے سے کتراتے کہ وہ فکر نہ کریں، لیکن انھیں محترم والد صاحب کا فون آ جاتا کہ ’’آپ کے بارے میں اچھا خواب نہیں دیکھا، کیا معاملہ ہے؟‘‘ اس طرح کے واقعات کا مشاہدہ دوسرے بچوں کے ساتھ بھی کئی مرتبہ ہوتا تھا۔
ہمارے بھائی محترم انس احمد چودھری کی شہادت سے قبل محترم والد صاحب نے ایک خواب بہت تواتر سےدیکھا کہ گھر میں پانچ چارپائیاں ہی کافی ہیں۔ انھوں نےمحترمہ والدہ صاحبہ مرحومہ کو (خواب کا بتائے بغیر) اکثر کہا کہ ایک چارپائی گھر کام کرنے والی ملازمہ کو دیدیں، جبکہ والدہ صاحبہ کی رائے تھی کہ گرمیوں میں باہر سونے کے وقت سہولت رہتی ہے، اس لئے رہنے دیا جائے۔ شہید کی وفات سے چند ہفتہ قبل جب محترمہ والدہ صاحبہ اجتماع پر ربوہ گئيں تو محترم والد صاحب مرحوم نے ایک چارپائی نکال دی۔ کچھ عرصہ بعد ہی پیارے بھائی انس احمد چودھری صاحب کی شہادت ہوگئی اور محترم والد صاحب مرحوم کا خواب من وعن پورا ہو گیا۔ (اس شہادت سےمرحوم والدین کےحیات بچوں کی تعداد چھ سے پانچ ہو گئی۔)
تبلیغ کا جذبہ و شوق
حضرت مصلح موعودؓکے زیرسایہ قادیان میں ایک فعّال خادم کی حیثیت سے تربیت کا شرف حاصل ہوا۔ قادیان کے گرد و نواح میں باقاعدگی سے گرجا گھروں میں تبلیغ کی غرض سے جانے کے واقعات اکثر بیان کرتے تھے۔ تبلیغ کے لئے کسی خاص موقعہ کے محتاج نہ تھے۔ خواہ کاروبار کے سلسلہ میں یورپین تاجروں سے سنجیدہ گفتگو ہو رہی ہو یا گھر کے سودا کی خریداری کے لئے بازار میں ہوں، تبلیغ کا کوئی نہ کوئی موضوع نکال لیتے تھے۔ اس سلسلہ میں آپ کا پسندیدہ موضوع زندہ خدا اور قبولیت دعا تھا۔ جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی ہو میو پیتھی کلاسز ایم ٹی اے پرشروع ہوئیں توآپ انھیں بہت باقاعدگی سے سنتے تھے۔ اس کے بعد تو گویا انھوں نے تبلیغ کا ایک اور گر سیکھ لیا۔ کہیں بھی جانا ہوتا، کار میں ہومیو پیتھک دوائیں ضرور ساتھ رکھتے اور ضرورت پڑنے پر فوری دیتے۔ اسی طرح ان کا اکثر تنہائی میں درد بھری آواز میں حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کا یہ شعر پڑھنا بھی بہت اچھی طرح یاد ہے:
یا الٰہی فضل کراسلام پر اور خود بچا
اس شکستہ ناؤ کے بندوں کی اب سن لے پکار
مالی قربانی
چندہ جات کی ادائیگی کا ہمارے گھر میں بہت اہتمام کیا جاتا تھا۔ محترم والد صاحب مرحوم اور محترمہ والدہ صاحبہ مرحومہ نے وصیت اوائل جوانی میں کی تھی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس تربیت کا اثر تھا کہ اکثر بچوں نے بھی وصیت بچپن میں ہی کی (اب الحمدللہ سب اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی ہیں۔ اور اگلی نسل میں سے بھی اب تک نصف اس بابرکت نظام میں شامل ہو چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔ آمین) چندہ کے بارے میں حتی الامکان کوشش ہوتی کہ وعدے کے ساتھ ہی سو فیصد ادائیگی ہو جائے۔ اس کے علاوہ جہاں تک ممکن ہوتا مالی سال کے اختتام پر جولائی کے شروع میں ربوہ تشریف لے جاتے اور اپنا و اہل خانہ کے وصیت کا حساب چیک کرواتے تا کسی کا بقایا نہ رہے۔ خاکسار کو کئی مرتبہ آپ کے ساتھ ان سفروں پرجانے کا اتفا ق ہوا اور چندہ جات کی ادائیگی کے سلسلہ میں آپکے التزام کا مشاہدہ کیا۔ ایک واقعہ خصوصی طور پہ قابل ذکر ہے۔ ایک دفعہ دفتر وصیت میں حساب صاف کروانے کے بعد ہم محترم ناظم صاحب جائیداد کے وفتر میں تھے تومحترم والد صاحب نے ان سے کہا ’’جب میری بیٹی میرا جنازہ لے کر آئے گی، اس وقت آپ نے جو فارم اس سے پر کروانے ہونگے، وہ کارروائی میرےسامنے ہی کروا لیں تاجنازہ کے وقت اسےکوئی دقت نے پیش آئے۔ ’’محترم ناظم صاحب (جو والد صاحب کے قادیان کے زمانے سے واقف تھے) سمجھے کہ شایدوالد صاحب مذاق کر رہے ہیں، اس لئے مسکرا کر خاموش ہو گئے۔ والد صاحب کے اصرار پہ انھوں نے ورثاء سےپر کروایا جانے والا فارم آپ کودے دیا۔ محترم والد صاحب نے خاکسار کووہاں دفتر میں ہی تاکید کی کہ اسے غور سے پڑھوں اوراگر کوئی بات واضح نہیں تو پوچھ لوں۔خاکسار نے فارم بخوبی سمجھ لیا۔ جب محترم والد صاحب کی وفات ہوئی تو فارم پہلے سے تیار تھا۔ الحمدللہ تمام متعلقہ کاغذات ربوہ جانے سے قبل محترم امیر صاحب جماعت دوبئی کی وساطت سے دفتر وصیت فیکس کروا دیئے گئے۔ ربوہ پہنچے تو دفتری کارروائی مکمل ہو چکی تھی۔ الحمد للہ علی کل احسانہ۔
1974ءکےحالات نے اکثرپاکستانی احمدی احباب کے روزگار پر منفی اثر ڈالا۔ یہی حال محترم والد صاحب کے کاروبار کا بھی ہوا۔ گھر کے اخراجات بھی متاثر ہو رہے تھے مگر آپ کو فکر تھا تو اپنے چندہ جات کی بروقت ادائیگی کا۔ ایسے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے غیر متوقع طور پر کچھ آمد ہوئی تو آپ نے فوری ربوہ کا سفر اختیار کیا اور اپنا تمام چندہ ادا کر دیا۔ الحمد للہ۔ اس کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ سے ملاقات کے لئے حاضر ہوئے اور چندہ کی ادائیگی کے بارے میں بھی عرض کیا۔ حضور انور نے بہت خوشنودی کا اظہار کیا اور فرمایا ‘‘یہ لوگ ہماری جماعت کے مزاج کو نہیں سمجھتے‘‘۔
ابھی خاکسار نے ملازمت شروع نہ کی تھی جب آپ نے خاکسار کو سمجھایا کہ تعلیمی دورمیں حاصل ہونے والے اپنے تمام طلائی و نقرئی تمغہ جات پروصیت ادا کرنی چاہیے۔ خاکسار نے عرض کی کہ ’’یہ تمغہ جات ان معنوں میں تو جائیداد نہیں ہیں کہ خاکسار انھیں فروخت کرے گی، اس کے علاوہ عین ممکن ہے کہ یہ تمغہ جات اصل سونا چاندی کے نہ ہوں بلکہ صرف پانی چڑھایا گیا ہو‘‘ اس پرآپ نےکہا ’’اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، آپ کوتو دینے والے نے طلائی یا نقرئی کہہ کر ہی یہ میڈل دیئے ہیں۔ اور زیادہ اہم بات تو یہ ہےکہ یہ عام زیورات نہیں۔ زیور تو جس کو توفیق ہو بازار سے خرید سکتا ہے مگرآپ کو تمغہ جات بورڈ اور یونیورسٹی میں اول آنے پر دیئے گئے ہیں، جو قابل فروخت نہیں ہوتے۔ اس لحاظ سے یہ زیور سے زیادہ قیمتی جائیداد ہے۔ اور وصیت ہر قسم کی جائیداد پر حاوی ہے۔‘‘ خاکسار کو بات سمجھ آ گئی۔ جب آپ نے خاکسار کا انشراح صدر دیکھا تو فوری ربوہ لے گئے،جہاں خاکسار نے حصہ جائیداد ا کیا پھر آپ نے حصہ جائیداد کی ادائیگی کے سرٹیفیکیٹ کی کارروائی مکمل کروائی۔ الحمدللہ۔
خاکسار جب آکسفورڈ سے پی ایچ ڈی کر کے واپس پاکستان آئی تو محترم والد صاحب کوحضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کا ارشاد موصول ہوا کہ جلسہ سالانہ ربوہ کے موقعہ پر حضور انورؒ ازراہ شفقت عاجز کو اسلامی اقدارکی شاندار حفا ظت کرتے ہوئے آکسفورڈ سےاعلیٰ تعلیم حاصل کرنے پر خصوصی تمغہ درجہ اول عنایت فرمائیں گے۔ (یہ الفاظ میڈل پرکندہ ہیں) مقررہ دن سے ایک رات قبل محترم والد صاحب نے خاکسار سے پوچھا کہ خاکسار کے پاس اپنے وظیفہ سے چندہ جات اور تعلیمی اخراجات کی ادائيگی کے بعد بھی کچھ رقم بچی ہے یا نہیں۔ خاکسار نے عرض کی کہ رقم بچی ہے۔ اس پر محترم والد صاحب نے کہا ’’وظیفہ کا مقصد تعلیم تھا، سو پورا ہوا۔ اب بقایا سو فیصد رقم چندہ وصیت میں ادا ہونی چاہیئے ہے۔‘‘ اگلے دن (جب حضور انور سے انعامی تمغہ ملنا تھا) محترم والد صاحب خاکسار کو علیٰ الصبح دفتر خزانہ صدر انجمن احمدیہ لے کر گئے اور تمام رقم چندہ وصیت حصہ آمد میں جمع کروائی۔ پھر وکالت مال ثانی کے وفتر لے جا کر وصیت کا حساب صاف ہونے کا سرٹیفیکیٹ بنوا کر دیا۔ تب جا کرآپ نے اطمینان کا سانس لیا اور خاکسار کو کہا ’’اب آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریک وصیت کا وعدہ نبھا دیا ہے اس لئے صاف ضمیر کے ساتھ حضرت خلیفۃ المسیح ؒسے تمغہ وصول کر سکتی ہیں۔ سبحان اللّٰہ وبحمدہ سبحان اللّٰہ العظیم، اللھم صل علی محمد وعلی آل محمد۔ کیسا اعلی ٰسبق دیا چندہ جات کی ادائیگی میں تقویٰ کی اہمیت کا۔ اس موقع پہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒنے ازراہ شفقت ایک تاریخ ساز فیصلہ ارشاد فرمایا، خاکسار کو (زنانہ) جلسہ گاہ میں میڈل پہنانے کے لئے محترمہ والدہ صاحبہ مرحومہ کا انتخاب کیا، جن کی تربیت کی وجہ سے خاکسار کو یہ نمونہ قائم کرنے کی توفیق ملی۔
خدمت خلق
محترم والد صاحب مرحوم کی طبیعت میں خدمت خلق کا جذبہ بہت نماياں تھا۔ 1947ء میں پارٹیشن کے وقت آپ دہلی میں تھے۔ پاکستان پہنچنے کے اکثر راستے بند ہو چکے تھے۔ آپ بہت دلیری سے فوجی علاقے میں چلے گئے۔ وہاں انتہائی حکمت عملی کے ساتھ ایک جہاز چارٹر کیا اور جہاز بھر کے احمدی احباب کو بحفاظت پاکستان لے کر آئے۔ الحمدللہ۔ ضرور تمند کا کام اسی لگن اور جانفشانی سے کرتے جیسے اپنا ذاتی کام کرتے تھے۔ جب تک کام مکمل نہ ہو جاتا آپ کی کوشش اور توجہ میں فرق نہ پڑتا تھا۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ضرورتمند خواہ واقف ہو یا درخواست کسی کی وساطت سے آ ئی ہو، امیر ہو یا غریب، آپ کی مدد اور توجہ میں رتّی بھر بھی فرق نہ آتا تھا۔ کسی سے کی گئی مدد کا ذکر کم ہی گھر میں سنا۔ والدہ صاحبہ مرحومہ سے ذکر ہوتا ہو تو ہو، خاکسار کو اس کا علم نہیں۔ واللہ اعلم۔ ہومیوپیتھی دواؤں کی تقسیم کا ذکر تو اوپر آ چکا ہے۔ ضرورتمندوں کو نہ صرف دوا دیتے بلکہ باقاعدہ رابطہ رکھتے تاکہ مزید دوائیں بھی مہیا کر سکیں۔ مریض اگر غریب ہوتا تو دوا مع ضروری خوراک دیتے۔ اس کے علاوہ اگر ازخود آپ کو کسی کی مشکل یا تکلیف کا علم ہوتا (خواہ ضرورتمند رجوع کرتا یا نہیں) آپ بلاتامل مدد کرتے۔ کہتے تھے کہ یہ خدا تعالیٰ کے فضل سے دیئے گئےعلم اور رزق کی زکوٰۃ ہے۔
کسی کی بھی بچی کی شادی کا دعوت نامہ آتا تو ضرور دعا میں شریک ہوتے۔کسی عزیز کی بیماری کا علم ہوتا تو عیادت کے لئے پھل یا پھول لے کر جاتے، خواہ بیمار احمدی ہو یا غیر احمدی ۔(1974ء کے بعد بھی غیر احمدی احباب کی عیادت میں کوئی فرق نہیں آیا۔) کسی احمدی کے جنازہ کا علم ہوتا توشریک ہونے کی کوشش کرتے۔ اگر جنازہ موصی کا ہوتا تو حتی الامکان جنازہ کے ہمراہ ربوہ جاتے اور دفتری کارروائی میں مدد کرتے کہتے ’’ورثاء تواس وقت غم سے نڈھا ل ہوتے ہیں، اس لئے ان کی مدد کے لئے حاضر ہونا خدمت خلق ہے۔‘‘ ربوہ جاتے تو ضرورتمند احباب کے لئے حسب توفیق سامان لے کر جاتے۔جولائی کے آغاز میں ربوہ جانے کا ذکر (چندہ جات کے حساب کے سلسلہ میں) اوپر آ چکا ہے۔ ان سفروں میں آپ خاکسار سے مستحقین کے لئے تحفےاچھی طرح پیک کرواتے نیز سادہ لفافوں میں نقدی ڈلواتے۔ یہ سب کچھ مستحق محلہ جات میں (جہاں بجلی کی سہولت ہر گھر میں ایک یا دو بلب تک محدود تھی) مغرب کے بعد جا کر تقسیم کرتے تا کہ لینے والے آپ کو شناخت نہ کرسکیں اور کسی کی عزت نفس بھی مجروح نہ ہو۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ تقسیم کرنے سے قبل صدر صاحب محلہ سے ضرور اجازت لیتے تا جماعتی انتظام میں مداخلت نہ ہو۔ایک مرتبہ سامان زیادہ ہونے کی وجہ سے کار میں ہی ہم ایک گھر سے دوسرے گھر تقسیم کے لئے جا رہے تھے۔ گلی میں کھیلنے والے بچوں نے کار کو کچھ ایسی نظروں سے دیکھا کہ آپ فوری رک گئے۔ بچے ننگے پیر تھے اور پانی میں کھیلنے کی وجہ سے گندے بھی تھے۔ جس وقت خاکسار بچوں کے پیروں کی طرف دیکھ رہی تھی تو عین اسی لمحہ محترم والد صاحب مرحوم کی نظر بھی خاکسار پر پڑگئی۔ آپ نے شاید ان نظروں میں انقباض کو محسوس کیا اس پرفوری طور پہ کار کا دروازہ کھولا اور بہت پیار سے ان بچوں کو کار میں بٹھایا اورخوب سیر کروائی۔ بعد ازاں خاکسار کو کہا ’’اللہ تعالیٰ کی نعمتیں محض اس کی عطا ہیں۔ ہم میں بھلا کیا خوبی ہے کہ ان پر فخر کریں۔‘‘ اور یوں بچوں کا دل خوش کرنے کے ساتھ ساتھ خاکسار کی تربیت بھی کر دی۔
گو کہ یہ بات خدمت خلق سے متعلق تو نہیں مگر ربوہ کے ضمن میں یہاں یہ بیان کرتی چلوں کہ جلسہ سالانہ پر ربوہ جاتے تو والدہ صاحبہ مرحومہ کو تلقین کرتے کہ کھانے کی اشیاء ربوہ سے خریدیں تا فائدہ ربوہ کے تاجروں کو پہنچے۔ ایسے ہی جب ہماری رہائش لاہور میں تھی اور ہم نے کپڑے خریدنے ہوتے تو تاکید کرتے کہ حتی الامکان بازار میں موجود ایک احمدی تاجر کی دوکان سے ہی خریديں اگر کبھی ہم دوسری دوکانوں کی کم قیمت یا ورائٹی کے فرق کا ذکر کرتے تو کہتے ’’غیر احمدی بائیکاٹ کرنے کو تیار بیٹھے ہیں، ایسے میں احمدی بھی اعتراض شروع کر دیں تو انتہائی نامناسب بات ہے۔ کیا ہوا اگر احمدی تاجر نے چار پیسے زیادہ کما لئے۔‘‘
وفاشعارخاوند
مرحومہ والدہ صاحبہ سے محترم والد صاحب مرحوم کا تعلق بہت وفا اور خلوص کا تھا۔ والدہ صاحبہ کو ہمیشہ آپ کہہ کرمخاطب کرتے۔ والدہ صاحبہ مرحومہ بیان کرتی تھیں کہ ان کے لباس و سنگھار کا شروع سے بہت خیال رکھا۔ شادی کے آغاز سے ہی ان کے کپڑے خود شوق سے خرید کر لاتے تھے۔ گھر میں ہم سب کا اچھا لباس زیب تن کرنے کو پسند کرتے تھے۔ اس بات کونا پسند کرتے کہ گھر میں تو لباس کی طرف سے بے توجہگی ہو اور باہر نکلتے وقت بناؤ سنگھار ہو۔
محترم والد صاحب کا سارا ددھیال غیر احمدی تھا اور ان میں سے اکثر گجرانوالہ میں رہتے تھے۔ ہم تینوں بہنوں کی پیدائش گجرانوالہ میں ہوئی اور ہمارے تینوں بھائی ملتان میں پیدا ہوئے۔ محترمہ والدہ صاحبہ بیان کرتی تھیں کہ جب ان کی تیسری بیٹی کی پیدائش ہوئی تو والد صاحب مرحوم کے غیر احمدی رشتہ داروں نے کچھ طعن آمیز باتیں کی۔ محترمہ والدہ صاحبہ بیان کرتی تھیں کہ محترم والد صاحب نے اس موقع پر ان کی بہت دلداری کی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے اور جانتا ہے کہ انکے لئے کیا بہتر ہے۔ نیز یہ کہ وہ رشتہ داروں کی باتوں کی بالکل پرواہ نہ کریں بلکہ اللہ تعالیٰ کی عطا پرشکر ادا کریں۔
ہماری بڑی ہمشیرہ محترمہ امۃ القیوم صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ بچوں کی کم سنی کے زمانے میں آپ اکثر والدہ صاحبہ کواس خیال سے ناشتہ بنا کر دیتےکہ کیا معلوم رات کو صحیح طرح سو بھی سکی ہیں یا نہیں۔ اسی طرح بچوں کو تیار کرنے میں مدد دیتے۔ چار، پانچ سال کی عمرتک محترم والد صاحب کا بچوں کوغسل دینا تو خاکسار کو بھی بخوبی یاد ہے۔ آپ باری باری بچوں کوغسل دے کر، تولیہ میں لپیٹ کے، محترمہ والدہ صاحبہ کے حوالے کرتے جاتے اور والدہ صاحبہ بچوں کو کپڑے پہنا کر تیار کرتیں۔ کھانے میں کبھی نقص نہیں نکالا۔ والدہ صاحبہ مرحومہ بیان کرتی تھیں کہ جب ان کی شادی ہوئی تو کھانا پکانا بالکل نہ آتا تھا۔ اس وقت لکڑی جلا کرکھا نا پکاتے تھے۔ محترمہ والدہ صاحبہ کولکڑی کے دھواں سے تکلیف ہوتی اور پکانا مشکل لگتا تھا۔ گیس کے چولہے پہلی مرتبہ بازار میں آئے تو والد صاحب مرحوم نے فوری طور پرخریدے تا والدہ صاحبہ کو سہولت ہو سکے۔ آٹا گوندھنے کی مشین بھی اس وقت لے کر دی جب بالکل نئی نئی بازار میں آئی تھی۔ گھرکے کاموں میں شوق سے مدد کرتے اورضرورت پڑنے پربلا جھجک آٹا گوندھتے اور برتن دھوتے۔ والدہ صاحبہ مرحومہ کی سہولت کے لئے ہمیشہ گھر میں ملازمہ رکھوائی،خواہ حالات فراخی کے ہوں یا تنگی کے۔
پیارے بھائی انس احمد چودھری صاحب کی شہادت کےبعد محترمہ والدہ صاحبہ کوشدید ایگزیمہ کی شکایت ہو گئی تھی بیماری تقریبا پندرہ سال چلی والد صاحب نے مستقل مزاجی سےعلاج کروانے میں کوئی دقیقہ نہ چھوڑا۔ ایلوپیتھک، حکمت، ہومیوپیتھی غرضیکہ جہاں سے بھی اس بیماری کا علاج سنتے، فوری رجوع کرتےاور والدہ صاحبہ مرحومہ کو علاج کے لئے لے کر جاتے۔ جب محترمہ والدہ صاحبہ کواللہ تعالیٰ کے فضل سے شفا ہوئی تو اللہ تعالیٰ کا بہت شکر ادا کرتے اور بظاہر نہ ٹھیک ہونے والے مرض سے نجات پر اللہ تعالیٰ کی حمد کرتےتھے۔
چونکہ آپ نے اپنے اور غیروں کے بہت سے جنازوں میں شرکت کی تھی اس وجہ محترمہ والدہ صاحبہ کی وصیت کے حساب کا بہت خیال رکھا۔ آپ نے محترمہ والدہ صاحبہ کو سونے کی چوڑیاں اس وجہ سے بنوا کر دیں کہ اگروفات پر بقایا ہو تو اس کی ادائیگی کے لئے ان کی تجہیز و تدفین کے لئے بچوں کی محتاجی نہ ہو۔اوران طلائی چوڑیوں پر حصہ جایئداد بھی ادا کر دیا۔ اسی طرح اپنی وفات سے قبل محترمہ والدہ صاحبہ کو ایک بڑی رقم دی۔ انھوں نے وجہ پوچھی تو کہا ’’ضروررت پڑنے پہ کام آئے گی۔‘‘ محترم والد صاحب کی کچھ عرصہ بعد ہی وفات ہو گئی۔ تب محترمہ والدہ صاحبہ کو سمجھ آیا کہ اپنی تجہیزوتکفین کے لئے بھی یہی پسند کیا کہ انھیں اورمحترمہ والدہ صاحبہ کو بچوں کی محتاجی نہ ہو۔ والد صاحب مرحوم کام کے علاوہ گھر سے باہر رہنا پسند نہ کرتے تھے۔ محترمہ والدہ صاحبہ مرحومہ ہی ان کے دکھ سکھ کی شریک، دوست اور غمگسار تھیں۔
تربیت اولاد
پیارے مرحوم والدین نے اولاد کی دینی اور دنیاوی تعلیم پر خصوصی توجہ دی۔ بچپن سے ہی گھر میں باجماعت نمازوں کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ تہجد اور فجر کی نمازبا جماعت ہوتی۔ اگر مغرب کی نماز کسی وجہ سے حلقہ کی مسجد میں ادا نہ کر رہے ہوتے تو پھر گھر میں نماز باجماعت ہوتی بھائیوں کو تاکید تھی کہ مغرب کی نماز حلقہ کی مسجد میں ادا کریں۔ اگر بھائی نماز کے لئے وقت پرمسجد نہ پہنچتے تو ناراض ہوتے، اس ناراضگی میں افسردگی کا پہلو نمایاں ہوتا۔
تہجد کے لئے والد صاحب مرحوم سب کو باقاعدگی سے اٹھاتے۔ اگر کوئی بچہ تہجد کے لئے نہ اٹھتا توبہت افسردہ ہوجاتے۔ اس وقت غسل خانوں میں گرم پانی کی سہولت نہ تھی۔ آپ سردی کے دنوں میں علی الصبح اٹھ کربڑے سے دیگچے میں پانی گرم کرنے کے بعد ہم بچوں کو اٹھانے آتے اور کہتے کہ ’’پانی اچھا گرم ہے اب آپ آرام سے وضو کر سکتے ہیں، اس لئے اٹھ جائیں۔‘‘ ہمشیرہ محترمہ امۃ السبوح صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ ایک مرتبہ انھوں نے بھائی محترم انیس احمد چودھری صاحب کو تہجد کے لئے اٹھاتے وقت کہا ’’اٹھو نماز نہیں پڑھنی؟‘‘ والد صاحب مرحوم سن رہے تھے۔ اس طرز تخاطب کو ناپسند کرتے ہوئے کہا ’’آرام سے اٹھائیں، طعنہ دینے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ تہجد کی نماز میں والد صاحب مرحوم کی رقت سے بھر پور دعائیں با لخصوص آل عمران کی آیت 194 (ربنا اننا سمعنا منادیا ینادی للایمان ان اٰمنو بربکم فامنا۔ ربنا فاغفرلنا ذنوبنا وکفرعنا سیاتنا وتوفنا مع الا برار) اور الفرقان کی آیت 75 (ربنا ھب لنا من ازواجنا وذریاتنا قرۃاعین واجعلنا للمتقین اماما) ان کی پرسوز آواز میں آج بھی دعاؤں کی ترغیب دیتی ہے۔ اسی طرح آپ کا ’’ایاک نعبد وایا ک نستعین‘‘ اور ’’سبحان ربی الاعلٰی‘‘ کو بار بار دہرانا بھی خوب یاد ہے تہجد اور بعد نماز فجر بلند آواز سےخوش الحانی کے ساتھ تلاوت کرتے۔ تلاوت سے متعلق ایک واقعہ قابل ذکر ہے۔ جب ہماری رہائش ملتان میں تھی توایک مرتبہ محترم والد صاحب مرحوم شاید شہر سے باہر تھے جب فجر کے وقت ایک نامعلوم شخص نے گھنٹی بجا کر پوچھا: ’’جو بزرگ صبح تلاوت کرتے ہیں، ان کی خیریت پتہ کرنی ہے کیونکہ چند دنوں سے تلاوت کی آواز نہیں آرہی۔‘‘ پھر بتایاکہ وہ صبح کی سیر کے وقت نکلتے ہیں تو خاص طور پہ ہمارے گھر کی دیوار کے سائے میں کھڑے ہو کردیر تک محترم والد صاحب مرحوم کی پر سوزتلاوت کو شوق سے سنتے ہیں۔سبحان اللہ۔
بچوں کی دنیاوی تعلیم کی بھی پوری نگرانی کرتے۔ اساتذہ کے ساتھ رابطہ رکھتے تا تعلیمی و اخلاقی سرگرمیوں پر نظررکھ سکیں۔ ہماری تعلیم میں اعلیٰ معیاربرقرار رکھنے پر خصوصی توجہ رکھتے۔ بیٹیوں کی تعلیم کے ساتھ ان کے اسلامی پردہ کا خاص خیال رکھا۔ خاکسار کی دونوں بڑی ہمشیرگان محترمہ امۃ القیوم صاحبہ اورمحترمہ امۃ السبوح صاحبہ نے برقعہ کالج جانے سے قبل شروع کر لیا تھا جبکہ خاکسار نے کالج جانے کے چھ ماہ بعد شروع کیا۔ چھوٹی ہونے کی وجہ سے شاید والد صاحب نے اس تاخیر کونوٹ نہیں کیا۔ اتفاق سے ایک دن بازار جاتے وقت دیکھا تو ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور چادر لینے کی تاکید۔ کی خاکسار نے بچپنے میں ہچکچاہٹ ظاہر کی تو کہا ’’اچھا پھر گھر بیٹھیں، بازار جانے کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘ غالبا عید کی شاپنگ کے لئے سب افراد خانہ جا رہے تھے (صحیح یاد نہیں) اور میرا بھی بازار جانے کوبہت دل چاہ رہا تھا۔ کیا کرتی، آخرچادر اوڑھنی پڑی۔ واپسی پروالدہ صاحبہ کو تاکید کی کہ مجھے برقعہ سی کر دیں اور آئندہ گھر سے باہربرقعہ کے بغیرمیں نہ نکلوں۔ نامعلوم خاکسار کے لئے کیسے درد دل سے دعا کی ہو گی،پہلی مرتبہ ہی برقعہ پہنا توانقباض جاتا رہا۔ الحمدللہ۔ اسلامی پردہ کا اہتمام صرف گھر سے باہر جانے تک محدود نہ تھا۔ گھر کے اندر بھی ہمارے مناسب لباس کا خیال رکھا جاتا تھا۔ ہمیشہ لباس فاخرہ پہننے کی تلقین کرتے تھے۔ ایک مرتبہ خاکسار نے ایک ڈیزائین کی پوری آستینوں والی قمیض پہنی جو کہنی سے اوپرڈھیلی اور کہنی کے نیچے سے چست تھی۔ آپ نے اسے نا پسند کیا اور کہا ’’احمدی بچیوں کو ایسا لباس زیب نہیں دیتا۔‘‘ خاکسار نے فوری قمیض تبدیل کر لی اور آئندہ کبھی چست لباس نہیں پہنا۔ الحمدللہ۔
محترم والد صاحب مرحوم نے زندگی تقویٰ کی باریک راہوں پر چلتے ہوئے گزاری اور ہم بچوں کو بھی ہمیشہ یہی سکھایا۔ بچپن کا واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ ہماری ہمشیرہ نے عید کے موقعہ پر کسی دکان پر چیک کرنے کے بہانے ناخنوں پر نیل پالش لگا لی اور گھر آ کر بہت فخر سے اپنی ہوشیاری کا قصہ سنایا۔ والد صاحب نے سنا توناپسند کیا اور ہمشیرہ کوفوری تاکید کی کہ وہ اس نیل پالش کو خرید کر لائیں۔ ایسے ہی ایک مرتبہ (سکول کے زمانے میں) ایک ہمشیرہ کو اپنی سہیلی کا خط آیا جس پر ڈاکخانے کی مہر تو تھی مگر ٹکٹ بالکل صاف رہ گیا تھا۔ ہمشیرہ نے بچپنے میں خوش ہو کر کہا ’’چلو اب یہ ٹکٹ دوبارہ استعمال ہو جائے گا‘‘۔ والد صاحب نے سنا تو اسی وقت ٹکٹ لے کر پھاڑ دیا اور کہا ’’اس ٹکٹ نے اپنا کام کر دیا ہے، اس لئے دوبارہ استعمال نہیں ہو سکتا۔‘‘ اسی طرح ایک دفعہ ایک بچے نے پڑھائی ختم ہونے کے بعد بھی ریلوے ٹرین پر سٹوڈنٹ کنسیشن کے ساتھ سفر کیا۔ والد صاحب مرحوم کے علم میں یہ بات آئی تو آپ نے فوری ریلوے اسٹیشن جا کر ایک پوری قیمت کا ٹکٹ خرید کر پھاڑ دیا تا ریلوے انتظامیہ کے نقصان کی تلافی ہو سکے۔ اس طرح ہمیں عملی طور پہ دیانت داری کا درس دیتے تھے۔
محترم والد صاحب مرحوم نے بچوں کو ہمیشہ ’آپ‘ کہہ کر مخاطب کیا۔ خصوصاً جب بچے بڑے ہو گئے توبہت عزت سے نام لیتے اوربلاوجہ روک ٹوک نہ کرتے تھے۔ بچوں کو ہمیشہ اتفاق سے رہنے کی تعلیم دی۔ اس امر کا اکثر ذکر کرتے کہ والدین کی وفات کے بعد اولاد میں نااتفاقی کی بڑی وجہ ورثہ اور ترکہ کی تقسیم ہوتی ہے۔ اس مسئلہ کے پیشگی سدّ باب کے لئےآپ نے بہت دعا اور محنت کی۔ گھر میں اپنے اس فکر کا متعدد بار ذکر بھی کیا۔ خاکسار کو چند مرتبہ محترم والد صاحب کے ساتھ جماعت کے مشہور وکلاء سے قانونی مشورہ کے سلسلہ میں ساتھ جانے کا موقعہ ملا۔ خداتعالیٰ نے اپنے فضل سے ان کی دعاؤں کو قبول فرمایا۔ محترم والد صاحب نے وفات سے چند سال قبل، اپنی وصیت کی مکمل ادائیگی کے بعد، تمام جائیداد بچوں میں قانونی طورپرتقسیم کردی۔ اور موصی بچوں سے ترکہ پر وصیت کی ادائيگی بھی کروائی۔ وفات کے وقت آپ کے نام یا آپ کی ملکیت میں کچھ بھی نہ تھا، اس لئے ترکہ اور تقسیم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوا۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہم بہن بھائیوں کو پیارمحبت کے ساتھ، اتفاق سے رہنے کی توفیق دے اوراپنی رضا کی راہوں پر چلائے۔ آمین ثم آمین۔
محترمہ والدہ صاحبہ بچوں کو محترم والد صاحب کی اطاعت والدین کی مثال دیتی تھیں۔ بیان کرتی تھیں کہ انھوں نے کبھی محترم والد صاحب کو اپنی والدہ صاحبہ سےاونچی آواز سے بات کرنا تو کجا، کبھی آگے سے جواب دیتے بھی نہیں دیکھا۔ (محترم دادا جان کی وفات ان کی شادی سے پہلے ہو چکی تھی۔) محترمہ دادی جان صاحبہ خواہ کسی کی غلط بیانی کی وجہ سے ہی محترم والد صاحب پرناراض ہو رہی ہوں، آپ خاموشی سے، احترام کے ساتھ سر جھکا کے بات سنتے اور اپنے دفاع میں کچھ نہ کہتے۔ حقیقی معنوں میں آپ نےاپنی والدہ صاحبہ کے آگے کبھی ’اف‘ تک نہیں کیا۔
راضی برضا زندگی اور خاتمہ بالخیر
آپ نے ساری زندگی اللہ تعالیٰ کی رضا پہ مکمل راضی ہوتے ہوئے گزاری۔ انتہائی آزمائش کے اوقات میں بھی اللہ تعالیٰ کا شکر کرتے ہی سنا۔ اگر کسی کی بات میں ناشکری کا شائبہ بھی محسوس کرتے تو سمجھاتے اور منع کرتے۔ آپ نے بہت فعّال زندگی گزاری۔ اپنی عمر کے آخری دو سال بستر پہ بہت صبر اور شکر کے ساتھ گزارے۔ کبھی ان کی زبان سے شکوہ کا لفظ نہیں سنا۔ ایک مرتبہ خاکسار نےکسی موضوع پہ بات کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ کرے جب ہماری وفات کا وقت آئے تووہ ہم سے راضی ہو اور ہم اس سے راضی ہوں۔ اس پرآپ نے بے ساختہ کہا ’’میں تو اس سے راضی ہوں، بس وہ مجھ سے راضی ہو جائے۔‘‘
اپنے ایک خواب کا بہت ذکر کرتے تھے جس میں آپ نے اپنے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’دو ڈھائی سال گذر ہی گئے، کیسے گذرے پتہ نہیں۔‘‘ آپ کی زندگی میں یہ خواب کئی دفعہ پورا ہوا۔ آخری بیماری بھی دو ڈھائی سال چلی۔ آپ کی وفات سےچند ہفتہ قبل محترمہ والدہ صاحبہ نے خواب میں دیکھا کہ ’’محترم دادا جان مرحوم تشریف لائے ہیں اور محترم والد صاحب ان کے ساتھ، شفاف سفید لباس زیب تن کئے صحت مندی کے ساتھ چل کر جا رہے ہیں۔‘‘
محترم والد صاحب مرحوم کی وفات دوبئی میں 5 فروری بروز بدھ ہوئی۔ آگے جمعرات، جمعہ کی ہفتہ وار تعطیل کے ساتھ ہی عید کی تعطیلات شروع تھیں جس وجہ سے سرکاری دفاتر بند تھے۔ جنازہ کے لئے جلد کلیئرنس اور پاکستان کا ٹکٹ ملنا ناممکن نظر آتا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی غیبی مدد نے ہمیشہ کی طرح محترم والد صاحب مرحوم کے سارے کام کئے۔ تین دن کے اندر اندر تمام مراحل طے ہو چکے تھے۔ ہفتہ 8 فروری کودوبئی میں نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد سب بہن بھائی مع (دوبئی میں موجود) تمام اہل خانہ لاہور پہنچ گئے۔ لاہور پہنچتے ہی محترمہ والدہ صاحبہ مرحومہ کے ارشاد پر خاکسار نے اس وقت کے ناظر اعلی و امیر مقامی حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب (خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ) کو فون پر محترم والد صاحب مرحوم کے جنازے کی اطلاع کی۔ 9 فروری بروز اتوار رات گئے ہم ربوہ پہنچے۔ دارالضیافت کے منتظمین کو جنازہ کی آمد کی اطلاع تھی اورہمارا انتظار ہو رہا تھا۔ سوموار 10 فروری علی الصبح دفتر وصیت حساب چیک کرنے کے لئے پہنچے تو معلوم ہوا کہ مطلوبہ کارروائی نہ صرف مکمل تھی بلکہ تمام دفاترمیں ہدایت جا چکی تھی کہ محترم والد صاحب مرحوم کی نماز جنازہ صبح 10 بجے ہوگی اور اس وقت دفاتر بند ہوں گے تا احباب نماز جنازہ میں شامل ہو سکیں۔ سبحان اللّٰہ وبحمدہ سبحان اللّٰہ العظیم۔ محترم والد صاحب مرحوم کی نماز جنازہ محترم ناظر صاحب اصلاح و ارشاد مقامی نے احاطہ صدرانجمن احمدیہ ربوہ میں پڑھائی۔ بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین ہونے پر محترم وکیل اعلیٰ صاحب تحریک جدید نے دعا کروائی۔ الحمدللہ۔ اللہ تعالیٰ والدین مرحومین کو اپنے پیارومغفرت کی جنت میں جگہ دے۔ درجات بلند سے بلند تر فرماتا چلا جائے۔ ہمیں اور اگلی نسل کو بھی ان کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق دے، ایمان وایقان میں برکت ڈالے، خلافت سے وابستگی میں بڑھائے اور خاتمہ بالخیر کرے۔ آمین یا رب العالمین۔
ربّ ارحمھما کما ربّیانی صغیرا
(بنی اسوائیل آیت 25)
بلانے والا ہے سب سے پیارا
اسی پہ اے دل تو جاں فدا کر
٭…٭…٭
(ڈاکٹر امتہ المجیب، صدرلجنہ لاس انجلیز ایسٹ، امریکہ)