• 29 اپریل, 2024

کیا اللہ اپنےبندہ کے لیے کافی نہیں

’’جب مجھے یہ خبر دی گئی کہ میرے والد صاحب آفتاب غروب ہونے کے بعد فوت ہوجائیں گے تو بموجب مقتضائے بشریت کہ مجھے اس خبر کے سننے سے درد پہنچا اور چونکہ ہماری معاش کے اکثر وجوہ انہیں کی زندگی سے وابستہ تھے …… اس لئے یہ خیال گزرا کہ ان کی وفات کے بعد کیا ہوگا۔ اور دل میں خوف پیدا ہوا کہ شاید تنگی اور تکلیف کے دن ہم پر آئیں گے اور یہ سارا خیال بجلی کی چمک کی طرح ایک سیکنڈ سے بھی کم عرصہ میں دل میں گزر گیا تب اسی وقت غنودگی ہوکریہ دوسرا الہام ہوا اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ یعنی کیا خدا اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں ہے۔ اس الہام الٰہی کے ساتھ دل ایساقوی ہوگیا کہ جیسے ایک سخت دردناک زخم کسی مرہم سے ایک دم میں اچھا ہو جاتاہے …… مَیں نے اسی وقت سمجھ لیا کہ خدا مجھے ضائع نہیں کرے گا۔ تب مَیں نے ایک ہندو کھتری ملاوامل نام کوجو ساکن قادیان ہے اور ابھی تک زندہ ہے وہ الہام لکھ کردیا اورسارا قصہ اس کو سنایا اور اس کو امرتسر بھیجا کہ تاحکیم مولوی محمد شریف کلانوری کی معرفت اس کوکسی نگینہ میں کھدوا کر اور مُہر بنواکر لے آوے اور مَیں نے اس ہندو کو اس کام کے لئے اس غرض سے اختیار کیا کہ تا وہ اس عظیم الشان پیشگوئی کا گواہ ہو جائے اور تامولوی محمد شریف بھی گواہ ہو جاوے۔ چنانچہ مولوی صاحب موصوف کے ذریعہ سے وہ انگشتری بصرف مبلغ پانچ روپیہ طیار ہو کر میرے پاس پہنچ گئی جو ا ب تک میرے پا س موجود ہے ….یہ اُس زمانہ میں الہام ہوا تھا جبکہ ہماری معاش اور آرام کا تمام مدار ہمارے والد صاحب کی محض ایک مختصر آمدنی پر منحصر تھا۔ اور بیرونی لوگوں میں سے ایک شخص بھی مجھے نہیں جانتا تھا۔ اور مَیں ایک گمنام انسان تھا جو قادیان جیسے ویران گاؤں میں زاویۂ گمنامی میں پڑا ہوا تھا اور پھر بعد اس کے خدا نے اپنی پیشگوئی کے موافق ایک دنیا کو میری طرف رجوع دے دیا اور ایسی متواتر فتوحات سے مالی مدد کی کہ جس کا شکریہ بیان کرنے کے لئے میرے پا س الفاظ نہیں۔‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ219تا 221)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 اگست 2021

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ