• 3 مئی, 2024

حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ زیادہ سے زیادہ چالیس روز تک یہ دعا کریں تو اللہ حق ظاہر کر دے گا

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
… اس پر مولوی صاحب نے ایک طالب علم کو تھپڑ مارا۔ (جواب تو آیا نہیں، غصے میں تھپڑ مار دیا۔) اور اُس نے مولوی صاحب کو مارا۔ (اُس نے بھی جواب میں آگے سے مار دیا۔ ہمارے مفتی محمد صادق صاحب تھے، انہوں نے ان دونوں غیر احمدیوں کی لڑائی چھڑائی۔) اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تقریر شروع ہو گئی اور حضرت صاحب کی تقریر میں لوگوں نے کچھ شور کیا۔ جماعت کے لوگوں نے حضرت صاحب کے گرد گھیرا ڈال دیا۔ اُس میں کچھ تھوڑی سی جگہ کھلی رہ گئی تھی۔ (کہتے ہیں) مَیں وہاں (جا کے) کھڑا ہو گیا۔ (ابھی یہ احمدی نہیں ہوئے تھے۔ تو) اکبر خان ایک احمدی چپڑاسی تھے، انہوں نے مجھے مخالف سمجھ کر دھکا دے کر وہاں سے ہٹا دیا۔ تھوڑی دیر کے بعد پھر مَیں وہاں کھڑا ہو گیا۔ (دل میں تھوڑی سی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لئے ایک محبت پیدا ہو چکی تھی اس لئے وہ خالی جگہ دیکھ کر وہاں کھڑے ہو گئے کہ کوئی نقصان نہ پہنچائے۔ کہتے ہیں اُس نے پھر مجھے دھکا دیا۔ جب وہ دوبارہ) دھکا دینے کے لئے آگے بڑھے تو حضرت مولوی نورالدین صاحب حضرت خلیفہ اول نے اُن کو روکا کہ کیوں دھکا دیتے ہو؟ اکبر خان نے کہا کہ حضور! یہ مخالف ہے۔ مولوی صاحب نے کہا کہ تم نے اُس کا دل چیر کر دیکھ لیا ہے؟ جو آتا ہے اُس کو آنے دو۔ اس کے بعد مولوی چمریاں والا کھڑا ہو گیا (وہ بھی کوئی نام تھا، مولوی چمریاں والا) اُس نے حضرت صاحب کے متعلق بعض بیہودہ الفاظ کہے۔ اس پر مَیں نے کہا کہ او چمریاں والے! زیادہ بکواس کی تو تیری زبان پکڑ کرکھینچ لوں گا۔ اس پر حافظ عبدالمجیدنے اُس کو منع کیا کہ اس وقت اپنی فوج کی سپاہ بگڑ رہی ہے۔ (اس وقت خاموش رہو اور اخلاق کے دائرے سے باہر نہ نکلو کیونکہ اپنے ہی جو لوگ ہیں وہ بگڑ رہے ہیں ہمیں اپنوں سے ہی مار پڑ جانی ہے۔ اس لئے خاموش کھڑے رہو۔ ) لہٰذا تم خاموش رہو۔ کہتے ہیں حضرت صاحب نے تقریر میں فرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے مسیح موعود بنا کر بھیجا ہے اور فرمایا کہ جو لوگ اپنی کم علمی کی وجہ سے میرے متعلق فیصلہ نہیں کر سکتے وہ اس دعا کو کثرت سے پڑھیں جو اللہ تعالیٰ نے اُن کی پنجوقتہ نمازوں میں بتلائی ہے کہ اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ (الفاتحہ: 6تا7) چلتے پھرتے، اُٹھتے بیٹھتے ہر وقت کثرت سے پڑھیں۔ زیادہ سے زیادہ چالیس روز تک (اگر نیک نیتی سے پڑھیں گے تو) اللہ تعالیٰ اُن پر حق ظاہر کر دے گا۔ (کہتے ہیں) میں نے تو اُسی وقت سے شروع کر دیا۔ مجھ پر تو ہفتہ گزرنے سے پہلے ہی حق کھل گیا۔ مَیں نے دیکھا کہ ’حامد‘ کے محلہ کی مسجد میں ہوں۔ (حامد محلے کا نام ہے اس کی مسجد میں ہوں۔) وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف لائے ہیں۔ (انہوں نے خواب میں دیکھا۔) مَیں حضرت صاحب کی طرف مصافحہ کرنے کے لئے بڑھنا چاہتا تھا کہ ایک نابینا مولوی نے مجھ کو روکا۔ دوسری طرف سے مَیں نے بڑھنا چاہا تو اُس نے اُدھر سے بھی روک لیا۔ پھر تیسری مرتبہ مَیں نے آگے بڑھ کر مصافحہ کرنا چاہا تو اُس نے مجھ کو پھر روکا۔ تب مجھے غصہ آ گیا اور مَیں نے اُسے مارنے کے لئے ہاتھ اُٹھایا۔ (خواب بتا رہے ہیں کہ) حضرت صاحب نے (خواب میں اُنہیں) فرمایا کہ نہیں، غصہ نہ کرو۔ مارو نہیں۔ مَیں نے عرض کیا کہ حضور! میں تو حضور سے مصافحہ کرنا چاہتا ہوں اور یہ مجھ کو روکتا ہے۔ اتنے میں میری آنکھ کھل گئی۔ مَیں نے صبح میر قاسم علی صاحب اور مولوی محبوب احمد اور مستری قادر بخش کے سامنے یہ واقعہ بیان کیا۔ میر صاحب نے کہا اسے لکھ دو۔ مَیں نے لکھ دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس کے نیچے لکھ دو کہ میں اپنے اس خواب کو حضور کی خدمت میں ذریعہ بیعت قرار دیتا ہوں۔ مَیں نے لکھ دیا۔ مولوی محبوب احمد صاحب جو غیر احمدی تھے انہوں نے کہا کہ تم کو اپنے والد کا مزاج بھی معلوم ہے! وہ ایک گھڑی بھر بھی تم کو اپنے گھر نہیں رہنے دیں گے۔ مَیں نے کہا مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں۔ خیر حضرت صاحب نے بیعت منظور کر لی اور مجھے لکھا کہ تمہاری بیعت قبول کی جاتی ہے۔ اگر تم پر کوئی گالیوں کا پہاڑ کیوں نہ توڑ دے، نگاہ اُٹھا کر مت دیکھنا۔ (چاہے جتنی مرضی گالیاں پڑیں، تو نے کوئی جواب نہیں دینا۔ ) اب پھر (کہتے ہیں) مَیں اصل واقعہ کی طرف آتا ہوں۔ حضرت صاحب کی تقریر کے بعد حضرت مولانا نورالدین صاحب (حضرت خلیفہ اوّل) نے تقریر کی۔ آپ کی تقریر کے بعد میں نے آپ سے مصافحہ کیا۔ مولوی صاحب نے فرمایا کہ میاں تم نے دینیات میں کچھ پڑھا ہے؟ مَیں نے کہا حضور مشکوۃ اور جلالین پڑھی ہے۔ آپ نے پوچھا کہ فقہ میں کہاں تک پڑھا ہے؟ مَیں نے عرض کیا کہ قدوری اور (ایک اور نام صحیح طرح پڑھا نہیں جا رہا وہ پڑھی ہے۔ کیونکہ یہ روایات ساری ہاتھ سے لکھی ہوئی ہیں، اس لئے بعض لکھائی پڑھی نہیں جاتی تو) آپ نے دریافت کیا (کہ) منطق میں کہاں تک پڑھا ہے۔ مَیں نے کہا چھوٹے چھوٹے رسالے پڑھے ہیں۔ پھر مَیں نے حضرت صاحب سے مصافحہ کیا اور جب واپس لوٹا تو مولوی عبدالحکیم صاحب نے کہا کہ تم اپنے ہاتھ راپنی سے چھلواؤ، (چھوٹا رمبہ ہوتا ہے جس سے جوتے بنانے والے یا چمڑے کا کام کرنے والے چمڑے کو چھیلتے ہیں۔ تو کہتے ہیں کہ تم نے کیونکہ حضرت مرزا صاحب سے مصافحہ کر لیا ہے۔ اس لئے اپنے ہاتھوں کی جو کھال ہے اس کو ادھڑواؤ۔ تب صاف ہو سکتے ہیں اس کے بغیر صاف نہیں ہو سکتے۔) کیونکہ ان ہاتھوں سے تم نے مرزا صاحب سے مصافحہ کیا ہے۔‘‘ (رجسٹر روایات صحابہ۔ غیرمطبوعہ۔ جلدنمبر 12 صفحہ 13 تا 19) (نعوذ باللہ)۔ بہر حال یہ تو بیعت کر کے آ گئے۔

(خطبہ جمعہ 2؍ مارچ 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 اگست 2021

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ