• 8 مئی, 2024

سیدہ خاتون مرحومہ

یاد رفتگان
میری امی سیدہ خاتون مرحومہ

میری امی جان سیدہ خاتون اہلیہ عبد الحمید جنجوعہ بھائی محمودؓ صحابی حضرت مسیح موعود ؑ کی بیٹی تھیں۔ آپ 1928ء میں قادیان کی مبارک بستی میں پیدا ہوئیں اور ابتدائی تعلیم وہیں سے حاصل کی۔ بھائی محمود کی دس اولادوں میں آپ کا نمبرچھٹاہے۔مضمون ہذا میں خاکسار اپنی امی جان کا ذکر خیر کرنا چاہے گی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ کے درجات بلند فرماتا چلا جائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازے اور آپ کی ذاتی خوبیاں و اوصاف آپ کی نسلوں میں جاری رکھے۔ آمین

کچھ لوگ بظاہر بہت سادہ دکھنے والے اور عام لوگوں میں اٹھنے بیٹھنے والے ولیوں جیسا مزاج رکھتے ہیں۔ میری امی جان بھی ایسی ہی ایک شاندار خاتون تھیں۔ علم سے بے انتہا محبت کرنے والی اور علم بانٹنے والی۔ علم حاصل تو بہت سے کر لیتے ہیں لیکن علم بانٹنے کا ظرف بہت کم لوگوں میں ہوتا ہے۔ میں نے جب سے ہوش سنبھالا امی جان کو تعلیم دیتے ہی دیکھا۔ چاہے قرآن کی تعلیم ہو یا پھر حساب اردو یا عربی۔ ایک طالب علم جاتا تو دوسرا آ جاتا اور یہ سلسلہ صرف رسمی تعلیم تک محدود نہیں تھا امی جان فطری طور پر ایک استاد تھیں۔ انکی ہر بات میں اور ہر عمل میں ایک سبق ہوتا تھا۔ ہر بچے کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے اسکو کسی نہ کسی ذریعے سے کچھ نہ کچھ سکھا تی رہتیں۔ پھر چاہے وہ مزے کے قصے ہو یا، کسی شعر یا نظم کا پس منظر، ایسے تفصیل سے اور اس دلچسپ انداز میں بیان کرتیں کہ ہمارے لیے اگلے قصے کا انتظار مشکل ہو جاتا۔ مجھے نہیں یاد کہ میں نے اپنی امی جان کے منہ سے کبھی کوئی غیر فطری کہانی یا جنوں پریوں کا کوئی قصہ سنا ہو۔ حضرت آدم علیہ السلام، حضرت یوسف علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور آنحضرت صل اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے ہجرت تک کے واقعات سنتے میرا بچپن گزرا۔ جب اردو پڑھنا سیکھا تب مجھے انبیاء علیہ السلام کی کہا نیوں کی کتا بیں لادی گئیں۔ امی جان ہمیشہ کہا کرتی تھیں کہ کبھی بھی بچوں کو بھوتوں اور چڑیلوں سے نہیں ڈرانا چاہئے۔ جیسا کے والدین اکثر بچوں کو کسی کام سے روکنے کے لیے کرتے ہیں۔ مجھے بھی ہمیشہ دلیل دےکر سمجھایا کرتیں کہ گناہ ہے کبھی نتائج بتاتے ہوئے کہ ایسا کروگے تو ایسا ہو جائے گا۔ پھر اولیائے کرام کے سبق آموز واقعات۔ امی جان کی مزاح کی حس اتنی بہترین تھی اور حاضر جوابی ایسی کے انکی صحبت میں کوئی چھوٹا بڑا بور نہیں ہو سکتا تھا۔ 1947 ءتقسیم ہند کے سفر کا رونگٹے کھڑے کر دینے والا قصہ ایسے ہلکے پھلکے انداز میں سناتی تھیں کے لگتا ہی نہیں تھا کہ جیسے خوف اور بے یقینی سے ہجرت کر کے زندہ سلامت پاکستان پہنچے تھے۔ عمر ہی کیا تھی 18 سال کی ایک بے انتہا خوبصورت اور نازک لڑکی جسکی شادی کو کچھ ماہ ہی گزرے تھے اور شدید گرمی اور خوف کا سفر، سوچ کر ہی جھر جھر ی آ جاتی ہے کہ کس طرح بھوکے پیاسے دونوں نے گزارا ہوگا۔ کچھ گھنٹوں کا سفر دو دنوں میں طے کیا اور اوپر سے پہلے بچے کی آ مد آ مد تھی۔ اب سوچتی ہوں شاید اسی مشکل سفر کے برےنتائج کیوجہ سے امی جان کی پہلی بیٹی زندہ پیدا نہ ہوئی۔ پھر یکے بعد دیگرے بچوں کی پیدائش کا سلسلہ چل نکلا۔

امی جان کو تعلیم کے ادھورے رہ جانے کا بڑا دکھ تھا۔ حالانکہ میٹرک کے امتحان میں پورے ضلع میں اوّل آ ی تھیں۔لیکن اس وقت کے رواج کے مطابق والدین نے جلدی شادی کا فیصلہ کیا تو میری امی جان نے سر جھکا دیا۔ تعلیم کے ساتھ امی جان اپنی غیر نصابی سرگرمیوں کو بھی بہت محبت اور حسرت سے یاد کیا کرتیں۔جن میں بیڈمنٹن اور میروڈبا ان کے من پسند کھیل تھے۔ ہمارے ابو جان کی ریلوے کی ملازمت کی وجہ سے بہت سفر کیے لیکن جب بچوں کی تعلیم کا آغاز ہوا تو امی جان نے ایک جگہ رہنے کو ترجیح دی۔ اور بچوں کی تعلیم و تربیت کے ساتھ امی جان کو اپنی تعلیم مکمل کرنے کا موقع بھی مل گیا۔ پہلے ایف اے اور پھر بی اے کا پرائیویٹ امتحان دیا۔ یہ تعلیم کی لگن ہی تھی جس نے اوپر تلے کے سات بچوں کا خیال رکھتے ہوئے بھی ہمت دی کہ امتیازی نمبروں سے امتحان پاس کیا۔ اسکے بعد سے اپنے سارے شوق اور خواہشات کو اولاد سے منسوب کر لیا۔ ابو جان کی محدود تنخواہ اور اتنے بچوں کا ساتھ، ساری توجہ گھر کو آ سودہ بنا نے اور بچوں کی تعلیم و تربیت پر مرکوز کر دی۔ اس دوران چھوٹے موٹے کام گھر بیٹھے بھی کر لیا کرتیں جس سے کچھ اضافی آمدن ہو جاتی جیسے رضائیاں نگندنا (ڈورے ڈالنا) وغیرہ۔ ہمت سے کچھ ہی سالوں میں بچت کر کے اپنا مکان بھی خرید لیا۔ اور اس پر یہ کہ سب بچوں کی تعلیم پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا بلکہ پانچویں جماعت تک خود پڑھایا اور پھر پانچویں کے بورڈ کے امتحان میں بٹھادیا اور امی جان کے گھر میں قرآن مجید کی تعلیم تو اسکول شروع ہو نے سے پہلے مکمل کرنے کا رواج تھا۔ کہا کرتی تھیں کہ اس سے ہر کام میں برکت پڑتی اور بچے کی بنیاد اچھی رہتی ہے۔ خود بھی باقاعدگی سے قرآن کی تلاوت کرتیں، ہر جمعہ کے دن سورت کہف کی تلاوت کا اہتمام کیا کرتیں۔ حافظہ نہیں تھیں مگر بہت سارا قرآن یاد تھا اور کبھی جو بچوں کی تلاوت میں کوئی غلطی ہوتی تو صحن میں کپڑے دھوتے اور سکھاتے ہوئے غلطی کی تصحیح کر دیا کرتیں۔ سر شام ہی امی جان کے گھر کے صحن میں ایک بڑا سا تخت پوش سب قرآن پڑھنے والے بچوں سے سج جاتا۔ اور سب باری باری ایک یا دو رکوع پڑھتے۔ میری اس حوالے سے بہترین یاد بغیر غلطی کے سارا سبق سنانا اور پھر انعام کے طور پر امی جان سے میری پسندیدہ آ ٹے کی پنجیری کا ملنا ہے۔ اس سادہ سی پنجیری سے بڑا انعام مجھے آ ج تک کوئی نہیں ملا۔

اولاد کی تعلیم کے لیے انکی لگن کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ امتحانات کے نتائج کے وقت انکی دعائیں اور فکر اس قدر ہوتی کہ خواب میں چوہدری ظفر اللہ خان (پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ اور عالمی عدالت کے جج) جیسی کامیاب ہستی کو دیکھتی اور ظفر کے معنی چونکہ کامیابی کے ہیں تو اکثر اوقات بچوں کا نتیجہ بھی خواب کے عین مطابق اعلیٰ کامیابی کی صورت میں نکلتا۔

میرے ہوش سنبھالنے تک ابو جان اس دنیا سے رخصت ہوچکے تھے۔ کس ہمت سے امی جان نے حالات کا سامنا کیا۔ ابو جان کی زندگی میں صرف تین بیٹیوں کا ہی فرض ادا ہوا تھا۔ انکے بھی رشتوں کے فیصلے اور شادی کے انتظامات محدود آ مدن میں انتہائی خوش اسلوبی سے انجام پاجانا امی جان کا ہی کمال تھا۔ اسکے ساتھ ساتھ سب بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کے لیے لاہور بھی بھجوایا کہ بی اے کے بعد اس زمانے میں کچھ مضامین کو چھوڑ کے ایم اے کرنے کی سہولت وہاں موجود نہ تھی۔ تعلیمی اداروں کی فیس کے ساتھ ساتھ کتابوں اور ہوسٹل کےاخراجات بھی تھے اسکے باوجود گھر میں کبھی کسی چیز کی کمی نہیں آئی۔ ہر دنیا کی نعمت موجود رہتی۔ اس برکت کا سبب بھی میری امی جان کا سگھڑاپن اور دن رات کی محنت تھی۔ شکر پارے، چینی چڑھے بھنے ھوئے چنے، مونگ پھلی اور گڑ کی پت، سوجی کی مٹھائی اور بوندی کے لڈو گھر میں آ نے والے مہمانوں کے لیے موجود رہتے۔ زیادہ تر گھر میں ہی سب تیار کیا جاتا۔ کنوؤں کے موسم میں سکوائش بنانا ایک تہوار کے جیسا ہوتا۔ کیونکہ میری امی جان کی تین بہنیں اسی شہر میں رہتی تھیں اور دو کا گھر تو اسی گلی میں تھا بلکہ ایک کا ساتھ جڑا ہوا اور دوسری کا گلی کے اس پار، دروازے کھلے ہی رہتے اور سب کام مل جل کر ہی کیے جاتے۔ کنوؤں کا جوس نکالنے کے لیے کمرشل جوسر باری باری سب کے گھروں میں جاتا اور تیار ہونے کے بعد بوتلوں کے منہ کو کارک سے بند کیا جاتا۔ تمام گرمی سکوائش اور لیموں کی سکنجبین کے علاوہ لسی اور ستو کا شربت ہی بنتا اور مہمانوں کو بھی یہی پیش کیا جاتا۔ بازار کے مشروبات کا رواج تو بہت بعد میں ہوا۔ تب بھی ہماری امی جان گھر کی بنی چیز کو ہی پسند کرتیں۔ کھانے میں بھی سادہ غذا پسند کرتیں۔ بہت زیادہ گوشت کی شوقین نہ تھیں لیکن پلاؤ خوش ہو کر کھاتیں، کسی بھی سبزی کے ساتھ پکوڑیاں دہی میں ڈال دیں تو میری سادہ ماں کی خوشی دیدنی ہوتی۔ پکوڑے ویسے بھی کافی پسند تھے۔ بہت لمبے عرصے تک تو مجھ کو یہ پتہ بھی نہیں چلا کہ امی جان کی پسندیدہ چیز آ خر ہے کیا کیونکہ ہر دستر خوان پر بسم اللہ کے بعد رزق کی اہمیت اور بہت سے محروم لوگوں کا تذکرہ اس نصیحت کے ساتھ ہوتا کہ جو پکا ہے شکر کر کے کھانا ہے اور رزق کی بے ادبی اور اس کو ضائع کبھی نہیں کرنا۔ یہ سب صرف کہتی نہیں تھیں بلکہ عملی طور پر کر کے دکھایا کرتیں۔

رزق کے علاوہ پانی اور بجلی کے ضیاع پر بھی سخت نالاں ہوتیں۔ گھر میں ہمیشہ زائد بتیوں کے سوئچ بند کرتی رہتیں۔ پانی کی ٹونٹی کبھی لیک کر جاتی تب بھی ایک بوند پانی ضائع نہ ہونے دیتی، چھوٹی موٹی مرمت خود ہی کر لیا کرتیں۔ میں نے امی جان کو ہمیشہ کام میں مصروف پایا۔ کبھی سیمنٹ گھولے فرش یا دیوار کا کوئی کونا ٹھیک کر رہی ہوتی تو کبھی دیوار پر چونا پھیر کر داغ دھبوں کی صفائی۔ کبھی دروازوں کے قبضوں کو تیل دیتیں کے چوں چوں کی آ واز سے وحشت ہوتی۔ گھر کی صفائی سے جسمانی صفائی تک ہر چیز کا خیال رہتا۔ بچپن کی ایک یاد میں گھر میں موجود نیم کے پیڑ کی مسواک کا اہتمام بھی ہے۔ہفتہ میں ایک دن شاید جمعہ کے دن مسواک اور پھر غسل کی سنت پر عمل کیا جاتا۔

یوں تو میری ماں کی شخصیت ڈھیروں صفات کا مجموعہ تھی لیکن انکے رشتےداروں اور ہمسایوں سے حسن سلوک پر میں ایک کتاب لکھ سکتی ہوں۔ رشتے نبھانا، انکی قدر کرنا اور انکا مان رکھنا میں نے امی جان سے سیکھا۔ اس ضمن میں ایک واقعہ جو میرے دل و دماغ پر نقش ہے وہ یہ کہ جیسا کہ میں نے بتایا امی جان کی بہنیں اور انکی اولادیں بھی ساتھ ساتھ گھروں میں رہتی تھیں تو اختلاف رائے یا غلط فہمی کا پیدا ہونا ناگزیر تھا۔ ایسے ہی کسی غلط فہمی کی بنیاد پر کسی رشتہ دار نے ناراضگی سے بھرپور ایک طویل خط لکھ کر امی جان کو بھیج دیا۔ ان دنوں وہ لاہور اپنے چھوٹے بیٹے کے ہاں مقیم تھیں۔ خطوط نویسی ان دنوں تک بھی ہمارے گھروں میں رابطے کا اہم ذریعہ تھی حالانکہ فون وغیرہ بھی موجود تھے۔ وہ خط ڈاکیے سے میں نے ہی موصول کیا اور خوشی سے جا کر امی جان کو دیا۔ خط پڑھتے ہی خاموش سی ہو گئی پھر مجھے تاکید کی کہ کسی سے ذکر مت کرنا۔ پھر اگلے ہی روز جواب لکھنے بیٹھ گئیں اور جواب میں بس ایک شعر لکھ بھیجا۔

خامشی سے وقت کے دھارے پہ خودکوڈال
دوں،سامنے میرے کوئی اس کے سوا رستہ نہیں
چھوٹی چھوٹی رنجشیں اپنی جگہ پر شکر ہے،
نفرتوں کی آگ سے سینہ کبھی جھلسا نہیں۔

اس کے کچھ عرصے کے بعد واپس گھر گئیں اور جب ان رشتہ دار سے ملاقات ہوئی تو ایسے جیسے کچھ ہؤا ہی نہیں۔ وہ بھی ویسے ہی پیار سے ملیں۔ تب سے لے کر اب تک رشتوں کا لحاظ، ادب اور انکو نبھانے میں عاجزی اور خلوص۔ یہ سب میں نے اپنی پیاری ماں کو کرتے دیکھا۔ میں نے کبھی انکے منہ سے کسی کی برائی نہیں سنی۔ اگر کبھی کسی کی زیادتی کی شکایت کر دیتے تو کہتیں کہ دیکھو یہ( گنوا کر) صفت بھی تو ہے۔ ہمیشہ صفتوں پر نظر رکھا کرو۔ جھک جاؤ پر رشتہ بچا لو۔ بیٹے بیٹیاں، داماد، بہو ئیں، نواسے نواسیاں اور پھر پڑنواسے پڑنواسیاں، سب کے ساتھ پیار محبت کا تعلق اپنی نوعیت کا تھا۔ دامادوں سے ادب لحاظ، بچوں سے بے حد محبت، لیکن آداب و اخلاق پر کوئی سمجھوتا نہیں کرتی تھیں۔ اسکے علاوہ امی جان آ ٹھ بہنیں اور دو بھائی تھے۔ بہن بھائیوں کے ساتھ ساتھ انکی اولادوں سے بے انتہا کی محبت اور دور دراز کے ممالک میں رہنے کے باوجود وہ سب بھی گاہے بگاہے فون یا خط کے ذریعے سے رابطے میں رہتے۔ اپنے دونوں بھائیوں سے امی جان کو عشق کی حد تک محبت تھی۔ اور جس طرح سے انکا ذکر گھر میں ہوتا انکی عادات، پسند نا پسند اور ہر چھوٹا بڑا قصہ دہرایا جاتا ہمارے دلوں میں بھی بعض سے تو ملے بغیر ہی عقیدت اور احترام کا تعلق قائم ہوگیا۔

سسرالی رشتہ داروں کے ساتھ بھی میں نے امی جان کے مثالی تعلقات ہی دیکھے۔ ابو جان کے بھائیوں اور انکی اولادوں کا ذکر بہت پیار سے کرتیں۔ ایک بھائی راولپنڈی میں مقیم تھے تو جب بھی آ نا ہوتا ضرور چچی جان سے ملاقات پر اصرار کیا کر تیں۔ دوسرے بھائی کی رہائش ذرا دور کوئٹہ میں تھی مگر تائی جی خود باقاعدہ چکر لگا لیا کرتیں۔ انکی وفات کے بعد بھی اولادوں سے پیار محبت کا تعلق قائم رکھا۔

رشتہ داروں کے ساتھ ساتھ میری امی جان نے ہمسائیگی کے حقوق بھی دل و جان سے ادا کیے۔ محلہ میں کوئی گھر ایسا نہ تھا جن سے دعا سلام اور خیر سگالی والا ناطہ نہ ہو۔ میری پیدائش سے پہلے کی بات ہے کہ گلی میں کسی معزز گھرانے کے ہاں سے انکی ایک پوتی پڑھنے کے لئے امی جان کے گھر آ یا کرتی تھیں۔ وہ افریقی نسل سے تعلق رکھتی تھیں۔ اس کے والد صاحب کسی کام کی غرض سے کچھ عرصہ افریقہ مقیم رہے اور وہاں شادی بھی کر لی۔ کام ختم ہونے پر خاموشی سے بیوی کو طلاق لکھ کر اور چھوٹی سی بیٹی کو ساتھ پاکستان لے آئے۔ بد قسمتی سے گھر والوں کا سلوک اس بچی کے ساتھ زیادہ ا چھا نہ تھا۔ کچھ رنگ و نسل کی وجہ سے وہ بچی بھی شاید اسکول جانے سے جھجک محسوس کرتی ہو۔ بہر حال امی جان نے اسکی تعلیم کی ذمے داری اٹھائی اور دسویں کے امتحان کی تیاری کروائی۔ مجھے یہ بات شائد معلوم بھی نہ پڑتی اگر امی جان کی وفات کے بعد ان خاتون کا فون نہ آتا۔ جانے کہاں سے نمبر حاصل کیا کہ مجھے اطلاع ملی تو رہ نہیں سکی کہ مجھے کس نے پڑھانا تھا اگر خالہ جی نہ ہوتیں۔ہائے! میری علم و ہنر بانٹنے والی ماں، اللہ آپکے درجات بلند فرمائے۔

میری امی جان کی ڈھیروں پیاری عادات میں سے ایک نمایاں عادت انکی بے انتہا کی خوددار ی بھی تھی۔ انکی زندگی میں خاص کر آ خری دنوں میں تو میں چڑ جایا کرتی تھی کہ ساری عمر سب کے لیے قربانی کرنے والی میری ماں کیوں اپنی اولاد سے بھی خدمت کرواتے ہوئے جھجھکتی ہے۔ ہمیشہ سے اپنے لیے ایک ہی دعا کرتی تھیں کہ یا اللہ مجھے کسی کا محتاج نہ کرنا- تمام زندگی اپنی ذات کو کسی بھی آ سائش کا محتاج نہیں ہونے دیا۔ ہم سب کو بھی ہمیشہ یہی سکھایا کہ ہر حالات میں گزارا کرنا آ نا بھی ایک فن ہے۔ بچوں کی شادیوں کے بعد زیادہ وقت تو لاہور اپنے چھوٹے بیٹے کے ہاں ہی گزارا مگر ہر دو تین ماہ بعد واپس اپنے گھر آ جاتی پھر کبھی بیٹیوں کے پاس کچھ دن کے لیے رہ آ تیں۔ زیادہ تر اسلام آباد ہی آتیں میرے بے حد اصرار اور ضد کی وجہ سے۔ مگر وہاں بھی آ کر ہر طرح سے مدد کرتیں۔ بہت بار بازار سے خود سودا سلف، گوشت سبزی لے آ تی اور پکا بھی دیتیں۔ اور بھی چھوٹے بڑے کئی کام سنوار جاتیں۔ اور اگر کوئی کہتا کہ آپ آرام کریں تو کہتیں میرے ہاتھ پاؤں سلامت ہیں ابھی۔ لاہور بھی پوتے پوتیوں کو قرآن مجید پڑھایا اور اسکے علاوہ حساب کے مضمون میں مدد کرتی رہتیں۔ آ خر تک بھی حتی الوسع اپنے کام خود ہی کر لیا کرتیں۔ جب صحت اجازت نہیں دیتی تھی تب بھی بیٹھے بیٹھے سبزی بنا دیتیں، کبھی اچار کے لیے لیموں مرچیں لے کر بیٹھ جاتیں۔ کبھی سوئی دھاگہ لے کر بیٹھی کچھ سی رہی ہوتی یا اون سلائیاں لیے کچھ بننے لگ جاتیں۔ اخبار باقاعدہ پڑھا کرتیں اور پھر کوئی دلچسپ خبر ہوتی تو وہ سب کو تبصرے کے ساتھ سنایا کرتیں۔ عمر کے آخری ایام میں نظر کی کمزوری کی وجہ سے پڑھنے اور سوئی سلائی کے کام میں مشکل ہونے لگی تھی۔ تب بھی اپنے کام جیسے نہانے کے بعد اترے ہوئے کپڑے دھو لینا اور جب کوئی ٹوکے تو کہتیں کہ وہ کام ہی کتنا تھا، ٹب میں سرف ڈال کر بھگودیتی ہوں اور تھوڑی دیر بعد کھنگال کر تار پر۔

امی جان ایک متحرک شخصیت کی مالک تھیں۔ ترقی پسند اور سائنسی ایجادات کی حامی۔ نئے طور طریقوں کو اپنانے میں عار محسوس نہیں کرتیں تھیں اگر وہ مذہب اور اخلاق کے دائرے میں ہوں۔ امن پسند طبیعت کی وجہ سے لڑائی جھگڑے پر سمجھوتے کو ترجیح دیاکرتیں۔ امی جان کی صبر و برداشت کی عادت کی ساری دنیا معترف تھی اور باقی سب کو بھی صبر اور استقامت کا درس دیا کرتیں۔ بیوگی کے پینتیس سال اسی صبر اور شکر سے گزارے۔

ہمیشہ سے ان کے پاس لوگوں کی امانتیں ہوتیں۔ زیور، پیسے اور پرائز بانڈ۔ اس حوالے سے میری پہلی یاد کچھ اتنی خوشگوار نہیں۔ ہوا یوں کہ میرے بچپن میں ایک بار امی جان بیمار پڑ گئیں اور کئی روز تک تیز بخار چڑھتا رہا۔ ایک دن سخت کمزوری اور بخار کی حالت میں مجھے پاس بٹھایا اور کہنے لگیں کہ میرے پاس فلاں فلاں کی امانتیں ہیں۔ میں نے لکھ کر رکھا ہوا ہے سب۔ اپنی خالہ کو بتا دینا۔ مجھے آ ج تک اپنی وہ خوف کی حالت نہیں بھولی۔ میرے لیے اس بات کا تصور بھی ناممکن تھا۔ میں نے ان سے کچھ کہا نہیں بس خاموش ہو گئی پھر امی جان کچھ محسوس کرکے بولیں کہ ‘‘چندا! جب لوگ بوڑھے ہو جائیں تو ان سے اتنا پیار نہیں کرتے ’’

سچ ہی کہا کرتی تھیں۔ کیونکہ اس بے تحاشا پیار میں بھی اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ کسی اپنے کو جانے سے روک لے۔ لیکن آ ج بھی میری امی جان کا پیارا وجود مجھے اپنے آ س پاس محسوس ہوتا ہے۔ انکے ہاتھ کے کھانوں کے ذائقے میں، انکی مختلف عادات جو مجھے انکے بچوں میں نظر آ تی ہیں اور انکی نصیحتوں میں, اپنی ہر چھو ٹی بڑی کامیابی میں، ہر مشکل گھڑی میں جب کوئی فیصلہ کرنا ہو اور سوچتی ہوں کہ میری امی جان اس موقع پر کیا کیا کرتی تھیں۔ اور سب سے بڑھ کر انکی بے شمار دعاؤں کی صورت میں جو وہ ہم سب کے لیے چھوڑ گئی ہیں۔

اللہ تعالیٰ میری ماں کو جنت میں بہترین مقام عطا فرمائے، ہر طرح سے چین اور سکون پائیں۔ آ مین۔ ثم آمین۔

(ہما مبشر۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 اگست 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ