وہ سانپ جو اپنی قینچلی بدلنے سے قاصر ہو، مر جاتاہے اور وہ دماغ جو اپنی سوچ بدل کر بہتر کرنے سے روک دیا گیا ہو، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے ہی محروم ہو جاتا ہے۔
دنیا میں کچھ نہ کچھ ایسا ضرور ہوتا ہے جہاں ہم بھی نا سمجھ ہو جاتے ہیں۔
جب تک ہم اس غلط فہمی سے نہیں نکلتے کہ سمجھنے اور یقین ہونے میں کیا فرق ہے۔
علم اور دانائی دو یکسر مختلف چیزیں ہیں!
کسی بات کا علم ہونا صرف معلومات ہوتی ہیں اس بات کا شعور نہیں ہوتا۔
اور
اس کے لئے ہمیں ’’سمجھ‘‘ سے آگے جانا ہوتا ہے۔
جب سمجھ ہی نا مکمل اور کمزور ہو تو یقین اور اور اس سے بھی آگے ایمان کی راہوں پر جانا کتنا دور ہوگا۔
پھر جب ہر طرف ’’کسی پر بھروسہ نہ کرو‘‘ کا شور ہو، اجنبی خطرناک ہوتے ہیں یعنی Stranger is Danger۔ تو پھر آپ کیسے اعتماد اور یقین کا سفر کر سکیں گے؟
بابا بلھے شاہ کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا ’’بابا جی! میں نے آپ سے آپ کی کرامتیں سیکھنی ہیں‘‘۔ بابا جی بولے ’’ٹھیک ہے پر ایک کام کریں‘‘ (بس ایک کام کرنا)
کج بنی نہ، ہو جاویں
یعنی
عاشق صرف بنی نہ، ہو جاویں
نیک صرف صرف بنی نہ، ہو جاویں
لوگوں کو انجنیئر، ڈاکٹر یا ٹیچر یا پھر افسر وغیرہ بن جانے کی دھن ہوتی ہے اور یہی انہیں گھر میں شروع سے سکھایا بھی جاتا ہے۔
’’بیٹا ڈاکٹر بنو‘‘۔ یا ’’انجنیئر بنو یا پھربڑا افسر بن کر ملک کا نام روشن کرو‘‘، صرف بنو، کہیں ’’ہو نہ جانا‘‘
اسی لئے سمجھتے تو بہت کچھ ہیں مگر یقین وہ نہیں کرتے۔
انجنیئر، ڈاکٹر یا ٹیچر یا پھر بڑا افسر بھی صرف بن جاتے، ہیں ہوتےکبھی نہیں۔
آپ نے انجنیئر ڈاکٹر یا ٹیچر یا کوئی اور پیشہ ورانہ مہارت رکھنے والے بہت دیکھے ہونگے، بہت ہیں، مگر نامور اور یاد رہ جانے والے کتنے ہیں؟
نامور اور بڑے لوگ صرف وہی ہیں جو تن من دھن سے ڈاکٹر، انجنیئر یا ٹیچر یا کچھ بھی ہو جاتے، اپنی دھن میں مگن ہو جاتے ہیں، کھو جاتے اور لوگ اکثر ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس کو تو دن کا ہوش ہے نہ رات کا۔ اور بس ان ہی کو سمجھ سے آگے یقین ہو جاتا ہے اپنے ڈاکٹر، انجنیئر یا ٹیچر ہونے کا۔
اس میں کوئی نیت کا مسئلہ نہیں، یہ صرف اپنی سمجھ پر اکتفا کر لینے کامسئلہ ہے۔ صرف علم تک محدود ہونے کا مسئلہ ہے، شعور نہیں اور نہ ہی دانائی ہوتی ہے۔
لوگ اپنے آپ کو جان بوجھ کرعاشق ہو جانے یا نیک ہو جانے سے نہیں روکتے۔
وہ بس اپنی دانست میں اسی کو صحیح سمجھتے رہتے ہیں کہ ’’بس اتنا اچھا ہونا کافی ہے‘‘، ’’اتنا زیادہ نیک ہونا بھی ٹھیک نہیں۔‘‘
سمجھنے اور یقین ہو جانے کا یہی فرق ہے، جب ہمیں یقین ہو جاتا ہے تو ہم عاشق ہو جاتے ہیں۔ مکمّل طور پر عاشقی میں ڈھل جاتے ہیں، مجسّم عاشق نظر آتے ہیں۔ جیسے مجنوں کی مثال دی جاتی ہے، اسی طرح چند نامور پیشہ ورانہ مہارت رکھنے والے بھی ایسے ہیں جنہیں انسانی فطرت سے بڑھ کر سمجھا جانے لگتا ہے۔ مشہور Electric Car Company کے مالک اور ایسی دیگر بڑی اور مشہور ترین کمپنیوں کے مالک Elon Musk کو کون نہیں جانتا، ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک Super Human آدمی ہیں کیونکہ وہ 24 گھنٹے اپنے کام پر ہی پائے جاتے ہیں، بس کبھی صوفے پر یا پھر اپنے ڈیسک کے نیچے کچھ دیر سوئے ہوئے ملتے تھے پھر کام پر لگ جاتے تھے۔ یہ ہے واقعی ایک انجنیئر ہو جانا۔ دن رات اسی کام کی دھن لگی ہونی چاہے کوئی فن ہو یا تعلیم اگر ایسی دھن اور لگن ہو تو اسے ’’ہو جانا‘‘ کہتے ہیں۔ دنیا میں بس ان ہی تھوڑے سے لوگوں کے نام آپ اپنی انگلیوں پر گن سکتے ہیں۔
اسی طرح جب واقعی یقین حاصل ہوتا ہے تو ہم نیک ہوجاتے ہیں۔ نیک بنتے تو بہت ہیں، کوشش بھی نیک بن جانے کی ہی کرتے ہیں، پورے خلوص نیت سے، مگر صرف بن جانے پر اکتفا کرتے ہیں، ہو نہیں جاتے۔
بابے کہتے ہیں:
کسی کو دیکھ کر عشق میں انتہا کر دینے کی اتنی بڑی بڑی مثالیں قائم ہیں مگر یہ عشق تو کیا عشق ہوا جو سامنے موجود معشوق کو دیکھ کر ہو جاتا ہے۔ اصل میں تو بنا دیکھے عشق کرنا اصل عشق ہوتا ہے کسی کو بنا دیکھے صرف اس کے تخلیق کردہ نقوش اور آثار اور شاہکار دیکھ کر عاشقی کی مثال قائم کرنا اور ایسے فدا ہو جانے کی مثال قائم کرنا جس کو دنیا دیکھے تو عش عش کر اٹھے اصل عشق ہے جو ولیوں اور نبیوں کے حصّے میں ہی آیا۔
جیسے کسی شاعر نے خوب کہا ہے کہ
تجھے دیکھ کر جگ والے پر یقیں نہیں کیونکر ہوگا
جس کی رچنا اتنی سندر، وہ کتنا سندر ہوگا
ایک وجود کے عشق میں مبتلا ہو جانے سے جب ایسے درخشندہ مثالیں قائم ہو جاتی ہیں کہ دنیا حیران پریشان رہ جاتی ہے، چاہے وہ کوئی انسان ہو جانور، یا کوئی شوق، یا پھر کوئی دھن اور لگن، تو ذرا غور کرنے کی بات ہے کہ، وجود کے عشق سے آگے، ان سب وجودوں کے خالق کے بارے میں سوچنے اور اس کے عشق میں مبتلا ہو جانے سے کیا کیا شاندار شاہکار تخلیق ہو سکتے ہیں۔ کیا کیا عظیم مثالیں قائم ہو سکتی ہیں۔ کسی شاندار تخلیق کو دیکھ کر تو اس کے خالق کے عشق میں مبتلا ہو جانا ایک نا گزیر امر ہے اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر تخلیق کا عشق بھی ادھورا اور نا مکمّل ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے کسی شخص کو پسند کرنے کا مطلب اس سے متعلق ہر چیز، ہر بات اور ہر کام کو بہت اہم اور عزیز سمجھنا ہوتا ہے، یعنی اس کی ہر تخلیق کو عزیز سمجھناہوتا ہے، تو پھر اسی شخص کے خالق کو کیوں اہمیت نہیں دی جاتی؟
گل بس اوتھے ہی آ کے مکدی ہے، کہ ہم صرف سطحی سمجھ پر اکتفا کرتے ہیں اس سے آگے یقین اور ایمان تک جانے کی ضرورت نہیں سمجھتے۔ مزید غور کرنے کا تردد اور گہرائی میں اتر کر سوچنے کی تکلیف کیوں نہیں کرتے؟
سامنے کی چیز کو دیکھ کر مانتے ہیں، بس صرف اس حد تک تکلیف کرتے ہیں، اس سے آگے گہرائی میں جانے کا وقت نہیں ہے۔
وقت، جس کا نہ ہونا ایک موثر بہانہ ہے، اپنی نا اہلی یا عدم دلچسپی کو لپیٹ کر چھپا لینے کا اور اپنی اصل ترجیحات کو مصروفیت کا نام دے کر غیر ضروری لوگوں اور کاموں سے جان چھڑا لینے کا۔
یہ جتنے بھی دانائی رکھنے والے عظیم ترین اور کامیاب ترین لوگ تھے اور اب بھی ہیں، کیا ان کو آپ سے زیادہ وقت ملا، جو انہوں نے اتنے عظیم کارنامےسر انجام دئیے؟ کیا ان کا دن 24 کی بجائے 26 یا پھر 30 گھنٹے کا ہوتا ہے جو ان کے لئے اتنا کچھ کر لینا آسان ہوتا ہے؟
(کاشف احمد)