• 18 مئی, 2024

اے چھاؤں چھاؤں شخص! تری عمر ہو دراز

ڈائری عابد خان سے ایک ورق
اے چھاؤں چھاؤں شخص! تری عمر ہو دراز

23 مئی 2015ء کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اور آپ کا قافلہ اٹھارہ روزہ دورہ کے لئے جرمنی روانہ ہوا جہاں حضور انور نےجلسہ سالانہ جرمنی میں شمولیت اختیار فر ما کر اس کو اعزاز بخشا۔

Montenegrin وفد سے ملاقات

اگلا گروپ دو مہمانان پر مشتمل تھا جو Montenegro سے سفر کر کے جلسہ میں شمولیت کے لیے آئے تھے۔ ایک مہمان نے بتایا کہ جلسہ کے دوران انہیں احساس ہوا کہ احمدیوں کے بارے میں انہوں نے دیگر مسلمانوں سے جو سنا تھا وہ سب جھوٹ پر مبنی تھا۔ اس مہمان نے بتایا کہ انہیں قبل ازیں بتایا گیا تھا کہ احمدی (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان نہیں لاتے لیکن جلسہ سالانہ پر حضور انور کا اختتامی خطاب سن کر انہیں لگا کہ احمدی دوسرے مسلمانوں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔

دوسرے مہمان کا نام Ali Koachi تھا جو بڑی عمر کے pensioner تھے۔ حضور انور سے مخاطب ہو کر کہنے لگے۔

میں خجالت میں بھیگا ہوا ہوں اس خیال سے کہ جلسہ سالانہ میں شمولیت کرتے کرتے اس بڑھاپے تک انتظار کرتا رہا۔ احمدیہ مسلم جماعت میں جو اتحاد میں نے دیکھا ہے وہ ایسی چیز ہے جو ساری دنیا میں کہیں اور نہیں دیکھی۔ محض یہ پہلو کہ کس طرح آپ ہزاروں لوگوں کو کھلا رہے ہیں یہ اپنی ذات میں نہایت متاثر کن ہے۔

علی صاحب نے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ مونٹینگرو میں احمدیہ لٹریچر کی مزید ضرورت ہے۔ اس کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ:
’’جی ہاں آپ درست فرماتے ہیں۔ یہ ہمارا مشن ہے کہ اپنی بہترین صلاحیتوں کے ساتھ اسلام کی تعلیمات کا پرچار کریں۔ انسانیت کے لیے رہنمائی کی تکمیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں ہو چکی تھی اس لیے یہ ہمارا فرض ہے کہ سچائی کو دنیا کے ہر کونے میں پھیلائیں۔

حضور انور کا ایک مہمان کے موبائل
کو Silent کرنے میں مدد کرنا

دوران ملاقات ایک مہمان کا فون بجنے لگا۔ اس دوران انہوں نے اسے جیب سے نکالا اور نہایت تیزی سے اسے بند کرنے کی کوشش کرنے لگے مگر ایسا کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ حضور انور نے جب یہ ملاحظہ فرمایا تو میز کی دوسری طرف سے ہی موبائل کا سرسری جائزہ لیا اور فرمایا موبائل کی side پر جو بٹن ہے اسے flick کریں اس سے موبائل silent mode پر ہو جائے گا۔ لیکن اس ملاقات کے بعد اس کو دوبارہ flick کرنا نہ بھولیں تاکہ آپ کوئی اہم فون کال اٹھانا بھول نہ جائیں۔

یہ ایک خوش کن لمحہ تھا اور وہ مہمان بھی حیران تھے کہ حضور انور ان کے موبائل کے بارے میں ان سے بہتر آگاہی رکھتے ہیں۔

بلغاریین وفد سے ملاقات

ادائیگی نماز اور کھانے کے وقفے کے بعد حضور انور کی متفرق وفود سے ملاقاتوں کا سلسلہ پھر جاری ہو گیا۔ پہلی ملاقات کثیر التعداد وفدکے ساتھ تھی جو بلغاریہ سے تشریف لائے تھے۔ ایک نو مبا ئعہ احمدی خاتون نے حضور انور سے درخواست کی کہ بلغاریہ میں احمدی مبلغین بھجوائیں تاکہ اس ملک کے احمدی بچوں کی اخلاقی اور روحانی تربیت ہو سکے۔ اس کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ ’’جماعت کچھ لوکل بلغاریئنز کو جامعہ کے مشنریز کے طور پر ٹریننگ دے رہی اور جونہی وہ تیار ہوجائیں گے انہیں بلغاریا واپس بھجوا دیا جائے گا۔‘‘

بلغاریہ میں جماعتی پابندیوں کی وجہ سے کسی غیر بلغاریئن کو بطور مبلغ بھجوانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

حضور انور نے مزید فرمایا کہ ’’ہمیں دعا کرنی چاہیے کہ بلغاریہ سے نام نہاد مولویوں کا زور کم ہو اور حقیقی مذہبی آزادی اس ملک میں جڑ پکڑ سکے۔‘‘

لڑکے کا نام تجویز کرنا

اس ملاقات کے اختتام پر مہمانان نے حضور انور کے ساتھ تصویر بنانے کے لیے لائن اپ کیا اور ایک چھوٹے بچے کو حضور انورکے پاس لایا گیا۔ جب اس بچے کی والدہ سات ماہ کی حاملہ تھیں تو وہ حضور انور سے جرمنی میں ملی تھیں۔ اس وقت وہ غیر احمدی تھیں لیکن پھر بھی انہوں نے حضور انور سے درخواست کی کہ آپ بچے کا نام تجویز فرمائیں اور حضور انور نے لڑکے کا نام عطا فرمایا۔

اس خاتون کو ڈاکٹرز نے بتایا تھا کہ ان کے ہاں لڑکی کی پیدائش ہو گی لیکن چند ماہ بعد ہی ان کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا۔ یہ دیکھ کر کہ حضور انور نے لڑکے کا نام تجویز فرمایا ہے اور ان کے ہاں لڑکا ہی پیدا ہوا ہے۔ انہوں نے احمدیت قبول کر لی اور بیعت بھی کر لی۔

رشین وفد سے ملاقات

اگلے وفد کا تعلق رشیا سے تھا۔ ایک مہمان جو احمدی تھے انہوں نے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ ماسکو میں جماعت اپنی مسجد بنائے۔

حضور انورنے فرمایا کہ یہ ایک منظم مجوزہ رپورٹ تیار کر کے بھیجیں اور اس بات کا جائزہ بھی لیں کہ آیا جماعت اس کے لیے تیار ہے اور ایسے پروجیکٹ کی متحمل ہو سکتی ہے۔ حضور انور نے فرمایا ’’جماعت کے پاس جو بھی پیسے ہیں وہ احمدیوں کی (مالی) قربانیوں کی وجہ سے ہیں۔ اس لیے یہ نہایت اہم ہے کہ جماعت یہ رقم نہایت احتیاط سے خرچ کرے۔ میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ آپ خود اور لوکل جماعت جس قدر قربانی ہو سکے کریں پھر ہم دیکھیں گے کہ مرکز کس حد تک معاونت کر سکتا ہے۔‘‘

خلافت کی برکات کا ایک روح پرور منظر

بعد ازاں ایک نومبائع نے مائیکرو فون لیا اور بتایا کہ کس طرح احمدیت نے اس کی زندگی بدل دی ہے اور یہ بھی کہ اس وقت سے وہ اپنی بیوی کو احمدیت کی تبلیغ کر رہے ہیں۔

یہ سننے پر کہ موصوف اور ان کی اہلیہ دونوں وکیل ہیں حضور انور نے فرمایا
’’جیسا کہ آپ دونوں وکیل ہیں یہ اہم ہے کہ آپ دلیل اور حکمت سے ان کو قائل کریں۔ بالآخر یہ ان شاءاللہ احمدیت قبول کر لیں گی کیونکہ آپ کے دلائل نہایت مضبوط اور مدلل ہوں گے۔‘‘

حضور انور کا جواب سننے پر ان کی اہلیہ نے مائیکرو فون لیا اور حضور انور کو مخاطب ہو کر کہنے لگیں کہ ’’پیارے حضور! میں نےجلسہ پر جو ماحول دیکھا ہے اس سے بے حد متاثر ہوئی ہوں اور آپ سے ملنے کے بعد بھی ہر چیز جو میں نے دیکھی ہے مجھے اچھی لگی ہے۔‘‘

پھر وہ محترمہ رونے لگیں اور مزید کچھ کہنے سے پہلے کچھ توقف کیا پھر کہنے لگیں کہ ’’آج سے میں اپنے آپ کو احمدی مسلمان سمجھتی ہوں اور اپنے دل میں احمدیت قبول کر چکی ہوں۔اب میں ایک احمدی ہوں۔‘‘

بالعموم ایسے موقع پر میری توجہ حضور انور کی طرف ہوتی ہے لیکن اس موقع پر میری نگاہیں اس خاتون کے شوہر پر پڑیں تو میں نے انہیں دیکھا کہ ان کا چہرہ خوشی سے تلملا اٹھا اور وہ فرط جذبات سے خوشی اور حیرت میں ڈوبے ہوئے تھے۔

یہ ایک یادگار لمحہ تھا جہاں ایک شوہر نے حضور انور سے دعا کی درخواست کی کہ ان کی اہلیہ احمدیت قبول کرے اور چند منٹوں میں ہی نہایت جذباتی انداز میں انہوں نے احمدیت قبول کر لی۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔

یقیناً حضور انور بھی اس خاتون کے قبول احمدیت کی وجہ سے خوش تھے اس لیے آپ نے تبسم فرمایا اور اس کے خاوند سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ ’’اس اچھی خبر کی وجہ سے میرا خیال ہے کہ اگلے کیس سے ملنے والی رقم میں سے دسواں حصہ آپ کو اپنی اہلیہ کو بطور تحفہ دینا چاہیے۔‘‘

ایک مہمان کی تجویز کو نگاہ قدر سے دیکھنا

شام کو دوران ملاقات ایک البانیئن اکانومسٹ خاتون نے مائیکروفون لیا اور بتایا کہ جلسہ کے موقع پر جو خلوص اور مہمان نوازی انہوں نے دیکھی ہے وہ اس سے بے حد متاثر ہوئی ہیں۔ تاہم ایک economist کی حیثیت سے انہوں نے بتایا کہ انہوں نے کھانے کے کمروں میں دیکھا ہے کہ بسا اوقات کھانا ضائع ہو جاتا ہے۔ اس پر حضور انور نے نہایت شکر گزاری سے ان کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے اس معاملہ کو پیش کیا ہے۔

حضور انور نے فرمایا ’’ہر سال ہم کوشش کرتے ہیں کہ اپنی کمزوریوں کو دور کریں اور یوں میں شکر گزار ہوں کہ آپ نے اس معاملہ کو پیش کیا ہے۔ جہاں کہیں بھی ممکن ہو ہم کھانے کو دوبارہ استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ وہ ضائع نہ ہو۔ لیکن یقینی طور پر ہمیشہ بہتری کی گنجائش رہتی ہے۔ میں انتظامیہ کو اس بارے میں بتاؤں گا جو معاملہ آپ نے پیش کیا ہے تاکہ آئندہ کم سے کم کھانا ضائع ہو۔‘‘

جہاں بالعموم دوسرے لوگ تنقید یا تجاویز کو پسند نہیں کرتے حضور انور نے اس (خاتون) مہمان کی طرف سے پیش کیے جانے والے پوائنٹ کو نہایت سنجیدگی سے سنا اور اگلے خطبہ جمعہ میں اس بات کو معین طور پر پیش بھی فرمایا اور فرمایا کہ جلسہ کی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ آئندہ خیال رکھیں اور اس حوالہ سے خاص توجہ دیں۔

ایک نہایت بابرکت دن

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔ یہ دن نہایت مبارک ثابت ہوا۔ صبح سے شام تک میں نے سینکڑوں لوگوں کو حضور انور سے ملاقات کرتے دیکھا جنہوں نے اپنے اوپر نازل ہونے والے بالخصوص جلسہ کے سفر کے دوران ہونے والے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا ذکر کیا۔ ان ملاقاتوں کا ملاحظہ کرنا نہایت متاثر کن تھا۔

ایک ناقابل فراموش تبصرہ

اسی شام حضور انور نے خاکسار سے استفسار فرمایا کہ میرا دن کیسا رہا۔ جواب میں خاکسار نے عرض کیا کہ میں نے حضور انور کے جوابات جو آپ نے مہمانان کو عطا فرمائے ان سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ نیز عرض کیا کہ میرے دل و دماغ پر اس بات کا اثر ہمیشہ رہے گا کہ کس طرح حضور انور کے ساتھ چند منٹ گزارنے کے بعد کئی لوگوں کی زندگیاں یکسر بدل گئیں۔

پھر میں نے عرض کیا کہ میں امید کرتا ہوں کہ حضور انور بھی اس دن سے خوب محظوظ ہوئے ہوں گے۔ عام طور پر حضور انور خاکسار سے اردو میں بات کرتے ہیں مگر اس موقع پر حضور انور نے انگریزی میں گفتگو فرمائی اور ایسے الفاظ بیان فرمائے جو میں کبھی بھلا نہیں سکوں گا چنانچہ فرمایا۔

’’It was the best of my days in Germany‘‘

یعنی یہ میرے جرمنی (میں قیام) کے دنوں میں سے سب سے بہترین دن تھا۔ حضور انور سے ایسے الفاظ سننا یقیناً میرے لیے نہایت خوش کن اور باعث تسکین تھا۔

(حضور انور کا دورہ جرمنی مئی-جون 2015 حصہ سوم اردو ترجمہ از ڈائری مکرم عابد خان)

(مترجم: ابو سلطان)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 ستمبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ