• 5 مئی, 2024

حضرت صاحبزادہ مرزا انس احمد مرحوم کی یاد میں

2018ء کا سال تو اپنے پیاروں کی جدائی کے لحاظ سے عام الحزن ہی بن گیا۔ حضرت صاحبزادہ مرزا انس احمد جیسے پیارے وجود بھی اللہ کو پیارے ہوگئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔ اللہ تعالیٰ انہیں اپنی مغفرت کی چادر میں ڈھانپ لے، درجات بلند فرمائے اور سلسلہ کو ایسے مخلص اور وفاشعار خادم سلسلہ عطا فرماتا رہے۔ آمین

حضرت میاں صاحب گوناگوں صفات کے مالک تھے۔ خداترسی، محبت الٰہی، عشق قرآن، عشق رسولؐ، سادگی، تواضع اور رحمت وشفقت آپ کے نمایاں اوصاف تھے۔ عالم باعمل تھے۔ حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کا بھی خیال رکھتے۔ غرباء اور مساکین کا بہت احساس تھا۔ کسی ضرورت مند کو خالی ہاتھ واپس نہ کرتے خواہ قرض لے کر ہی اس کی مدد کیوں نہ کرنی پڑتی۔

آپ ایک علمی شخصیت تھے، حصول علم کا خاص ذوق تھا اور اس کے لئے آپ نے بہت محنت اور مجاہدہ کیا۔ خود بیان کرتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے مطالعہ کا پہلا دورانہوں نے میٹرک کے امتحان کے بعد فراغت کے عرصہ میں مکمل کر لیا تھا۔ رسول اللہؐ کے سچے عاشق تھے اور اسی مناسبت سے علم حدیث سے بھی خاص ذوق اور لگاؤ بلکہ محنت تھی۔ جس کے لئے آپ نے ذاتی محبت اور مطالعہ سے عربی زبان میں اتنی قابلیت اور مہارت پیدا کرلی کہ احادیث کے علاوہ ان کی عربی شروح وغیرہ بھی زیر مطالعہ رکھتے تھے۔ میٹرک کے بعد صحیح بخاری آپ نے حکیم خورشید احمد صاحب سے پڑھی تھی۔ اس کے بعد صحاح ستّہ اور دیگر کتب حدیث کا ذاتی شوق سے مطالعہ کیا اور آخر دم تک ایک طالب علم ہی رہے۔ کتب حدیث کا ایک بہت عمدہ اور قیمتی ذخیرہ انہوں نے ایک زرکثیر سے اپنی لائبریری میں جمع کیا جس میں بہت مفید نایاب کتب موجود ہیں اور اس لحاظ سے ان کی ذاتی لائبریری بے نظیر اور اپنی مثال آپ ہے۔ علم حدیث سے اتنا شغف تھا کہ اس کے دیگر موضوعات علم الرّجال اور علمِ اصولِ حدیث پر بھی دستیاب کتب اپنے پاس جمع کررکھی تھیں اور ان کا گہرا مطالعہ فرماکر یہ امور زیر بحث لاتے رہتے تھے۔

1980ء میں جامعہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد خاکسار کے سپرد بھی علم حدیث میں تخصّص کی ذمہ داری ہوئی۔ اسی زمانہ میں محترم میاں صاحب سے تعارف اور رابطہ بڑھا، جو علم حدیث سے ان کی محبت کے باعث بے تکلّف دوستی میں بدل گیا پھر یہ عاجز آپ کے بے پایاں احسانات کا ہمیشہ مرہون منت رہا۔ سالہا سال حدیث کے موضوع پرروزانہ قریباً ایک گھنٹہ تک ہماری علمی کلاس ہوتی رہی۔

جس میں مشکل مقامات حدیث حل کرنے اور مختلف کتب کے مطالعہ کا دور اور تبادلہ خیال کا موقع ملتا تھا۔ حدیث وسیرت کے مطالعہ کے علاوہ حصول وخرید کتب میں بھی ہماری مسابقت کی ایک دوڑ ہمیشہ رہتی تھی۔ خاکسار کو کچھ عرصہ آپ سے انگریزی پڑھنے کا موقع بھی ملا۔

تراجم صحاح ستّہ کے سلسلہ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نور فاؤنڈیشن کا بورڈ بنایا تو اس میں محترم میاں صاحب کو بھی ممبر مقرر فرمایا۔ میاں صاحب موصوف نے باوجود اپنے دفتری کاموں کے ازخود ذاتی طور پر مسند احمد بن حنبل کے اردو ترجمہ کا سب سے مشکل اور طویل کام اپنے ذمہ لے لیا اور پھر دیگر مصروفیات اور خرابی صحت کے باوجود اسے مسلسل جاری رکھا اور ایک حصہ کا ترجمہ جو سینکڑوں احادیث پر مشتمل ہے آپ نے مکمل بھی کرلیاتھا۔ آپ کی یہ خدمت بھی یادگار رہے گی۔

یہی حال کتب حضرت مسیح موعودؑ کے انگریزی ترجمہ کے لئے آپ کی محنت کا تھا۔ جس کے لئے آپ بیماری میں آخری دم تک خدمت بجالانے کی توفیق پاتے رہے۔

آپ کی محبت حدیث کا ایک خوبصورت نظارہ رمضان المبارک میں آپ کے درسِ حدیث سے ہوتاتھا۔ بڑے اہتمام اور محنت سے آپ یہ درس تیار کرتے جو بالعموم سیرت رسولؐ کے مختلف موضوعات پر ہوتا تھا اور اس میں نادر اور قیمتی مواد جمع کرکے پیش فرماتے تھے۔ آواز میں بھی ایک خاص سوزوگداز تھا۔ آپ ایسے خاص جذبہ عشق اور دلنشین اندا زسے درس دیتے کہ انسان کچھ لمحات کے لئے اپنے آپ کو قرونِ اولیٰ کے دور میں محسوس کرتا۔ ان درس احادیث کا ایک حصہ افادہ عام کے لئے ماہنامہ انصاراللہ کی زینت بھی بن چکاہے۔

جلسہ سالانہ ربوہ میں بھی آپ کو کئی سال تک تقاریر کی سعادت ملی۔ آپ کے علمی ذوق کے باعث اکثر وبیشتر ہر ملاقات اور نشست میں کسی نہ کسی موضوع پر علمی گفتگو یابحث کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ خلافت احمدیہ کے فدائی اور شیدائی تھے۔ گزشتہ سالوں میں جلسہ برطانیہ پر جاتے ہوئے بطور خاص تاکید کرتے کہ حضور کی خدمت میں میرانام لے کر محبت بھرا سلام عرض کرنا جس کی سعادت ملتی رہی۔

اس عاجز پر آپ کے بہت احسان ہیں۔ کئی کتب اور بعض تبرّک حضرت مسیح موعودؑ بھی تحفہ عطا فرمائے۔ ایک عرصہ تک بڑی مستقل مزاجی سے نظارت اصلاح وارشادمقامی کی گاڑی میں اس عاجز کو نماز جمعہ کے لئے جامعہ کے کوارٹر سے بیت الاقصیٰ لے کے جاتے رہے۔

آپ کے تعلق باللہ کا اندازہ خدا تعالیٰ کے حضور آپ کی ایک دعا اور مناجات سے ہوسکتا ہے جو آپ نے اپنے قلم سے لکھ کر اس عاجز کو بھی عطا کی:
’’تیرا نابکار بندہ جس کا نام انس احمد ہے اور جس پر تیرے اس قدر infinte احسانات ہیں کہ نہ ان کا شمار کیا جاسکتا ہے نہ ان کا شکر ادا کیا جاسکتا ہے لیکن وہ اس قدر ناشکرا اور پُر از گناہ ہے کہ اس کے گناہ تیری رحمت کی حدود سے باہر نکل گئے ہیں اس قدر گناہ گار ہے کہ آدم سے لے کر قیامت تک ایسا گناہ گار پیدا نہیں ہوگا۔ اگر اس پر تو نے فضل نہ کیا تو وہ مارا جائے گا اور تجھے منہ دکھانے کے قابل نہ رہے گا۔ اب سوائے تیرے دروازہ کہ اس پر ہر دروازہ بند ہے۔ وہ تیرے اور تیرے محمدﷺ اور تیرے مسیح کے دیدار کا مشتاق ہے۔ لیکن اندھیرا نور سے نہیں مل سکتا اور اس کے اندھیروں کو تو نے خود قرآن میں سورة نور میں بیان فرمایا ہے۔ سو اس کی امید عبث ہے۔ اگر تو اس کی ہلاکت چاہتا ہے تو وہ تیرا بندہ ہے اور اگر تو اس کو بچانا چاہتا ہے تو تو بہت غفور و رحیم ہے۔

سو نہ اس کو آزمانا، نہ اس کو اس حالت میں چھوڑنا۔ میرے آقا حضرت احدیت کا ’’کُنْ‘‘ اس کو آباد کرسکتا ہے اگر یہ ’’کُنْ‘‘ نہ ہوتو وہ بدبخت مارا جائے گا۔ سو رحم کر رحم کر رحم کر۔

تو یہ فضل بھی کر کہ اس کی دعاءِ خاص کو قبول کرلے اور اس کی سب دعاؤں کو قبول کرلے۔‘‘

حضرت مرزا انس احمد مرحوم سے بعض دفعہ اختلاف رائے بھی ہوا لیکن آپ نے ہمیشہ محبت کا سلوک فرمایا۔ آپ کے دل میں اس عاجز کے لیے جو ہمدردی تھی اس کا اندازہ آپ کے اس مکتوب سے خوب ہوتا ہے جو خلافت رابعہ کے زمانہ میں آپ نے اس عاجز کو تحریر فرمایا:
’’مجھے تو آپ سے کبھی ایک لمحہ کے لیے بھی بغض اور کینہ پیدا نہیں ہوا اور الحمدللّٰہ کہ اللہ نے میرے دل کو ایسے منفی جذبات سے ہمیشہ پاک و صاف رکھا ہے اور حضرت احدیت سے امید کرتا ہوں کہ وہ آئندہ بھی اپنے اور فضلوں کے ساتھ اس رنگ میں بھی مدد فرماتا رہے گا۔ پہلے محض للہ آپ سے انتہائی محبت تھی۔ جس کے آپ ہی نہیں ایک دنیا گواہ تھی اور ہے۔ ۔ ۔ کچھ عرصہ قبل نماز پڑھتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ اللہ نے تو اس لیے پیدا کیا ہے کہ ہمارا وجود ایک عالم میں مٹھاس اور حسن پیدا کرنے والا ہو نہ کہ مُرِیّت اور بد صورتی۔

شاید اسی خیال نے نفس کے اندر کچھ انقلاب پیدا کیا۔ بہرحال اب وہ برزخ کا زمانہ کالعدم ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی عفو میں اور اپنی عنایتوں کی چادر میں ڈھانپے رکھے۔ آمین

۔ ۔ ۔ میں تو اپنی زندگی کا آخری over کھیل رہا ہوں کسی لمحہ بھی مولا کریم کا بلاوا آسکتا ہے۔ یہ سب کچھ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی کی توجہ سے آپ کو حدیث کے لیے تیار کیا گیا اور اللہ کے فضل سے حضرت خلیفة المسیح الرابع کی توجہ آپ پر ہےاور حضور کو آپ پر بہت حسن ظن ہے اور بجا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ان پر دو خلفاء کی توجہ اور دعاؤں کے نتیجہ میں آپ کے اندر اللہ کے فضل سے یہ اہلیت موجود ہے کہ اگر چاہیں اور محنت کریں تو حدیث کے میدان میں جو کمی ہے وہ بہت حد تک پوری ہوسکتی ہے لیکن آپ جانتے ہیں کہ یہ انتہائی لگن، انتھک محنت، پتہ مارنے اور دعاؤں کے ساتھ ہی ہوسکتا ہے۔ کیا یہ امید کرسکتا ہوں کہ آپ اس ذمہ داری کو اٹھانے کے لیے پہلے نیت کریں گے اور پھر اللہ کا نام لے کر اس راستہ پر چل پڑیں گے؟ اس راہ کے کیا تقاضے ہیں؟ یہ راہ کتنی مشکل ہے اور آنحضرتﷺ پر فداہ امی و ابی کے حوالے سے یہ ذمہ داری کیسے اخلاص اور دیانت اور محنت کو چاہتی ہے۔ ان سب باتوں کا آپکو علم ہے۔ مجھے بتانے کی ضرورت نہیں۔

آخر میں پہیلی کے طور پر ایک سوال کا جواب چاہتا ہوں۔ کیا کوئی ایسی بات ہے جس کا امر خدا کی طرف سے ہو اور ہم حق بجانب ہوں کہ انکار کریں کہ یااللہ! یہ تیری بات نہیں مانیں گے۔ اگر ہے تو کونسی ہے؟

اللہ کے فضل سے اور محض اس کے فضل سے جو دعاؤں کی توفیق ملتی ہے ان میں مجھے سب سے پیاری دو دعائیں لگتی ہیں۔ ایک یہ کہ ’’یا اللہ! ہر وہ خیر جو حضرت محمد ﷺ نے اور حضرت مسیح موعودؑ نے تجھ سے مانگی وہ ہم عاجز بندوں کو بھی عطا کردے اور ہر وہ شر جس سے تیرے رسول ﷺ اور تیرے مہدی علیہ السلام نے پناہ مانگی ان سے ہمیں بھی پناہ عطا کر۔‘‘

اوردوسری یہ کہ ’’یا اللہ!ساری دنیا کی نظروں سے اپنے وجود میں پوشیدہ کر لے اور بس میری اور تیری ایک دنیا ہو۔ تو جانتا ہے کہ میری اصل دعا اور اصل خواہش یہی ہے کہ تو مل جائے کہ تو ہی سچ ہے اور باقی سب جھوٹ۔‘‘

ان سطور سے جہاں حضرت میاں صاحب کے قلب صافی، تعلق باللہ اور محبت رسولؐ کی اندرونی کیفیت ظاہر ہوتی ہے وہاں جماعت کی ضروریات اور ترقی کے لیے درد کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔

آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے نیک اور برگزیدہ وجود ہماری جماعت میں پیدا فرماتا رہے جو سلسلہ کا درد رکھنے والے اور خلافت احمدیہ کے فدائی ہوں اور حضرت میاں صاحب کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔ آمین

(علامہ ایچ ایم طارق)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 اکتوبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ