• 5 مئی, 2024

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے (قسط 66)

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے
ذاتی تجربات کی روشنی میں
قسط 66

پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 3 جون 2011ء میں صفحہ 13 پر خاکسار کی تصویر کے ساتھ خاکسار کا یہی مضمون ’’اسلام سے نہ بھاگو راہ ہدیٰ یہی ہے‘‘ ایک اور تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ اس تصویر میں وطن عزیز میں تباہی و بربادی دکھائی گئی ہے۔ یہ مضمون بالکل وہی ہے جس کا ذکر اوپر دوسرے اخبار کے حوالہ سے گذر چکا ہے۔

الانتشار العربی نے اپنی اشاعت 8 جون 2011ء میں صفحہ 19 پر حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العززیز کا ایک خطبہ جمعہ کا خلاصہ حضور انور کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ اس خطبہ جمعہ میں حضور انور نے نماز، دعا اور اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑنے کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے۔

حضور انور نے سورۃ التوبہ کی آیت کُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْنَ سے استدلال فرمایا کہ صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے فیض پایا اور پھر اسی فیض کو ہم تک پہنچانے کا حق ادا کیا۔

حضور انور نے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا ایک خطبہ جو آپ نے 1907ء میں ارشاد فرمایا تھا کا اقتباس بھی پڑھا کہ جس میں دعا کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ قرآن کریم کی ابتداء بھی دعا سے ہوتی ہے اور قرآن کریم کے آخر میں بھی دعائیہ سورت ہے۔ انسان کمزور ہے اور فضل الٰہی کے بغیر وہ کسی قسم کے درجات حاصل نہیں کرسکتا اور نہ اس کے بس میں ہے کہ وہ اپنی تطہیر خود کر سکے اور نہ ہی وہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر کسی قسم کی نیکی کرنے کے قابل ہے۔ اگر آپ خدا تعالیٰ کا فضل حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے بھی خدا کے حضور دعا کرنی چاہئے۔ آپ نے مزید فرمایا کہ اگر نماز میں وساوس آتے ہوں تو اس کا علاج بھی یہی ہے کہ نماز پڑھتے جائیں اور خدا کے حضور دعا کرتے رہیں کہ وہ اس سے بچائے۔

انسان زبان سے تو اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ پڑھتا رہتا ہے لیکن اس کا دل دنیا کے ہموم و غموم میں مشغول رہتا ہے اس کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ خدا تعالیٰ ہی سے دعا کرے اور دعا کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ سوزو گداز سے کرے۔ آپؐ نے فرمایا: اَلصَّلوٰۃ ھِیَ الدُّعَا کہ نماز ہی دعا بھی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق تھا کہ جب بھی کوئی حاجت درپیش ہوتی یا کوئی تکلیف ہوتی یا کسی مصیبت کا سامنا ہوتا تو آپ فوراً نماز میں کھڑے ہوجاتے۔ انسان کو چاہئے کہ وہ عبد کامل بن کر خدا کے حضور گریہ و زاری کرے تب اس کی مشکلات کا حل ہوجاتا ہے۔

دعا کی اجابت کے لئے استقامت بھی شرط ہے۔ یعنی یہ کہ دعا سے اکتا نہ جائے بلکہ کرتا ہی چلا جائے۔ کیوں کہ استجابت کے لئے استقامت شرط ہے۔ حضور نے قرآن کریم کی اس آیت سے بھی استدلال فرمایا فَوَیۡلٌ لِّلۡمُصَلِّیۡنَ کہ بعض نمازیوں کے لئے ہلاکت ہے۔ جو کہ اپنی نماز سے غافل ہیں۔ بعض لوگ نصیحت ایک کان سے سنتے ہیں تو دوسرے کان سے نکال دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تو بے نیاز ہے وہ کسی کی پرواہ نہیں کرتا۔ انسان کو دیکھو کہ جب اس کی بیوی یا بچہ بیمار ہوجائے تو پھر کس قدر قلق اور پریشانی کا اظہار کرتا ہے۔ اسی طرح خدا تعالیٰ کے حضور اضطراب سے دعائیں کرنی چاہئے کیوں کہ قبولیت دعا کے لئے اضطراب بھی شرط ہے۔

اس ضمن میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الکہف کی آیت فَمَنۡ کَانَ یَرۡجُوۡا لِقَآءَ رَبِّہٖ فَلۡیَعۡمَلۡ عَمَلًا صَالِحًا وَّلَا یُشۡرِکۡ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖۤ اَحَدًا بھی تلاوت کی اور اس کی تشریح بھی فرمائی۔

نیویارک عوام نے اپنی اشاعت 10 جون تا 16 جون 2011ء میں صفحہ 12 پر خاکسار کا مضمون بعنوان ’’لغو اور فالتو کاموں سے پرہیز‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ یہ مضمون کچھ اس طرح ہے:
’’میں نے کسی کتاب میں ایک واقعہ پڑھا تو خیال آیا کہ آپ کو بھی میں یہ واقعہ سناؤں۔ کہتے ہیں کہ اٹلی کے ایک باشندہ نے امریکہ میں آئس کریم بیچنے کا پیشہ اختیار کیا۔ کچھ دنوں بعد اس شخص نے حکومت امریکہ کو امریکہ کی شہریت اختیار کرنے کی درخواست بھی دی جو منظور کر لی گئی جب اسے انٹرویو کے لئے بلایا گیا تو اس سے چند سوالات پوچھے گئے۔ اس نے سب سوالوں کے ٹھیک ٹھیک جواب دیے۔ آخر میں اس سے جب یہ سوال پوچھا گیا کہ تم امریکہ کی شہریت اختیار کرنے کے بعد یہاں کے صدر بننے کی خواہش بھی کرو گے؟ تو اٹلی کے باشندے نے جواب دیا۔ جی نہیں۔ کیوں کہ میں آج کل آئس کریم بیچنے میں اتنا مصروف ہوں کہ میرے پاس فالتو کاموں کے لئے ایک منٹ بھی نہیں ہے۔‘‘

اسے ایک حقیقت سمجھ لیں۔ مفروضہ سمجھ لیں۔ میرا مقصد اس واقعہ کو بیان کرنے سے امریکہ کی سیاست میں دخل اندازی نہیں ہے اور نہ ہی کسی سے یہ کہہ رہا ہوں کہ آپ ضرور امریکہ کے صدر بننے کی خواہش کریں۔ میں نے جو عنوان باندھا ہے کہ لغو اور فالتو کاموں سے پرہیز کریں۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ آپ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کی طرف توجہ دلاؤں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے انسان کو دو نعمتیں ایسی عطا کی ہیں کہ وہ ان کے بارے میں ناشکری، ناقدری اور تغافل برتتا ہے ان میں سے ایک صحت ہے دوسرے فارغ اوقات (یعنی فراغت کے لمحے) صحت کے دنوں میں عبادت سے کتراتا ہے اور جب انسان قوی ہو صحت مند ہو تو عبادت بہتر رنگ میں بجا لا سکتا ہے۔ اسی وجہ سے ایک اور حدیث میں یوں فرمایا ہے کہ سات7 ایسے اشخاص ہیں کہ قیامت کے دن ان پر سوائے میری رحمت کے اور کوئی سایہ نہ ہوگا اور ان سات میں سے ایک وہ جوان جس نے اپنی جوانی عبادت الٰہی میں گزاری۔

اصل عبادت جوانی کے ایام میں ہی ہوتی ہے۔ جب انسان ریٹائر ہوجائے، بوڑھا ہوجائے کچھ کرنے کے قابل نہ رہے تو عبادت بھی صحیح رنگ میں نہیں ہوسکتی۔ پس نوجوانوں سے ایک بات تو یہ کہنی ہے کہ ان ایام کو غنیمت جانو اپنی صحت کا خیال رکھو اور خدا کی عبادت بجا لاؤ۔ جس میں نماز اول ہے۔ بلا ناغہ 5 وقت کی نمازیں اپنے وقت پر پڑھنے کی کوشش کرو اور اگر تہجد بھی پڑھو تو پھر تو بہت ہی خوب اور اچھا ہوگا۔

قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان قَدۡ اَفۡلَحَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ۙ﴿۲﴾ الَّذِیۡنَ ہُمۡ فِیۡ صَلَاتِہِمۡ خٰشِعُوۡنَ ۙ﴿۳﴾ کامل مومن اپنی مراد کو پہنچ گئے جو اپنی نمازوں میں عاجزانہ رویہ اختیار کرتے ہیں اور لغو باتوں سے اعراض کرتے ہیں۔

سورہ مومنون کی آیات میں مومنوں کی چند خصوصیات بیان کی گئی ہیں۔ اوّل نماز عاجزی اور خشوع و خضوع سے، دوسرے لغو کاموں سے پرہیز، لغو کام کیا ہیں اس کی تفصیل میں جانا تو اس وقت ممکن نہیں صرف چند باتیں گنوائی جاسکتی ہیں۔ مثلاً شطرنج، تاش کھیلنا، فضول گپیں ہانکنا، مجلسیں لگائے رکھنا، بے کار زندگی بسر کرنا۔ فارغ اوقات TV کے آگے گزارنا۔ ہر وقت گیمز ہی دیکھتے رہنا اور وقت ضائع کرنا۔ بعض بچے تو گھنٹوں TV دیکھتے رہتے ہیں اور پھر اس سے اور قسم کی برائیاں بھی معاشرہ میں جنم پارہی ہیں۔ پھر شادی بیان کے مواقع خوشی کے ہوتے ہیں ایسے موقعوں پر فضول خرچی سے کام لیا جاتا ہے حالانکہ سادگی سے بھی وہی کام کیے جاسکتے ہیں۔

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد (خلیفۃ المسیح الثانیؓ) نے ان مندرجہ بالا آیات کی تشرح بھی فرمائی ہے جو پڑھنی چاہئے۔ اس میں آپ نے نصیحتًا فرمایا کہ وہ تمام ایسے کاموں سے بچیں گے جن سے ان کی ذات یا قوم یا ملک کو کوئی فائدہ نہ پہنچتا ہو اور وہ اپنے ملک اور قوم کی ترقی کے لئے ہر قسم کی قربانیاں کرنے کو تیار رہیں گے۔ اس ضمن میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ مرد ریشم اور سونا نہ پہنیں اور اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے اور چاندی کے برتن استعمال کرنے سے بھی منع فرمایا ہے۔ پھر زیورات پر زیادہ خرچ بھی نہ کرنا چاہئے۔ جس سے تفاخر کی روح کو ختم کرنا مراد ہے۔ پھر آج کل سینما اور تھیٹر سے وقت کا ضیاع ہو رہا ہے۔ مومن صرف لغو کاموں ہی سے نہیں بلکہ لغو خیالات سے بھی بچتے ہیں۔

ہمارے موجودہ امام حضرت مرزا مسرور احمد (خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز) نے بھی متعدد مواقع پر اپنے خطبات میں لغو کاموں اور فضول خرچی سے منع فرمایا ہے۔ ایک دفعہ آپ نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں اس حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھی توجہ دلائی جس میں آپؐ نے فرمایا ہے کہ اخراجات میں میانہ روی اور اعتدال نصف معیشت ہے اور لوگوں سے محبت سے پیش آنا نصف عقل اور سوال کو بہتر رنگ میں پیش کرنا نصف علم ہے۔

آپ نے اس حدیث کو بھی بیان فرمایا کہ ’’جس شخص نے دلی اطمینان اور جسمانی صحت کے ساتھ صبح کی اور اس کے پاس ایک دن کی خوارک ہے اس نے گویا ساری دنیا جیت لی اور اس کی ساری نعمتیں اسے مل گئیں۔‘‘

پس صحت کے ایام سے فائدہ اٹھائیں اور فارغ اوقات سے بھی۔ اللہ تعالیٰ توفیق دے۔

انڈیا پوسٹ نے اپنی اشاعت 10 جون 2011ء میں صفحہ 18 پر 4 تصاویر کے ساتھ ہمارے ’’خلافت ڈے‘‘ کے پروگرام کی خبر شائع کی ہے۔ ایک تصویر میں مکرم عبدالرحیم صاحب حبس (امریکن احمدی) تقریر کر رہے ہیں۔ ایک تصویر میں ایک نوجوان تقریر کر رہے ہیں ایک تصویر سامعین کی ہے اور ایک تصویر خاکسار کی تقریر کرتے ہوئے۔

خبر کا متن یہ ہے۔ جنوبی کیلی فورنیا میں احمدیہ مسلم جماعت کے افراد مسجد بیت الحمید میں اکٹھے ہو کر اپنا خلافت ڈے منا رہے ہیں۔ جماعت احمدیہ میں گذشتہ 103 سال سے خلافت احمدیہ جاری ہے۔ تلاوت قرآن کریم اور نظم کے بعد مختلف مقررین نے ’’خلافت‘‘ کے زیر عنوان تقاریر کیں جس میں خلافت کی ضرورت، خلافت کے ذریعہ اتحاد، خلافت کامیابی کا ذریعہ، اختتامی تقریر امام شمشاد ناصر نے کی۔ جماعت احمدیہ جس میں یہ نظام خلافت جاری ہے۔ دنیا کے 190 ممالک میں ’’خلافت ڈے‘‘ مناتے ہیں۔ جماعت احمدیہ کے موجودہ امام حضرت مرزا مسرور احمد ہیں جو ان کے پانچویں خلیفہ ہیں۔ آپ اپریل 2003ء میں خلیفہ بنے تھے۔ آپ سے پہلے حضرت مرزا طاہر احمدخلیفہ تھے جو 1982-2003ء تک خلیفہ رہے۔

اخبار لکھتا ہے کہ آج کل ’’خلیفہ‘‘ کا لفظ غیر مسلم دنیا کو بہت پریشان کر رہا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض سیاسی گروہ اس لفظ سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اسلام اور خلافت کی شکل بگاڑ کر پیش کی ہے۔ اسلام تو جبر کی تعلیم بالکل نہیں دیتا۔

جماعت احمدیہ کا عقیدہ ہے کہ ان کے بانی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام وہ مسیح موعود ہیں جن کے آنے کی خبر پہلے سے الہامی کتب میں موجود ہے۔ ان کا ایک ٹائیٹل امام مہدی کا بھی ہے۔ ان کی وفات پر جماعت کے پہلے خلیفہ (حضرت) حکیم مولانا نور الدین (رضی اللہ عنہ) منتخب ہوئے اور اس وقت سے لے کر اب تک جماعت میں خلافت کا نظام رائج ہے۔ یہ جماعت انڈیا سے شروع ہوئی اور اس جماعت کی بنیاد 1889ء میں 40 لوگوں کی شمولیت سے رکھی گئی اور آج جماعت احمدیہ دنیا کے 198 ممالک میں ہے۔

امام شمشاد ناصر نے پروگرام کے آخر میں تقریر میں کہا کہ یہ روحانی نظام جس کا وعدہ خدا تعالیٰ نے کیا ہے خلافت کی صورت میں جماعت احمدیہ میں رائج ہے۔ خلافت کی وجہ سے جماعت احمدیہ ہر جگہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ترقی کر رہی ہے اور مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جا رہی ہے۔ باوجود اس کے کہ جماعت احمدیہ کا بعض مسلمان فرقوں سے اختلاف ہے۔

اخبار نے لکھا کہ احمدیوں کے ساتھ امتیازی سلوک بھی ہوتا دیکھا جاتا ہے اور گذشتہ سال مئی کے مہینہ میں جماعت احمدیہ کی دو بڑی مساجد جو لاہور پاکستان میں واقع ہیں ان پر جمعہ کے دن گرنیڈ سے حملہ کیا جس میں 86 سے زائد احمدی احباب موقع پر ہی مارے گئے اور ایک سو سے زائد اشخاص زخمی بھی ہوئے۔

پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 10 جون 2011ء میں صفحہ 13 پر خاکسار کا مضمون بعنوان ’’لغو اور فالتو کاموں سے پرہیز‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ مضمون کا خلاصہ اس سے قبل دوسرے اخبار کے حوالہ سے دیا جاچکا ہے۔

الاخبار نے اپنی اشاعت 16 جون 2011ء میں صفحہ 16 پر عربی سیکشن میں حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا ایک خطبہ جمعہ کا خلاصہ بعنوان ’’نماز، دعا اور اللہ تعالیٰ سے تعلق‘‘ پر شائع کیا۔ یہ خطبہ اس سے قبل الانتشار العربی کے حوالہ سے پہلے گذر چکا ہے۔

نیویارک عوام نے اپنی اشاعت 17تا 23 جون 2011ء میں صفحہ 12 پر خاکسار کا ایک مضمون بعنوان ’’اسلام سے نہ بھاگو راہ ہدیٰ یہی ہے‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔

اس مضمون کی ابتداء میں لکھا گیا ہے کہ اس مضمون میں گزشتہ ہفتہ کی دو خبروں پر تبصرہ کرنااور صحیح حقیقت سے روشناس کرانا ہے۔

روزنامہ امت کراچی کی 28 مئی کی ایک خبر بعنوان ’’قادیانیوں سے متعلق بند کمرہ اجلاس کی کارروائی 36 برس بعدمنظر عام پر لانے کا فیصلہ۔‘‘ بعض اور اخبارات میں بھی یہ خبر شائع ہوئی ہے۔ ہم اس بات پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں کہ چلو 36 سال بعد ہی منظر عام پر تو لائیں۔ لیکن ہمیں خطرہ ہے کہ اتنے عرصہ میں منظر عام پر لاتے ہوئے خدا نہ کرے اس کو ایڈٹ کر کے اور ردو بدل کر کے نہ پیش کیا جائے۔ کیوں کہ ہم نے ایسے ہوتا دیکھا ہے جو لوگ 1974ء کی قومی اسمبلی کی کارروائی میں موجود نہ تھے انہوں نے قومی اسمبلی کی کارروائی کے عنوان سے خود ہی باتیں گھڑی تھیں اور پھر کتابی صورت میں شائع کر کے عوام کو دھوکہ بھی دیا تھا گویا یہ وہی کارروائی ہے جو اسمبلی میں ہوئی تھی۔

(مولانا سید شمشاد احمد ناصر۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 اکتوبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ