• 26 اپریل, 2024

حضرت سید محمد اشرف صاحب رضی اللہ عنہ راہوں ضلع جالندھر

حضرت سید محمد اشرف صاحب رضی اللہ عنہ ولدحضرت سید علی محمد شاہ صاحب راہوں ضلع جالندھر کے رہنے والے تھے۔آپ محکمہ تعلیم میں ہیڈ کلرک تھے اوراس ملازمت کے سلسلے میں لاہور، جالندھر، ملتان وغیرہ مختلف جگہوں پر متعین رہے۔ آپ کے خاندان میں سب سے پہلے آپ کے چھوٹے بھائی حضرت ڈاکٹر سید غلام دستگیر صاحب رضی اللہ عنہ (وصیت نمبر 238۔ وفات: 13؍دسمبر 1918ء مدفون کلکتہ) نے احمدیت قبول کی۔ حضرت سید محمد اشرف صاحب گوکہ پہلے احمدیت کے مخالف رہے لیکن جلد انہوں نے بھی بیعت کر لی اور سلسلہ احمدیہ کے ایک مخلص وجود ثابت ہوئے۔ ساری زندگی اخلاص و وفا کا عمدہ نمونہ پیش کیا۔

حضرت سید محمد اشرف صاحب رضی اللہ عنہ کی بیان فرمودہ مختصر روایات ’’رجسٹر روایات صحابہ‘‘ نمبر 9 میں درج ہیں۔ اسی مأخذ سے محترم شیخ عبدالقادر صاحب سابق سوداگر مل نے ’’تاریخ احمدیت لاہور‘‘ میں بھی ان روایات کو نقل کیا ہے۔ آپ بیان کرتے ہیں:
(1) جب میں 1903ء میں گیا تو اس وقت میں اور حکیم غلام نبی زبدۃ الحکماء لاہور حضرت خلیفہ اوّلؓ کے مہمان تھے۔ حضرت خلیفہ اوّلؓ نے ہمارا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تعارف کرایا۔ ان دنوں حضرت مسیح موعود ؑکوئی کتاب لکھ رہے تھے جس کا حضور نے ذکر کیا۔ حکیم غلام نبی صاحب کہنے لگے کہ اگر آپ اجازت دیں تو میں یہ کتاب چھپوا کر لوگوں میں مفت تقسیم کروں ؟مگر حضرت صاحب نے فرمایا : نہیں ہماری جماعت ہی یہ کام کرے گی۔

(2) بیعت کرنے کے بعد میں اکثر قادیان جایا کرتا تھا۔ ایک دفعہ میں اور خواجہ کمال الدین صاحب مرحوم قادیان گئے۔ رات کے گیارہ بج چکے تھے۔ میں نے اور انہوں نے حضرت صاحبؑ کو اطلاع کرائی۔ حضورؑ نے ہمیں اسی وقت اپنے کمرہ میں بلا لیا ۔ وہاں دو پلنگ پڑے تھے جن پر بستر بچھے ہوئے تھے۔ وہ دونوں پلنگ ہم دونوں کے لئے خالی کر دئیے اور آپ دوسرے کمرہ میں تشریف لے گئے۔ خواجہ صاحب نے کہا کہ آج ہم اتفاق سے یہاں سوئے ہوئے ہیں۔ یہ کمرہ بیت الدعا کا ہے۔ بہتر ہے کہ آج صبح تہجد میں اٹھ کر دعا کریں۔ میں تہجد میں اٹھا اور دعا کی۔ اس کے بعد اذان ہو گئی۔ ہم نے مسجد میں باجماعت نماز پڑھی۔ میں رات کی کم خوابی کی وجہ سے پھر لیٹ گیا اور مجھے پھر نیند آگئی۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعودؑ میرے پاس تشریف لائے ہیں اور حضورؑ نے کچھ بات کہی ہے مگرمیں اسے نہیں سمجھا۔ آپ نے مجھ سے پوچھا کہ کیا آپ میری بات سمجھ گئے؟ میں نے کہا ،نہیں۔ پاس حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کھڑے تھے۔ آپ نے ان کو فرمایا:مولوی صاحب آپ سمجھ گئے ہوں گے۔ انہوں نے فرمایا کہ ہاں۔ اس کے بعد حضورؑ نے کچھ مٹھائی جلیبی کی قسم کی، مجھے کھانے کو دی۔ میں نے یہ خواب خواجہ صاحب کو سنایا مگر آپ نے کہا کہ اس کی تعبیر حضرت مسیح موعودؑسے ہی پوچھیں۔ اس کے بعد حضرت صاحب تشریف لائے۔ اندر سے ہی ہمارے لئے چائے لائے اور لنگر سے بھی منگوائی۔ چائے پی لینے کے بعد میں نے خواب سنایا تو حضورؓ نے فرمایا کہ آپ کو ترقی ملے گی۔ اس خواب کی یہ تعبیر ہے۔

جب میں قادیان سے واپس لاہور آیا تو میرے دفتر کے ایک ہندو افسر نے کہا کہ شاہ صاحب! مبارک ہو کہ افسر نے آپ کی ترقی کی سفارش کی ہے۔ میں نے کہا کہ یہ تو مجھے تین رو زسے معلوم ہے۔ اس نے کہا کہ یہ کیسے؟ میں نے کہا کہ میں نے قادیان میں خواب دیکھا ہے اور وہ خواب اس کو سنایا اور حضرت کی فرمودہ تعبیر بھی سنائی۔ وہ کہنے لگا کہ آپ کو مرزا صاحب کے کہنے پر اتنا اعتبار ہے؟ میں نے کہا ہاں۔ اس نے کہا کہ اگرآپ اجازت دیں تو میں دوسرے آدمی کی ترقی کے لئے کوشش کروں۔ میں نے کہا کہ ہاں! بے شک کریں۔ غرضیکہ اس نے بڑی کوشش کی مگر آخر کار ترقی مجھے ہی ملی اور وہ ہندو مان گیا۔

اس کے علاوہ مَیں صدر انجمن احمدیہ کا آڈیٹر مقرر ہو گیا اور یہ کام میں دو سال تک کرتا رہا۔…..

بٹالہ کے سٹیشن پر اکثر مولوی محمد حسین بٹالوی مل جاتا تھا کیونکہ وہ میرا پرانا واقف تھا۔ سلسلہ کے متعلق اس سے باتیں ہوتی تھیں اور جب میں وہ باتیں قادیان پہنچ کر حضرت صاحبؑ کو سنایا کرتا تھا تو حضورؑ بہت خوش ہوتے تھے اور اکثر سیر میں میرے ساتھ ہی باتیں کرتے رہتے تھے۔ بلکہ ایک دفعہ مجھے مولوی محمد علی صاحب نے کہا کہ اور لوگ بھی حضرت مسیح موعودؑ سے باتیں کرنے آتے ہیں مگر آپ کسی کو وقت نہیں دیتے۔ میں نے کہا کہ میں ان لوگوں کو نہیں روکتا، جو آگے آئے، باتیں کرے۔ سیر میں اکثر جس جگہ حضور کا دل چاہتا تھا، زمین پر بیٹھ جاتے تھے۔ اگر خادم کوئی کپڑا بچھانا چاہیں تو بعض اوقات اسے منظور نہیں کرتے تھے۔ سیر اکثر ریتی چھلے کی طرف یا جس طرف حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی کوٹھی ہے، جایا کرتے تھے۔….

میں صبح کو اپنے مکان کوچہ کندی گراں لاہور میں بیٹھا تھاکہ حافظ محمد حسین ڈنگوی جو کہ حضرت مسیح موعودؑ کے پرانے خدام میں سے تھے، فوت ہو چکے تھے اور ان کی بیوی جو کہ نابینا تھی، ہمارے مکان پر آئی کہ میرے بچے کے لئے دوائی لا دو۔ کیونکہ میں ڈاکٹر محمد حسین صاحب کے مکان پر گئی تھی اور میں نے سنا ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ سخت بیمار ہیں۔ اس لئے وہ (یعنی ڈاکٹرصاحب) کہتے ہیں کہ مجھے فرصت نہیں۔ میں اس کی دوائی کا انتظام کرنے کے بعد احمدیہ بلڈنگ کو بھاگا ۔ وہاں جب پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ سڑک پر بڑی مخلوق اکٹھی ہے اور سیڑھیوں پر ایک پٹھان سونٹا لئے بیٹھے ہیں اور کسی کو جانے نہیں دیتے۔ میں وہاں کھڑا جانے کے لئے اصرار کر رہا تھا کہ ڈاکٹر محمد حسین مرحوم نے مجھے دیکھ لیا اور اس نے اندر آنے کی اجازت دی۔ میں جا کر حضورؑ کے پلنگ پر بیٹھ گیا اور آپ کو دبانا شروع کیا کہ صبح آٹھ بجے کا وقت تھا۔ مفتی محمد صادق، مولوی صدرالدین اور ایک اور پٹھان اور میں، چاروں آدمی آپ کی ٹانگیں دبا رہے تھے اور آپ کا رنگ کبھی سرخ ہو جاتا تھا اور کبھی زرد۔ کوئی آدھ گھنٹہ کے بعد سول سرجن لاہور آپ کو دیکھنے کے لئے آگیا اور ہم دوسرے کمرہ میں چلے گئے۔ اس کے بعد مستورات آگئیں۔ اس کے تھوڑا عرصہ بعد حضورؑ کا وصال ہو گیا۔ میں وہاں سے سیدھا اپنے افسر کی کوٹھی پر گیا اور اس سے دو روز کی چھٹی لے کر جنازہ کے ساتھ روانہ ہو گیا۔ رات ہم بٹالہ سٹیشن پر رہے۔ پلیٹ فارم پر دریاں بچھائی گئیں اور علی الصبح کوئی چار بجے کے قریب جنازہ لے کر وہاں سے قادیان شریف کو روانہ ہوئے۔ قادیان کے موڑ پر مولوی محمد علی صاحب، مولوی شیر علی صاحب اور بہت سے احباب استقبال کے لئے آئے ہوئے تھے پھر جنازہ باغ میں لے گئے اور وہیں جنازہ پڑھا گیا۔ حضرت خلیفہ اوّلؓ مرحوم کوسب نے اتفاق رائے سے خلیفہ تسلیم کیا۔ اس کے بعد انہوں نے جنازہ پڑھا اور جنازہ دفن کرنے کے بعد سب نے حضرت خلیفہ اوّلؓ کی بیعت کی اور ہم لاہور واپس آئے۔

(رجسٹر روایات صحابہ نمبر 9 صفحہ 305-300۔ غیر مطبوعہ)

محترم ملک صلاح الدین صاحب ایم اے حضرت ڈاکٹر عطر دین صاحب رضی اللہ عنہ کی وٹرنری کالج لاہور میں تعلیم (سال 1906ء تا 1910ء) کا حال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اس تعلیم کے دوران میں حضرت مولوی نور الدین صاحبؓ کی طرف سے پانچ روپے ماہوار وظیفہ ملتا رہا اور زائد اخراجات آپ بعض طلباء کو ٹیوشن پر تعلیم دے کر پورا کر لیتے تھے جس کا انتظام سید محمد اشرف صاحبؓ (صحابی) نے کیا تھا جو محکمہ تعلیم میں بہت ہر دلعزیز ملازم تھے۔‘‘

(اصحاب احمد جلد دہم صفحہ 3۔ حالات حضرت ڈاکٹر عطر دین صاحب رضی اللہ عنہ)

حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ اپنے ایک سفر راہوں ضلع جالندھر 1909ء کی روداد میں لکھتے ہیں:
’’اس جگہ آکر معلوم ہوا کہ بابو سید محمد اشرف صاحب جو پہلے محکمہ ڈائریکٹر صاحب صیغہ تعلیم لاہور میں کلرک تھے، اب جالندھر کے صاحب انسپکٹر صیغہ تعلیم کے دفتر کے ہیڈ کلرک ہوکر یہاں آئے ہیں۔ ضلع جالندھر کے صیغہ تعلیم کی بڑی خوش قسمتی ہے کہ ایک ایسا کارکن لائق، باخبر اور خلیق آدمی اس کے اسٹاف میں آگیا ہے۔ بابو صاحب کی ملاقات سے دل بہت خوش ہوا کیونکہ وہ ایک پُر جوش احمدی ہیں اور امید ہےکہ اُن کے یہاں رہنے سے یہاں بہت کچھ حق کی تبلیغ بے خبر لوگوں تک پہنچے گی۔ بابو صاحب موصوف ایک ملنسار اور خلیق آدمی ہیں، شہر کے رؤساء سے تھوڑے عرصہ میں ان کو واقفیت ہوگئی ہے، وہ سب کی مدد اور خدمت کے واسطے ہر وقت سرگرم رہتے ہیں۔ اگرچہ میرا قیام چودھری صاحب کے پاس ہوا اور چودھری صاحب بڑی خاطر داری سے پیش آتے رہے مگر چونکہ وہ مجرد ہیں اس واسطے ان کی تکلیف کے خیال سے بابو صاحب نے باصرار تمام میرے کھانے کا سامان اکثر اپنے ہاں ہی رکھا، اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر دیوے۔‘‘

(بدر 30 ؍ مئی 1909ء صفحہ 2 کالم 2،1)

اخبار الفضل 5؍ فروری 1916ء صفحہ 2 پر راولپنڈی سے ایک گدی نشین کے ساتھ آپ کی مفید تبلیغی گفتگو کی رپورٹ درج ہے۔ اسی طرح اخبار الفضل 14 اکتوبر 1927ء صفحہ 9 پر آپ کے اور آپ کی بیگم صاحبہ کے حصہ وصیت میں اضافہ کا ذکر موجود ہے۔ اسی طرح تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں آپ دونوں میاں بیوی کانام ’’سید محمد اشرف صاحب مرحوم (آف قادیان) اور محمدی بیگم صاحبہ (اہلیہ)‘‘ رام سوامی کراچی کے تحت درج ہے۔

آپ نے مورخہ 5؍جولائی 1952ء کوبعمر 72سال کراچی میں وفات پائی، آپ موصی (وصیت نمبر 885) تھے پہلے امانۃً کراچی میں دفن ہوئے بعد ازاں میت بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن کی گئی۔ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے خطبہ جمعہ فرمودہ 5؍ستمبر 1952ء بمقام ربوہ میں نماز جنازہ غائب کا اعلان کرتے ہوئے آپ کے متعلق بیان فرمایا:
’’سید محمد اشرف صاحب ریٹائرڈ کلرک بھی وفات پاگئے ہیں۔ مرحوم موصی تھے اس لیے کراچی میں بطور امانت دفن کیے گئے۔ ان کی طبیعت بھی تیز تھی اور قریبًا سب احمدی دوست انھیں جانتے تھے۔ ان کی عادت تھی کہ وہ ہر جگہ بول پڑتے تھے۔ اطلاع دینے والے نے تحریر کیا ہے کہ وہ پرانے احمدی تھے مگر یہ درست نہیں، وہ پرانے احمدی نہیں تھے لیکن اپنے اخلاق کی وجہ سے انھوں نے اپنی زندگی اس رنگ میں گزاری کہ پرانے احمدی بن گئے۔ ان کے بھائی ڈاکٹر غلام دستگیر صاحب ان سے پہلے کے احمدی تھے اور سید محمد اشرف صاحب اُن دنوں سخت مخالف تھے۔ ….. ہاں جب یہ احمدی ہوئے تو ان میں اتنا جوش پیدا ہوگیا کہ ہر مجلس اور ہر کام میں حصہ لیتے تھے اس لیے لوگ انھیں پرانا احمدی سمجھنے لگے۔ چند دن ہوئے ربوہ میں زمین لینے کے خیال سے آئے تھے، میں نے کہا کہ اب زمین ختم ہوگئی ہے ہاں اگر اَور زمین خریدی گئی تو آپ کو مل سکے گی۔ اس پر وہ واپس چلے گئے اور چند ہفتوں کے بعد ان کی وفات کی خبر اچانک ملی۔‘‘

(خطبات محمود جلد نمبر 33 صفحہ 276،275)

آپ کی اہلیہ حضرت سیدہ محمدی بیگم صاحبہ بھی صحابیہ تھیں اور نہایت ہی مخلص اور نیک خاتون تھیں، انھوں نے 6؍فروری 1964ء کو وفات پائی اور بوجہ موصیہ (وصیت نمبر 886) ہونے کے بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئیں۔ ان کی وفات پر آپ کی بیٹی محترمہ کلثوم آراء بیگم صاحبہ اہلیہ کرنل ستار بخش صاحب آف راولپنڈی نے اپنے ایک مضمون میں لکھا:
’’…..مرحومہ بڑی خوبیوں کی مالک تھیں، بہت نیک، دین سے محبت کرنے والی، ہمدرد اور خدا ترس تھیں……مرحومہ نماز کی بہت پابند تھیں اور نماز میں رو رو کر دعائیں کرتی تھیں اور ہر وقت ہمیں نمازوں کی تلقین کرتیں اور اتنی لمبی عمر ہونے کے باوجود کھڑے ہوکر نماز پڑھتیں۔ مرحومہ اپنے خاندان میں سب سے پہلے احمدی ہوئیں، ان کے بہن بھائیوں میں سے کوئی بھی احمدی نہ ہوا یہاں تک کہ ابا جان سے بھی پہلے انھوں نے احمدیت قبول کی اور بہت تکلیفیں اٹھائیں مگر اتنی صابر تھیں کہ کبھی زبان پر اف تک نہ لائیں۔ آپ احمدیت کی شیدائی تھیں۔ آپ چندوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتیں۔ تہجد باقاعدگی سے پڑھتی تھیں، نماز سے فارغ ہوکر نماز اشراق بھی باقاعدہ پڑھتیں۔ نمازیں اکثر مسجد میں ادا کرنے کی کوشش کرتیں اور پردے کی سختی سے پابند تھیں……. الفضل کا بڑی بے چینی سے انتظار کرتیں اور جب آ جاتا تو بڑے غور سے سنتیں اور منہ میں درود شریف پڑھتیں اور جو ساتھ بیٹھا ہو اُسے بھی تلقین کرتیں اور فرماتیں دیکھو بیٹی کبھی فارغ نہ بیٹھا کرو، منہ میں کچھ نہ کچھ پڑھتی رہا کرو اللہ تعالیٰ بہت فضل نازل فرمائے گا۔ انھوں نے اپنے نوکروں اور محلے کے بچوں کو قرآن شریف پڑھایا….‘‘

(الفضل 9؍جون 1964ء صفحہ 5)

آپؓ کی اولاد میں مکرم سید محمد احمد شاہ صاحب، مکرم سید محمد انور شاہ صاحب، محترمہ ممتاز بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم سید سردار حسین شاہ صاحب افسر تعمیرات ربوہ، محترمہ آمنہ بیگم صاحبہ اور محترمہ کلثوم آراء بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم کرنل ستار بخش ملک صاحب تھے۔

نوٹ: آپ کی تصویر آپ کے نواسے میجر ظفر محمود ملک صاحب آف ٹورانٹو نے مہیا کی ہے، فجزاہ اللہ احسن الجزاء۔

٭…٭…٭

(مرسلہ: غلام مصباح بلوچ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 نومبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 نومبر 2020