• 26 اپریل, 2024

سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے حالاتِ زندگی

تبرکات حضرت میر محمد اسحاق
سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے حالاتِ زندگی
قسط نمبر 3

پہلی وحی کے بعد کچھ عرصہ تک وحی رُکی رہی۔ پھر حضور پر یہ وحی اُتری یٰۤاَیُّھَا الْمُدَّثِّرُO قُمْ فَاَنْذِرْO وَ رَبَّکَ فَکَبِّرْO وَ ثِیَابَکَ فَطَھِّرْO وَ الرُّجْزَ فَاھْجُرْO (المدثر:6-2) یعنی (1) اے کپڑا اوڑھنے والے (2) اُٹھ اور لوگوں کو کفر اور شرک سے ڈرا۔ (3) اور اپنے رب کی بڑائی کر (4) اور اپنا ظاہر و باطن پاک رکھ (5) اور شرک و کفر کی پلیدیوں کو ملک سے دور کر دے۔ اس کے بعد وحی لگاتار جاری ہو گئی۔

انفرادی تبلیغ

پہلے پہل حضور نے بجائے عام اعلان کے اپنے ملنے والوں کو فرداً فرداً تبلیغ شروع کی۔ سب سے پہلے حضرت خدیجہ، حضرت علی، حضرت ابوبکر اور آپ کے آزاد کردہ غلام زید بن حارثہ مسلمان ہوئے۔ پھر حضرت ابوبکر کے اثر اور تبلیغ سے چند روز کے اندر ہی اندر حضرت عثمان، حضرت عبدالرحمٰن بن عوف، سعد بن ابی وقاص ، زبیر اور طلحہ نے اسلام قبول کیا اور پھر بعض غلام اور غریب اور آزاد لوگوں نے اسلام قبول کرنا شروع کیا۔

تبلیغ عام

پہلے تین سال تبلیغ انفرادی طور پر تھی۔ کفار بھی زیادہ مخالفت نہ کرتے تھے کیونکہ وہ اس نئے مذہب کو اہمیت نہ دیتے تھے اور سمجھتے تھے کہ یہ دین پھیلنے والا نہیں۔ لیکن تین سال کے بعد حضور کو الہام ہوا فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ (الحجر:95) یعنی احکام الٰہی کو خوب کھول کر ساری دنیا تک پہنچا دو۔ نیز الہام ہوا وَ اَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَO (الشعراء:215) یعنی اے نبی!اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرا اور بدانجام سے خوف دلا۔ اس پر حضور نے صفا پہاڑی پر چڑھ کر تمام قبیلوں کو عام طور پر اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو نام بنام پکارا اور جب سب جمع ہو گئے تو فرمایا کہ اگر میں تمہیں کہوں کہ اس پہاڑی کی دوسری طرف ایک لشکر جرار تم پر حملہ آور ہونے کے لئے تیار ہے تو کیا تم میری تصدیق کرو گے۔ تو انہوں نے کہا کہ یقینا۔ کیونکہ ہم نے تجھے ہمیشہ صادق القول پایا۔ اس پر حضور نے فرمایا تو سن لو کہ میں تمہیں خدا کے عذاب سے ڈراتا ہوں۔ اس پر سب نے حضور پر ہنسی اُڑائی اور حضور کو جھٹلایا اور آپ کے سگے چچا ابو لہب نے سختی سے بُرا بھلا کہا۔ اسی طرح حضور نے اپنے خاندان کے کم و بیش چالیس آدمیوں کی دعوت کی۔ مگر وہ کھانا کھا کر تبلیغ سننے سے قبل منتشر ہو گئے۔ اس کے بعد پھر دعوت کی اور کھانے سے قبل انہیں تبلیغ کی۔ مگر وہ سب ہنسی کرنے لگے۔

تکالیف کا آغاز

شروع میں حضور اور حضور کے صحابہ زید بن ارقم کے گھر جمع ہوتے اور وہاں ہی نماز پڑھتے۔ وہاں ہی مشورہ کرتے۔ آپس میں مل جل کر بیٹھتے اور اب جبکہ علی الاعلان اسلام کی تبلیغ شروع ہوئی اور لوگ بھی روز بروز اسلام میں داخل ہونے لگے تو مکہ کے کفار نے اس معاملہ کو اہمیت دینی شروع کی۔ اور لگے مسلمانوں اور حضور کو تکلیفیں دینے۔ مگر آپ کے پڑدادا ہاشم کی اولاد یعنی بنو ہاشم اور ہاشم کے بھائی مطلب کی اولاد یعنی بنو مطلب کے خاندان باوجود اس کے کہ اکثر افراد کافر تھے حضور کو دشمنوں کی شرارتوں سے بچاتے۔ بالخصوص آپ کے چچا ابو طالب ہر وقت آپ کی حفاظت میں لگے رہتے تھے۔ ہاں آپ کا سگا چچا ابولہب آپ کا سخت مخالف تھا۔ دین اسلام کی ترقی دیکھ کر ایک دفعہ قریش نے ابوطالب سے کہا کہ یا تو اپنے بھتیجے کو اس نئے دین کی اشاعت سے روک دیں ورنہ اس کی حمایت سے دستکش ہو جائیں تاکہ ہم خود اس سے فیصلہ کر لیں۔ ابوطالب نے انہیں نرمی سے باتیں کر کے واپس کر دیا۔ مگر چند روز کے بعد پھر ایک وفد آیا کہ اب ہم برداشت نہیں کر سکتے۔ کیونکہ ہمارے معبودوں کو جہنم کا ایندھن اور ہمیں بیوقوف قرار دیا جاتا ہے۔ اگر آپ اپنے بھتیجے کی حمایت سے دست بردار نہ ہوں گے تو پھر ہم بھی مقابلہ کرنے پر مجبور ہیں۔ ابوطالب ڈر گئے اور حضور کو علیحدگی میں بلایا اور کہا کہ اے بھتیجے! اگر تو نے اپنا رویہ نہ بدلا اور اپنی تبلیغ بند نہ کی تو میں ساری قوم کے مقابلہ کی طاقت نہیں رکھا۔ اس پر حضورؐ نے فرمایا۔ اے چچا! اگر یہ لوگ میرے داہنے ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند رکھ دیں تو بھی اپنے فرض کو چھوڑ نہیں سکتا اور میں اپنے کام میں لگا رہوں گا یہاں تک کہ خدا اُسے پورا کرے۔ یا میں اس کوشش میں ہلاک ہو جاؤں۔ اور اے چچا! آپ بے شک مجھے اپنی پناہ میں رکھنے سے دست بردار ہو جائیں مگر میں احکام الٰہی کے پہنچانے سے کبھی نہ رُکوں گا۔ اس پر ابوطالب رو پڑے اور کہا کہ اے میرے بھتیجے! جا اور اپنے کام میں لگا رہ۔ جب تک میں زندہ ہوں اور جہاں تک میری طاقت ہے میں تیرا ساتھ دوں گا۔

اب مکہ میں مسلمانوں اور کافروں کے درمیان خوب کشمکش شروع ہوئی۔ مسلمان تھوڑے اور کمزور تھے۔

صحابہؓ کی دردناک تکالیف

اس لئے ہر قبیلہ اور خاندان کے کافروں نے اپنے اپنے قبیلہ اور خاندان کے مسلمانوں کو مارنا پیٹنا اور دکھ دینا شروع کیا۔ حضرت عثمان کو ان کے چچا رسّی سے باندھ کر پیٹتے مگر وہ اُف تک نہ کرتے۔ حضرت زبیر کو ان کا چچا چٹائی میں لپیٹ کر آگ جلا کر ناک میں دھواں دیتا۔ معید بن زید کو حضرت عمر اپنے اسلام لانے سے قبل چھاتی پر چڑھ کر زدوکوب کرتے۔ بلال کو ان کا مالک گرمیوں میں دوپہر کو تپتی ریت پر لٹا کر گرم پتھر چھاتی پر رکھتا اور اپنے بچوں سے کہتا کہ اسے گلیوں میں گھسیٹتے پھرو۔ وہ بے ہوش ہو جاتے مگر جب ہوش آتا احد احد کہتے۔ یعنی خدا ایک ہے ایک ہے۔ غرض کوئی شخص کفار کے ظلموں سے محفوظ نہ رہا۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر کفار کے مظالم

خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر قریباً روزانہ خاک ڈالی جاتی۔ حضور کو مذمّم اور ابتر کے نام سے یاد کیا جاتا۔ حضور خانہ کعبہ کے سامنے نماز پڑھ رہے تھے کہ عقبہ بن ابی محیط نے گلے میں کپڑا ڈال کر اس زور سے گھونٹا کہ حضور کا دم رُک گیا اور حضرت ابوبکرؓ نے دوڑ کر اسے دھکا دے کر حضور کو چھڑایا اور اسے کہا اَتَقْتُلُوْنَ رَجُلاً اَنْ یَّقُوْلَ رَبِّیَ اللّٰہُ (المومن:29) یعنی کیا تم ایک شخص کو محض اس جرم میں قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے۔ ایک دفعہ آپؐ کو بچانے کے لئے حضرت خدیجہؓ کا بیٹا حارث آگے بڑھا تو کفار نے تلوار چلا کر اس ہونہار جوان کو اسی جگہ ڈھیر کر دیا۔

اسی طرح ایک دفعہ حضور مسجد الحرام میں سجدہ میں تھے کہ ابوجہل وغیرہ کے اشارہ سے ایک بدبخت نے ایک ذبح شدہ اونٹنی کی اوجھری اور بچہ دان غلاظت سمیت آپ کی پیٹھ پر ڈال دیئے اور خود اوباشوں کی طرح ہنستے اور تمسخر کرتے رہے۔ یہاں تک کہ حضرت فاطمہؓ بھاگی ہوئی آئیں اور آپ کی پیٹھ سے وہ غلاظت دور کی۔

ہجرت حبشہ

غرض جب کفار کی ایذا حد سے بڑھ گئی تو حضورؐ نے اعلان کیا کہ جو مسلمان جا سکتا ہے وہ ملکِ حبش میں اَصْحمہ نام ایک عادل عیسائی بادشاہ کی پناہ میں جس کا لقب نجاشی تھا جا سکتا ہے۔ اس پر دعویٔ نبوت کے پانچویں سال گیارہ مرد اور چار عورتوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ جس میں حضرت عثمانؓ اور ان کی زوجہ حضرت رقیہؓ بھی جو حضور علیہ السلام کی صاحبزادی تھیں شامل تھے۔ ان مہاجرین کا کفارِ مکہ نے پیچھا کیا مگر وہ جہاز میں بیٹھ کر عرب سے نکل چکے تھے۔ اس کے چند ماہ بعد ایک غلط افواہ کی وجہ سے ان میں سے اکثر مہاجر واپس مکہ کو لوٹ آئے۔ مگر جلد ہی ان میں سے بہت سے لوگوں کو دوبارہ حبشہ جانا پڑا۔ اس کے بعد حبشہ کی ہجرت کا سلسلہ تیزی سے شروع ہو گیا اور جس کو موقع ملتا وہ مکہ سے روپوش ہو کر حبشہ پہنچ جاتا۔ اس طرح ایک سو (100) سے زیادہ صحابہ حبشہ میں پہنچ گئے۔ یہ دیکھ کر کفار مکہ نے عمرو بن العاص اور عبد اللہ بن ربیعہ نام دو ہوشیار سرداروں کو اپنا سفیر بنا کر حبشہ میں بھیجا۔ ان سرداروں نے نجاشی اور اس کے درباریوں کے لئے مکہ کے تحائف جو زیادہ تر چمڑے کے سامان کی صورت میں تھے اپنے ساتھ لئے اور نجاشی کی خدمت میں پیش ہونے سے قبل اس کے درباریوں کو تحائف دیئے اور انہیں تیار کر لیا کہ وہ بادشاہ کے سامنے ان کی سفارش اور تائید کریں گے۔ پھر بادشاہ کے دربار میں پیش ہو کر پہلے تحائف نذر گزارے۔ پھر عرض کی کہ حضور ہماری قوم میں سے چند بے وقوف اپنا آبائی مذہب چھوڑ کر اور ایک نیا دین نکال کر اپنی قوم میں فتنہ و فساد کی آگ بھڑکا کر آپ کے ملک میں آ گئے ہیں۔ ہماری درخواست ہے کہ حضور ان کو ہمارے ہمراہ بھیج دیں۔ درباریوں نے ان کی تائید کی۔

نجاشی بادشاہِ حبشہ سے گفتگو

بادشاہ نے کہا کہ یہ لوگ میری پناہ میں ہیں۔ میں بغیر ان سے جواب سننے کے ان کو تمہارے ساتھ نہیں بھیج سکتا۔ چنانچہ مسلمان دربار میں بلائے گئے اور بادشاہ نے ان سے جواب طلب کیا۔ اس پر حضرت جعفرؓ جو حضرت علیؓ کے سگے بھائی تھے،آگے بڑھے اور تقریر کی کہ اے بادشاہ! ہم جاہل تھے، بت پرست تھے، مُردار تک کھا جاتے تھے، بدکار تھے، قطع رحمی کرتے تھے، پڑوسیوں سے بدمعاملگی کرتے تھے، ہم میں سے مضبوط اپنے سے کمزور کا حق دبا لیا کرتا تھا کہ اچانک اللہ تعالیٰ نے اپنا ایک رسول بھیجا جس کی حسب و نسب کی شرافت کو ہم خوب جانتے ہیں اور اس کے صدق وامانت کے ہم تجربہ کار ہیں۔ اس نے ہم کو خدا کی وحدانیت کی طرف بلایا۔ بت پرستی سے روکا۔ امانت ادا کرنے، صلہ رحمی کرنے اور ہمسایوں سے اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا۔ بدکاری، جھوٹ اور یتیموں کے مال کھانے سے روکا اور قتل و غارت سے منع کیا۔ ہم اس پر ایمان لائے۔ اس کی پیروی کی۔ اس وجہ سے ہماری قوم ہم پر ناراض ہو گئی۔ اس قوم نے ہمیں مصیبتوں اور دکھوں میں ڈالا اور ہمیںطرح طرح کے عذاب دیئے اور ہمیں سچے دین سے جبراً روکنا چاہا۔ یہاں تک ہم مجبور ہو کر اے بادشاہ! اپنے وطن سے نکل کر تیرے ملک میں پناہ کے لئے تیرے سایہ میں آ گئے۔ بادشاہ اس تقریر سے نہایت متاثر ہوا اور حضرت جعفرؓ سے فرمائش کی کہ جو کلام تم پر اُترا ہے وہ مجھے سناؤ۔

نجاشی پر اثر

حضرت جعفرؓ نے نہایت درد انگیز لہجے اور خوش الحانی سے سورئہ مریم کی ابتدائی آیتیں سنائیں جسے سن کر نجاشی زار زار رونے لگا اور اس کی داڑھی آنسوؤں سے تر ہو گئی اور اس نے نہایت رقت سے کہا کہ خدا کی قسم! یہ کلام اور مسیح کا کلام ایک ہی منبع سے نکلے ہیں۔ پھر کفار مکہ کے سفیروں کے تحائف واپس کر دیئے اور صاف کہہ دیا کہ میں ان لوگوں کو تمہارے ہمراہ نہیں بھیجوں گا۔

دوسرے دن عمرو بن العاص بادشاہ کے دربار میں کسی طرح رسائی حاصل کر کے پھر جا پہنچا اور عرض کیا کہ حضور!آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ ہماری قوم کے یہ بھاگے ہوئے لوگ مسیح ابن مریم کو گالیاں دیتے ہیں۔ اس پر پھر نجاشی نے حضرت جعفرؓ اور ان کے ساتھیوں کو دربار میں بلایا اور پوچھا کہ تم مسیح ؑکے بارے میں کیا اعتقاد رکھتے ہو۔ حضرت جعفرؓ نے نہایت دلیری سے کہا کہ اے بادشاہ! مسیح ابن مریمؑ خدا کا ایک مقرب بندہ اور اس کا رسول ہے۔ وہ خدا نہیں۔ ہاں وہ کلمۃ اللہ ہے جو خدا کے حکم سے مریم مقدسہ کے پیٹ میں ڈالا گیا۔

نجاشی نے یہ سن کر ایک تنکا اٹھایا اور کہا۔ خدا کی قسم! جو کچھ تم نے بیان کیا، میں مسیح کو اس سے اس تنکے کے برابر بھی بڑا نہیں سمجھتا۔ اس پر اس کے عیسائی درباری بہت برانگیختہ ہوئے مگر بادشاہ نے ذرہ بھی پروا نہ کی اور قریش کے وفد کو خائب و خاسر واپس کر دیا اور مسلمان مہاجر نہایت امن وآسائش سے اس کے سایہ میں زندگی بسر کرنے لگے۔

(روزنامہ الفضل قادیان 6اپریل 1939ء)

٭…٭…٭

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 نومبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 نومبر 2020