• 26 اپریل, 2024

نظم

خدائے بر تر وہ ذات والا
عدم سے جس نے ہمیں تکالا
حقیر ہم۔ وہ بزرگ و بالا
ذلیل ہم۔ وہ اجل و اعلىٰ
ادب کے لائق ہے ذات اس کی
ہے نام اس کا خدا تعالیٰ
وہی ہے اول وہی ہے آخر
وہی ہے باطن وہی ہے ظاہر
گمان عاجز۔ قیاس قاصر
مقام اس کا خرد سے بالا
قریب بھی ہے بعید بھی ہے
عجیب ہے وہ خدا تعالیٰ
نہاں ہے پردوں میں ذات اس کی
عیاں ہیں لیکن صفات اس کی
نہ چھیڑ ملحد تو بات اس کی
تجھے توَہُّم نے مار ڈالا
نگاه مومن سے پوچھئے گا
کہاں نہیں ہے خدا تعالیٰ
وہ گلستان میں مہک رہا ہے
کلی کلی میں چٹک رہا ہے
وہ مہر و مہ میں چمک رہا ہے
اسی کے پرتو سے ہے اجالا
نظر ہے اپنی حجاب اپنا
عیاں ہے ورنہ خدا تعالیٰ
شریک اس کا نہ کوئی ہمسر
نبی ولی سب اُسی کے چاکر
جھکائیے سر اسی کے در پر
جو لَمْ یَزَلْ ہے وَلَنْ یَّزَالا
یہ عالمِ رنگ و بُو ہے فانی
ہے جاودانی خدا تعالیٰ
وہ جس نے خیر الانام بھیجا سلام بھیجا، پیام بھیجا
اسی نے ہم میں امام بھیجا
اسی نے پھر وقت پر سنبھالا
رحیم و رحماں ہے ذات اس کی
کریم ہے وہ خدا تعالیٰ
کسی کو کہنا ’’جناب اعلىٰ‘‘
کسی کو کہنا ’’حضور والا‘‘
غضب ہے۔ لیکن وہ ذات والا
جو سب سے فائق ہے لا محالا
زباں پہ جب اس کا نام آئے
تو بھول جائے تمہیں ’’تعالی‘‘

(حضرت مولانا ظفر احمد ظفر)

(روز نامہ الفضل 21 جنوری 1956 صفحہ4)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 نومبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 نومبر 2020