• 11 مئی, 2025

قرآنی دعا: میرے بیوی بچوں کی بھی اِصلاح فرما

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :-
’’مَیں دیکھتا ہوں کہ لوگ جو کچھ کرتے ہیں وہ محض دنیا کے لئے کرتے ہیں۔ محبت دنیا ان سے کراتی ہے۔ خدا کے واسطے نہیں کرتے۔ اگر اولاد کی خواہش کرے تو اس نیت سے کرے وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا (الفرقان:۷۵) پر نظر کر کے کرے کہ کوئی ایسا بچہ پیدا ہو جائے جو اعلاء کلمۃ الاسلام کا ذریعہ ہو جب ایسی پاک خواہش ہو تو اللہ تعالیٰ قادر ہے کہ زکریا کی طرح اولاد دیدے۔ مگر مَیں دیکھتا ہوں کہ لوگوں کی نظر اس سے آگے نہیں جاتی کہ ہمارا باغ ہے یا اَور مِلک ہے، وہ اس کا وارث ہو اور کوئی شریک اس کو نہ لے جائے۔ مگر وہ اتنا نہیں سوچتے کہ کمبخت جب تُو مر گیا تو تیرے لئے دوست دشمن اپنے بیگانے سب برابر ہیں ۔ مَیں نے بہت سے لوگ ایسے دیکھے اور کہتے سنے ہیں کہ دعا کرو کہ اولاد ہوجائے جو اس جائداد کی وارث ہو۔ ایسا نہ ہو کہ مرنے کے بعد کوئی شریک لے جاوے۔ اولاد ہوجائے خواہ وہ بدمعاش ہی ہو، یہ معرفت اسلام کی رہ گئی ہے …

پس یاد رکھو کہ مومن کی غرض ہر آسائش، ہر قول و فعل، حرکت و سکون سے گو بظاہر نکتہ چینی ہی کا موقعہ ہو مگر دراصل عبادت ہوتی ہے۔ بہت سے کام ایسے ہوتے ہیں کہ جاہل اعتراض سمجھتا ہے مگر خدا کے نزدیک عبادت ہوتی ہے۔ لیکن اگر اس میں اخلاص کی نیت نہ ہو تو نماز بھی لعنت کا طوق ہوجاتی ہے۔‘‘

( البدر ۸ مارچ ۱۹۰۴، ملفوظات جلد سوم۔ صفحہ ۵۷۸، ۵۷۹)

پھر آپ فرماتے ہیں :
’’فنا فی اللہ ہوجانا اور اپنے سب ارادوں اور خواہشات کو چھوڑ کر محض اللہ کے ارادوں اور احکام کا پابند ہوجانا چاہئے کہ اپنے واسطے بھی اور اپنی اولاد، بیوی بچوں ، خویش و اقارب اور ہمارے واسطے بھی باعثِ رحمت بن جاؤ۔ مخالفوں کے واسطے اعتراض کا موقعہ ہرگز ہرگز نہ دینا چاہئے …… خدا تعالیٰ کی نصرت انہیں کے شامل حال ہوتی ہے جو ہمیشہ نیکی میں آگے ہی آگے قدم رکھتے ہیں ، ایک جگہ نہیں ٹھہر جاتے اور وہی ہیں جن کا انجام بخیر ہوتا ہے۔ بعض لوگوں کو ہم نے دیکھا ہے کہ ان میں بڑا شوق ذوق اور شدت رقت ہوتی ہے مگر آگے چل کر بالکل ٹھہر جاتے ہیں اور آخر ان کا انجام بخیر نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں یہ دُعا سکھلائی ہے کہ اَصْلِحْ لِیْ فِی ذُرِّیَّتِیْ (الاحقاف:۱۶) میرے بیوی بچوں کی بھی اِصلاح فرما۔ اپنی حالت کی پاک تبدیلی اور دعاؤں کے ساتھ ساتھ اپنی اولاد اور بیوی کے واسطے بھی دعا کرتے رہنا چاہئے کیونکہ اکثر فتنے اولاد کی وجہ سے انسان پر پڑ جاتے ہیں اور اکثر بیوی کی وجہ سے۔ دیکھو پہلا فتنہ حضرت آدم پر بھی عورت ہی کی وجہ سے آیا تھا۔ حضرت موسیٰ ؑ کے مقابلہ میں بلعم کا ایمان جو حَبط کیا گیا اصل میں اس کی وجہ بھی توریت سے یہی معلوم ہوتی ہے کہ بلعم کی عورت کو اس بادشاہ نے بعض زیورات دکھاکر طمع دیدیا تھا اور پھر عورت نے بلعم کو حضرت موسیٰ ؑ پر بَد دعا کرنے کے واسطے اُکسایا تھا۔ غرض اُن کی وجہ سے بھی اکثر انسان پر مصائب شدائد آ جایا کرتے ہیں تو اُن کی اِصلاح کی طرف بھی پوری توجہ کرنی چاہئے اور ان کے واسطے بھی دعائیں کرتے رہنا چاہئے۔‘‘

(ملفوظات جلد ۵۔ صفحہ ۴۵۶ و ۴۵۷۔ ایڈیشن1988)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 دسمبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 دسمبر 2020