• 27 اپریل, 2024

جلسہ سالانہ اور خدائی نصرتوں کے ایمان افروز نظارے

آج سے 125سال قبل شمالی ہند کے صوبہ پنجاب میں ایک ایسا تاریخ ساز واقعہ رونما ہوا جس کو ملکی پریس نے تو بالکل نظر انداز کر دیا مگر وہ مستقبل میں اقوام عالم میں ایک حیرت انگیز انقلاب کا سنگ میل ثابت ہوا۔میری مرادجماعت احمدیہ کے اولین جلسہ سالانہ سے ہے جو قادیان کی گمنام بستی میں منعقد ہوا۔

پہلا جلسہ سالانہ

پہلا جلسہ سالانہ 27دسمبر 1891ء کو بعد نماز ظہر مسجد اقصیٰ میں منعقد ہواجب کہ احمدیت کے ابدی مرکز قادیان میں صرف 75نفوس شریک اجتماع ہوئے جنہیں مسجد اقصیٰ میں نماز ظہر کے بعد حضرت مولانا عبدالکریم ؓ نے ’’آسمانی فیصلہ‘‘ پڑھ کر سنایا اور جلسہ کی کارروائی ختم ہوگئی۔

(الحکم 10جنوری 1903ء)

اس تاریخی جلسہ کے وقت ساری دنیائے احمدیت صرف 285نفوس پر مشتمل تھی۔اور قادیان کی ناگُفتہ بہ کیفیت مندرجہ ذیل چشمدید شہادتوں سے عیاں ہے:
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محموداحمدصاحب خلیفۃ المسیح الثانیؓ
’’اس کی آبادی دو ہزار کے قریب تھی۔سوائے چند ایک پختہ مکانات کے باقی سب مکانات کچے تھے۔مکانوں کا کرایہ اتنا گرا ہوا تھا کہ چار پانچ آنے ماہوار پر مکان کرایہ پر مل جاتاتھا۔زمین اس قدر ارزاں تھی کہ دس بارہ روپے کو قابل سکونت مکان بنانے کے لئے زمین مل جاتی تھی۔بازار کا یہ حال تھا کہ دو تین روپے کا آٹا ایک وقت میں نہیں مل سکتا تھا۔تعلیم کے لئے ایک مدرسہ سرکاری تھا جو پرائمری تک تھا۔اور اسی کا مدرس کچھ الاؤنس لے کر ڈاکخانہ کا کام بھی کر دیا کرتا تھا۔ڈاک ہفتے میں دو دفعہ آتی تھی۔تمام عمارتیں فصیل قصبہ کے اندر تھیں‘‘

حضرت میاں امام دین سیکھوانیؓ

’’نہایت بے رونق بستی تھی۔بازار خراب ہوتے تھے اور کثرت سے قمار بازی ہوتی تھی ۔گویا یہ ایک پیشہ سمجھا جاتا تھا۔ہنسی اور ٹھٹھا سے بات ہوتی تھی۔میاں جان محمد صاحب مرحوم امام….تھے۔وہ اکیلے ہی نمازی تھے‘‘۔

(الحکم 7اکتوبر 1935ء)

حضرت صاحبزادہ پیر سراج الحق جمالی نعمانی سرساویؓ

’’یہ مقام قادیان ایسا بے رونق تھا کہ جس کے بازار خالی پڑے تھے۔اور بہت کم آدمی چلتے پھرتے نظر آتے تھے۔بعض دکانیں ٹوٹی پُھوٹی اور بعض غیر آبادخالی پڑی تھیں۔اور دو تین یا کم و بیش دکانیں لون مرچ کی تھیں۔وہ ایسی کہ اگر چار پانچ آنے کا مصالحہ خریدنے کا اتفاق ہوتو ان دکانوں سے بجز دو چار پیسے کے نہیں مل سکتا تھا اور تھوڑی تھوڑی ضرورتوں کے لئے بٹالہ جانا پڑتا تھا‘‘۔

اب اُس ’’مسجد اقصیٰ‘‘ کا حال سنیئے جس میں یہ پہلا جلسہ سالانہ ہوا تھا۔اس پہلے روحانی اجتماع سے سولہ سترہ سال قبل یہاں سکھوں کی حویلی تھی جو کسی زمانہ میں قید خانہ کے طور پر استعمال ہوتی تھی۔جسے حضرت مرزا غلام مرتضےٰ صاحبؒ (والد ماجد حضرت بانی سلسلہ احمدیہ) نے سات سو روپے میں خریدا اور اس پر خدا کا یہ گھر تعمیر کیا جو 1875ء سے لے کر جون1876ء تک پایہ تکمیل کو پہنچا اور اس کے پہلے امام میاں جان محمد صاحب مقرر ہوئے۔یہ ایک مختصر سا بیت الذکر تھا جس کا چھوٹا سا صحن تھا اور پختہ پرانی قسم کی چھوٹی اینٹوں کا بنا ہوا تھا۔مسقف عمارت پر خوبصورت گنبد تھا۔شمالی دروازہ کے اندر صحن کے فرش کے برابر کنویں کا مُنہ تھا اور صحن کے مشرقی کنارہ پر اینٹوں کی ایک منڈیر تھی جس پر نماز ی وضو کیا کرتے تھے۔

ملک بھر میں منظّم مخالفت

1891ء کے اولین اجتماع میں گنتی کے چند افراد شامل ہوئے۔ یہ اس زمانہ کی بات ہے جب ہندوستان کے ایک سرے سے دوسرے تک حضرت مسیح موعودؑکی شہرہ آفاق تصنیف ’’براہین احمدیہ‘‘ کے غلغلے بلند ہو رہے تھے اور عامۃ المسلمین ہی نہیں ملک کے مسلم زعماء بھی آپ کے علمی اور روحانی کمالات کے قائل اور مداح تھے۔ مگر اس شہرت عامہ کے باوصف ہندوستان کی کروڑوں کی آبادی میں صرف 75افراد کو یہ توفیق مل سکی کہ آپ کی خدمت میں حاضر ہونے کی سعادت حاصل کریں۔اس پہلے جلسہ کے بعد ملکی ماحول میں یکایک تغیر پیدا ہوا اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور ان کے ہم نوا علماء نے فتویٰ تکفیر کے ذریعہ سے ایک زبردست شورش برپا کر دی۔اور ان کی پشت پناہی کے لئے عیسائیت، آریہ سماج، برہمو سماج اور دوسری تمام تر باطل قوتیں بھی میدان مقابلہ میں اتر آئیں اور بظاہر یہ امکان ختم ہوگیا کہ اس نوعیت کے اجتماع جاری رہ سکیں کیونکہ ایک تو ان خدا نا ترس لوگوں نے ملک کی فضا مسموم کرنے کے بعد قادیان کا قصد کرنے والوں کو واپس بھجوانے کے لئے باقاعدہ ایک مہم جاری کر دی اور اس غرض کے لئے بٹالہ کی سڑک پر کیمپ بھی قائم کر دیا ۔دوسرے قادیان میں حضرت مسیح موعودؑ کے عم زادے خود آپ کے شدید دشمن اور خون کے پیاسے تھے اور دنیوی معاملات میں انہی کو اکثر عمل دخل اور اقتدار حاصل تھا۔ تیسرے، جلسہ کے انعقاد کے لئے جتنے وسیع اخراجات درکار تھے، آپؑ کے اقتصادی حالات کسی طرح اس کے متحمل نہیں ہوسکتے تھے۔

ایک ایمان افروزروایت

اس سلسلہ میں یہاں حضرت منشی ظفر احمد صاحب ؓکی ایک نہایت ایمان افروز روایت کا درج کرنا ضروری ہے۔حضرت منشی صاحبؓ فرماتے ہیں:
’’ایک دفعہ جلسہ سالانہ کے موقع پر خرچ نہ رہا۔ان دنوں جلسہ سالانہ کے لئے چندہ ہو کر نہیں آتا تھا۔حضور اپنے پاس سے صَرف فرماتے تھے۔میر ناصر نواب صاحب مرحوم نے آکر عرض کیا کہ رات کو مہمانوں کے لئے کوئی سالن نہیں ہے۔آپ نےفرمایا کہ بیوی صاحبہ سے کوئی زیور لے کر جو کفایت کر سکے فروخت کر کے سامان کریں۔ چنانچہ زیور فروخت یا رہن کر کے میر صاحب روپیہ لے آئے اور مہمانوں کے لئے سامان بہم پہنچادیا۔دو دن کے بعد پھر میر صاحب نے رات کے وقت میری موجودگی میں کہا کہ کل کے لئے پھر کچھ نہیں۔فرمایا کہ ہم نے برعایت ظاہری اسباب کے انتظام کر دیا تھا۔اب ہمیں ضرورت نہیں جس کے مہمان ہیں وہ خود کرے گا۔اگلے دن آٹھ نو بجے جب چٹھی رسان آیا تو حضورؑ نے میر صاحب کو اور مجھے بلایا۔چٹھی رسان کے ہاتھ میں دس پندرہ کے قریب منی آرڈر ہوںگے جو مختلف جگہوں سے آئے ہوئے تھے،سو سو پچاس پچاس روپے کے جن پر لکھا تھا کہ ہم حاضری سے معذور ہیں مہمانوں کے لئے یہ روپے بھیجے جاتے ہیں‘‘

اس روایت سے اللہ تعالیٰ کی خاص تائید و نصرت کے علاوہ ضمناً اس امر پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ نہ صرف ملکی اور مقامی اعتبار سے بلکہ اقتصادی لحاظ سے بھی اجتماعات کا سلسلہ منقطع ہو جانا عین ممکن تھا۔مگر یہ دنیا دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئی کہ اللہ تعالیٰ نے عرش سے مسیح موعودؑ کی خاطر قلوب عالم میں ایسی زبردست جنبش پیدا کر دی کہ لوگ ملک کے گوشہ گوشہ سے کھنچے کھنچے آپ کے قدموں میں آنے لگے اور اب خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ حالت ہے کہ وہ مقدس اجتماع جو اپنی ابتدائی شکل میں صرف 75 کی نہایت محدود اور مختصر سی تعداد سے شروع ہوا تھا، سینکڑوں سے نکل کر مخالفت کے طوفانوں میں سے ہوتے ہوئے ہزاروں تک وسیع ہو چکا ہے اور عالمگیر ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ذریعہ سے اس مبارک اجتماع کی پوری کارروائی نشر کی جاتی ہے۔ہماراجلسہ سالانہ جس رفتار سے ارتقائی منزلیں طے کرتا ہوا موجودہ شاندار اور انقلابی دور میں داخل ہوا ہے، ہم باطنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ عنقریب وہ دن بھی آنے والے ہیں جبکہ مرکز میں لاکھوں نہیں کروڑوں پروانے جمع ہوں گے۔

جلسہ سالانہ کے اغراض و مقاصد

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 1893ءمیں جلسہ سالانہ کی عظیم الشان اغراض پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرمایا:
’’ہماری جماعت کے لوگ کسی طرح بار بار کی ملاقاتوں سے ایک ایسی تبدیلی اپنے اندر حاصل کرلیں کہ ان کے دل آخرت کی طرف بکلی جھک جائیں اور ان کے اندر خدا تعالیٰ کا خوف پیدا ہو اور وہ زہد و تقویٰ اور خدا ترسی اور پرہیز گاری اور نرم دلی اور باہم محبت اور مواخات میں دوسروں کے لئے ایک نمونہ بن جائیں اور انکساری اور تواضع اور راستبازی ان میں پیدا ہو اور دینی مہمات کے لئے سرگرمی اختیار کریں‘‘۔

ان کلمات قدسیہ میں جن کے الفاظ تھوڑے اور معانی بہت ہیں جماعت احمدیہ کے مرکزی جلسہ کے مندرجہ ذیل چودہ (14)مقاصد بیان کئے گئے ہیں:
(1) ملاقات ( 2) فکر معاد (3) خوفِ خدا(4) زُہد (5) تقویٰ (6) خدا ترسی (7) پرہیز گاری (8) نرم دلی (9) باہم محبت (10) مواخات (11) انکسار (12) تواضع (13) راست بازی (14) دینی مہمات میں سرگرمی

جلسہ سالانہ کی تاریخ ثابت کرتی ہے کہ یہ جلسہ احمدیت کی صداقت کا ایک خارق عادت نشان بن چکا ہے جس کے اندر خدائی نصرتوں کے بہت ایمان افروز نظارے ہزاروں نفوس نے بچشم خود دیکھے۔ اور یہ کہ اسلام زندہ مذہب ہے اور آنحضرت ﷺاس کے زندہ نبی۔نیز احمدیت آسمانی تحریک ہے اور نظام خلافت بڑا ہی بابرکت اور اعجاز نما نظام ہے جس کے ساتھ پوری امت مسلمہ کی تمام تر فلاح و بہبود اور عروج واقبال وابستہ ہے۔اس جلسہ نے یہ حقیقت بھی پوری طرح واضح کر دی کہ خلیفہ اللہ ہی بناتا ہے اور وہ جسے خلعت خلافت سے نوازتا ہے، اس کے پاک لبوں پرروحانی و مادی علوم اور فیضان و عرفان کے غیبی چشمے جاری فرما دیتا ہے۔اس کی زبان پر خالق کائنات کے خالص تصرف سے معارف وحقائق سے لبریز کلمات جاری ہوتے ہیں۔الفاظ اس کے مگر بلاواخدا کا ہوتا ہے۔بالفاظ دیگر اس کی پوری شخصیت کوثر و تسنیم کے انوار سے دھل کے ایک نئے رنگ میں جلوہ گر ہوتی اور ایک جدید قالب میں ڈھل جاتی ہے اور ہم یہ شہادت دیتے ہیں کہ یہ انقلاب روحانی ہم نے خود مشاہدہ کیا۔ رَبَّنَا اٰمَنَّا بِمَا اَنْزَلْتَ …………

حضرت مہدی معہود ؑکی ایک نہایت پیاری دعا

1893ء کی مندرجہ بالا مقدّس تحریر کے آخر میں حضورؑنے حضرت احدیّت کے حضور اپنی جماعت کے لئے بڑے پیارے الفاظ میں ایک نہایت جامع دعا بھی کی ہے۔ فرماتے ہیں:
’’دعا کرتا ہوں اورجب تک مجھ میں دم زندگی ہے ،کئے جاؤں گا اور دعا یہی ہے کہ خدا تعالیٰ میری اس جماعت کے دلوں کو پاک کر دے اور اپنی رحمت کا ہاتھ لمبا کر کے ان کا دل اپنی طرف پھیر دے اور تمام شرارتیں اور کینے دلوں سے اٹھاوے اور باہمی سچی محبت عطا کردے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ دعا کسی وقت قبول ہوگی اور خدا میری دعاؤں کو ضائع نہیں کرے گا‘‘۔

خدا کرے کہ سالانہ جلسہ میں شرکت کی سعادت حاصل کرنے والا ہراحمدی اس مقدس اجتماعت کی اغراض و مقاصد کو پورا کر کے حضرت مہدیٔ موعود ؑکی دعاؤں کے بھاری خزانے کا وارث بن جائے کہ اس دولت کے مقابل بادشاہت ہفت اقلیم بھی ہیچ ہے۔ اسلام کی ترقیات و فتوحات کا انقلابی دور ہماری آنکھوں کے سامنے پوری شان سے جلوہ گر ہو جس میں مینار محمدی صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے فضل و کرم کے ساتھ بلند سے بلند ہوتا ہوگا اور اس کی ضیاپاشیوں سے یہ جہان جگمگا اٹھے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ

؎اک زماں کے بعد اب آئی ہے یہ ٹھنڈی ہوا
پھر خدا جانے کہ کب آویں یہ دن اور یہ بہار

(ابن شاھد)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 دسمبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 دسمبر 2020