ہم نے جس بستی میں آنکھ کھولی وہ عجیب بستی تھی۔ آبادی تھوڑی تھی مگر مہمانوں کا آنا جانا بہت تھا۔ جاپان کے اوساکا شہر کے بارہ میں کہا جاتا ہے کہ اس کی آبادی دن میں ایک کروڑ اور رات میں پانچ لاکھ ہوتی ہے یعنی اس شہرکی دن کی آبادی میں عارضی طور پر سفرکر کے آنے والوں میں اور مستقل قیام کرنے والوں میں ایک اور بیس کا تناسب ہوتا ہے لوگ تیز رفتار گاڑیوں سے آتے اور اپنا اپنا کام کرکے اپنے اپنے مستقر پر واپس چلے جاتے ہیں۔ ہم جس ہستی کا ذکر کر رہے ہیں اس میں لوگوں کا آنا جانا بھی اسی حساب سے ہوتا تھا اور مہمانوں میں اور مقیموں میں ایک اوربیس کا تناسب تھا۔ وہاں یہ تناسب سال بھر قائم رہتا تھا سال کے آخری مہینے میں تو مہمانوں کا وہ اژدھام ہوتا کہ سکونت کی سہولتیں ہر سال کم پڑ جاتیں اور مکینوں کو وسع مكانک کا اہتمام کرنا پڑتا۔ وجہ یہ تھی اس بستی میں سال کے سال ایک سالانہ جلسہ ہوتا تھا جس میں لوگ دور دور سے شرکت کے لئے آتے تھے۔ دسمبر کا مہینہ پنجاب میں خاصی سردیوں کا مہینہ ہوتاہے اس لئے مہمان آتے تو اپنا اپنا بستر ہمراہ لے کر آتے۔ جلسہ کے منتظمین ان کے سونے کے لئے پرالی کا فرش بچھا دیتے اور وہ لوگ اسی پرسکڑ سمٹ کر آرام پاتے دن کو جلسہ میں شرکت کرتے اوررات کو چین کی نیند سوتے۔ چھوٹے بڑے احباب فرش زمین پرمگن ہو کر سوتے۔کھانے کے لئے بھی منتظمین مٹی کے عارضی برتن بنوا ر کھتے۔ پیالے ،جن میں سالن ڈالا جاتا اور آبخورے جن میں پانی پیا جاتا۔
مدتوں بعد یورپ میں ایک یورپی بزرگ سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے ایک چیز سینت سنبھال کر رکھی ہوئی تھی۔ کہنے لگے ایک نادر چیز دکھاؤں؟ تبرک ہے۔ دیکھا تو مٹی کا ایک آب خورہ تھا۔ کہنے لگے جب میں پہلی بار جلسہ سالانہ پر 1944ء میں گیا تھا تو نشانی اور تبرک کے لئے لے آیا تھا۔ ہم نے بھی اس آ بخورےکو اٹھایا اس میں وطن کی مٹی کی خوشبوآئی۔ اگر چہ وقت گزرنے کے ساتھ اس میں پانی پیتے ہوئے وہ ٹھنڈک اور تازگی محسوس نہ ہوئی جو وہاں جلسہ کے آب خوروں سے مخصوص تھی مگر یہی کیا کم تھا کہ وطن کی مٹی تھی اور جانے اس ارضِ مقدس کے کس ‘‘حسن کوزہ گر’’ نے اس کو بنایاتھا، بعض چیزیں کس طرح نایاب ہو جاتی ہیں اور ان کی قدرو قیمت وقت گذرنے کے بعد متعین ہوتی ہے۔ آب خورے تو عارضی ضرورت کے تحت بنائے جاتے تھے لیکن اس یورپین دوست کی عقیدت نے اس عارضی چیز کو ایک دوام دے دیا ۔ چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی چھوٹی نہیں رہتیں بڑی ہو جاتی ہیں ۔ ہمیں یاد ہے جلسہ ختم ہو جاتا تو ہم بچے ان آ بخوروں کو اٹھا اٹھا کر زمین پرپٹختے اور ان سے کھیلتے پھرتے تھے کیونکہ جانتے تھے کہ ان کا مصرف ختم ہو چکا اب اگلے برس نئے آب خورے بنیں گے۔
ہمیں بچپن ہی سے جلسہ سالانہ کے موقع پر مہمانوں کی خدمت کی توفیق ملتی رہی ۔ چھوٹے تھے تو صرف پانی پلانے کی خدمت ملتی اس لئے جلسہ سالانہ کے ساتھ ہمارا تعلق آب خوروں کی وجہ سے قائم تھا۔ ذرا بڑے ہوئے تو کھانا پیش کرنے کی خدمت ملنے لگی ۔ پیش کرنا کیا؟یہ ہوتا تھا کہ بالٹی میں سالن اٹھا کر زمین پر بیٹھے ہوئے مہمانوں کی قطار تک پہنچتے اور باری باری ہر ایک کے مٹی کے پیالے میں سالن یا دال جو کچھ بھی ہوتا وہ حصہ رسدی ڈالتے جاتے ۔ختم ہو جاتا اور مزید کی ضرورت ہوتی تو مہمان پیار سے آواز دیتے کہ بیٹا سالن چاہئے۔اس خدمت میں اتنا لطف آ تا کہ اب تک اس خدمت کو ترستے ہیں ۔ روٹیاں تنوروں میں پکتیں اور مہمانوں تک گرما گرم پہنچائی جاتیں لنگر خانہ سے مہمانوں کی فرودگاہوں تک انہیں کیسے لایا جاتا تھا؟ ہمیں اس کے بارہ میں اتنا ہی پتہ ہے کوٹوکروں کے ٹوکرے خدام سروں پر اٹھا کر لاتے اور فرودگاہوں کے پاس لاکر رکھ دیتے وہاں سے ہم لوگ جوخوردسال تھے روٹیاں اٹھا اٹھا کر اندر تہ در تہ لگا دیتے اور کھانے کے وقت مہمانوں میں تقسیم کرتے کچھ بچے روٹی تقسیم کرتے توکچھ سالن ۔ جو بہت چھوٹے ہوتے انہیں پانی پلانے کی ڈیوٹی سو نپی جاتی۔
جلسہ سالانہ سے بہت پہلے محلوں میں انتظامات شروع ہو جاتے کہ کون کتنے مہمان اپنے گھر میں ٹھہراسکتا ہے؟ لوگ باگ بڑے اخلاص کے ساتھ مہمانوں کے لئے اپنے گھروں کو پیش کرتے اور مرکزی تنظیم والوں کو مطلع کر دیتے کہ ہمارے ہاں اتنے کمرے ہیں اور ہم ان کمروں میں سے اتنے کمرے مہمانوں کی خدمت کے لئے پیش کر سکتے ہیں ۔ ہمارے اپنے گھر کا عالم یہ تھا کہ ایک بڑا کمرہ تھا اور ایک چھوٹا سا کوٹھڑی نما کمرہ۔ ساتھ میں ایک چھپر سا تھا جسے باورچی خانہ کے طور پر استعمال کیا جا تا تھا۔ بعد میں سڑک کے رخ ایک کمرہ اور بن گیا تھا جسے ہم لوگ بیٹھک کہتے تھے۔ اس میں ہمارے چچا رفیق حیات کی لکھی ہوئی ایک وصلی الیس الله ،تقسیم ملک اور ہماری ہجرت کے بعد تک پڑی تھی۔ اس ڈھائی کمرہ والے مکان میں اللہ کے فضل سے ہم ،ہمارے امی ابا ،ہمارے پھوپھا پھوپھی جی، بھائی جان محمد احمد، ہمارے دادا اور دادی سب کی سمائی رہتی تھی ۔ جلسہ کے لئے سب لوگ ایک بڑے کمرہ میں سمٹ جاتے۔ بیٹھک ان مہمانوں کےلئے وقف کر دی جاتی جو جماعت کے انتظام کے تحت ہمارے ہاں قیام کے لئے آتے تھے۔ ہمیں یاد ہےکہ مکرم مرزا عبد الرحیم بیگ صاحب کا خاندان ہمارا مہمان ہوتا تھا۔ پھر مکرم با بابرکت علی صاحب بر ما والے بھی آتے رہے۔ یہ مہمان ان مہمانوں کے علا وہ ہوتے تھے جو جلسہ کے موقع پر چنگا بنگیال اور راولپنڈی کے اور علاقوں سے ہمارے ہاں تشریف لاتے ۔ مکرم بھائی فیض عالم خان چنگوی صاحب، مکرم بھائی ہد ایت الله بنگو ی صاحب یہ سب لوگ اپنے اپنے خاندانوں سمیت آتے اور جلسہ کے دنوں میں خوب رونق رہتی ۔ جلسہ گاہ ہمارے گھر سے بالکل قریب پڑتی تھی یعنی تعلیم الاسلام کا لج کے میدان ۔ اینٹوں سے عارضی سٹیڈیم سا بنایا جاتا اور تھوڑے تھوڑے فاصلے پر دو دو تین تین سیڑھیوں والے پشتے بنائے جاتے اور ان پرلکڑی کے بڑے بڑے شہتیر رکھ کر بیٹھنے کی جگہ بنا دی جاتی۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ لاؤڈ سپیکر نئے نئے آئے تھے اس لئے ان کا انتظام بھی ہوتا تھا مگر جلسہ گاہ اس طرح بنائی جاتی تھی کہ لاؤڈ سپیکر کے بغیر بھی آواز سب لوگوں تک پہنچ جائے۔ اس زمانہ میں پچاس ساٹھ ہزار آدمیوں تک آواز پہنچانا بڑا کارنامہ سمجھا جاتا تھا اب وہ دن آ لگے ہیں کہ پانچوں براعظموں میں بیک وقت امام وقت کی آواز نشر ہوتی اور پہنچتی ہے۔
اوپر مکرم بابا جی برکت علی صاحب کا ذکر ہوا ۔یہ برما کے رہنے والے تھے اور ہمارے ابا جب برمامیں مبلغ تھے تو ان کی تبلیغ سے احمدی ہوئے تھے۔ اباجی بتایا کرتے تھے کہ میں ان سے بہتیرا کہتا کہ امام مہدی کے آنے کے تمام نشان ظاہر ہو چکے ہیں مگر ان کی تسلی نہیں ہوتی تھی۔ وہ ہر نشان کو ظاہر میں پورا ہوتا دیکھنا چاہتے تھے کہ ہاتھ اور کان گز گز بھر کے ہو جائیں گے یعنی جو کچھ انہوں نے اپنے علماء سے سنا ہوا تھا انہیں بہ صورت ظاہر نظرنہیں آتا تھا۔ ابا جان کہتے ہیں ایک بار وہ رنگون سے کوئی دو تین سو میل کے فاصلہ پر واقع کسی شہر غالباً مانڈلے گئے ۔ ابّا جی کو الله تعالیٰ نے تدبیر سجھائی۔ آپ نے انہیں فون کیا اورکہا بابا جی میں رنگوں سے بات کر رہا ہوں اور صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کے کان اتنے لمبے ہو گئے ہیں کہ آپ تین سو میل سے میری بات سن رہے ہیں ۔ اتنا کہہ کر فون بند کر دیا۔ بابا جی نے واپس آتے ہی ابا جی کو بلا بھیجا اور بیعت کر لی ۔ یہ بڑ امخلص خاندان تھا پھرتو ان کے بیٹے مکرم محمود صاحب ہماری ایک منہ بولی بہن آپا عزیزہ سے بیاہے گئے ۔ (یہ عزیزه عزیزم مبارک احمد عابد کی خوش دامنہ ہیں) مکرم بابا کی برکت علی برمی کا خاندان جلسہ کے ناطے سے ہمارے ساتھ متعارف ہوا۔ اسی طرح مکرم مرزا عبدالرحیم بیگ صاحب کا خاندان اسی ناطہ سے ہمارا مہمان ہوا۔ ان کے قبلہ والد صاحب غالباً عبد الحکیم ان کا اسم گرامی تھا، پہلی بار جلسہ کے انتظام کے تحت ہمارے ہاں قیام کے لئے تشریف لائے تھے۔ مہمان داری کا وہ سلسلہ عمر بھر کی شناسائی اور دوستی میں بدل گیا۔ ربوہ میں بھی مکرم بھائی مرزا عبد الرحیم بیگ صاحب شروع شروع میں ہمارے ہاں ہی قیام فرماتے رہے۔ یہ برکتیں جلسہ کے ساتھ مختص تھیں۔ اب دوسرے ممالک میں ان کا ایک ادنیٰ سانمونہ تو نظر آ جاتا ہے مگروہ رونقیں کہاں سے لوٹ کر آ ئیں؟ ہر ملک میں جلسہ ہونے لگتا ہے تو وہاں کے امراء ممالک احباب جماعت سے کہتے ہیں کہ باہر سے آنے والے مہمانوں کے لئے اپنے اپنے مکانوں میں جگہ پیش کریں۔ اس طرح نئی اخوتیں اور نئے تعلقات جنم لیتے ہیں جو پہلے سے موجود احمد یت کے رشتہ میں مزید استواری کا موجب بنتے ہیں۔ اب تو جماعت اللہ کے فضل سے اتنی بڑھ گئی ہے کہ ہر ملک میں ایک ایک خاندان کے کئی کئی جاننے والے اس ملک کے مرکز میں موجود ہوتے ہیں ۔دو چار برس پہلے جرمنی میں جو نظارہ دیکھنے میں آیاوہ بھی عجیب نظارہ تھا کم و بیش پچاس ہزار آدمی جلسہ پر پہنچے ہوئے تھے ۔ فرینکفرٹ اورمن ہائم اور ہائیڈل برگ کی اپنی آبادی تو اسقدر نہیں کہ اتنے مہمانوں کو فرودگاہیں فراہم کر سکتی مگر لوگ سما گئے اور کوئی دقت ہوئی ہوتو ہوئی ہوکم از کم رہائش کی کوئی دقت نہیں ہوئی۔ نہ کھانا فراہم کرنے میں کوئی دشواری ہوئی ۔
ہم نے ایک جرمن دوست کو بتایا کہ مہمان داری کی روایت ہماری جماعت کی دیرینہ روایت ہے۔ وہ کہنے لگے کہ روایت اپنی جگہ اورزمینی حقائق اپنی جگہ۔ آخر اتنے لوگوں کی سمائی گھروں میں کہاں سے ہوگئی ہوگی ؟ وہ جرمنی گئے تو واپس آ کر بتایا کہ انہوں نے وہاں کئی ایسے لوگوں سے گفتگو کی ہے جن کے گھروں میں اجنبی احمدی مہمان ٹھہرائے گئے تھے اور ان خاندانوں نے بطیب خاطر ان کی مہمان داری کا فریضہ سرانجام دیا۔ ہماری بستی تو خیر چھوٹی تھی ٹرانسپورٹ کا کوئی مسئلہ نہیں تھا مگر ان ملکوں میں تو ٹرانسپورٹ کا مسئلہ بڑا مسئلہ ہے ۔جرمنی میں جلسہ گاہ من ہائم کی مئی مارکیٹ میں بنتی ہے جوفرینکفرٹ سے چالیس کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے۔ مرکز فرینکفرٹ ہے مگرلوگ دور در ازسے وہاں وقت پر پہنچتے ہیں۔جولوگ جلسہ پر جاتے ہیں ان کو پھر سارا وقت وہیں گزارنا ہوتا ہے اس لئے منتظمین کو دن بھر کی مصروفیت کا اہتمام رکھنا پڑتا ہے۔ جلسہ سنا ،کھانا کھایا، نماز یں پڑھیں اور دوستوں بزرگوں سے میل ملاقات کی کہ سال بھر کے بعد دوستوں کے یکجا ہونے کا موقع بھی ایک بار ہی آتا ہے۔ لندن میں بھی یہی عالم ہے۔ یو۔کے کے جلسے اسلام آباد ٹلفورڈ میں منعقد ہوتے رہے ہیں۔ جب ہم نے پہلی بار یہ جگہ دیکھی تو بھیڑوں کا گلہ وہاں چررہا تھا۔ اب حضرت مسیح موعود ؑ کی بھیٹر یں وہاں تھیں۔ وسیع وعریض خیموں میں سارا انتظام تھا۔ ہیچری کی لمبی لمبی بیرکوں میں مہمان ٹھہرے ہوئے تھے۔ مکرم اسلم صابر صاحب سے جب ہماری وہاںملاقات ہوئی توہم نے بہتیرا چاہا کہ انہیں بہلا پھسلا کر اپنے ساتھ لندن لے جائیں مگروہ کہنے لگےکہ جلسہ کی بیرکوں میں ٹھہرنےکا جومزہ ہے وہ گھر کے آرام میں کہاں؟ اس لئے ہماری خواہش کے باوجود وہ راضی نہ ہوئے۔ جلسہ کے بعد البتہ ہم انہیں لندن کے گلی کوچوں میں لئے لئے پھرے اور ہم نے تو اضع بھی اتنی ہی کر سکتے تھے کیونکہ ہم خودسویڈن سے مہمان کے طور پر گئے ہوئے تھے۔
امریکہ کا جلسہ دیکھا۔ وہی عالم تھا۔ لنگر جاری تھا۔ لوگوں کی رہائش البتہ ہوٹلوں میں تھی۔ ہم تو مکرم فداصاحب کے ہاں متمکن تھے مگر باقی دوستوں سے جس سے پوچھا اس نے یہی کہا فلاں ہوٹل میں ہوں یا فلاں موٹل میں ہوں۔ در اصل واشنگٹن میں مسجد کے آس پاس رہنے والے اتنے احمدی لوگ ہیں ہی نہیں جو اپنے مکان پیش کرسکیں اگر دور دور ہی ٹھہر نا ہے تو کیوں نہ قریب کے ہوٹلوں میں ڈیرہ لگایا جائے اور اس میں جماعت اپنا حصہ ادا کرتی تھی تا کہ جماعت کی میزبانی کا فرض ادا ہوتا رہے ۔ دور کی ریاستوں سے آنے والے یہی کرتے ہیں اور اسی میں آسائش بھی ہے۔ کینیڈا میں بھی ہم نے یہی دیکھا کہ لوگ گھروں میں ٹھہر تے ہیں مگر جو لوگ زیادہ دور نہ ٹھہر نا چا ہیں وہ ہوٹلوں میں جگہ بنا لیتے ہیں۔ اب کے جلسہ انٹرنیشنل سینٹر میں تھاجواحمدی لوگوں کی رہائش گاہوں سے دور ایک جگہ ہے اس کے قریب قریب ٹھہر نے کی جگہ ملنی مشکل تھی ۔انتظامات خوب تھے بلکہ لوگ اس جلسہ گاہ پر اتنے خوش ہوئے کہ بیک آواز امیر صاحب سے کہا کہ اگلے برس بھی یہی جگہ ریزرو کروالیں۔ گرمی سے آسائش رہتی ہے اور دیگر ضروریات بھی بطریق احسن مہیا ہیں ۔ یہ سب کچھ ہے مگر ہم سوچتے ہیں کہ لوگ کھانا کھلانے کے لئے جو کاغذ کے گلاس اور پلیٹیں مہیا کرتے ہیں ان میں اور ہمارے آبخوروں اور پیالوں میں کتنا فرق ہے۔ کاغذ میں مٹی کی خوشبو تو نہیں پیدا ہوسکتی؟ ہمیں ہمارے آب خورے ہی یادآتے رہے اور جس جلسہ پر جائیں وہاں انہیں کو یاد کرتے ہیں ۔مٹی کی کشش ہے یا جلسہ کی برکت ہے کیا ہے؟ (نوٹ: یہ ایک پرانا مضمون ہے جو اس وقت کی عکاسی کر رہا ہے)
؎آپ جو چاہیں علاج درد دل کرتے رہیں
ہم پرانوں کو وہی نسخہ پرانا چاہئے
(پروفیسر ڈاکٹر پرویز پروازی)