• 20 اپریل, 2024

جلسہ سالانہ کا پس منظر اور غرض و غایت حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی تحریرات

جلسہ سالانہ کے بارہ میں حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔
اس جلسہ کے اغراض میں سے بڑی غرض تو یہ ہے کہ تا ہر ایک مخلص کو بالمواجہ دینی فائدہ اٹھانے کا موقع ملے اور ان کے معلومات وسیع ہوں اور خدا تعالیٰ کے فضل وتوفیق سے ان کی معرفت ترقی پذیر ہو۔ پھر اس کے ضمن میں بھی فوائد ہیں کہ اس ملاقات سے تمام بھائیوں کا تعارف بڑھے گا اور اس جماعت کے تعلقات اخوت استحکام پذیر ہوں گے۔

ماسوا اس کے جلسہ میں یہ بھی ضروریات میں سے ہے کہ یورپ اور امریکہ کی دینی ہمدردی کے لئے تدابیر حسنہ پیش کی جائیں۔ کیونکہ اب یہ ثابت شدہ امر ہے کہ یورپ اور امریکہ کے سعید لوگ اسلام کے قبول کرنے کے لئے تیار ہورہے ہیں …

(اشتہار 7 دسمبر1892ء ۔ مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ341،340)

’’اس جلسہ سے مدعا اور اصل مطلب یہ تھا کہ ہماری جماعت کے لوگ کسی طرح بار بار کی ملاقاتوں سے ایک ایسی تبدیلی اپنے اندر حاصل کر لیں کہ ان کے دل آخرت کی طرف بکلی جھک جائیں اور ان کے اندر خدا تعالیٰ کا خوف پیدا ہو اور وہ زہد اور تقو یٰ اور خداترسی اور پرہیز گاری اور نرم دلی اور باہم محبت اور مواخات میں دوسروں کے لئے ایک نمونہ بن جائیں اور انکسار اور تواضع اور راستبازی ان میں پیدا ہو اور دینی مہمات کے لئے سرگرمی اختیار کریں‘‘

(شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد6 ص394)

’’میں ہر گز نہیں چاہتا کہ حال کے بعض پیرزادوں کی طرح صرف ظاہری شوکت دکھانے کے لئے اپنے مبائعین کو اکٹھا کروبلکہ وہ علت غائی جس کے لئے میں حیلہ نکالتا ہوں اصلاح خلق اللہ ہے‘‘

(شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد6 ص395)

’’تمام مخلصین داخلین سلسلہ بیعت پر ظاہر ہو کہ بیعت کرنے سے غرض یہ ہے کہ تا دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو۔ اور اپنے مولیٰ کریم اور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دل پر غالب آجائے ۔ اور ایسی حالت انقطاع پیدا ہو جائے جس سے سفر آخرت مکروہ معلوم نہ ہو۔ لیکن اس غرض کے حصول کے لئے صحبت میں رہنا اور ایک حصہ اپنی عمر کا اس راہ میں خرچ کرنا ضروری ہے۔ تا اگر خدائے تعالیٰ چاہے تو کسی بر ہان یقینی کے مشاہدہ سے کمزوری اور ضعف اور کسل دور ہو اور یقین کامل پیدا ہو کر ذوق اور شوق اور ولولہ عشق پیدا ہو جائے۔ سواس بات کے لئے ہمیشہ فکر رکھنا چاہیئے اور دعا کرنا چاہئے کہ خدائے تعالی یہ توفیق بخشے اور جب تک یہ توفیق حاصل نہ ہو۔ کبھی کبھی ضرور ملنا چاہیئے۔ کیونکہ سلسلہ بیعت میں داخل ہو کر پھر ملاقات کی پرواہ نہ رکھنا ایسی بیعت سراسر بے برکت اور صرف ایک رسم کے طور پر ہوگی۔ اور چونکہ ہر یک کے لئے بباعث ضعف فطرت یا کمی مقدرت یا بُعد مسافت یہ میّسر نہیں آ سکتا کہ وہ صحبت میں آ کررہے یا چند دفعہ سال میں تکلیف اٹھا کر ملاقات کے لئے آوے۔ کیونکہ اکثر دلوں میں ابھی ایسا اشتعال شوق نہیں کہ ملاقات کے لئے بڑی بڑی تکالیف اور بڑے بڑے حرجوں کو اپنے پر روا رکھ سکیں ۔ لہٰذا قرین مصلحت معلوم ہوتا ہے کہ سال میں تین روز ایسے جلسہ کے لئے مقرر کئے جائیں جس میں تمام مخلصین اگر خدا تعالیٰ چاہے بشرط صحت وفرصت و عدم موانع قویہ تاریخ مقررہ پر حاضر ہو سکیں‘‘

(آسمانی فیصلہ۔ روحانی خزائن جلد4 صفحہ351)

وفات پا جانے والوں کے لئے اجتماعی دعائے مغفرت

’’جو بھائی اس عرصہ میں اس سرائے فانی سے انتقال کر جائے گا اس جلسہ میں اس کے لئے دعائے مغفرت کی جائے گی‘‘

(آسمانی فیصلہ ، روحانی خزائن جلد2 صفر352)

جلسہ سالانہ کی عظمت

’’اس جلسہ کو معمولی انسانی جلسوں کی طرح خیال نہ کریں۔ یہ وہ امر ہے جس کی خالص تائید حق اور اعلائے کلمہ اسلام پر بنیاد ہے۔ اس سلسلہ کی بنیادی اینٹ خدا تعالی نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے اور اس کے لئے قومیں طیار کی ہیں جو عنقریب اس میں آملیں گی کیونکہ یہ اس قادر کافعل ہے جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں‘‘

(اشتہار 7دسمبر 1892ء مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 341)

جلسہ سالانہ کی برکات وفوائد

’’حتی الوسع تمام دوستوں کو محض ر بانی باتوں کے سننے کے لئے اور دعامیں شریک ہونے کے لئے اس تاریخ پر آجانا چاہئے اور اس جلسہ میں ایسے حقائق اور معارف کے سنانے کا شغل رہے گا جو ایمان اور یقین اور معرفت کو ترقی دینے کے لئے ضروری ہیں ۔ اور نیز ان دوستوں کے لئے خاص دعائیں اور خاص توجہ ہو گی اور حتی الوسع بدرگا ہ ارحم الراحمین کوشش کی جائے گی کہ خدائے تعالیٰ اپنی طرف ان کو کھینچے اور اپنے لئے قبول کرے اور پاک تبدیلی ان میں بخشے ۔ اور ایک عارضی فائدہ ان جلسوں میں یہ بھی ہو گا کہ ہر یک نئے سال جس قدر نئے بھائی اس جماعت میں داخل ہو ں گے وہ تاریخ مقررہ پر حاضر ہو کر اپنے پہلے بھائیوں کے منہ دیکھ لیں گے اور روشناسی ہو کر آپس میں رشتۂ تو دّد تعارف ترقی پذیر ہوتا رہے گا ۔۔۔۔۔ اور اس روحانی جلسہ میں اور بھی کئی روحانی فوائد اور منافع ہوں گے جو ان شاء اللہ القدیر وقتاً فوقتاً ظاہر ہوتے رہیں گے‘‘

(آسمانی فیصلہ اشتہار 30دسمبر 1891ء روحانی خزائن جلد4 صفحہ 253)

’’اور تمام بھائیوں کو روحانی طور پر ایک کرنے کے لئے اور ان کی خشکی اور اجنبیت اور نفاق کو درمیان سے اٹھا دینے کے لئے بدرگاہ حضرت عزت جل شانہ کوشش کی جائے گی‘‘

(آسمانی فیصلہ، روحانی خزائن جلد4 صفحہ352)

جلسہ سالانہ میں شمولیت کے لئے تا کیدی ارشادات

’’سلسلۂ بیعت میں داخل ہو کر پھر ملاقات کی پروا نہ رکھنا اسی بیعت سراسر بے برکت اور صرف ایک رسم کے طور پر ہوگی اور چونکہ ہر یک کے لئے باعث ضعف فطرت یا کمی مقدرت یا بعد مسافت یہ میّسر نہیں آ سکتا کہ وہ صحبت میں آ کر رہے یا چند دفعہ سال میں تکلیف اٹھا کر ملاقات کے لئے آوے۔ کیونکہ اکثر دلوں میں ابھی ایسا اشتعال شوق نہیں کہ ملاقات کے لئے بڑی بڑی تکالیف اور بڑے بڑے حرجوں کو اپنے پرروارکھ سکیں۔ لہٰذاقرین مصلحت معلوم ہوتا ہےکہ سال میں تین روز ایسے جلسہ کے لئے مقرر کئے جائیں ۔ جس میں تمام مخلصین اگر خدا تعالیٰ چاہے بشرط صحت وفرصت و عدم موانع قویہ تاریخ مقررہ پر حاضر ہوسکیں‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ302)

’’دل تو یہی چاہتا ہے کہ مبائعین محض للہ سفر کر کے آویں اور میری صحبت میں رہیں اور کچھ تبدیلی پیدا کر کے جائیں کیونکہ موت کا اعتبار نہیں ۔ میرے دیکھنے میں مبائعین کو فائدہ ہےمگر مجھے حقیقی طور پر وہی دیکھتا ہے جو صبر کے ساتھ دین کو تلاش کرتا ہے اور فقط دین کو چاہتا ہے سو ایسے پاک نیت لوگوں کا آنا ہمیشہ بہتر ہے‘‘

(شہادت القران، روحانی خزائن جلد6 صفحہ395)

’’دین تو چاہتا ہے مصاحبت ہو، پھر مصاحبت ہو۔ اگر مصاحبت سے گریز ہوتو دینداری کے حصول کی امید کیوں رکھتا ہے۔ ہم نے بار بار اپنے دوستوں کو نصیحت کی ہے کہ وہ بار بار یہاں آکر رہیں اور فائدہ اٹھائیں مگر بہت کم توجہ کی جاتی ہے ۔ لوگ ہاتھ میں ہاتھ دے کر دین کو دنیا پر مقدم کر لیتے ہیں مگر اس کی پرواہ کچھ نہیں کرتے۔ یاد رکھو قبریں آوازیں دےرہی ہیں اور موت ہر وقت قریب ہوتی جارہی ہے۔ ہر ایک سانس تمہیں موت کے قریب کرتا جا تا ہے اور تم اسے فرصت کی گھڑیاں سمجھتے ہو ۔ الله تعالیٰ سے مکر کرنا مومن کا کام نہیں ہے جب موت کا وقت آگیا پھر ایک ساعت آگے پیچھے نہ ہوگی وہ لوگ جو اس سلسلہ کی قد ر نہیں کرتے اور انہیں کوئی عظمت اس سلسلہ کی معلوم ہی نہیں ان کو جانے دو ۔مگر ان سب سے بدقسمت اور اپنی جان پر ظلم کرنے والاتو وہ ہے جس نے اس سلسلے کو شناخت کیا اور اس میں شامل ہونے کی فکر کی لیکن پھر اس نے کچھ قدرنہ کی ۔ وہ لوگ جو یہاں آ کر میرے پاس کثرت سے نہیں رہتے اور ان باتوں کو جو خدا تعالیٰ ہر روز اپنے سلسلہ کی تائید میں ظاہر کرتا ہے نہیں سنتے اور دیکھتے وہ اپنی جگہ کیسے ہی نیک ،متقی اور پرہیز گار ہوں مگر میں یہی کہوں گا کہ جیسا چاہئے انہوں نے قدر نہ کی ۔ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ تکمیل علمی کے بعد تکمیل عملی کی ضرورت ہے اور تکمیل عملی بدوں تکمیل علمی کے محال ہے اور جب تک یہاں آ کر نہیں رہتے تکمیل علمی مشکل ہے‘‘

(الحکم 17ستمبر 1901ء)

’’اور کم مقدرت احباب کے لئے مناسب ہوگا کہ پہلے ہی سے اس جلسہ میں حاضر ہونے کی فکر رکھیں ۔ اور اگر تدبیر اور قناعت شعاری سے کچھ تھوڑا تھوڑا سرمایہ خرچ سفر کے لئے ہر روز یا ماہ بماہ جمع کرتے جائیں اور الگ رکھتے جائیں تو بلا دقت سرمایہ سفر میسر آجاوے گا گویا یہ سفر مفت میسّر ہو جائے گا‘‘

(آسمانی فیصلہ روحانی خزائن جلد4 ص352)

جلسہ سالانہ کا لازمی تقاضا

’’سب کو متوجہ ہو کر سننا چاہئے پورے غور او رفکر کے ساتھ سنو کیونکہ یہ معاملہ ایمان کا ہے اس میں سستی، غفلت اور عدم توجہ بہت برے نتائج پیدا کرتی ہے ۔ جو لوگ ایمان میں غفلت سے کام لیتے ہیں اور جب ان کو مخاطب کر کے کچھ بیان کیا جائے تو غور سے اس کو نہیں سنتے ۔ ان کو بولنے والے کے بیان سے خواہ وہ کیسا ہی اعلیٰ درجہ کا مفید اور مؤثر کیوں نہ ہو کچھ بھی فائدہ نہیں ہوتا۔ ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جن کی بابت کہا جاتا ہے کہ وہ کان رکھتے ہیں مگر سنتے نہیں اور دل رکھتے سمجھتے نہیں پس یا درکھو کہ جو کچھ بیان کیا جاوے اسے توجہ اور بڑے غور سے سنو ۔کیونکہ جو توجہ سے نہیں سنتا وہ خواہ عرصہ دراز تک فائده رساں وجود کی صحبت میں رہے اسے کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچ سکتا‘‘۔

(الحکم 10مارچ 1902ء)

دسمبر 1899ء کے جلسہ سالانہ پر بہت کم لوگ آئے ۔ اس پر حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام نے بہت اظہارافسوس کیا اور فرمایا:

جلسہ سالانہ پر نہ آنے والوں پر اظہار افسوس

’’ہنوز لوگ ہمارے اغراض سے واقف نہیں کہ ہم کیا چاہتے ہیں کہ وہ بن جائیں۔ وہ غرض جو ہم چاہتے ہیں اور جس کے لئے ہمیں خدا تعالیٰ نے مبعوث فرمایا ہے۔ وہ پوری نہیں ہو سکتی ۔ جب تک لوگ یہاں بار بار نہ آئیں اور آنے سے ذرا بھی نہ اکتائیں۔‘‘ اور فرمایا۔
’’جوشخص ایسا خیال کرتا ہے کہ آنے میں اس پر بوجھ پڑتا ہے۔ یا ایسا سمجھتا ہے کہ یہاں ٹھہرنے میں ہم پر بوجھ ہوگا۔ اسے ڈرنا چاہئے کہ وہ شرک میں مبتلا ہے۔ ہمارا تو یہ اعتقاد ہے کہ اگر سارا جہان ہمارا عیال ہو جائے تو ہمارے مہمات کا متکفل خدا تعالیٰ ہے۔ ہم پر ذرا بھی بوجھ نہیں۔ ہمیں تو دوستوں کے وجود سے بڑی راحت پہنچتی ہے۔ یہ وسوسہ ہے جسے دلوں سے دور پھینکنا چاہئے۔ میں نے بعض کو یہ کہتے سنا ہے کہ ہم یہاں بیٹھ کر کیوں حضرت صاحب کو تکلیف دیں۔ ہم تو نکمے ہیں۔ یوں ہی روٹی بیٹھ کر کیوں توڑا کریں۔ وہ یہ یا درکھیں یہ شیطانی وسوسہ ہے جو شیطان نے ان کے دلوں میں ڈالا ہے کہ ان کے پیر یہاں جمنے نہ پائیں‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ455)

جلسہ پر آنے والوں کے لئے ضروری ہدایات

’’لازم ہے کہ اس جلسہ پر جوکئی بابرکت مصالح پرمشتمل ہے ہر ایک ایسے صاحب ضرور تشریف لا ویں جو زاد راہ کی استطاعت رکھتے ہوں اور اپنا سر مائی بستر لحاف وغیرہ بھی بقدرضرورت ساتھ لا ویں اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی راہ میں ادنےٰ ادنےٰ حرجوں کی پرواہ نہ کر یں‘‘

(اشتہار 7دسمبر 1892ء مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ341)

’’میں سچ سچ کہتا ہوں کہ انسان کا ایمان ہرگز درست نہیں ہوسکتا جب تک اپنے آرام پر اپنے بھائی کا آرام حتّی الوسع مقدم نہ ٹھہراوے۔ اگر میرا ایک بھائی میرے سامنے باوجود اپنے ضعف اور بیماری کے زمین پر سوتا ہے اور میں باوجود اپنی صحت اور تندرستی کے چار پائی پر قبضہ کرتا ہوں تا وہ اس پر بیٹھ نہ جاوے تو میری حالت پر افسوس ہے اگر میں نہ اٹھوں اور محبت اور ہمدردی کی راہ سے اپنی چار پائی اس کو نہ دوں اور اپنے لئے فرش زمین پسند نہ کروں اگر میرا بھائی بیمار ہے اور کسی درد سے لا چار ہے تو میری حالت پر حیف ہے اگر میں اس کے مقابل پر امن سے سو رہوں اور اس کے لئے جہاں تک میرے بس میں ہے آرام رسانی کی تدبیر نہ کروں اور اگر کوئی میرا دینی بھائی اپنی نفسانیت سے مجھ سے کچھ سخت گوئی کرے تو میری حالت پر حیف ہے اگر میں بھی دیدہ و دانستہ اس سے سختی سے پیش آؤں بلکہ مجھے چا ہئے کہ میں اس کی باتوں پر صبر کروں اور اپنی نمازوں میں اس کے لئے رو رو کر دعا کروں کیونکہ وہ میرا بھائی ہے اور روحانی طور پر بیمارہے۔ اگر میرا بھائی سادہ ہو یا کم علم یا سادگی سے کوئی خطا اس سے سرزد ہو تو مجھے نہیں چاہیئے کہ میں اس سے ٹھٹھا کروں یا چیں بر جبیں ہو کر تیزی دکھا ؤں یا بد نیتی سے ان کی عیب گیری کروں کہ یہ سب ہلاکت کی راہیں ہیں ۔ کوئی سچا مومن نہیں ہوسکتا جب تک اس کا دل نرم نہ ہو۔ جب تک وہ اپنے میں ہر یک سے ذلیل تر نہ سمجھے اور ساری مشیختیں دور نہ ہو جا ئیں ۔خادم القوم ہونا مخدوم بننے کی نشانی ہے اورغریبوں سے نرم ہو کر اور جھک کر بات کرنا مقبول الٰہی ہونے کی علامت ہے، اوربدی کا نیکی کے ساتھ جواب دینا سعادت کے آثار ہیں اور غصہ کو کھا لینا اور تلخ بات کو پی جانا نہایت درجہ کی جوانمردی ہے مگر میں دیکھتا ہوں کہ یہ باتیں ہماری جماعت کے بعض لوگوں میں نہیں‘‘

(شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد6 صفحہ 396-395)

جلسہ سالانہ کے شرکاء کے لئے دعائیں

’’ہر یک صاحب جو اس للّٰہی جلسہ کے لئے سفر اختیار کریں۔ خدا تعالیٰ ان کے ساتھ ہو اور ان کواجر عظیم بخشے اور ان پر رحم کرےاور ان کی مشکلات اور اضطراب کے حالات ان پر آسان کر دیوےاور ان کے ہم وغم دور فرماوے اور ان کو ہر یک تکلیف سے مخلصی عنایت کرے اور ان کی مرادات کی راہیں ان پر کھول دیوے اور روز آخرت میں اپنے ان بندوں کے ساتھ ان کو اٹھاوے جن پر اس کا فضل و رحم ہے اور تا اختتام سفر ان کے بعد ان کا خلیفہ ہو ۔ اے خدا اے ذوالمجد و العطاء اور رحیم اور مشکل کشا یہ تمام دعائیں قبول کر اور ہمیں ہمارے مخالفوں پر روشن نشانوں کے ساتھ غلبہ عطا فرما ۔کہ ہر یک قوت اور طاقت تجھ ہی کو ہے۔ آمین ثم آمین۔‘‘

(اشتہار 7 دسمبر 1892ء مجموعہ اشتہارات جلد اول ص343)

’’اس جلسہ پر جس قدر احباب محض للہ تکلیف سفر اٹھا کر حاضر ہوئے خدا ا ن کو جزائے خیر بخشے اور ان کے ہر یک قدم کاثواب ان کو عطا فرماوے۔ آمین ثم آمین‘‘

(آسمانی فیصلہ۔ روحانی خزائن جلد4، ص 351تا 353)

(مجموعہ اشتہارات جلد اول ص 302 تا 304)

٭…٭…٭

(مرسلہ: سعید الدین احمد)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 دسمبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 دسمبر 2020