جلسہ سالانہ قادیان کے سو سال پورے ہونے اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒکی قادیان جلسہ سالانہ آمد پراس سال جلسہ میں شرکت کرنے والوں کا جوش قابل دید تھا ، احمدیوں کی پاکستان بھر سے ایک بہت بڑی تعداد جلسہ پر جا رہی تھی جس میں مرد و خواتین کے علاوہ بچے اور بوڑھے سبھی شامل تھے ۔ اسی طرح بیرون ممالک سے بھی احمدیوں کی کثیر تعداد قادیان جلسہ میں شامل ہونے کے لئے پاکستان پہنچ رہی تھی ، اکثریت کی یہ خواہش تھی کہ وہ قادیان جانے سے پہلے ربوہ مرکز کی بھی زیارت کرتے جائیں لہذاقادیان جانے والوں کی تعداد میں بہت اضافہ ہو گیا تھا ۔گویا اس سال دنیا کے کونے کونے سے ہر قوم، ہر نسل اور ہر رنگ کی قوم سے تعلق رکھنے احمدی لاہور پہنچ رہے تھے۔ سید ناحضرت مسیح موعود علیہ اسلام نے جلسہ سالانہ کے بارے میں فرمایا ہے کہ ’’اس جلسہ کو معمولی جلسوں کی طرح خیال نہ کریں ۔ ۔ ۔ ۔ یہ وہ امر ہے جس کی خالص تائید حق اور اعلائے کلمہ اسلام پر بنیاد ہے ۔ اس کی بنیادی اینٹ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے اور اس کے لئے قو میں تیار کی ہیں جو عنقریب اس میں آ ملیں گی کیونکہ یہ اس قادر کا فعل ہے جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں‘‘۔ (اشتہار،سات دسمبر (1892ء)۔ اس سال مجلس خدام الاحمدیہ لاہور کے کندھے پر خدمت خلق کی زیادہ ذمہ داری آن پڑی تھی اورمجلس خدام احمدیہ لاہور کی قیادت محترم عبد الحلیم طیب صاحب (حال مقیم کینیڈا) کے ہاتھوں میں تھی ، جبکہ علاقہ لاہور کے قائد مکرم محمد اسلم بھروانہ صاحب (شہیددارالذکر 28 مئی 2010ء) تھے جو کہ ریلوے میں ایک اعلیٰ عہدہ پر فائز تھے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل خاص سے ان کے ذریعے مہمانان مسیح موعود کی سہولیات کے ایسے ایسے سامان پیدا کردیئے تھے کہ جن کو دیکھ کر ایمان تازہ ہو جاتا تھا، پلیٹ فارم پر جملہ خدام کو ہر طرح کے دیگر انتظامات میں مکمل رسائی حاصل تھی جومحترم اسلم بھروانہ صاحب شہید کی محکمہ میں شاندار شہرت اور کارکردگی کے باعث تھی، ریلوے کے تمام افسران اور سٹاف نے ان کی نیک نامی اور قابلیت کی بنا پرناقابل یقین حد تک تعاون کیا تھا 1991ء میں لاہور کی تمام ذیلی تنظیموں ، خدام الاحمدیہ ، انصاراللہ اور لجنہ اماء اللہ لاہورنے یک جان ہو کر نظام جماعت کی کامل اطاعت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ کے مہمانوں کی خدمت کرنے میں کوئی کسرنہ اٹھا رکھی تھی، دعاؤں اور خصوصی نوافل کے ساتھ ہر خادم، ناصر، لجنہء اور طفل نے اپنا اپنا حصہ ڈالنے کی ہرممکنہ کوشش کی ۔ انہی دنوں میں مہمانان مسیح موعودؑ کی خدمت کرنے کے ایسے ایسے ایمان افروز واقعات رونما ہوئے جو صرف جماعت احمدیہ ہی کے اندر ممکن ہوسکتے ہیں ، قادیان کے مہمانوں کی خدمت کا یہ عالم اور جنون تھا کہ ان دنوں تھکاوٹ نام کی کوئی چیز نہیں تھی، نوکریوں ، ملازمتوں ، دفاتر اور تعلیمی اداروں سے چھٹیاں لے رکھی تھیں کہ ہم نے دین کو دنیا پر مقدم رکھتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ کے مہمانوں کی خدمت کرنی ہے ۔ اس وقت کے امیر لاہور مکرم چوہدری حمید نصراللہ خاں صاحب ذاتی طور سبھی معاملات کی نگرانی کر رہے تھے، افراد خاندان اقدس مسیح موعودؑ، ربوہ کی صدر انجمن احمدیہ کے ناظر صاحبان اور انجمن تحریک جدید کے وکلاء صاحبان کی آمد اور روانگی کے حوالے سے لاہور میں سکیورٹی اور دیگرخصوصی انتظامات کئے گئے تھے، اسی طرح بیرون ممالک سے آنے والے مہمانوںکے بارے میں بھی امیر لاہور مکرم چوہدری حمید نصراللہ خاں صاحب ذاتی طور پر نگرانی کرتے تھے اور ان کے شیڈول سے آگاہ رہتے تھے اور ان کے پاسپورٹس کی حفاظت کےبارے میں خصوصی ہدایات دے رکھی تھیں ۔ مجلس خدام الاحمدیہ کی ٹیمیں طے شدہ شیڈول کے مطابق تمام معزز مہمانوں کا استقبال کرکے ان کو انکی رہائش گاہوں تک پہنچاتی تھیں ۔ دارالذکر میں دفتر خدام الاحمدیہ چوبیس گھنٹہ کھلا رہتا تھا اور ممبران ضلعی عاملہ اور مقامی مجلس کے خدام ہر وقت ڈیوٹی پر موجود رہتے تھے ۔ الحمد للہ اس تاریخی اور یادگار سال کے موقع پرقادیان جلسہ پر جانے اور پھر وہاں سے آنے والے حضرت مسیح موعود کے مہمانوں کے لئے 16دسمبر1991ءسے لےکر 3جنوری1992ء تک چوبیس چوبیس گھنٹے مختلف مقامات پر ڈیوٹیاں ادا کی گئیں ۔ مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ ضلع لاہورکی مشاورت اور منصوبہ بندی کے بعد مکرم چوہدری حمید نصراللہ خاں صاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور کی منظوری سے لاہور میں درج ذیل استقبالیہ سنٹر قائم کردیئے گئے تھے جن میں کڑک ھاؤس ، لاہور ائیرپورٹ، دارالذکر ، واہگہ بارڈر ، ریلوے اسٹیشن اور ماڈل ٹاؤن شامل تھے، پاکستان بھر سے آنے والے مہمانوں کو ان کے پروگرام کے مطابق ان سنٹرز پر لے جایا جاتا تھا، قریبی شہروں کے مہمان سیدھے بارڈر یا ریلوے اسٹیشن پر جاتے تھے لیکن دور کے شہروں والے مہمان ایک یا دو دن لاہور میں قیام کرتے تھے ۔ مہمان نوازی کے ان اجتماعی سنٹروں کے علاوہ مہمانوں کو انفرادی طور پر بھی گھروں میں ٹھہرایا گیا تھا جس کے لئے مقامی میزبانوں کی لسٹیں پہلے ہی تیار کر لی گئیں تھیں ۔ ان مہمان نوازی کے سنٹرز کے علاوہ دو اور اہم کام بھی خدام الاحمدیہ کے ذمہ تھے ان میں ایک احباب کو پاسپورٹس کی ترسیل اور دوسرا بوقت ضرورت طبی امداد کی فراہمی ۔ ہر سنٹر میں ایک استقبالیہ اور رجسٹریشن سنٹر بھی قائم تھا جہاں مہمانوں کا سامان سمیت اندراج ہوتا تھا ۔ دارالذکر، ماڈل ٹاؤن یا کڑک ہاؤس پہنچنے پر مہمانوں کا سامان گاڑیوں سے اتارا جاتا تھا، بعد ازاں رہائش کمیٹی کی مدد سے مہمانوں کو ان کے کمروں تک پہنچایا جاتا تھا اور آمد پر طعام کمیٹی کے معاونین ان کو کھانا اور چائے پیش کرتے تھے، طبی امداد کےکیمپ میں ڈاکٹرزاور طبی معاونین چوبیس گھنٹے ڈیوٹی پر موجود رہتے تھے ۔ ٹرانسپورٹ کمیٹی کی توسط سے مہمانوں کو سنٹرزیا انفرادی گھروں میں پہنچایا جاتا تھا۔ واہگہ بارڈر اور ریلوے اسٹیشن لے جانے کا انتظام بھی ٹرانسپورٹ کمیٹی کے سپرد تھا ۔ اسی طرح قادیان روانگی سے قبل پاسپورٹ بھی مکمل اور ضروری کاروائی کے بعد مہمانوں کو دیئے جاتے تھے یہ ایک اہم اور نازک ذمہ داری تھی جس کو احسن طریق سے نبھانے کی توفیق ملی۔الحمدللہ علیٰ ذلک
ریلوے اسٹیشن ۔ یہاں کام کی نوعیت کچھ مختلف تھی چونکہ گاڑیوں کی پارکنگ اور انڈیا کے پلیٹ فارم کے دوران کافی فاصلہ تھا لہذا خدام اسٹیشن سے باہر آنے والا سامان اٹھاتے اور پلیٹ فارم پر لاتے اور پھر وہاں سے کلئیر کرواکر سامان اٹھا کر گاڑی کے ڈبوں کے اندر تک پہنچاتے تھے اور یہاں خدام کی تعداد سب سے زیادہ رہی تھی اور صحت مند خدام ہی اس ڈیوٹی کے لئے منتخب کئے گئے تھے، دیگر سنٹرزکی طرح ریلوے اسٹیشن پر بھی گرم چائے اور طعام کا انتظام ہوتا تھا، فوری طبی امداد کا کیمپ بھی چوبیس گھنٹے کھلا رہتا تھا ۔ الہام حضرت مسیح موعودؑ ’’تیری عاجزانہ راہیں اسے پسند آئیں‘‘ کا مصداق لاہور کا ہر وہ احمدی جس کو اللہ تعالیٰ نے دنیاوی عزت دے رکھی تھی ،وہ بھی مسیح موعودؑ کے مہمانوں کی خدمت کرنے کو بے چین نظر آتا تھا ۔ محترم عبد الحلیم طیب صاحب حال مقیم کنیڈا بیان کرتے ہیں کہ ‘‘محترم شیخ منیر احمد صاحب سیالکوٹ میں ڈسٹرکٹ ایند سیشن جج تھے لیکن ان دنوں لاہور میں تھے، اور وہ خود بسوں کی چھتوں پر قادیان کے مہمانوں کا سامان رکھا کرتے تھے، بعد میں وہ لاہور کے امیر بن گئے تھے اور 28 مئی2010 کو دارالذکر پر حملہ کے دوران شہید ہوگئے تھے، اسی طرح جنرل ریٹائرڈ ناصر احمد صاحب شہید ماڈل ٹاؤن، مکرم راجہ غالب احمد صاحب مرحوم اور مکرم عبد المالک صاحب مرحوم بھی انہی دنوں مکرم امیر صاحب کی رہنمائی میں مہمانوں کی خدمت میں مصروف تھے ۔ مکرم عبد الحفیظ گوندل صاحب سابق قائد علاقہ لاہور جو پی اینڈ ڈی کے محکمہ سے چیف انجینئر کے عہدہ سے ریٹائرڈ ہوکر آج کل کینیڈا مقیم ہیں نے بتایا کہ ‘‘ منور احمد قیصر صاحب جوبلی جلسہ سالانہ قادیان کی دسمبر میں ڈیوٹی کے دوران صبح سویرے کراچی سے آنے والی ٹرین اورقادیان جانے والی ٹرین کے تمام مسافروں کو سبز الائچی والی گرم گرم چائے پلایا کرتے تھے اورانہوں نے یہ ڈیوٹی انتہائی خلوص اور محبت کے ساتھ ادا کی تھی اور وہ بالکل نہ آرام کرتے تھے نہ ہی اپنی دوکان کی فکر کرتے تھے، بعد میں اسی جذبہ کے ساتھ دارالذکر کے گیٹ پر سیکورٹی ڈیوٹی ادا کرتے انہوں نے 28 مئی کو شہادت کا رتبہ پایا تھا ۔ جلسہ قادیان کے اختتام پر سامان اٹھانے اور باہر لانے کے علاوہ دوسرے اضلاع کے احباب کے لئے بسوں اور ویگنوں کے انتظامات کئے گئے یوں ٹرانسپورٹ کمیٹی نے اس ذمہ داری کو احسن طریق سے نبھانے کی کوشش کی ۔ ان دنوں میں دوسرے شہروں سے آنے والے مہمانان مسیح موعودؑ ان خدام،اطفال اور انصار کے لئے دعائیں بھی کرتے رہے تھے، خدمت کے ذوق اور شوق کا ایک عجب سماں تھا جو اس موقع پر نظر آتا تھا ۔
ڈیوٹی دینے والے خدام کے اعزاز میں ضیافت کی تقاریب
1991 کے صد سالہ جلسہ قادیان کے موقع پر لاہور کے خدام اور اطفال کو حضرت مسیح موعودؑ کے مہمانوں کی دیکھ بھال اور خدمت کی جو غیرمعمولی توفیق ملی تھی اس پر لاہور میں خدام اطفال کے اعزاز میں دو دعوتوں کا اہتمام کیا گیا تھا ۔ پہلی تقریب31جنوری1992کو بعد نماز مغرب بیت النور ماڈل ٹاءون میں منعقد ہوئی تھی جس میں طاہر بلاک کے خدام و اطفال نے شرکت کی تھی ۔ تقریب میں قادیان کے بابرکت ایام میں ڈیوٹیاں دینے والے خدام و اطفال کے کام اور جذبہ خدمت دین کو سراہتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیاگیا ۔ دوسری تقریب14فروری شام پانچ بجے دارالذکر میں منعقد ہوئی جس میں مجالس گلشن پارک، مغلپورہ، شالامارٹاؤن، گلبرگ ، ڈیفنس سوسائٹی اور چھاؤنی کے خدام اوراطفال نے شرکت کی ۔ تقریب کی صدارت مکرم چوہدری حمید نصراللہ خاں صاحب امیر جماعت احمدیہ نے کی تھی ۔ مکرم امیر صاحب نے اپنے خطاب میں موقع کی مناسبت سے خدام کے کام پر اظہار خوشنودی کیا اور آئندہ اس سے بڑی ذمہ داریاں نبھانے کی تیاری کی طرف توجہ دلائی ۔
مکرم ڈاکٹر عبدالخالق خالد صاحب، مہتم عمومی مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان کا اظہار خوشنودی۔ 1991کے صد سالہ جلسہ قادیان کے موقع پر لاہور کے خدام اور اطفال کی خدمات پر قائد ضلع لاہور کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں ’’قادیان جلسہ سالانہ کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے جس احسن رنگ میں آپ کو اور آپ کے خدام کو خدمت کی توفیق دی اس پر آپ سب دلی مبارک باد کے مستحق ہیں ۔ آپ کی قیادت میں خدام نے جس محنت، خلوص کے ساتھ لاہور میں مہمانوں کی خدمت کی وہ بھی قابل رشک ہے اور جلسہ سالانہ کے مہمانان نے لاہور کے خدام کی اس معیار کی خدمت کو بہت سراہا اور بہت دعاؤں سے نوازا ۔ قادیان کے جلسہ سالانہ کے موقع پر لاہور کے خدام کے سپرد جو خدمت خلق کی ڈیوٹی دی گئی وہ بھی بہت احسن طریق سے سرانجام دی ۔ اللہ تعالیٰ اس خدمت کوقبول فرمائے اور احسن جزاء سے نوازے‘‘۔
(مرسلہ: منور علی شاہد ( جرمنی))