1891ء کا سال جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔یہی وہ سال ہے جب ایک اور انقلابی و روحانی دور کا آغاز ہوا۔اس سال بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانؑی نے جلسہ سالانہ کا آغاز فرمایا۔
انعقاد کے تئیس سال تک کچھ مستورات جلسہ سالانہ پر حاضر ہوتی رہیں۔لیکن خواتین کے جلسہ سالانہ کا باقاعدہ کوئی انتظام نہیں ہوتا تھا۔حضرت امام جماعت احمدیہ خلیفۃالمسیح الثانؓی کےمبارک عہد امامت کے پہلے سال خواتین کا باقاعدہ جلسہ منعقد ہوا۔گو اس جلسہ کا پروگرام کافی مشتہر نہ ہو سکا۔باوجود اس کے 400کے قریب مستورات نے شرکت کی۔اس پہلے اہم اور قابل ذکر جلسے میں 100کے قریب مستورات نے بیعت کی۔1916ء کے جلسہ میں آنے والی مستورات کے لئے اعلان کیا گیا کہ اس سال مستورات حضرت اماں جانؓ اور حضرت امام جماعت احمدیہ اولؓ کے گھر ٹھہریں تا کہ اجتماعی فوائد کے علاوہ اماں جانؓ حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگمؓ صاحبہ حرم حضرت بانی سلسلہ احمدیہؓ اور اہل خانہ حضرت امام جماعت احمدیہ اول ؓکی پاک صحبت سے مستفیض ہونے کا موقع بھی حاصل رہے۔1917ء کا جلسہ سالانہ مستورات اس لحاظ سے قابل ذکر ہے کہ یہ پہلا جلسہ تھا جس کا الگ انتظام کیا گیا۔
1920ء کے جلسہ سالانہ میں مستورات کے لئے علیحدہ انتظام بیت الاقصیٰ قادیان میں کیا گیا ۔مردانہ پنڈال میں بھی برعایت پردہ ایک مختصر سا حصہ قناتیں لگا کر عورتوں کے لئے مخصوص کیا گیا اس جلسہ میں عام عورتوں کو داخلے کی اجازت نہ تھی۔بلکہ صرف وہ مستورات جو حضرت امام جماعت احمدیہ کے علمی مضامین کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتی تھیں انہیں باقاعدہ ٹکٹ لے کر شامل ہونے کی اجازت تھی۔
1922ء کا سال اس لحاظ سے قابل ذکر اور اہم ثابت ہوا کہ اس سال مستورات کی عظیم اور عالمگیر تنظیم لجنہ اماء اللہ قائم کی گئی۔اس تنظیم نے احمدی مستورات کے اندر انقلابی تبدیلی پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔اس سال جلسہ سالانہ لجنہ اماء اللہ کے زیر انتظام نہایت کامیابی سے منعقد کیا گیا۔لجنہ اماء اللہ کی بناء امام جماعت احمدیہ خلیفۃ المسیح الثانی حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ صاحب کے بابرکت ہاتھوں سے رکھی گئی۔
1923ء کے جلسہ سالانہ میں کارکنات کا نقشہ پہلی بار چھاپ کر تقسیم کیا گیا۔مہمان خواتین کو تین مقامات پر ٹھہرایا گیا۔دار حضرت بانی سلسلہؑ دار حضرت امام جماعت احمدیہ خلیفۃالمسیح الاول ؓاور مکان محترم گل محمد صاحب اس جلسہ میں چندہ کی تحریک کی گئی۔ دوران تحریک ہی احمدی مستورات نے اپنے زیورات اور نوٹ چندہ میں دینے شروع کر دئیے۔اسی طرح ایک نیک اور بابرکت روایت کی بناء پڑی۔قربانی کی یہ روایت آج بھی اسی طرح زندہ جاوید ہے۔40طلائی اور 12نقرئی زیورات کے علاوہ چھ سات سو روپیہ اسی وقت جمع ہوگیا۔
1924ء کے جلسہ میں لجنہ اماء اللہ کی سالانہ رپورٹ پیش کرنے کے علاوہ حضرت امتہ الحئی صاحبہ حرم حضرت امام جماعت احمدیہ خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی بلندی درجات کے لئے دعا بھی کی گئی۔آپ11نومبر 1924ء کو وفات پاگئیں تھیں۔
1926ء میں مستورات کا جلسہ قادیان کے مشرقی جانب پختہ پل کے قریب بسرائوں کو جانے والی سڑک کے قریب ایک وسیع جگہ منعقد کیا گیا پونے دو سو کے قریب مستورات نے تجدید عہد (بیعت) کیا اس سال پہلی بار مستورات کے لئے دستکاری نمائش کا اہتمام کیا گیا۔
1928ء میں ریل کی سہولت کے باعث مستورات کثرت سے آئیں۔26دسمبر کو جگہ کی قلت محسوس کر کے راتوں رات چٹائیوں کے ذریعہ باپردہ احاطہ میں وسعت پیدا کی گئی۔حضرت امام جماعت احمدیہ خلیفۃ المسیح الثانی نے باوجود علالت کے مستورات سے خطاب فرمایا اور قیمتی نصائح سے نوازا،فرمایا:۔
’’اگر پہلے تم نے اپنی حالت میں تبدیلی نہیں کی تو اب حالت میں تغیر پیداکرو۔کسی کی مصیبت کو اپنی مصیبت سمجھو، دکھ میں شامل ہو۔لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ یہ شخص بڑی (عبادت کرتا) ہے۔اس کا (عبادتیں کرنا) کب فائدہ دیتا ہے جبکہ اس کا وجود ان کے لئے فائدہ مند نہ ہو پس اپنی زندگی اور وجود کو مفید بناؤ‘‘۔
بارش کی وجہ سے 28دسمبردوپہر دو بجے کے بعد جلسہ ختم کرنا پڑا۔1929ء کے جلسے میں مستورات میں حضرت امام جماعت نے خواتین کو مختلف علوم سیکھنے اور ہر جگہ لجنہ اماء اللہ کے قیام کی طرف توجہ دلائی۔چونکہ اس جلسہ میں ایک بات ‘وراثت رواج’ کے بارے میں پیش ہونے والے قانون کے متعلق احمدی مستورات سے اپیل کرنا تھی کہ وہ بھی اس حق کے حاصل کرنے کے لئے اپیل کریں۔اس لئے 30دسمبر کے جلسہ کے لئے اعلان کیا گیا کہ یہ جلسہ صبح10بجے سے 12بجے دن تک منعقد ہو۔ اس میں حضرت شیخ یعقوب علی صاحبؓ عرفانی نے بڑی وضاحت کے ساتھ یہ مسئلہ پیش کیا۔
1932ء کے جلسہ میں حاضری گزشتہ جلسوں کی نسبت اتنی زیادہ تھی کہ باوجودیکہ جلسہ گاہ کی اصلاح کی گئی اور سٹیج کے دونوں طرف گیلریاں بنائی گئیںلیکن پھر بھی جلسہ گاہ ناکافی ثابت ہوا چنانچہ حضرت صاحب نے قادیان کی خواتین کو واپس بھجوایاتا کہ باہر سے آنے والی خواتین جلسہ سن سکیں۔نیز ہدایت فرمائی کہ خواتین کے لئے جلسہ گاہ ہر سال بڑھائی جائے۔لائوڈسپیکر کی ہدایت بھی فرمائی۔
1934ء میں زنانہ جلسہ گاہ کی توسیع کی گئی۔عارضی قناتیں لگا کر باقاعدہ راستے اور دروازے بنائے گئے۔جلسہ گاہ کے انتظام کے لئے منتظمہ جلسہ گاہ، منتظمہ سٹیج، منتظمہ بیعت، منتظمہ نمائش، منتظمہ ٹکٹ، منتظمہ تقسیم ٹکٹ، منتظمہ استقبال کے علاوہ رپورٹر اور انسپکٹر مقرر کی گئیں۔
لجنہ کے قیام کے بعد پہلی مرتبہ جلسہ گاہ کے انتظام کو اتنے تنظیمی طور پر سر انجام دیا گیا۔
1936ء میں پہلی دفعہ لائوڈ سپیکر استعمال کیا گیا۔قدرت ثانیہ کے مظہر ثانی حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ صاحب نے تقریر کرتے ہوئے منتظمین کو خواتین کی طرف سے موصول ہونے والی شکایت کی طرف متوجہ کیا کہ ان کی جلسہ گاہ میں لاؤڈ سپیکر کا انتظام نہیں کیا گیا آپ نے ہدایت فرمائی آئندہ سال مستورات کے جلسہ گاہ میں لاؤڈ سپیکر کا انتظام کیا جائے آپ کی اس ہدایت پر عمل کرتے ہوئے اگلے سال یعنی 1937ء میں لاؤڈ سپیکر کا انتظام زنانہ جلسہ گاہ میں بھی کر دیا گیا ۔1939ء کا جلسہ سالانہ دورخلافت احمدیہ ثانیہ کی جوبلی کے طور پر منایا گیا۔ حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خانؓ صاحب نے احباب جماعت کے سامنے حضرت امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے عہد مبارک کے 25سال پورے ہونے پر خدا تعالیٰ کے شکر کی ادائیگی کے لئے 1939ء کے سال کو جوبلی کے طور پر منانے کی تجویز رکھی۔چنانچہ جلسہ کے لئے 4دن رکھے گئے۔حضرت صاحب نے اس موقع پرلوائے احمدیت لہرایا اور زنانہ جلسہ گاہ میں آکر لجنہ اماء اللہ کا علم بھی لہرایا۔
27دسمبر کو حضرت صاحب زنانہ جلسہ گاہ میں تشریف لائے اور مستورات سے خطاب فرمایا۔تقریر سے پہلے حضرت سیدہ ام طاہر صاحبہ نے حضرت صاحب کی خدمت میں لجنہ اماء اللہ کی طرف سے تہنیت نامہ پیش کیا۔ حضرت صاحب نے عورتوں کو نصیحت فرمائی کہ جو حقوق اللہ نے انہیں دیئے ہیں انہیں یاد رکھو۔حضرت صاحب کی تقریر ابھی جاری تھی کہ دو انگریز نو احمدی خواتین تشریف لائیں۔حضرت صاحب نے اپنا خطاب روک کر انہیں ایڈریس پیش کرنے کا موقعہ دیا۔یہ پہلا موقعہ تھا کہ جلسہ سالانہ میں شمولیت کے لئے انگریز نو احمدی خواتین تشریف لائیں۔اس جلسہ کے موقعہ پر لجنہ کی طرف سے حضرت صاحب کی خدمت میں ایک گھوڑی اور قلم کا تحفہ پیش کیا گیا۔
دسمبر1940ء میں کی گئی تمام تقاریر مستورات نے کیں۔ یہ پہلا موقعہ تھا جب زنانہ جلسہ گاہ کے سٹیج سے کسی مرد نے تقریر نہیں کی۔مستورات کی تقاریر کی تفصیل درج ذیل ہے۔
عنوان |
اسمائے گرامی |
امامت ثانیہ میں عورتوں کی دینی خدمت |
محترمہ امتہ الرشید بنت مرزا برکت علی صاحب |
تعلیم سے ناجائز فائدہ اٹھانا |
محترمہ اقبال بیگم صاحبہ اہلیہ شیر محمد صاحب |
حضرت بانی سلسلہ کی بعثت اغراض و مقاصد |
محترمہ امۃ اللہ بیگم صاحبہ بنت مولوی ابو العطاء صاحب |
تمدن اسلام |
محترمہ سیدہ فضیلت بیگم صاحبہ |
احمدی لڑکیوں کو علم دین سکھانے کی اہمیت |
محترمہ امۃ الرشید شوکت صاحبہ |
ہمارے جلسہ سالانہ کی اہمیت |
محترمہ رشیدہ صدیقی صاحبہ |
رپورٹ لجنہ اماء اللہ |
حضرت ام طاہر صاحبہ، خطاب حضرت مریم صدیقہ صاحبہ (چھوٹی آپا) |
1941ء میں جماعت احمدیہ کے سالانہ جلسہ کے پچاس سال پورے ہوئے ۔حضرت صاحب کی تقاریر کے علاوہ تمام پروگرام مردانہ جلسہ گاہ سے سنا گیا۔آخری دن حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحبؒ (قدرت ثانیہ کے مظہر ثالث)اور حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب نے تقاریر کیں۔زنانہ جلسہ گاہ میں 27دسمبر کوتقریر کرتے ہوئے حضرت صاحب نے فرمایا :
’’طیبہ کے معنی خوش شکل ، خوشبودار اور خوش ذائقہ اور شیریں کے ہوتے ہیں اور یہی چار باتیں ہیں۔جن کا (صاحب ایمان) کے اندر پایا جانا ضروری ہے۔تمہارا ایمان بھی خوش شکل ،خوشبودار ہو۔دین پر ایسا ہو جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں۔تمہاری باتیں ایسی شیریں ہوں جو دل سے تعلق رکھیں اور جن سے حلاوت ایمان نصیب ہو‘‘۔
1945ء کے سالانہ جلسہ میں حضرت امام جماعت احمدیہ خلیفۃالمسیح الثانیؓ علالت طبع کے باعث زنانہ جلسہ گاہ میں تشریف نہ لا سکے جبکہ 1946ء میں حضرت کا افتتاحی خطاب لاؤڈ سپیکر کی خرابی کے باعث زنانہ جلسہ گاہ میں نہ سنایا جا سکا۔یہ جلسہ متحدہ ہندوستان کا آخری سالانہ جلسہ ثابت ہوا۔ 28دسمبر کو بارش کی وجہ سے زنانہ جلسہ گاہ کا پروگرام ملتوی کر دیا گیا۔
خدا تعالیٰ کی تقدیر کے باعث 1947ء میں مسلمانان ہند کی طویل جدوجہد کے نتیجہ میں ملک کی تقسیم ہوئی۔ اس تقسیم کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ کا دائمی مرکز قادیان ہندوستان میں شامل کر دیا گیا۔1947ء میں قادیان میں جلسہ سالانہ حسب روایت 26-27-28دسمبر کو بیت الاقصیٰ میں منعقدہوا۔لیکن یہ پہلا موقع تھا کہ جب حضرت امام جماعت احمدیہ ملکی و سیاسی مشکلات کے باعث جلسہ میں شریک نہ ہو سکے۔ نامساعد حالات کے باعث پاکستان کے علاوہ ہندوستان کے علاقوں سے بھی کوئی احمدی شریک نہ ہو سکا۔
درویشان قادیان نے ظلمت کے اس دور میں حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی جلائی ہوئی شمع کو روشن رکھا ۔اس طرح قادیان میں جلسہ سالانہ کا انعقاد باقاعدگی سے ہوتا رہا۔اور اب بھی ہورہا ہےاور اللہ نے چاہا تو ہمیشہ ہوتا رہے گا۔حضرت صاحب نے خدائی تحریک کی بناء پر 12دسمبر1947ء کے خطبہ میں اعلان فرمایاکہ:
’’26دسمبر کو نمائندگان جماعت کی مشاورت ہوگی اور 27-28 دسمبرکو لاہور میں جماعت احمدیہ ظلّی جلسہ سالانہ ہوگا۔1948ء کے اس جلسہ میں مستورات اور بچوں کو حالات کی وجہ سے شرکت کی ممانعت تھی۔لیکن حضرت صاحب نے اعلان فرمایا کہ مجلس مشاورت 1948ء کے ساتھ ایک دن بڑھادیا جائے تا وہ عورتیں اور بچے جو اس موقعہ پر نہ آ سکے تھےفائدہ اٹھائیں۔
1948ء میں پاکستان میں نئے عالمی مرکز سلسلہ کی بناء ربوہ میں رکھی گئی۔
1949ء کا سالانہ جلسہ احمدیت کی تاریخ کا ستاون واں جبکہ ربوہ میں منعقد پہلا جلسہ تھا۔ زنانہ جلسہ گاہ میں خطاب کرتے ہوئے حضرت امام جماعت احمدیہ خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے فرمایا کہ یہ جلسہ تقریروں کا نہیں دعاؤں کا ہے۔
پاکستان بننے کے بعد 1949ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر پہلی بار لجنہ اماء اللہ کی صنعتی نمائش قادیان کی طرح ربوہ میں لگائی گئی۔ اس سال پہلی مرتبہ مستورات کے لئے لنگرخانہ کا علیحدہ انتظام بھی کیا گیا جو بہت کامیاب ثابت ہوا۔27دسمبر رات کو لجنہ اماء اللہ کی چوتھی مجلس شوریٰ منعقد ہوئی۔
1953ء میں حضرت صاحب کی تینوں تقاریر مردانہ جلسہ گاہ سے سنی گئیں۔حضرت صاحب اس دفعہ مستورات سے علیحدہ خطاب نہ فرما سکے چنانچہ مردانہ جلسہ گاہ سے ہی تقریر فرماتے ہوئے درج ذیل تین تحریکیں پیش فرمائیں:
1۔ جرمن زبان میں ترجمہ قرآن کے شائع کرنے کے لئے اخراجات (مستورات) اپنے ذمہ لیں۔جس کے بارے میں حضرت صاحب نے فرمایا ترجمہ ہوچکا ہے۔
2۔ پڑھی لکھی عورتیں تمام کی تمام یہ عہد کریں کہ اپنے اپنے وطن جا کر کم از کم ایک یا دو ناخواندہ بہنوں کو ضرور تعلیم دیں گی۔
3۔ زائد آمدنی پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ اگر غریب ہو تو اس کا ایک حصہ اور امیر ہونے کی صورت میں ساری ساری زائدآمدنی بطور چندہ پیش کر دو۔
1961ء کے جلسہ میں پروگرام کے مطابق جلسہ سالانہ مستورات کا افتتاح حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ نے کرنا تھا مگر حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ کی وفات کی وجہ سے آپ تشریف نہ لا سکیں۔جو26 دسمبر1961ء کو وفات پاگئے تھے۔آپ تیسرے دن تشریف لائیں اور مستورات سے خطاب فرمایا۔
1964ء میں خلافت ثانیہ کے پچاس سال پونے پر حضرت صدر لجنہ کی تحریک پر لجنہ اماء اللہ کی طرف سے ڈنمارک میں بیت الذکر کی تعمیر کے لئے 2لاکھ روپے فراہم کرنے کا عزم کیا گیا۔ یہ جلسہ خلافت ثانیہ کے بابرکت دور کا آخری جلسہ تھا۔ 8،7نومبر1965ء کی درمیانی شب حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہؑ کے فرزند ارجمند امام جماعت احمدیہ الثانی حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ؓصاحب وفات پاگئے۔
8نومبر 1965ء کو حضرت حافظ مرزا ناصر احمدؒ صاحب مسند امامت پر متمکن ہوئے۔ دورِ خلافت ثالثہ کا پہلا، جماعت احمدیہ کی تاریخ کا چوہترواں جلسہ سالانہ 21،20،19 دسمبر 1965ء میں ہوا۔
مستورات کا جلسہ احاطہ لجنہ ہال میں منعقد ہوا ۔حضرت مریم صدیقہ صاحبہ صدرلجنہ پاکستان اور حضرت مہر آپا صاحبہ کے خطاب بذریعہ ٹیپ ریکارڈ سنے گئے۔ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبؓہ نے اختتامی خطاب فرمایا۔
جماعت احمدیہ عالمگیر کا 1979ء میں منعقد ہونے والا جلسہ سالانہ اس لحاظ سے یادگار قابل ذکر ہے کہ یہ چودہویں صدی ہجری کا آخری سالانہ جلسہ سالانہ تھا جو28،27،26دسمبر کو منعقد ہوا۔ مستورات کے جلسے کا انعقاد دفاتر صدرانجمن احمدیہ کے احاطہ میں ہوا۔ اس سال امریکہ، مشرقی افریقہ، انگلستان، انڈونیشیا، سنگاپور، نائجیریا، ماریشس اور یورپ سے آنے والی 47 نمائندہ خواتین نے جلسہ میں شرکت کی۔
28،27،26 دسمبر 1980ء کا جلسہ پندھوریں ہجری کا پہلا جلسہ تھا۔ غیر ملکی 51وفود نے جلسہ میں شرکت کی۔ انڈونیشین اور انگریزی زبان میں جلسہ کی کارروائی کا براہ راست ترجمہ کا انتظام کیا گیا۔1981ء کا جلسہ خلافت ثالثہ کا آخری جلسہ تھا۔ 9،8جون 1982ء کی درمیانی شب حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحبؒ امام جماعت احمدیہ خلیفۃالمسیح الثالثؒ وفات پاگئے۔
10جون 1982ء کو حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمدؒ صاحب مسند خلافت پر متمکن ہوئے۔
دورِ رابعہ کا پہلا جلسہ 28،27،26 دسمبر 1982ء میں منعقد ہوا۔ یہ جماعت احمدیہ عالمگیر کا نوے واں سالانہ جلسہ تھا۔ اگرچہ مستورات کا جلسہ عقب خلافت لائبریری میں ہوا مگر 28دسمبر کو بارش کی وجہ سے بیت المبارک میں انعقاد کیا گیا۔خطاب سے قبل حضرت صاحب نے تعلیمی منصوبہ کی آٹھویں تقریب میں 6طالبات کو تمغے عطا فرمائے۔
28،27،26 دسمبر 1983ء میں پہلی بار 27 دسمبر کو حضرت امام جماعت احمدیہ خلیفۃالمسیح الرابعؒ کا خواتین سے زنانہ جلسہ گاہ میں براہ راست خطاب مردانہ جلسہ گاہ میں بھی سنا گیا۔ 1984ء میں پہلی بار حکومت پاکستان کی طرف سے اجازت نہ ملنے کے باعث جلسہ ملتوی کر دیا گیا۔ لیکن ان دنیاوی رکاوٹوں کے باوجود جماعت احمدیہ کا سالانہ جلسہ اپنی سابقہ روایات کو برقرار رکھتے ہوئے پورے آب و تاب سے منعقد ہو تا چلا آرہا ہے۔برطانیہ کے علاوہ دنیا کے کونے کونے میں جماعت احمدیہ عالمگیر کے عظیم الشان اور روح پرور جلسوں کے انعقاد کا سلسلہ جاری ہے۔اور اللہ نے چاہا تو ہمیشہ جاری رہے گا۔آمین
(مرسلہ:سلیمہ قمر)