• 18 مئی, 2025

مسجد نصرت جہاں کوپن ہیگن

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے مبارک دور میں سکینڈے نیویا ممالک میں مشن ہاوٴس کا قیام عمل میں آیا۔ اکتوبر 1961ء میں مکرم وکیل اعلیٰ و وکیل التبشیر محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کوپن ہیگن دورہ پر تشریف لائے اور ڈنمارک میں اسلام کی روز افزوں ترقی کے پیش نظر یہ فیصلہ فرمایا کہ کوپن ہیگن میں زمین خرید کر مسجد کی تعمیر کا انتظام کیا جائے۔ 1963ء میں مسجد نصرت جہاں کی تعمیر کے لیے ایک قطعہ زمین خریدنے کی سعادت مکرم سیّد میر مسعود احمد صاحب کے حصّہ میں آئی۔ سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب جمعۃ المبارک 6؍مئی 1966ء کو منعقد ہوئی۔ مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل اعلیٰ و وکیل التبشیر ربوہ نے سنگ بنیاد رکھا۔ لجنہ اماء اللہ کی مالی قربانیوں سے تعمیر ہونے والی اس مسجد کا افتتاح حضرت مرزا ناصر احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے مؤرخہ 21 جولائی 1967ء بروز جمعۃ المبارک فرمایا۔

مسجد کی تعمیر پر قریباً نصف صدی مکمل ہونے پر اس مسجد کی مرمت اور تزئین نیز مشن ہاوٴس، مربی ہاوٴس، لجنہ ہاوٴس اور دیگر مرکزی دفاتر کی از سر نو تعمیر کا کام خلافت خامسہ میں ہوا جس کی تفصیل درج ذیل ہے:

مسجد نصرت جہاں کوپن ہیگن کی مرمت
اور مربی ہاوٴس و لجنہ ہاوٴس کی تعمیر نو

2011ء میں جب میں نے ڈنمارک کی جماعت کا چارج سنبھالا تو بڑی شدّت سے اس بات کو محسوس کیا کہ ہمارے پاس جگہ کی بہت تنگی ہے، کسی مہمان کو بٹھانے کے لیے کوئی جگہ نہ ہے اپنے لوگوں کے لیے کوئی مناسب جگہ۔ دو عدد واش روم نیچے بیسمنٹ میں تھے مگر ان کی حالت ناگفتہ بہ۔ ایک تو مستقل بند رہتا اور دوسرے کی بار بار مرمت کروائی جاتی۔ ایک چھوٹی سی بیسمنٹ تھی جس میں کتب کے لیے الماریاں رکھی ہوئی تھیں۔ چھت کی اونچائی بھی زیادہ نہ تھی اور چھوٹی چھوٹی دو کھڑکیاں جن کی چوڑائی ایک فٹ سے بھی کم تھی۔ جگہ جگہ پائپ گزر رہے تھے مسجد کی اندرونی چھت ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی۔ کارپٹ بہت پرانا اور غلیظ تھا اور مسجد کے مد مقابل سٹرک کے دوسری طرف ایک پرانا بوسیدہ چھوٹا سا گھر تھا جو لجنہ ہاوٴس کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ جس کی تنگ و تاریک بیسمنٹ جو اشاعت کے سٹور کے طور پر استعمال میں لائی جاتی اور اوپر ایک واش روم، کچن اور دو چھوٹے چھوٹے کمرے تھے ایک صدر لجنہ کے دفتر کے طور پر اور ایک مہمانوں کے لیے استعمال ہوتا۔ اس گھر کی بیٹھک نماز سینٹر کے طور پر استعمال ہوتی اور جگہ کی تنگی کا یہ حال تھا کہ کچن، برآمدہ اور سیڑھیوں پر بھی لجنہ کو بیٹھنا پڑتا۔

اس لیے میرے دل میں ہر وقت یہ خیال آتا کہ کسی طرح میں ان عمارات کو گرا کر جدید طرز اور وسعت کےساتھ تعمیر کروں اور ذہن میں نقشہ جات بھی تیار کرتا رہتا۔

جلسہ سالانہ ڈنمارک 2011ء اور طوفانی بارش

موٴرخہ 2 اور 3؍جولائی 2011ء کو جماعت احمدیہ ڈنمارک کا جلسہ سالانہ تھا۔ 2؍جولائی جلسہ کی کاروائی کےبعد ایک مجلس سوال و جواب رکھی گئی تھی۔ اس دوران شدید کڑک اور بجلی کی چمک کےساتھ خوفناک بارش برسنا شروع ہوگئی۔ ایک گھنٹہ میں 5 ہزار مرتبہ بجلی چمکی اور بارش اتنی زیادہ تھی کہ گٹر کا پانی نیچے تہہ خانہ میں موجود دو ٹائلٹ کے ذریعہ اندر داخل ہونا شروع ہوا اور چند منٹوں میں تہہ خانہ30-40 سینٹی میٹر تک بدبو دار پانی سے بھر گیا۔ یہی حال کوپن ہیگن شہر کا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ کوپن ہیگن میں سیوریج سسٹم تو بنایا گیا مگر بارش کے پانی کےلیے Drainage سسٹم نہیں بنایا گیا۔ کیونکہ بارشیں کم ہوتی ہیں اور بارش کا پانی بھی سیوریج سسٹم میں جاملتا ہے۔ اب اُس روز اس قدر بارش ہوئی کہ جن گھروں اور عمارات میں تہہ خانے تھے وہ سب گٹر کے پانی سے بھر گئے۔

ہم نے کئی کمپنیوں کو رابطہ کیا کہ وہ آکر پانی نکالیں مگر سارے شہر میں ضرورت تھی اس لیے کوئی نہ آیا یہاں تک کہ ہم نے ہمسایہ ملک سویڈن کی کمپنیوں کو بھی رابطہ کیا مگر ان کا بھی وہی جواب تھا کہ سب اس وقت مصروف ہیں اور کوپن ہیگن میں ایمرجنسی کام کر رہے ہیں۔

میں نے شام کو حضور انور کی خدمت میں فیکس کی اور صورت حال سے آگاہ کرتے ہوئے درخواست کی کہ جلسہ سالانہ کے دوسرے دن کا پروگرام منسوخ کردیا جائے۔ مگر حضور انور نے فرمایا کہ جلسہ دو دن کا ہی ہوگا۔ تب جلسہ سالانہ کے دوسرے دن کی کاروائی حضور انور کی اجازت سے اگلے ہفتہ رکھی گئی۔

چنانچہ خدام و انصار، دن رات تہہ خانہ سے گٹرکا پانی نکالنے میں مصروف ہوگئے۔ پورا ہفتہ کام کرتے رہے اور پھر جلسہ سالانہ کے دوسرے دن کا پروگرام 10 جولائی کو رکھا گیا۔ اللہ تعالیٰ ان سب انصار و خدام و اطفال کو احسن جزاء عطا کرے جنہوں نے نہایت ہی مکدّر اور متعفن فضاء میں دن رات محنت کی اور اللہ تعالیٰ کے گھر کی صفائی میں جان کی بازی لگائی۔ آمین

تہہ خانے میں موجود لائبریری کی الماریاں پانی میں ڈوب جانےکے باعث ٹوٹ کر گر گئیں۔ بہت سی کتب ضائع ہوگئیں۔ یہی حال سٹرک پار لجنہ ہاوٴس کے تہہ خانہ کا تھا جہاں بہت نقصان ہوا۔

میں تو پہلے ہی دن رات خیالات میں ان عمارات کو گرا کر جدید طرز پر وسعت کے ساتھ تعمیر کرنے کا خواب دیکھ رہا تھا۔ اس موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے میں نے حضور انور کی خدمت میں ساری صورت حال بیان کی اور عاجزانہ درخواست کی کہ پیارے آقا ازراہ شفقت مجھے اجازت مرحمت فرمائیں کہ مسجد سے ملحقہ عمارت اور لجنہ ہاوٴس کی عمارات کو گرا دیا جائے اور وسعت اور جدید سہولیات کے ساتھ ان کو ازسر نو تعمیر کیا جائے۔ الحمد للّٰہ ثم الحمد للّٰہ کہ حضور انور نے میری درخواست کو قبولیت کا شرف بخشا۔ فجزاہ اللّٰہ تعالیٰ احسن الجزاء۔

بس پھر کیا تھا میں نے دن، رات کاغذ، پیمانہ اور پنسل لیکر ڈرائنگ بنانا شروع کردی اور کئی ہفتوں تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ کبھی لجنہ ہاوٴس کے رقبہ کی پیمائش اور متوقع تعمیر کی ڈرائنگ کبھی مربی ہاوٴس کا نقشہ، کبھی لجنہ کے لئے نماز سنٹر اور کبھی بڑے ہال اور دفاتر اور مہمان خانہ کی ڈرائنگ بناتا رہا۔ اِس دوران حضور انور کی ہدایت پر لندن سے وقتاً فوقتاً تین مختلف آرکیٹیکٹ بھی آتے رہے مگر ہمارے کام نہ آسکے۔

جب خاکسار نے تمام ڈرائنگ مکمل کی تو پھر کسی ڈینش آرکیٹیکٹ کی تلاش کا مرحلہ آیا جو ہماری طرف سے کمیون میں باقاعدہ اجازت کی غرض سے ڈرائنگ پیش کرسکے۔

اِس موقع پر مکرم سید فاروق شاہ صاحب کا تہہ دل سے ممنون و مشکور ہوں کہ جنہوں نے چند آرکیٹیکٹ سے ہمارا رابطہ کرایا۔ لیکن خاکسار نے یہ شرط ان تمام آرکیٹیکٹ کے سامنے رکھی کہ آپکی قیمت اُسوقت ادا کی جائے گی جب آپ کمیون کی طرف سے تحریری اجازت حاصل کرلیں گے۔کیونکہ ماضی میں لجنہ ہاوٴس میں معمولی سا اضافہ کرنے کے لیے کسی آرکیٹیکٹ سے ڈرائنگ تیار کروائی گئیں اور اس کے لیے ایک خطیر رقم اس کو ادا کی گئی مگر کمیون نے اس کی منظوری نہ دی۔ جس کی وجہ سے ڈرائنگ ہمارے کام نہ آسکی، اُلٹا مالی نقصان ہوگیا۔ چنانچہ صرف ایک آرکیٹیکٹ جناب Per Byder تھے جنہوں نے اِس شرط کو منظور کرتے ہوئے تمام ڈرائنگ کو حتمی شکل دی اور کمیون میں منظوری و اجازت کے لئے پیش کیا۔

یہ واضح کردوں کہ جب ڈرائنگ تیار ہوئی تو تمام احباب جماعت کو مسجد بلایا گیا اورلجنہ کو باقاعدہ کیمرہ کے ذریعہ ان نقشہ جات کے بارہ میں بریف کیا گیا اور رائے طلب کی گئی۔ اِس طرح کمیون میں اجازت کی غرض سے یہ ڈرائنگ پیش کرنے سے قبل تین بار خاکسار لندن گیا اور حضور انور کی خدمت میں یہ ڈرائنگ پیش کی۔ ایک جگہ حضور انور نے تبدیلی کی جس کے بعد حضور انور نے اِس کی منظوری عنایت فرمائی۔

آرکیٹیکٹ جناب Per Byder نے جب ڈرائنگ دیکھی تو انہیں مسجد کے سامنے لجنہ ہاوٴس کی جگہ تعمیر ہونے والے تہہ خانہ پر بڑا اعتراض ہوا کہ اس کی کونسل ہرگز اجازت نہیں دے گی۔ یہ تہہ خانہ 30×12 میٹر پر مشتمل تھا جہاں یہ خیال تھا کہ 8-10 دفاتر بن جائیں اور باقی ہال تعمیر ہوجائے۔ نیز یہ کہ یہ تہہ خانہ 1.25 میٹر زمین کے نیچے اور 1.25 میٹر زمین کے اوپر تعمیر ہوگا۔ اس کا مطلب تھا کہ 360 مربع میٹر بڑا ہال تعمیر ہوگا۔

حضور انور کی قبولیت دعا کا کرشمہ

جب Per Byder نے کہا کہ اس کی اجازت کونسل نہیں دے گی تو میں نے اس کو کہا کہ آپ نقشہ جات اجازت کے لیے کونسل بھجوادیں باقی جواب آنے پر دیکھیں گے۔

اِدھر ہمارے آرکیٹیکٹ نے کمیون میں ڈرائنگ منظوری کیلئے جمع کرائی اُدھر میں نے متواتر حضور انور کی خدمت میں دعا کی غرض سے خطوط لکھنے شروع کردئیے اور یہی لکھتا رہا کہ کمیون کی طرف سے تعمیر کی اجازت کا مل جانا معجزہ اور کرامت ہوگی۔ کیونکہ بہت وسیع رقبہ پر عمارات کو تعمیر کرنے کی اجازت طلب کی جا رہی تھی۔ میں خود بھی دعا میں لگ گیا اور اللہ تعالیٰ کے حضور ایک ماہ کے روزے رکھنے کی منت مانی اور اسی وقت روزے رکھنے شروع کردیئے تا اللہ تعالیٰ ان تعمیرات کی اجازت اور نقشہ جات کی منظوری کو ہمارے لئے آسان بنا۔

اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کا کیا شمار اور اس کی رحمتوں کا اظہار کیسے ممکن ہے۔ اُس نے پیارے آقا کی دعاوٴں کو شرف قبولیت بخشا اور کرامت اور معجزہ دکھایا کہ کمیون نے ہماری ڈرائنگ کو منظور کرلیا اور تحریراً اجازت نامہ بھجوادیا۔ سبحان اللّٰہ والحمد للّٰہ۔

مسجد نصرت جہاں کے ساتھ تعمیر ہونے والی لائبریری اور لجنہ کا ہال گو بڑا کشادہ ہال ہے مگر کونسل نے 12×4 مربع میٹر اس ڈرائنگ سے کم کردیا جو منظوری کے لیے پیش کی گئی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم پہلے ہی بہت زیادہ حصہ تعمیر کےلیے منظور کروا چکے تھے۔

بلڈرز کی تلاش اور تعمیراتی معاہدہ

جب ہمارے آرکیٹیکٹ Per Byder نے ہمیں تحریری اجازت نامہ اور نقشہ جات کی منظوری کے کاغذات لا کردیئے تو ہم نے فوراً اُسی وقت ان کو معاوضہ ادا کردیا۔ چنانچہ کمیون کی طرف سے باقاعدہ تحریری طور پر دونوں عمارات کے نئے نقشہ جات کی منظوری مل گئی تو پھر بلڈرز کی تلاش اور تعمیراتی معاہد ہ کیلئے کوشش شروع کردی گئی۔ چار افراد پر مشتمل ایک تعمیراتی کمیٹی جس میں مکرم سید فاروق شاہ صاحب نیشنل سیکرٹری جائیداد، مکرم محمد اکرم محمود صاحب مربی سلسلہ، مکرم ڈاکٹر عبد الروٴوف خان صاحب اور خاکسار شامل تھے۔

تین مختلف کمپنیوں سے تخمینہ لگوایا گیا اور پھر ان کمپنیوں کی تحقیقات بھی کی گئیں تا کہ یہ یقین ہو کہ کمپنی دھوکہ نہ دے جائے اور مالی لحاظ سے ایسی مستحکم ہو کہ دیوالیہ کا شکار نہ ہو۔ کیونکہ اِس طرح نہ صرف یہ کہ تعمیرات کا کام رک جائے گا بلکہ مالی لحاظ سے بھی جماعت کو شدید نقصان اٹھانا پڑے گا۔

چنانچہ کئی ایک تعمیراتی کمپنیوں سے اس سلسلہ میں رابطہ ہوا اور اخراجات کا تخمینہ لگوایا جاتا رہا۔ مکرم سید فاروق شاہ صاحب نے ڈنمارک کی ایک بہت بڑی تعمیراتی کمپنی CL & CO سے رابطہ کروایا۔ ان کا آفس کوپن ہیگن سے 70 کلومیٹر دور ایک شہر Hellerod میں واقع تھا۔ ان کے ساتھ تقریباً ہفتہ میں چار پانچ بار ہماری میٹنگز ہوتیں جس کا دورانیہ 2 سے چار گھنٹے بلکہ بسا اوقات 6 گھنٹے بھی ہوتا رہا اور اس پورے پراجیکٹ میں استعمال ہونے والے matireal اور سامان، اس کی کوالٹی، دروازے کھڑکیاں، بجلی کے لیمپ اور Floor heating جیسے بڑے بڑے اور چھوٹے امور زیر بحث آتے رہے اور قیمت متعین ہوتی رہی۔ دو سے تین ماہ کی محنت اور گفت و شنید کے بعد با لآخر اس کمپنی کے ساتھ حضور انور کی اجازت اور ہدایت کے مطابق معاہدہ طے پایا اور دونوں پرانی عمارات کو گرانے مٹی پھینکنے، basement کی کھدائی اور تعمیرات کی تکمیل 15,700000 ڈینش کرونز میں ہوئی۔ یہ رقم ٹیکس کے ساتھ ہے یعنی تقریباً 12500000 ٹوٹل تعمیرات کا خرچ تھا جس پر تقریباً 3200000 ٹیکس ادا ہوئے اور کل رقم 15,700000 خرچ ہوئی۔اس میں عمارات کا گرانا، کھدائی کرنا اور مٹی کے پھینکنے کے اخراجات بھی شامل ہیں۔

مَیں تعمیر کے دوران خطوط کے ذریعہ بھی اور بالمشافہ ملاقات میں بھی تمام صورت حال سے پیارے آقا کو آگاہ کرتا رہا۔ ایک ملاقات میں میں نے نئی تعمیرات کی چند تصاویر حضور انور کو دکھائیں۔ جنہیں دیکھنے پر حضور انور نے مسجد نصرت جہاں کے باہر کی سیڑھیوں کے بارہ میں استفسار فرمایا کہ یہ سیڑھیاں کس طرح بنا رہے ہیں۔ میں نے عرض کی کہ حضور concrete کی بنا رہے ہیں۔ حضور انور نے فرمایا سیڑھیاں Garnite کی بنائیں۔

حضور انور کے ارشاد کی تعمیل میں میں نے builders سے اس بارہ میں بات کی تو انہوں نے کہا کہ یہاں سے بہت مہنگی پڑیں گی ہم چین سے تیار منگوا تے ہیں جو کافی منا سب قیمت پر تیار ہو جائیں گی چنانچہ چین میں سیڑھیوں کا سائز بھجوایا گیا اور تیار ہو کر آگئیں اور اس پر 500.000 ڈینش کرونز لاگت آئی۔ الحمد للّٰہ کہ پیارے آقا کی راہنمائی اور لاجواب ہدایت نے مسجد کی خوبصورتی اور وقار میں چار چاند لگا دئیے۔

دوران تعمیر پیش آنے والی مشکلات کا تذکرہ

جب عمارات کے مسمار کرنے کا کام شروع ہوا تو یہ ایک بہت حساس مرحلہ تھا۔ خاص طور پر مسجد سے ملحق عمارت اور Basement کو گرانا انتہائی مشکل اور قابل تشویش مرحلہ تھا کہ مسجد کے ستون کو اگر معمولی سا بھی نقصان پہنچا تو مسجد کی عمارت کے گرجانے کا خطرہ تھا۔ چنانچہ کمپنی نے نہ صرف احتیاط کو ملحوظ خاطر رکھا بلکہ خصوصی آلات کے ذریعہ پوری مسجد کو سہارا دیا گیا۔ پھر بقیہ حصّہ کو گرانے کا کام شروع کیا گیا۔ یہ ایسا مشکل کام تھا کہ عام آدمی یا وقارعمل کے ذریعہ ناممکن تھا۔ اسی طرح سٹرک پار لجنہ ہاوٴس کی عمارت بھی بہت احتیاط سے گرائی گئی تا کہ ہمسائیوں کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچے۔ اس کے علاوہ ملبہ سے لکڑی، لوہے، سیمنٹ اور پتھر کو الگ الگ کرنا اور ان کی جگہ پر پھینکنا بھی اچھا خاصہ مشکل کام تھا۔ یہاں کے قوانین کے مطابق مٹی پھینکنے سے پہلے مٹی کے چند نمونے لیبارٹری میں بھجوائے جاتے ہیں، اس کے بعد کمیون کی طرف سے مٹی کی مختلف اقسام کی نشاندہی ہوتی ہے اور پھر مخصوص مقام پر پھینکنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ جب لجنہ ہاوٴس کی Basement کی کھدائی کے لیے 448 مربع میٹر زمین 2 میٹر کی گہرائی تک کھودی گئی اور جب اس کی مٹی پھینکنے کا وقت آیا تو کمیون نے اس کے چند نمونے لیبارٹری بھجوائے جس کے بعد معلوم ہوا کہ مٹی میں انتہائی pollution موجود ہے اس کے پھینکنے کے لیے ایک خطیر رقم بطور جرمانہ ہمیں ادا کرنی پڑے گی۔ چنانچہ جرمانے کی ادائیگی کے بعد مٹی پھینکی گئی اور اس طرح Basement کی کھدائی کا کام بفضلہ تعالیٰ مکمل ہوا۔

مکان کرایہ پر

جب تعمیرات کے آغاز کا مرحلہ آیا تو میری رہائش کا بھی معاملہ سامنے آیا۔ چنانچہ مجلس عاملہ میں جب یہ معاملہ رکھا گیا تو اراکین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ چونکہ میری اہلیہ اور بچے Malmo سویڈن میں رہتے ہیں اور صرف 35-40 منٹ کا راستہ ہے میں روزانہ رات کو چلا جایا کروں اور صبح آجایا کروں۔ لیکن جب مجلس عاملہ کی اس رائے کو حضور انور کی خدمت میں بغرض رہنمائی و منظوری بھجوایا گیا تو حضور انور نے فرمایا۔ ہرگز نہیں۔ ڈنمارک نہیں چھوڑنا۔

چنانچہ مسجد سے 11 کلو میٹر کے فاصلہ پر کرایہ پر ایک مکان ایک سال کے لیے حاصل کیا گیا۔ میں روزانہ صبح آجاتا اور پھر تعمیراتی کام کا جائزہ اور نگرانی کے ساتھ ساتھ دیگر امور سرانجام دیتا اور بعد نماز عشاء گھر لوٹ جاتا۔

ساوٴنڈ سسٹم

مسجد نصرت جہاں، نصرت ہال، لائبریری اور ناصر ہال میں ہماری خواہش تھی کہ کسی کمپنی سے ایسا sound system لگوایا جائے جس کے نتیجہ میں ہم صرف بٹن کو آن یا آف کریں تو سب جگہ آواز جائے اور بغیر شور شرابے اور رخنہ کے آواز جائے۔

اس کام کیلئے میں اور مکرم محمد اکرم محمود صاحب مربی سلسلہ نے جن کمپنیوں سے رابطہ کیا انہوں نے 12 لاکھ سے 15 لاکھ ڈینش کرونز کا تخمینہ دیا تھا۔ اور یہ ہمارے لئے بہت بڑی رقم تھی اور بہت مہنگا پراجیکٹ تھا۔

اِس دوران ہمیں معلوم ہوا کہ ناروے میں ہمارے ایک احمدی نوجوان محسن باسط صاحب کی Sound system کی ایک کمپنی ہے اور وہ اس میں کافی تجربہ رکھتے ہیں۔

چنانچہ میں نے ان سے رابطہ کیا اور انہیں درخواست کی کہ وہ ہماری مدد کریں۔ چنانچہ وہ آئے اور سارا جائزہ لیا۔ بعض کام انہوں نے بلڈرز کے ذمہ لگائے کہ وہ تعمیرات کے دوران ان کاموں کو مکمل کرلیں باقی کام وہ خود آکر کریں گے۔

چنانچہ مکرم محسن صاحب 10-12 مرتبہ ناروے سے اپنے خرچ پر آتے رہے اور دن رات کام کرتے رہے۔ یہاں تک کہ تما م تاریں، آلات اور متعلقہ سامان بھی انہوں نے ناروے سے نہایت مناسب قیمت پر خریدا اور یہاں بھجوایا۔ جماعت ڈنمارک ان کی خدمت کو ہمیشہ یاد رکھے گی۔اللہ تعالیٰ ان کے اموال اور نفوس میں بے انتہا برکت ڈالے اور دنیا و آخرت کی حسنات سے نوازے آمین۔ اِس طرح ہمیں sound system تقریباً 5 لاکھ ڈینش کرونز میں پڑا اور ایک ملین کرونز کی بچت ہوئی۔ الحمد للّٰہ

مکرم اکرم محمود صاحب مربی سلسلہ ڈنمارک کا تہہ دل سے مشکور ہوں کہ انہوں نے عاجز کے ساتھ دن رات بڑی بشاشت اور محنت کے ساتھ تعاون کیا اور اس کارخیر میں ایک خطیر حصّہ ڈالا۔ فجزاہ اللّٰہ تعالیٰ اَحسن الجزاء

تعمیرات کا پُرانا رقبہ اور جدید نقشہ و رقبہ

مسجد نصرت جہاں اور اس سے ملحقہ مربی ہاوٴس اور basement کا کل تعمیر شدہ رقبہ تقریباً 210 مربع میٹر تھا۔ جبکہ اب تعمیر شدہ رقبہ 537 مربع میٹر ہے۔ اس کے علاوہ Elevator اور اس Area کو شیشہ سے Cover کیا جو قریباً 30 مربع میٹر بنتا ہے۔

اسی طرح لجنہ ہاوٴس جو ایک نہایت درجہ بوسیدہ عمارت تھی اور جس کا کل رقبہ 80 مربع میٹر تھا۔ اب اس کی جگہ 560 مربع میٹر کی عمارت تعمیر ہوئی ہے۔ اس میں ایک ہال، کانفرنس روم، اشاعت کا دفتر، دو سٹورز، MTA سٹوڈیو، مکرم مربی صاحب کا دفتر، اورسیکرٹری مال، سیکرٹری وصایا اور انصار اللہ کے دفاتر تعمیر ہوئے ہیں۔ جبکہ اوپر مربی ہاوٴس اور ایک گیسٹ ہاوٴس تعمیر کیا گیا ہے۔

گنبد کی اندرونی حالت زار

مسجد نصرت جہاں کے گنبد کی اندرونی چھت بہت خراب ہوچکی تھی اور اس کی تمام تر خوبصورتی زائل ہوچکی تھی۔

چونکہ اس کی مرمت کا کام نہایت درجہ مشکل اور بڑے اخراجات کا تقاضا کرتا تھا اس لئے میں نے حضور انور کی خدمت میں درخواست کی کہ اگر جرمنی سے مکرم سعید گیسلر صاحب (Saeed Geesler) کویہاں بھجوایا جائے تو وہ یہ کام سر انجام دیں۔ چنانچہ مکرم سعید گیسلر صاحب یہاں تشریف لائے اور گنبد کا معائنہ کیا اور پھر اس کی مرمت کیلئے منصوبہ بنایا۔ بعد میں وہ اپنی ٹیم کے ہمراہ تین مرتبہ تشریف لائے اور اِس کی مرمت کا کام شروع کیا۔

میں نے ان سے درخواست کی کہ گنبد کے گرد ایک فریم بھی تیار کردیں جس پر آیات قرآنیہ لکھوائی جاسکیں اِس سارے کام اور مرمت کے لئے مکرم سعید گیسلر صاحب اپنے ہمراہ ضروری سامان اورآلات بھی جرمنی سے لاتے رہے اور تین مرتبہ کئی کئی دن قیام کرتے رہے اور دن رات نہایت بشاشت اور محنت اور فدائیت کے جذبہ سے کام کرتے رہے۔ آپ کی ٹیم میں مندرجہ ذیل احباب شامل تھے۔

(Mr. Mustafa Bauch (Plaster work)
(Mr. Abdul Majeed ( electric)
Mr. Mirza Muhammad Naeem

اللہ تعالیٰ ان سب کو غیر معمولی اجر سے نوازے اور ان کے گھروں کو اپنے نور سے روشن اور منور رکھے۔ آمین

گنبد کی اندرونی چھت کی مرمت کا کام مکمل ہوا اور آیات قرآنیہ تحریر کرنے کے لئے فریم بھی مکمل ہوگیا تو خاکسار نے حضور انور کی خدمت میں چند آیات بھجوائیں کہ ان میں سے کون کون سی آیات تحریر کی جائیں۔ حضور انور نے فرمایا اَلَا بِذِکۡرِ اللّٰہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ ہی تحریر کریں فقط۔

جرمنی میں ہمارے مکر م نوید اقبال صاحب ایسے دوست ہیں جو خطاطی میں ماہر ہیں چنانچہ اُن سے درخواست کی کہ وہ کسی وقت جرمنی سے ڈنمارک آئیں اور مسجد نصرت جہاں کی اندرونی چھت پر آیت تحریر کریں۔ چنانچہ میں تہہ دل سے ان کا ممنون ہوں کہ وہ آئے اور نہایت خوبصورتی سے آیت کو تحریر کیا۔ فجزاہ اللّٰہ تعالیٰ احسن الجزاءفی الدنیا و الآخرۃ

حضور انور کی اجازت سے مسجد میں ایک خوبصورت فانوس بھی لگایا گیا اِس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسجد نصرت جہاں کا اندرونی حصہ نہایت دلکش اور خوبصورت شکل میں مکمل ہوا۔ الحمد للّٰہ علیٰ ذلک۔

یہاں اس بات کا ذکر بھی کروں کہ خاکسار نے موجودہ نصرت ہال اور اوپر لائبریری کیلئے 4 میٹر اور آگے تک تعمیر کی اجازت مانگی تھی مگر کمیون نے اس کی اجازت نہ دی اور اِس طرح کوئی 96 مربع میٹر تعمیر نہ ہوسکا۔ وگرنہ نصرت ہال کا رقبہ جو اس وقت 144 مربع میٹر، (کوریڈور کے علاوہ) کی جگہ 192 مربع میٹر ہوتا اور لائبریری کا کل رقبہ 48 مربع میٹر کی بجائے 96 مربع میٹر ہوتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اب بھی بہت کھلی اور وسیع جگہ دستیاب ہے الحمد للّٰہ۔

احباب جانتے ہیں کہ مسجد نصرت جہاں کا ایک ستون مرکزی دروازہ کے آگے تھا جس کی وجہ سے سر ٹکرانے کا خدشہ رہتا اور جھک کر اندر جانا پڑتا تھا۔ چنانچہ میں نے تعمیراتی کمپنی سے معاہد ہ میں یہ کام بھی رکھوالیا کہ موجودہ دروازہ کی جگہ تبدیل کر کے تھوڑا آگے بنا دیا جائے تاکہ ستون راستہ میں حائل نہ ہو۔ چنانچہ مر کزی دروازے کی جگہ تبدیل کردی گئی اور اِس طرح اب مرکزی دروازہ ستون سے کچھ فاصلہ پر تعمیر کیا گیا ہے اور اس کے سامنے ایک لابی بھی تعمیر کی گئی جس سے خوبصورتی اور کشادگی میں اضافہ ہوا بلکہ دروازہ کھلا اور چوڑا ہوگیا۔

الحمد للّٰہ ثم الحمد للّٰہ حضور انور کی دعاوٴں اور خصوصی توجہ و رہنمائی نے اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کیا اور اب یہاں نہایت خوبصورت جدید سہولیات کے ساتھ عمارات تعمیر ہوچکی ہیں۔ اللہ کرے کہ اس کے ظاہری حسن و جمال کے ساتھ ساتھ اس کا روحانی جمال اور وقار بھی ظاہر ہو اور یہ مسجد ڈینش عوام و خواص میں تبلیغ اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے قیام کا ذریعہ ثابت ہو۔ آمین

(محمد زکریا خان۔ امیر و مشنری انچارج ڈنمارک)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 دسمبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی