• 31 اکتوبر, 2024

سویڈن میں پہلی مسجد کی تعمیر

مسجد کے لئے میونسپل کمیٹی کی طرف سے ایک پلاٹ ہمیں الاٹ ہو گیا جوکہ بہت بڑا تھا اور لیز پر ملا تھا کرایہ بہت زیادہ تھا۔ اس لیے آدھا لیا گیا۔ حضور کی خدمت میں اطلاع دی گئی۔ فرمایا نقشہ وغیرہ تیار کروائیں۔ میں خود آ کر بنیاد رکھوں گا۔ 1974ء کے حالات کی وجہ سے حضور جلدی تشریف نہ لا سکے۔1975ء میں حضور تشریف لائے اور بنیاد رکھی۔

اس موقعہ پر سرکاری نمائندے بھی آئے اور اخباری نمائندوں نے بھی شرکت کی اخباروں میںخوب چرچا ہوا کہ سویڈن کی پہلی مسجد بن رہی ہے جوکہ جماعت احمدیہ بنا رہی ہے۔ اس موقعہ کی تصاویر بھی شائع ہوئیں۔ یہ خبر پڑھ کر ایک سویڈش دوست مشن ہاؤس میں آئے اور جماعت کے متعلق معلومات حاصل کیں۔ مطالعہ کے لئے لٹریچر دیا گیا۔ پڑھ کر انہوں نے بیعت کر لی۔ مشن ہاؤس میں باقاعدہ آئے نماز سیکھی اور باقاعدہ نماز ادا کرتے۔ حضور نے ان کا نام جعفر عطا فرمایا۔وصیت بھی انہوںنے کر دی۔ چندہ باقاعدہ ادا کرتے تھے۔ بعض پمفلٹس کا ترجمہ بھی کیا۔بچوں کے لیے ایک باتصویرکتا بچہ بھی انہوں نے تیار کیااور شائع کر کے ہر گھر میں جو احمدی بچے تھے ان تک پہنچایا۔

اس دوران صومالیہ (افریقہ) میں قحط پڑا۔ریڈ کراس کے ماتحت جعفر صاحب نے وہاں جا کر خدمت خلق کا کام سر انجام دیا۔ واپس آ کر بھی وہاں کے لوگوں کے لئے امدا د پہنچانے کی جدو جہد کی۔ اسی سلسلہ میں ایک حادثہ کی وجہ سے شہید ہو گئے۔ احباب جماعت نے ان کا جنازہ پڑھا اور وہاں کے قبرستان میں خاص اجازت لے کر اسلامی طریق پر تدفین کی گئی۔ اس موقعہ پر بہت سے ترکی دوست بھی تدفین کے لئے آئے اور مشرقی طرز پر خود اپنے ہاتھوں سے قبر پر مٹی ڈالی اور دعا میں شامل ہو ئے۔ اگلے سال جب حضور مسجد کے افتتاح کے لئے تشریف لائے تو ان کی قبر پر دعا کی۔ مکرم جعفر صاحب کی خواہش تھی کہ وہ قادیان اور ربوہ جائیں۔ نیز حضور سے بھی شرف ملاقات حاصل کریں مگر عمر نے وفا نہ کی۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین

مسجد کے لئے پلاٹ جماعت کے نام الاٹ ہو گیا۔ مگر الاٹمنٹ پیپر دینے میں تاخیر ہو رہی تھی۔ میں نے متعلقہ افسر سے رابطہ کیا تو اس نے بتایا کہ پاکستان ایمبیسی کی طرف سے ہمیں اشارۃً آپ کو یہ زمین نہ دینے کی تلقین کی گئی۔ تو ہم نے پاکستان میں اپنی ایمبیسی سے رائے طلب کی ہے ایمبیسی کی طرف سے بڑی اچھی رپورٹ ہمیں آئی ہے کہ یہ جماعت امن پسند مذہبی جماعت ہے اور سیاست سے ان کا کوئی تعلق نہیں، مختلف ملکوں میں ان کی شاخیں ہیں۔ قادیان، انڈیا سے اس جماعت کا آغاز ہوا۔ پاکستان میں ربوہ ان کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ جہاں جہاں یہ جماعت ہے وہاں ان کی مساجد ہیں۔

اس سے پہلے دو دفعہ پاکستانی سفیر مل چکا تھا۔ پہلی دفعہ میں جب نیا نیا سویڈن میں آیا تھا۔ تو پاکستانی سفارت خانہ میں عید پارٹی پر پاکستانیوں کو سٹاک ہالم میں بلایا گیا تھا۔ میں بھی اس پارٹی میں شامل ہوا۔ دوسری دفعہ گوتھن برگ میں ملاقات ہوئی۔ جب کہ وہ دورہ پر وہاں آئے۔ میں ان سے ملنے گیا تو انہوں نے کہا کہ میں مشن ہاوٴس میں آنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا ٹھیک ہے تشریف لائیں۔ چنانچہ وہ تشریف لائے۔ کرائے کی بلڈنگ میں مشن ہاؤس تھا ان کو بتایا کہ جلد مسجد بنانے کا پروگرام ہے۔

مسجد کی بنیاد کے بعد تعمیر کا کام شروع کیا گیا۔ اس کے لئے ایک کمپنی کی خدمات حاصل کی گئیں۔ ایک سال میں تعمیر مکمل ہو گئی۔ مسجد کا نام حضرت صاحب کے نام سے بیت الناصر تجویز کیا گیا۔ صد سالہ جوبلی فنڈ سے اس بیت کی تعمیر کا کام سر انجام دیا گیا۔ یہ رقم حضور نے لندن سے بھجوائی جو کہ دس لاکھ سویڈش کراؤن تھی۔

1976ء میں حضور پھر سویڈن تشریف لائے اور بیت کا افتتاح فرمایا۔ اس موقعہ پر گوتھن برگ کے شہری اور احباب جماعت کے علاوہ جرمنی سے ایک وفد مکرم فضل الٰہی صاحب انوریؓ کی قیا دت میں شریک ہوا۔ ڈنمارک اور ناروے کے دوست بھی آئے۔ لنڈن سے بھی بعض لوگ تشریف لائے۔ ان میں میرے کزن عبد الرشید صاحب بھٹی اور ناصر احمد صاحب شامل ہیں۔ میرا بھانجا عبدالرشید درویش بھی اس موقعہ پر پہنچ گیا۔

افتتاحی تقریر میں حضور نے خصوصاً اس بات کا اعلان فرمایا کہ یہ مسجد جماعت احمدیہ نے بنائی ہے مگر یہ ہر اس شخص کے لئے کھلی ہے جو کہ خدا تعالیٰ کی عبادت کرنا چاہے کسی قسم کی روک نہیں ہے خود نماز پڑھے یا ہمارے ساتھ شامل ہو۔

افتتاح کی تقریب کی بھی اشاعت اخباروں میں بڑے پیمانہ پر ہوئی۔ ملک میں شور پڑ گیا کہ سویڈن میں پہلی مسجد تیار ہو گئی ہے۔ لوگوں نے اس پر بڑی خوشی کا اظہار کیا اور بڑی تعداد میں لوگ مسجد دیکھنے کے لئے آنے لگے خصوصاً سکولوں کے طلباء، اس موقعہ پر حضور نے مسجد کے ہال میں اخباروں کے نمائندوں سے بھی خطاب کیا اور ان کے سوالوں کے جواب دئیے۔

افتتاح کے بعد حضور نے مجھے فرمایا کہ مسجد کے اخراجات کا حساب کتاب مجھے بتاؤ چنانچہ رات کو بیٹھک میں حضور کے ساتھ اکیلے بیٹھ کر حساب کتاب دکھایا۔ جو ٹھیک ٹھاک تھا، حضور نے بعد ملاحظہ خوشی کا اظہار فرمایا اور ایک سو سویڈش کراؤن مجھے عطیہ عطا فرمایا۔ نیز ارشاد فرمایا کہ جو رقم باقی ہے وہ میری اجازت کے بغیر خرچ نہیں کرنی۔

مسجد بننے سے پہلے مشن ہاؤس ایک کرائے کے مکان میں تھا جو لکڑی کا بنا ہوا تھا۔ اس میں بیت الخلاء تو تھا مگر غسل خانہ نہ تھا۔باہر جا کر نہانا ہوتا تھا۔1973ء اور 1975ء میں جب حضور سویڈن تشریف لائے تو ہوٹل میں رہائش کا انتظام کیا گیا تھا۔ مگر 1976ء میں افتتاح کے لیے تشریف لائے تو مسجدسے ملحقہ مشن ہائوس میں قیام فرمایا۔

مشن ہاؤس تین کمروں،کچن،ڈرائنگ روم پر مشتمل ہے۔ساتھ دفتر کا کمرہ ہے۔ایک بڑا باتھ روم اور ایک چھوٹا ہے۔مسجد تین کمروں کا مجموعہ ہے۔نماز ہال،صحن اور کمرہ لائبریری اور لائبریری کے کمرہ میں ٹیبل ٹینس کا میز رکھا گیا تاکہ نو جوانوں کی کشش کا باعث ہو۔ بعض احباب نے اس کو پسند نہ فرمایا۔ مگر جب حضور نے دیکھا تو خوشی کا اظہار فرمایا اور کہا آؤ! پھر میرے ساتھ ایک گیم لگاؤ۔ اس طرح حضور نے عملی طور پر اس کی اجازت مرحمت فرمائی۔

(مولانا منیر الدین احمد مرحوم)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 دسمبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی