ملک ناروے جو اسکینڈےنیویا کے انتہائی شمال میں واقع ایک خوبصورت خطہ ہے۔ زمین کا یہ ٹکڑا دنیا کا کنارا بھی کہلاتا ہے۔ ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاوں گا‘‘ والی خوشخبری جو اللہ تعالیٰ نے امام الزماں علیہ السلام کو ایک پیشگوئی کے ذریعے دی تھی جس کا اظہار جماعتِ احمدیہ نے بار ہا دیکھا ہے۔ناروے کی سر زمین میں بھی اس پیشگوئی کے پورا ہونے کے نظارے آج سے 44برس قبل ناروے کے باشندوں نے دیکھ لئے تھے جب 1979ء میں پہلی مرتبہ مسجد کے لئے عمارت خریدی گئی اور پھر اس سے اگلے برس ہی حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ بہ نفسِ نفیس سنگِ بنیاد رکھنے کے لئے تشریف لائے۔
حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ (مرزا ناصر احمد صاحب) کے قائم فرمودہ صد سالہ جوبلی کے عظیم منصوبے کے تحت ناروے کے دارالحکومت اوسلو کی پہلی مسجد کی تعمیر کے مختصر حالات بیان کرنے سے پہلے قارئین کو اسکینڈے نیویا کی مساجد کا کچھ پس منظر بتانا ضروری ہے۔ 1956ء کے جلسہ سالانہ پر اسکینڈے نیویا میں اسلام کے پھیلاؤ کے ذکرکے دوران حضرت مصلحِ موعودؓ نے ناروے کی مسجد کے لئے جگہ لینے کا ذکر فرمایا تھا۔ جس میں یہ اشارہ تھا کہ شائد اسکینڈے نیویا کے ممالک میں سب سے پہلےناروے میں مسجد بنے گی۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو کچھ اور منظور تھا۔ناروے کے لئے خدا کا گھر تعمیر ہونے میں ابھی کچھ دیر تھی۔ ناروے میں مشن تو قائم ہو چکا تھا مگر اسکینڈے نیویا کے دوسرے دو ممالک سویڈن اور ڈنمارک میں مساجد کی تعمیر پہلے ہوئی۔ مسجد ناصر گوٹن برگ میں اور مسجد نصرت کوپن ہیگن میں تعمیر کی گئی۔
ملک ناروے میں اللہ کا گھر
ابتدا میں کچھ برس مربی سلسلہ مکرم سید کمال یوسف صاحب نے حضرت مصلحِ موعود رضی اللہ عنہ کی ہدایت میں تمام اسکینڈے نیویا میں فرائض سر انجام دیے جنہیں اللہ تعالیٰ نے بہت جلد نارویجین ساتھیوں کی مدد بھی دے دی وہ ایسے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر کرم کیا اور ایک برس بعد ہی تین سفید پرندے پکڑ کر جماعت کی جھولی میں ڈال دیئے۔ ان میں سے ایک مکرم نور احمد بولستاد تھے۔ مکرم نور صاحب نارویجین باشندے ہیں۔ جنہوں نے 1957ء میں بیعت کی۔ نور صاحب کی بیگم اور بچوں کی بھی بیعت ہوئی بلکہ ان کی بیعت سے اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ ناروے پر بہت بڑا فضل کیا۔ مکرم نور بوستاد صاحب ناروےجماعت کا ستون ہیں۔ حضرت مصلحِ موعود نے انہیں اعزازی مبلغ بھی مقرر فرمایا تھا۔ بہت سے سال مسجد کے بغیر گزارا کیا جاتا رہا۔ پھر 1979ء میں حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کے ارشاد پر ناروے کے لئے مسجد کی جگہ ڈھونڈنےکی ذمہ داری مکرم منیرالدین احمد صاحب کے حصے میں آ ئی، بہت کو شش کی گئی کہ شہر میں جگہ مل جائے مگر بات نہ بنی، ملکِ بیلجیم کے سفارت خانے کی عمارت بک رہی تھی۔ مولوی صاحب کو معلوم ہوا انہوں نے کو شش کر کے اس کی تفصیل لی اور حضور کو رپورٹ کردی۔ جلد ہی منظوری آ گئی۔ چنانچہ شہر کے وسط میں چار کنال پر مشتمل یہ وسیع وعریض تین منزلہ عمارت خرید لی گئی۔ اس میں دو مربیان کے گھروں کی بھی گنجائش تھی۔ عمارت کا سودا ہو گیا اور 1980ء میں اوسلو مسجد جس کا نام ’’مسجد نور‘‘ رکھا گیا مسجد کا افتتاح کرنے حضرت خلیفة المسیح الثالثؓ پاکستان سے تشریف لائے۔
ناروے کی پہلی مسجد (نور) کے افتتاح کی
کچھ قابل ذکر یادیں
گو کہ اس وقت تک ناروے میں احمدی حضرات کی آبادی ہمسائیہ ممالک کی احمدی آبادی سے زیادہ تھی، مگر یہاں مسجد بنانے کا وقت، اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہی تھا۔ یکم اگست 1980ء میں بروز جمعہ حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ نے مسجد کا افتتاح نمازِ جمعہ پڑھا کر کیا۔ یہ مسجد ناروے کی پہلی، اسکینڈے نیویا کی تیسری اور برِّ اعظم یورپ کی آٹھویں مسجد بنتی ہے۔ (اس مسجد کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ نئی صدی کی مساجد کی تعمیر کے تعلق میں گوٹن برگ کی مسجد (مسجد ناصر) جو 1976ء میں مسجد نور سے پہلے بنائی گئی تھی پہلی مسجد تھی اور دوسرا طیب وشیریں ثمر مسجد نور تھی)
’’مسجد نور‘‘ کی ایک اور خاص بات حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کا اس کا نام حاجی حرمین سیّدنا حضرت مولونا نور الدینؓ کے نام پر ’’مسجد نور‘‘ رکھنا تھا یہ نام ناروے کے ساتھ مناسبت کے اعتبار سے اور بھی بہت سی حکمتیں اپنے اندر لئے ہوئے ہے۔ لفظِ ’’نور‘‘ جو عربی لفظ ہے خود ناروے کے نام کا پہلا حصہ ہے۔ نور سے ناروے کی ایک اور مناسبت یہ بھی ہے کہ حضرت مصلحِ موعودؓ نے اسلام قبول کرنے والے سب سے پہلے باشندے مسٹر بولستاد کا اسلامی نام ’’نور احمد‘‘ رکھا تھا۔اس مبارک موقع پر یورپ سے احمدی احباب کے علاوہ، اسکینڈے نیویا کے نو مسلم احباب اور اخباری نمائندےبھی شامل تھے۔ اس کے علاوہ متعدد یورپی ممالک اور دوسرے ممالک جن میں آسٹریا، بنگلہ دیش، ترکی، چین اور فرانس کے قونصل جنرل اور کئی دوسرے ملکوں کے سفارتی نمائندے بھی مدعو تھے۔ جنہوں نے جمعہ کی افتتاحی نماز کا منظر مسجد سے ملحق لائبریری میں بیٹھ کر دیکھا نماز کے بعد حضورؒ نے سفارتی نمائندوں سے ایک گھنٹہ تک گفتگو فرمائی۔ ان سے مبارک باد وصول کی اور جواباً ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے مساجد کی اہمیت اور اسلام کی فضیلت پر بہت احسن پیرائے میں روشنی ڈالی۔
(دورہٴ مغرب صفحہ220-225)
نارویجین قوم اور مذہب
نارویجین قوم کی کچھ مخصوص عادات ہیں، انہیں وحدانیت اور مذہب سے کوئی خاص سروکار نہیں۔
کہنے کو یہاں عیسائی مذہب کا راج تھا، مگر چونکہ عیسائیت بھی ان پر بزورِ شمشیر نافذ کی گئی تھی لہٰذا کوئی مذہب ان کے دلوں میں جذب نہیں ہوا تھا۔ لیکن ان لوگوں کی طبیعت میں نرمی، محبت، خلوص، خدمتِ خلق، صلح جوئی حد سے زیادہ ہے۔ جن لوگوں نے عیسائیت سمجھ کر دل سے قبول کی تھی وہ بائبل کی اخلاقیات پر پوری طرح قائم تھے۔ لیکن ایک کثیر تعداد خدا کی وحدانیت پر یقین نہیں رکھتی۔ مذہب سے دور لوگوں کو وحدانیت کا سبق پڑھانا مشکل کام تھا۔ لیکن جس کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت دینا ہوتی ہے اس کا دل نرم کردیا جاتا ہے۔ مسجد کا قیام اور مربیان کی خلافت کی ہدایات کے مطابق کی گئی محنتیں اورتبلیغی تدابیر اور سب سے بڑھ کر خلفائے احمدیت کی یہاں بار بار آمد نے نارویجین قوم کے علاوہ دوسری اقوام کے لوگوں کے دل بھی اسلام اور احمدیت کی طرف پھیردے۔ کیونکہ مسجد کا قیام ہی کسی بھی گروہ کے لئے اتحاد اور یک جہتی کا حصول بن جاتا ہے۔اور مسجد سے جڑے افراد مسجد سے منسلک مقاصد کو پورا کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں چنانچہ یہاں بھی انہی روایتی سلسلوں کا آغاز ہوا۔ اوسلو میں مقیم احمدی حضرات کو ایک خانہ خدا مل گیا اور باہم اکھٹے ہو کر دین اسلام کو ناروے کی دہریت زدہ فضا میں پھیلانے کے لئے کوششیں شروع کر دیں۔
مسجد کی عمارت کی مرمّت اور احباب کا وقارِ عمل
مسجد کی عمارت کے متعلق حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کے دورہٴ مغرب پر لکھی گئی ایک کتاب کے صفحہ نمبر (205-206) سے ماخوذ کچھ حقائق حاضر ہیں۔
یہ وسیع و عریض عمارت مکرم منیر احمد صاحب مربی سلسلہ ناروے نے بارہ لاکھ کرونے میں خریدی۔ موصوف مربی صاحب کی تبدیلی سویڈن ہو گئی اور ناروے میں مکرم کمال یوسف صاحب کی تعیناتی ہوئی۔ عمارت چونکہ پرانی تھی مرمّت کرنا ضروری تھا، اس کی مرمّت کے لئے حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ نے تین لاکھ کرونے کا بجٹ منظور فرمایا۔ مجلس خدّام الاحمدیہ ناروے کے قریباً 35 خدّام نے مسلسل 79 دن تک وقارِ عمل کر کے اس پورے قطعہ زمین کو درست کرنے، اس میں جا بجا کیاریاں بنانے، رنگا رنگ پھول اُگانے اور پوری عمارت میں رنگ وروغن کر تے ہوئے دن رات کام کیا۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزا دے۔
مسجد ’’نور‘‘ میں حادثہ!
اللہ تعالیٰ نے اپنے کرم سے جماعت ناروے کو مسجد تو دے دی، لیکن خوشیوں کے ساتھ ساتھ آزمائش بھی لگی ہوتی ہے۔ مسجد بننے کے کچھ عرصہ بعد ایک رات مسجد کی بیرونی سیڑھیوں میں دھماکا ہوا۔ جو کہ ملک کی ایک نیشنل پارٹی کی طرف سے ایک نوجوان لڑکے کے ذریعے چار کلو بارود رکھ کر مسجد تباہ کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ عمارت کو نقصان تو ہوا مگر اللہ تعالیٰ نے مربی سلسلہ مکرم کمال یوسف صاحب کی فیملی کو بچا لیا۔ جماعت اور مسجد میں موجود فیملی کے لئے وقتی صدمہ تو بہت زیادہ تھا لیکن خلیفہٴ وقت کی دعاوٴں اور اللہ کے فضل سے وقت کے ساتھ ساتھ ہر قسم کے نقصان کی تلافی ہوگئی۔
مسجد نور (اوسلو) میں
خلفائے کرام کی مبارک آمد
حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کے متعلق تو بتایا جا چکا ہے کہ آپ نے اس مسجد کا افتتاح کیا تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے مسندِ خلافت پر بیٹھنے کے بعد 1987ء میں ناروے کے دورہ پر تشریف لائے۔ مسجد نور پہنچنے پر اگلے روز حضورؒ نے احبابِ جماعت سے دستی بیعت لی۔ 5؍اگست کو ظہر کی نماز سے قبل حضور نے مشن ہاوٴس کی لائبریری میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا۔ پریس کانفرنس زیادہ تر انگریزی زبان میں ہوئی جس کا ترجمہ جناب سید کمال یوسف صاحب اور مکرم نور بوستاد صاحب نے کیا۔ حضورؒ کے اوسلو میں آٹھ روزہ قیام کا ناروے کی اخباروں میں خوب چرچا ہوا۔ 1989ء میں حضورؒ ایک مرتبہ پھر یورپ کے دورے پر آئے۔ اس مرتبہ بھی مختلف پریس کانفرسز ہوئیں پریس نے خوب سوال وجواب کئے، غیر از جماعت مہمانوں کے لئے ایک عشائیہ بھی دیا گیا۔ 1993ء میں اللہ تعالیٰ نے ایک مرتبہ پھر حضورؒ کو توفیق بخشی کہ وہ اسکینڈے نیویا کے دورے پر آئیں، اس مرتبہ حضور اپنی بیٹیوں کو ساتھ لاےٴ۔ حضور نے اس دورے میں ناروے کے سب سے اونچے علاقہ ’’نارتھ کیپ ٹاون‘‘ کی سیر کی حضورؒ نے وہاں ایک جمعہ بھی پڑھایا جس میں جماعت ناروے کو چیلنج دیا کہ وہ کوشش کریں اور نارتھ کیپ میں مسجد بنائیں۔
2005ء میں حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز بھی اسکینڈے نیویا کے دورہ پر تشریف لائے۔ پریس کانفرنسز اور عشائیہ دینے والے مہمانوں سے گفتگو بھی کی اور سولات کے جوابات بھی دیئے۔ اس مبارک دورہ میں حضور انور نے ناروے کی دوسری مسجد مکمل کرنے کی منظوری دی۔ مسجد کا کام تو پہلے سے ہو رہا تھا مگر کچھ وجوہات کی وجہ سے رکا ہوا تھا اور اس کو مکمل کرنے کی ترغیب دلائی۔چونکہ اب جماعت کی تجنید بڑھتی جارہی تھی۔مگر پھر بھی اس مسجد کی وسعت اور برکت سے ہر قسم کی جماعتی تقریبات یہیں منعقد ہورہی تھیں۔ گو کہ بڑے جلسے اور اجتماع کے لئے شہر سے ہال بک کروانے پڑتے تھے۔ مگر ساری جماعت صبر شکر کے ساتھ چھوٹی چھوٹی تقریبات منعقد کرتی رہی۔
(نبیلہ فوزی رفیق۔ناروے)