• 5 مئی, 2024

اے چھاؤں چھاؤں شخص! تیری عمر ہو دراز

ڈائری عابد خان سے ایک ورق
اے چھاؤں چھاؤں شخص! تیری عمر ہو دراز
(حالیہ دورہٴ امریکہ کی ڈائری)

صبر اور حوصلے کی ضرورت

امریکہ کے دورے سے چند روز قبل ایک ملاقات کے دوران میں نے حضور انور سے عرض کی کہ مجھے ایک ایسے رشتے کی تجویز کا پتہ چلا ہے جو میرے جاننے والوں کو بھجوائی گئی ہے۔ لڑکی کی فیملی نے بتایا کہ جب انہوں نے حضور انور سے دعا اور رہنمائی کی درخواست کی تو آپ نے انہیں نصیحت فرمائی تھی کہ بچپن میں بچی کو جو صحت کا مسئلہ تھا اس کے بارے میں بھی لڑکے والوں کو آگاہ کریں ۔میں نے حضور انور کی خدمت میں عرض کی کہ میرے خیال میں ایسے ایسا مسئلہ جو کہ ایک لمبے عرصے پہلے ختم ہو چکا ہے اس کا اس رشتے کی تجویز کے وقت ذکر کرنا کیا مناسب ہے؟اس کے جواب میں حضور انور نے فرمایا:
’’ہاں یہی تو قول سدیدکے معنی ہیں جو نکاح کے وقت پڑھی جانے والی آیات میں بیان فرمایا گیا ہےکہ فریقین کو کھل کر سچی اور سیدھی بات کرنی چاہیے۔تاکہ کسی چیز کے چھپائے جانے کا کوئی شبہ بھی درمیان میں باقی نہ رہے۔ بعد ازاں حضور انور نے عمومی طور پر ذکر فرمایا کہ کس طرح احمدیوں میں گزشتہ چند سالوں میں طلاق کی شرح میں اضافہ ہوا ہے اور افسوس کا اظہار فرمایا کہ بہت سے لوگوں میں حوصلہ اور صبر اب دیکھنے کو نہیں ملتا۔‘‘

حضور انور نے فرمایا:
’’یہ نہایت بدقسمتی ہے کہ صبر اور حوصلہ کا احمدی شوہروں اور بیویوں میں تیزی سے فقدان ہوتا جا رہا ہے۔ تم گمان بھی نہیں کر سکتے کہ ان چند چیزوں کو جو احمدی خواتین مجھے اپنے شوہروں کی شکایت کے حوالے سے لکھتی ہیں یا اس کے برعکس جو شوہر اپنی بیویوں کے متعلق لکھتے ہیں ۔وہ اپنے رشتے اور شادیاں معمولی اور حقیر دنیاوی چیزوں کی وجہ سے توڑ دیتے ہیں بجائے اس کے کہ وہ ان چیزوں کو سلجھانے اور رشتوں کو بچانے کی سوچ کو آگے لائیں۔ اکثر وہ نیک خاندانوں سےتعلق رکھتے ہیں۔ جن کے خون میں کئی نسلوں سے احمدیت گھرکر چکی ہے پھر بھی اگر نو مبائعین سے ان کا موازنہ کیا جائے تو وہ بہت پیچھے ہیں ۔یہ نہایت قابل افسوس ہے۔‘‘

حضور انور نے بعض شکایات اور معاملے بیان فرمائے جو براہ راست آپ کے میز تک پہنچتے ہیں۔ میں ان کے سننے سے حیران و ششدر رہ گیا۔ حضور انور نے فرمایا:
’’احمدیوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت اماں جان ؓ کی مثال کی پیروی کرنی چاہیے کہ وہ بحیثیت میاں بیوی کس طرح اکٹھے رہے۔ آپؑ کا رشتہ دوہری محبت، صبر اور دعاؤں پر مبنی تھا۔‘‘

بعد ازاں حضور انور نے ایک بزرگ خاتون کا ذکر فرمایا جو آپ سے ملنے کے لیے حال ہی میں تشریف لائی تھیں۔ انہیں گزشتہ سالوں میں شدید مصائب کا ذاتی طور پر سامنا ہوا تھا۔ حضور انور نے فرمایا ’’جب وہ مجھے ملنے آئیں تو انہوں نے بتایا کہ لوگ انہیں کہتے ہیں کہ آپ اتنی تکالیف اور مصائب سے گزری ہیں پھر بھی آپ ٹھیک ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ایسے لوگوں کو جواب دیتی ہیں کہ وہ صرف اللہ کے سامنے روتی ہیں اور کسی دوسرے کے سامنے نہیں۔ یہ ایک نیک مثال ہے اور ایسا ہی ہونا چاہیے۔‘‘

حضور انور نے فرمایا ’’بے شک یہی میرا طریق ہے کہ جب بھی مجھے کوئی پریشانی درپیش ہوتی ہے میں اللہ کی طرف جھکتا ہوں اور صرف اسی کے سامنے اپنے جذبات کا اظہار کرتا ہوں۔‘‘

حضور انور کا انگریزی زبان کا استعمال

شاید ماحول کو کچھ ہلکا کرنے کے لیے حضور انور نے استفسار فرمایا کہ میری عمر کتنی ہے۔ میں نے عرض کی کہ میں اس وقت 39 سال کا ہوں۔ اس پر حضور انور نے تبسم فرماتے ہوئے فرمایا:
’’تمہارے میرے ساتھ کام کرنے کے دوران تم نے کئی چیزوں کا تجربہ کیا ہے اور کئی طرح کے معاملات دیکھے ہیں۔ تم یقیناً ایسا تجربہ کہیں حاصل نہ کر سکتے اگر تم کہیں اور کام کر رہے ہوتے۔‘‘

اگرچہ حضور انور کا تبصرہ زندہ دلی کی اعلیٰ مثال تھا، یہ یقیناً بالکل سچ پر مبنی تھا۔ حضور انور نے گزشتہ دنوں مجلس خدام الاحمدیہ کے اجتماع پر اپنے خطاب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
’’میں ہمیشہ کوشش کرتا ہوں کہ اپنے خطاب میں سادہ اور عام فہم زبان کا استعمال کروں تاکہ مخاطبین کو میرے خطاب کی سمجھ آجائے۔‘‘ تبسم فرماتے ہوئے حضور انور نے فرمایا:
’’تمہارا دل چاہتا ہوگا کہ کبھی کبھار میں زیادہ عمدہ اور فصیح زبان کا استعمال کروں مگر میری ترجیح تربیت ہے نہ کہ کوئی علمی انعام حاصل کرنا یا کسی کو متاٴثر کرنے کے لیے زبان دانی کا استعمال کرنا۔‘‘

اس پر حضور انور نے یہ تذکرہ بھی فرمایا کہ آپ باقاعدگی سے انگریزی اور اردو میں کچھ پڑھتے رہتے ہیں۔ حضور نے فرمایا:
’’ہر صبح فجر کے بعد نہ صرف قرآن کریم کی اردو تفسیر کا مطالعہ کرتا ہوں بلکہ کچھ انگریزی تفسیر بھی پڑھتا ہوں ۔تفسیر سے اپنی ذات میں فائدہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ یہ مجھے انگریزی زبان سے جڑے رہنے میں بھی مددگار ثابت ہوتی ہے۔‘‘

میں نے عرض کی کہ حضور انور کی انگریزی زبان پر گرفت بہت زبردست ہے اور کئی مقامات پر آپ نے میری گرائمر اور spelling کی اغلاط کی درستگی فرمائی ہے یا کسی ایسے انگریزی کے محاورے کی نشاندہی فرمائی ہے جو میرے علم میں نہ تھا، اگرچہ انگریزی میری مادری زبان ہے۔ اس پر حضور انور نے فرمایا:
’’جب میں جوان تھا، میں تقاریر نہ کرتا تھا یا لوگوں سے زیادہ ملتا جلتا نہ تھا اس لیے اب لوگوں سے بات کرتے ہوئے بعض ایسے الفاظ جو میں استعمال کرنا چاہتا ہوں وہ فوری طور پر میری زبان سے ادا نہیں ہوتے۔‘‘

آپ نے مزید فرمایا:
’’دراصل کبھی کوئی انٹرویو دینے کے بعد یا کسی سوال جواب کی مجلس کے اختتام پر مجھے خیال آتا ہے کہ فلاں لفظ زیادہ موزوں تھا اور میں سوچتا ہوں کہ مجھے وہ لفظ استعمال کرنا چاہیے تھا۔ تاہم ہر چیز میں اللہ تعالیٰ کی نصرت اور تائید کا ہاتھ ہے اور اسی لئے جب وہ چاہتا ہے کہ میں بولوں تو وہ خود ہی میری رہنمائی بھی فرما دیتا ہے۔

مثال کے طور پر جب Peter Mansbridge کینیڈا میں میرا انٹرویو کر رہا تھا تو میں جانتا تھا کہ اللہ تعالیٰ میری رہنمائی فرما رہا ہے اور میں جانتا ہوں کہ بعض احمدی ایسے بھی تھے جن پر اس انٹرویو کا میرے خطابات خطبات سے زیادہ اثر ہوا۔ ان کے ایمان میں اضافہ ہوا جب انہوں نے دیکھا کہ خلیفۃ المسیح کھلے عام نیشنل ٹی وی پر اسلام کی خوبیوں کا ذکر کر رہے ہیں اور دنیا کی ناانصافیوں اور خطرات سے آگاہ کررہے ہیں۔ مجھے اسلامی تعلیمات کے متعلق ان کی احساسِ کمتری دور کرنے کا موقع ملا۔ اور انہیں سچ بولنے کی جرات حاصل ہوئی۔‘‘

یہ سننے پر میں نے عرض کی کہ یہ تو بدقسمتی ہے کہ احمدیوں کو بیرونی مواقع پر حضور انور کی گفتگو زیادہ متاثر کرے بجائے اس کے کہ وہ براہ راست ان خطبات کو توجہ سے سنیں جو انہیں مخاطب کر کے حضور انور بیان فرماتے ہیں۔ اس کے جواب میں حضور نے فرمایا:
’’ہمیں کبھی بھی سختی سے کام نہیں لینا چاہیے بلکہ اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ ہماری جماعت کے احباب کی تربیت کئی مختلف انداز سے ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی اصلاح کے لیے صرف ایک ہی ذریعہ نہیں رکھا بلکہ کئی طریقوں سے اور ذرائع سے مختلف طبائع کے مالک افراد کی حسبِ ضرورت الگ الگ پہلو اختیار فرمائے ہیں۔ (ان تمام امور کا) ایک ہی مقصد اور ایک ہی مطمحِ نظر ہے کہ لوگوں کو خدا کے قریب لایا جائے اور یہ بھی کہ وہ اچھے اور نیک بنیں۔ لیکن اس مقصد کے حصول کے لیے کئی مختلف راستے ہیں۔‘‘

بعد ازاں حضور انور نے تبسم فرماتے ہوئے فرمایا: ’’چلو پھر جاؤ، آج میں نے کافی لمبا لیکچردے دیا ہے تمہیں۔‘‘

حقیقت یہ ہے کہ میں بشوق و رغبت سارا دن حضور کا لیکچر سنتا رہتا۔ہر لفظ پر حکمت، حضور کی عاجزی سے لبریز اور آپ کے توکل علی اللہ کا مظہر تھا اور اس خواہش میں ڈوبا ہوا تھا کہ ہر احمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے والا ہو۔

(حضور انور کا دورہٴ امریکہ ستمبر – اکتوبر 2022ء از ڈائری عابد خان)

(باتعاون: مظفرہ ثروت۔ جرمنی)

(مترجم: ابو سلطان)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 دسمبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی