• 25 اپریل, 2024

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبہ جمعہ مورخہ 24 جنوری 2020ء بمقام مسجد بیت الفتوح لندن کا خلاصہ

آنحضرت ﷺ کی محبت و اطاعت کے جذبہ میں فنا بدری صحابی حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ کی سیرت مبارکہ کا خوبصورت اور دلنشیں تذکرہ

حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ آنحضرت ﷺ کے ساتھ اخلاص و وفا اور محبت و عشق میں بہت بڑھے ہوئے تھے

آپؓ شاعر بھی تھے اور اُ ن شاعروں میں سے تھے جو نبی کریمؐ کی طرف سے مخالفین کی بیہودہ گوئیوں کا جواب دیا کرتے تھے

آپ ؓکے ایک شُہرہ آفاق شعر کا ترجمہ یہ ہے: اگر حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ذات کے بارے میں کھلے کھلے نشانات اور روشن معجزات نہ بھی ہوتے تو آپ ﷺ کی ذات ہی حقیقت حال سے آگاہی کے لئے کافی ہے

آنحضرت ﷺ نے آپ کے اشعار سن کے فرمایا، اے ابنِ رواحہ !اللہ تم کو ثابت قدم رکھے۔ ہشام بن عروہ نے کہا ہے کہ اللہ نے ان کو اس دعا کی برکت سے خوب ثابت قدم رکھا حتیٰ کہ آپ شہید ہو ئے

حضور انور نے محتر م ڈاکٹر لطیف احمد قریشی کی وفات پر ان کا ذکر خیر کرتے ہوئے فرمایا: آپ نے ہمیشہ سادہ طریق پرزندگی گزاری ،ہر چھوٹے بڑے کام سے پہلے خلیفہ وقت کو دعا کے لئے خط لکھتے اور مشورہ کرتے تھے

خلاصہ خطبہ جمعہ

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 24 جنوری 2020ء کو مسجد بیت الفتوح لندن میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو کہ مختلف زبانوں میں تراجم کے ساتھ ایم ٹی اےانٹر نیشنل پر براہ ٹیلی کاسٹ کیا گیا ۔ حضور انور نے فرمایا: آج جن صحابیؓ کا ذکر ہے ان کا نام ہے حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ۔ ان کے والد کا نام رواحہ بن ثعلبہ تھا۔ اور ان کی والدہ کا نا کبشہ بنت وہب بن عمرو تھاجو انصار کے قبیلہ خزرج کے خاندان بنو حرث بن خزرج سے تھیں۔ حضرت عبد اللہ بن رواحہ ؓ بیعت عقبہ میں شریک تھے اور بنو حارث بن خزرج کے سردار تھے۔ ان کی کنیت ابو محمد تھی۔ بعض نے ابو رواحہ اور ابو عمرو بھی بیان کی ہے ۔ آنحضرت ﷺ نے حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ اور حضرت مقدادؓ میں مؤاخات قائم فرمائی تھی۔ ابن سعد کے مطابق آپؓ نبی کریم ﷺ کے کاتب بھی تھے۔ حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ غزوہ بدر، احد، خندق ، حدیبیہ،غزوہ خیبراور عمرۃ القضاء سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ شریک رہے۔

آپؓ غزوہ موتہ میں شہید ہوئے۔ غزوہ موتہ کے سرداروں میں سے ایک سردار آپ بھی تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپؐ اس وقت خطبہ ارشاد فرما رہے تھے ۔ خطبہ کے دوران آپؐ نے فرمایابیٹھ جاؤ، یہ سنتے ہی آپؓ مسجد سے باہر جس جگہ کھڑے تھے وہیں بیٹھ گئے۔ جب نبی ﷺ خطبہ سے فارغ ہوئے اور یہ خبر آپؐ کو پہنچی تو آپؐ نے ان سے فرمایا کہ اللہ کی اطاعت اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کی خواہش میں اللہ تمہیں زیادہ بڑھائے۔ اسی طرح کا واقعہ احادیث میں حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے بارے میں بھی ملتا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ جہاد میں سب سے پہلے گھر سے نکلتے اور سب کے بعد لوٹتے تھے۔ حضرت امام احمد کی کتاب ، کتاب الزہد میں بیان ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ جب کسی ساتھی سے ملتے تو کہتے آؤ گھڑی بھر اپنے رب پر ایمان لانے کی یاد تازہ کر لیں۔ اسی میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ابن رواحہ پر رحم فرمائے، اسے ایسی مجالس سے محبت ہے جس پر فرشتے فخر کرتے ہیں ۔ حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ کو فتح خیبر کے بعدپھلوں اور فصل کا اندازہ لگانے کے لئے آپؐ نے بھیجا تھا ۔ ایک مرتبہ عبد اللہ بن رواحہؓ اتنے بیمار ہوئے کہ بیہوش ہو گئے۔ نبی کریم ﷺ ان کی عیادت کرنے کے لئے آئے۔ فرمایا اے اللہ! اگر اس کی مقررہ گھڑی کا وقت ہو گیا ہے تو اس کے لئے آسانی پیدا کر دے اور اگر اس کا وقت موعود نہیں ہواتو اسےشفاء عطا فرما۔ اس دعا کے بعد حضرت عبد اللہ نے بخار میں کچھ کمی محسوس کی تو انہوں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ!میری والدہ کہہ رہی تھیں کہ ہائے میرا پہاڑ ہائے میرا سہارا جب میں بیمار تھا تومیں نے دیکھا کہ ایک فرشتہ لوہے کا غرص اٹھائے یہ کہہ رہا تھا کہ کیا تم واقعی ایسے ہوتو میں نے کہا ہاں ، جس پر اس نے مجھے وہ غرص مارا ۔ایک اور روایت اس واقعہ کے بارے میں اس طرح ہے اور یہ زیادہ صحیح لگتی ہے۔ کہتے ہیں کہ فرشتے نے لوہے کا ایک غرص اٹھایا ہوا تھا اور وہ مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ کیا تم ایسے ہو جس طرح تمہاری ماں کہہ رہی ہے، یہ تو شرک والی بات بنتی ہے۔ کہتے ہیں اگر میں کہتا کہ ہاں میں ایسا ہوں تو ضرور مجھے غرص مار دیتا۔

حضور انور نے فرمایا: آپؓ شاعر بھی تھےاور ان شاعروں میں سے تھے جو نبی کریم ﷺ کی طرف سے مخالفین کی بیہودہ گوئیوں کا جواب دیا کرتے تھے۔ حضور انور نےنبی کریم ﷺ کی شان میں ان کے چند اشعار پڑھ کر سنائے جن کا ترجمہ اس طرح ہے کہ میں نے آپﷺ کی ذات مقدس میں بھلائی پہچان لی تھی اور اللہ جانتا ہے کہ میری نظر نے دھوکا نہیں کھایا ۔ آپؐ نبی ہیں۔ قیامت کے دن جو شخص آپؐ کی شفاعت سے محروم کردیا گیا ، بے شک قضاءوقدر نےاس کو بے وقعت کر دیا ۔ پس اللہ ان خوبیوں پر ثبات بخشے جو اس نے آپؐ کو دی ہیں۔ جس طرح موسیٰ کو ثابت قدم رکھا آپؐ کی مدد کرے جیسا کہ ان نبیوں کی مدد کی ۔ نبی کریم ﷺ نے ان اشعار کو سن کر فرمایا: اے ابن رواحہ ! اللہ تم کو ثابت قدم رکھے ۔ہشام بن عروہ نے کہا ہے کہ اللہ نے ان کو اس دعا کی برکت سے خوب ثابت قدم رکھا حتیٰ کہ آپؓ شہید ہوئے۔اور ان کے واسطے جنت کے دروازے کھول دیئے گئے ۔، اس میں شہید ہو کر داخل ہوئے۔ معجب الشعراء کے مصنف لکھتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ زمانہ جاہلیت میں بھی بہت قدر و منزلت رکھتے تھے اور زمانہ اسلام میں بھی ان کو بہت مقام و مرتبہ حاصل تھا۔ آنحضورﷺ کی شان میں ایک شعر حضرت عبداللہؓ نے ایسا کہا ہے کہ اسے آپؓ کا بہترین شعر کہا جا سکتا ہے۔ وہ شعر آپؓ کی دلی کیفیت کو خوب بیان کرتا ہے جس میں حضرت عبد اللہ نے آنحضرت ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ ترجمہ یہ ہے کہ اگرحضرت محمد مصطفیٰﷺ کی ذات کے بارہ میں کھلے کھلے نشانات اور روشن معجزات نہ بھی ہو تے تو آپؐ کی ذات ہی حقیقت حال سے آگاہی کے لئے کافی ہے۔ حضرت عبداللہ بن رواحہؓ جا ہلیت کے زمانے میں لکھنا پڑھنا جانتے تھے حالانکہ اس زمانے میں عرب میں کتابت بہت کم تھی۔ غزوہ بدر کے اختتام پر نبی کریم ﷺ نے حضرت زید بن حارثہؓ کو مدینہ کی طرف اور حضرت عبداللہ بن رواحہؓ کو عوالی کی جانب فتح کی نوید سنانے کے لئے بدر کے مقام سے روانہ فرمایا۔

حضرت عروہ بن زیدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے غزوہ موتہ میں حضرت زید بن حارثہؓ کو سردار لشکر بنایا اور فرمایا کہ اگر یہ شہید ہو جائیں تو حضرت جعفرؓ بن ابو طالب ان کی جگہ پر ہوں پھر اگر حضرت جعفرؓ بھی شہید ہو جائیں تو حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ سردار بنیں اور اگر عبد اللہ ؓ بھی شہید ہو جائیں تو مسلمان جس کو پسند کریں اس کو اپنا سردار بنا لیں۔ پس جب لشکر تیار ہو گیا اور اہل لشکر کوچ کرنے لگے تو لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کے سرداروں کو رخصت کیا اور ان کو سلامتی کی دعا دی۔ جب لوگوں نے رسول اللہ کے سرداروں اور عبد اللہ بن رواحہ کو رخصت کیا تو حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ رونے لگے۔ لوگوں نے رونے کا سبب دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ بخدا مجھے دنیا کی محبت اور اس کی شدید خواہش اور شوق نہیں ہے بلکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ آیت پڑھتے سنا ہے کہ وَاِنْ مِّنْکُمْ اِلَّا وَارِدُھَا کَانَ عَلٰی رَبِّکَ حَتْمًا مَّقْضِیَّا کہ اور تم میں سے کوئی نہیں مگر وہ ضرور اس میں جانے والا ہے(یعنی دوزخ میں )یہ تیرے رب پر ایک طے شدہ فیصلے کے طور پر فرض ہے ۔ پس میں نہیں جانتا کہ پل صراط چڑھنے کے اور پار اترنے میں میرا کیا حال ہو گا ۔ بہر حال مسلمانوں نے کہا کہ اللہ تمہارے ہمراہ ہے۔ وہی تم کو ہم تک خیرو خوبی سے واپس لائے گا ۔حضور انور نے فرمایا : حضرت مسیح موعودؑ نے اور احادیث سے اس بارے میں تشریح بھی فرمائی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے جو تفسیر صغیر کے حاشیہ میں بھی لکھا ہےکہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ دوزخیں دو ہیں، ایک اس دنیا کی اور ایک اگلے جہاں کی۔ یہ جو فرمایا کہ ہر شخص دوزخ میں جائے گا، اس سے مراد یہ نہیں کہ مومن بھی دوزخ میں جائیں گے بلکہ یہ مراد ہے کہ مومن دوزخ کا حصہ اسی دنیا میں پا لیتے ہیں یعنی کفار انہیں قسم قسم کی تکالیف دیتے ہیں ورنہ مومن قرآن کریم کی رو سے اگلے جہاں میں دوزخ میں کبھی نہیں جائیں گے کیونکہ قرآن مجید مومنوں کو متعلق فرماتا ہے کہ لَاْ یَسْمَعُوْنَ ھَسِیْسَھَا یعنی مومن دوزخ سے اتنے دور رہیں گے کہ وہ اس کی آواز بھی نہیں سن سکیں گے ۔ پس مومن کے دوزخ میں جانے سے مراد ان کا دنیا میں تکالیف اٹھانا ہے ۔رسول کریم ﷺ نے بخار کو بھی ایک قسم کی دوزخ قرار دیا ہے۔ فرمایا بخار دوزخ کی آگ کا مومن کے لئے ایک حصہ ہے۔فرمایا: بہرحال یہ وضاحت ہے اس کی۔حضرت انس سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت زیدؓ ، حضرت جعفرؓاور حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ کے شہید ہوجانے کی خبر لوگوں کو سنائی قبل اس کے کہ ان تک کوئی خبر نہیں آئی تھی۔آپؐ نے فرمایا زید نے جھنڈا لیا اور وہ شہید ہوئے، پھر جعفر نے اور وہ بھی شہید ہوئے ، پھر عبد اللہ بن رواحہ نے لیا وہ بھی شہید ہوئے اور آپ ؐ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ فرمایا: پھر جھنڈا اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار نے لیا ۔آخر اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعہ سے فتح دی۔

جب رسول اللہ ﷺ تک زید بن حارثہ ؓ، حضرت جعفرؓ اور حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ کی شہادت کی خبر پہنچی تو نبی کریم ﷺ ان کا حال بیان کرنے کے لئے کھڑے ہوئے اور حضرت زید ؓکے ذکر سےآغاز فرمایا ۔ آپؐ نے فرمایا: اے اللہ!زید کی مغفرت فرما ،اے اللہ!زید کی مغفرت فرما ۔اے اللہ! جعفر اور عبد اللہ بن رواحہ کی مغفرت فرما۔

حضرت ابو درداءؓ بیان کرتے ہی کہ ایک دفعہ ہم آنحضرتﷺ کے ساتھ رمضان کے مہینے میں شدید گرمی میں نکلےاور گرمی اتنی شدید تھی کہ ہم میں سے ہر کوئی سروں کو گرمی سے بچانے کے لئے ہاتھوں سے ڈھانپتے تھےاور ہم میں کوئی روزہ دار نہیں تھا سوائے رسول اللہ ﷺ اور عبد اللہ بن رواحہ ؓکے۔

حضور انور نے خطبہ کے آخرپر مکرم ڈاکٹر لطیف احمد قریشی ابن مکرم منظور احمد قریشی کی وفات پر مرحوم کا ذکر خیر اور جماعتی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ موصی تھے۔

اجمیر شریف انڈیا میں پیدا ہوئے تھےاور 1937ء میں ان کے والد نے حضرت مصلح موعودؓ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔60 سال کی عمر تک فضل عمر ہسپتال میں خدمت کی تو فیق پاتے رہے۔ فضل عمر ہسپتال میں ان کی خدمت کا عرصہ تقریباً 30 سال پر محیط ہے۔ مرحوم علاوہ اس کے کہ واقف زندگی ڈاکٹر رہے خدام الاحمدیہ مرکزیہ، انصاراللہ مرکزیہ میں بھی مختلف عہدوں پر ان کو کام کرنے کی توفیق ملی۔ مجلس افتاء کے ممبر بھی رہے۔

حضور انور نے فرمایا :ان کی اہلیہ بھی چند دن پہلے فوت ہوئی تھیں۔ ان کا بھی میں نے ذکر کیا تھا، مولانا عبد المالک خان صاحب کی وہ بیٹی تھیں۔ گزشتہ جمعہ ان کا جنازہ میں نے پڑھایا تھا۔ اُن کی وفات کے کوئی 15 دن کے بعد اِن کی بھی وفات ہو گئی۔ ان کے پسماندگان میں 3 بیٹے اور 2 بیٹیاں ہیں۔ ان کے بیٹے ڈاکٹر عطاء المالک کہتے ہیں کہ جب سے میں نے ہوش سنبھا لا ہے والد صاحب نے کبھی تہجد کی نماز ترک نہیں کی ۔ اسی طرح ہماری والدہ بتاتی تھیں کہ شادی کے پہلے دن سے تہجد کی نماز با قاعدگی سے پڑھتے تھے۔

مریضوں سے انتہائی ہمدردی سے پیش آتے تھے، غریب پرور تھے۔ کئی مریضوں سے پیسے بھی نہ لیتے، بعض دفعہ اپنے پاس سے مدد کر دیتے۔ ہمیشہ تلقین کرتے کہ شفاء اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور اپنے 3 بچے جو ڈاکٹرز ہیں انہیں بار بار اس امر کی یقین دہانی کراتے تھے کہ ہمیشہ اپنے مریضوں کے لئے دعا میں مشغول رہو۔ مرحوم اپنے والدین کی بہت خدمت کرتے تھے ۔آخر وقت تک والدہ کو خود کھانا دیتے رہےاور ان کا خاص خیال رکھتے رہے۔ ان کی والدہ حیات ہیں جو انہی کے پاس رہتی ہیں۔فرمایا: مرحوم دکھاوے سے سخت نفرت کرتے تھے۔ ہمیشہ سادہ طریق پر زندگی گزاری۔اور ہر چھوٹے بڑے کام سے پہلے خلیفہ وقت کو دعا کے لئے خط لکھتے تھےاور مشورہ کرتے تھے۔

حضور انور نے فرمایا: ہر سال بڑے اہتمام کے ساتھ قادیان اور انگلستان جلسے میں جاتے تھے۔ محنت کی بڑی عادت تھی۔وفات سے ایک گھنٹہ قبل بھی صبح 9 سے 1بجے تک اپنے گھر سے ملحقہ کلینک میں مریض دیکھ رہے تھے۔ 1 بجے گھر آئے ۔ وضو کر کے مسجد مبارک میں جا کر نماز پڑھنے کا ارادہ تھا۔ بستر پر بیٹھ کر جوتے اتارتے ہو ئے اچانک انہیں ہارٹ اٹیک ہوا اور اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہو گئے۔

حضور انور نے فرمایا: ہمسائیوں سے پیارکا تعلق تھا اور ہمسائے بھی ان کا بہت خیال رکھا کرتے تھے۔ شعری و ادبی ذوق تھا۔ علمی شخصیت تھے۔ صحابہ حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت کی انہیں توفیق ملی۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی وفات کے وقت اسلام آباد میں حضور کے پاس رہے۔حضور انور نے فرمایا: اللہ تعالی ان کے ساتھ رحمت اور مغفرت کا سلوک فرمائے۔ ان کے بچوں کو بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے ۔ اوپر تلے ماں باپ ان بچوں کے فوت ہوئے ہیں۔ ان دونوں کی نیکیاں اللہ تعالیٰ ان کے بچوں میں بھی جاری رکھے۔ اللہ تعالیٰ مکرم ڈاکٹر صاحب کی والدہ صاحبہ پر بھی جو کہ حیات ہیں اپنا فضل اور رحم فرمائے۔

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 جنوری 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 جنوری 2020