ہمارے حق میں آوازیں کہاں سے آتی ہیں
کبھی زمیں سے کبھی آسماں سے آتی ہیں
فقط ہم ہی ہیں جہاں میں محبتوں کے سفیر
یہ خوشبوئیں تو ہوا کی اذاں سے آتی ہیں
وہ ہم ہی ہیں جو کریں گے جہانِ نو تعمیر
گواہیاں یہ ہماری قرآں سے آتی ہیں
ہم ہی بتائیں گے دنیا کو اے خزاں زادو
بہاریں آنکھ کے اَشکِ رواں سے آتی ہیں
بھرا ہے پھولوں پھلوں سے چمن خلافت کا
جو برکتیں ہیں مسیح الزماںؑ سے آتی ہیں
جو روز ٹوٹتیں اُمّت پہ آفتیں، سوچو
خدا ہے اِن کا تو پھر یہ کہاں سے آتی ہیں
اندھیرے ہوتے ہیں دِل کے دعاؤں سے روشن
شمعیں ُہدا کی یہ ربّ ِ رَحماں سے آتی ہیں
(عبدالجلیل عبادؔ ۔ جرمنی)