• 26 اپریل, 2024

کیا ایک سچا آدمی جھوٹی تعلیم دے سکتا ہے؟

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
اب کوئی کہہ سکتا ہے کہ گھر والوں کی یا ملازمین کی یا دوستوں کی گواہی تو ایسی ہے کہ اگر کسی میں تھوڑی بہت غلطی بھی ہو، کمی بھی ہو تو پردہ پوشی کر سکتے ہیں، در گزر کر دیتے ہیں۔ لیکن اس کے علاوہ کون سی گواہیاں ہیں۔ اس کے لئے ہم دیکھتے ہیں کہ دشمن بھی جو گواہی آپؐ کے بارے میں دیتا ہے وہ تو ایسی گواہی ہے جس کو کسی طرح رد ّ نہیں کیا جا سکتا۔

چنانچہ اس کی ایک مثال آپؐ کے اشد ترین دشمن نضر بن حارث کی گواہی ہے۔ ایک مرتبہ سرداران قریش جمع ہوئے جن میں ابوجہل اور اشد ترین دشمن نضربن حارث بھی شامل تھے۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جب کسی نے یہ کہا کہ انہیں جادوگر مشہور کر دیا جائے یا جھوٹا قرار دے دیا جائے تو نضر بن حارث کھڑا ہوا اور کہنے لگا۔ اے گروہ قریش! ایک ایسا معاملہ تمہارے پلّے پڑا ہے جس کے مقابلے کے لئے تم کوئی تدبیر بھی نہیں لا سکے۔ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) تم میں ایک نوجوان لڑکے تھے اور تمہیں سب سے زیادہ محبوب تھے۔ سب سے زیادہ سچ بولنے والے تھے۔ تم میں سب سے زیادہ امانتدار تھے۔ اب تم نے ان کی کنپٹیوں میں عمر کے آثار دیکھے اور جو پیغام وہ لے کر آئے تم نے کہا وہ جادوگر ہے۔ ان میں جادو کی کوئی بات نہیں۔ ہم نے بھی جادوگر دیکھے ہوئے ہیں۔ تم نے کہا وہ کاہن ہے۔ ہم نے بھی کاہن دیکھے ہوئے ہیں۔ وہ ہرگز کاہن نہیں ہیں۔ تم نے کہا وہ شاعر ہیں، ہم شعر کی سب اقسام جانتے ہیں وہ شاعر نہیں ہے۔ تم نے کہا وہ مجنون ہے، ان میں مجنون کی کوئی بھی علامت نہیں ہے۔ اے گروہ قریش! مزید غور کر لو کہ تمہار واسطہ ایک بہت بڑے معاملے سے ہے۔

(السیرۃ النبویۃ لابن ھشام۔ مادار بین رسول اللہﷺ وبین رؤساء قریش … نصیحۃ النصر لقریش بالتدبر)

پھر دیکھیں ایک اور گواہی جو دشمنوں کے سردار ابو جہل کی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ابو جہل نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ ہم تمہیں جھوٹا نہیں کہتے۔ البتہ ہم اس تعلیم کو جھوٹا سمجھتے ہیں جو تم پیش کرتے ہو۔ جب عقل پر پردے پڑ جائیں، کسی کی مت ماری جائے تو تبھی تو وہ ایسی باتیں کرتا ہے۔ اسی لئے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم کچھ تو عقل کرو۔ کیا ایک سچا آدمی جھوٹی تعلیم دے سکتا ہے۔ سچا آدمی تو سب سے پہلے اس جھوٹی تعلیم کے خلاف کھڑا ہو گا۔

پھر ایک اور موقع پر آپؐ کے صادق ہونے پر دشمن کی گواہی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما روایت کرتے ہیں کہ انہیں ابو سفیان بن حرب نے بتایا کہ جب وہ شام کی طرف ایک تجارتی قافلے کے ساتھ گیا ہوا تھا تو ایک دن شاہ روم، ہرقل نے ہمارے قافلے کے افراد کو بلا بھیجا تاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت وہ کچھ سوالات پوچھ سکے۔ شہنشاہ روم کے دربار میں ہرقل سے اپنی گفتگو کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بیان کیا کہ اس نے مجھ سے کچھ سوال کئے۔ ان میں سے ایک سوال یہ تھا کہ کیا دعویٰ سے پہلے تم لوگ اس پر جھوٹ بولنے کا الزام لگاتے تھے؟ مَیں نے جواباً کہا کہ نہیں۔ اس پر ہرقل نے ابوسفیان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جب تو نے میرے اس سوال کا جواب نفی میں دیا تو مَیں نے سمجھ لیا کہ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا کہ وہ لوگوں پر تو جھوٹ باندھنے سے باز رہے مگر اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھے۔ ہرقل نے کہا مَاذَا یَاْمُرُکُمْ کہ محمدؐ آپ کوکس چیز کا حکم دیتے ہیں۔ ابو سفیان نے کہا وہ کہتا ہے، اللہ کی عبادت کرو جو اکیلا ہی معبود ہے اور اس کا کسی چیز میں شریک نہ قرار دو اور ان باتوں کو جو تمہارے آباؤ اجداد کہتے تھے چھوڑ دو۔ اور وہ ہمیں نماز قائم کرنے، سچ بولنے، پاکدامنی اختیار کرنے اور صلہ رحمی کرنے کا حکم دیتا ہے۔ تب ہرقل نے کہا کہ جو تو کہتا ہے اگر یہ سچ ہے تو پھر عنقریب میرے قدموں کی اس جگہ کا بھی وہی مالک ہو جائے گا۔

(بخاری- کتاب بد ء الوحی، حدیث نمبر7)

پھر باوجود نہ ماننے کے آپؐ کی سچائی کا رعب تھا، اُس نے بھی اندر سے مخالفین کے دل دہلائے ہوئے تھے۔ اور وہ اس فکر میں رہتے تھے کہ اس سچے آدمی کی اگر یہ باتیں اور یہ تعلیم بھی سچی ہوئی تو ہمارا کیا ہو گا۔ اس خوف کا ایک واقعہ میں اس طرح ذکر ہے کہ قریش نے ایک دفعہ سردار عتبہ کو قریش کا نمائندہ بنا کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھجوایا۔ اس نے کہا آپ ہمارے معبودوں کو کیوں برا بھلا کہتے ہیں اور ہمارے آباء کو کیوں گمراہ قرار دیتے ہیں۔ آپؐ کی جو بھی خواہش ہے ہم پوری کر دیتے ہیں، آپ ان باتوں سے باز آئیں۔ حضورؐ تحمل اور خاموشی سے اس کی باتیں سنتے رہے۔ جب وہ سب کہہ چکا تو آپ نے سورۃ حٰمؔ فُصِّلَت ْ کی چند آیات تلاوت کیں۔ جب آپؐ اس آیت پر پہنچے کہ میں تمہیں عاد و ثمود جیسے عذاب سے ڈراتا ہوں تو اس پر عتبہ نے آپؐ کو روک دیا کہ اب بس کریں اور خوف کے مارے اٹھ کر چل دیا۔ اس نے قریش کو جا کر کہا کہ تمہیں پتہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی بات کہتا ہے تو کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔ مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں تم پر وہ عذاب نہ آ جائے جس سے وہ ڈراتا ہے۔ تمام سردار یہ سن کر خاموش ہو گئے۔

(السیرۃ الحلبیۃ از علامہ برھان الدین باب عرض قریش علیہﷺ اشیاء من خوارق العادات وغیر العادات)

(خطبہ جمعہ 11؍ فروری 2005ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 جنوری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 جنوری 2021