• 20 اپریل, 2024

آئیے قرآن مجید کے تناظر میں ’’اولواالالباب‘‘ کا مفہوم جانیں

چند روز قبل جب COVID19 کے حوالے سے ’’اولی ا لامر‘‘ کی مکمل اطاعت کرنے اور مکمل SOPs کو اپنانے کی درخواست خاکسار کر رہا تھا تو اولی الامر کے معانی پر غور کرتے ہوئے قرآن کریم میں ایسے الفاظ بھی نظروں سے گزرے جن میں اولوا، اولی کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ جیسے اولواالالباب، اولی الابصار

’’اولواالالباب‘‘ کے الفاظ قرآن کریم میں پندرہ مقامات پر استعمال ہوئے ہیں۔ الباب ۔ لُب کی جمع ہے جس کے معانی گودا ، مغز، خالص، خلاصہ اور عقل کے ہیں۔ کسی تقریر، مضمون یا کتاب کا خلاصہ بیان کرنا ہو تو کہتے ہیں اس کا لبِ لباب، یہ ہے۔ حاصل کلام یا خلاصہ کلام یہ ہے ۔ پس اس تناظر میں اولواالالباب کے معانی ہوں گے عقل والے، انگریزی میں The Wise اور The Intellectual کا مفہوم ہوگا۔ عقل تو کفار کے پاس بھی ہوتی ہے لیکن یہاں ایسے عقل والے لوگ مراد ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نُور بھی عطا ہوتا ہے۔ جو اطاعت الہٰی کے خمیر سے گوندھے گئے ہوتے ہیں ۔ اس کا ثبوت اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم سے یوں دیا کہ جن کو صفات حسنہ عطا کی گئی ہیں۔ ان کے لئے ’’لِاُولِی الۡاَلۡبابِ‘‘ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں اور جو اطاعت اور سننے جیسی صفات سے عاری لوگ ہیں ان کے لئے فَھُمْ لَا یَعْقِلُوْن کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ تو ایک ہی مضمون ہے۔ اگر سورۃ البقرہ کی آیت 165 اور سورۃ آلِ عمران کی آیت 191 کو دیکھیں تو البقرہ میں لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یَّعۡقِلُوۡنَ اور آلِ عمران آیت 191 میں لَاٰيَاتٍ لِّأُولِي الْأَلْبَابِ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ معانی ایک ہی ہیں۔ یعنی عقلمندوں کے لئے اس میں نشانیاں ہیں۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ’’اولواالالباب‘‘ لوگوں کی قرآن کریم میں کونسی خصوصیات اور علامات بیان ہوئی ہیں۔ سب سے بنیادی آیت اس حوالہ سے سورۃ الزمر کی 19 ویں آیت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے تین بنیادی علامات عقل والوں کی بیان فرمائی ہیں:۔

الَّذِیۡنَ یَسۡتَمِعُوۡنَ الۡقَوۡلَ۔
جو ہماری باتوں کو سنتے ہیں ۔

فَیَتَّبِعُوۡنَ اَحۡسَنَہٗ۔
پھر ان باتوں کی احسن رنگ میں پیروی کرتے ہیں۔

اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ ہَدٰٮہُمُ اللّٰہُ۔
یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں یعنی اللہ سے ہدایت پاچکے ہیں

پھر سورۃ آلِ عمران میں آیت 191 اور 192 میں اللہ تعالیٰ نے ’’اولواالالباب‘‘ کی مزید صفات کا تذکرہ فرمایا ہے جیسے:

الَّذِیۡنَ یَذۡکُرُوۡنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّ قُعُوۡدًا وَّ عَلٰی جُنُوۡبِہِمۡ
کہ وہ عقلمند کھڑے ،بیٹھے اور اپنے پہلوؤں پر اللہ کو ہر وقت یاد کرتے ہیں

یَتَفَکَّرُوۡنَ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ
کہ وہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش کے بارے میں غور و فکر سے کام لیتے ہیں۔

یہ بھی عقلمند مومنوں کا ایک بہت بڑا خاصہ ہے کہ وہ کائنات کی تسخیر پر غور کرتے رہتے ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی ایک تحریک بھی اس حوالہ سے موجود ہے۔ کہ صبح سیر پر جائیں اور کائنات کی تخلیق اور اس کے نظاروں پر غور کر کے رقم بھی کریں۔ یہ خدا تعالیٰ کے شکر کرنے کا ایک بہت اچھا طریق ہے ۔ اگر صرف درختوں کو ہی لیں تو لاکھوں کی تعداد میں متنوع رنگ ، پھل، اور خوشبوؤں پر مشتمل درخت ہیں ۔

رَبَّنَا مَا خَلَقۡتَ ہٰذَا بَاطِلًا۔ کہ یہ عقل مند کہہ اٹھتے ہیں کہ تو نے اس عالم کو بے فائدہ اور بے مقصد پیدا نہیں کیا۔

اس مضمون کے تسلسل میں اللہ تبارک و تعالیٰ سورۃ البقرہ آیت نمبر 270میں فرماتاہے کہ
وَ مَا یَذَّکَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ۔ کہ جن کو اللہ تعالیٰ حکمت جو نفع رساں چیز ہے عطا کرتا ہے وہ عقلمند ہیں جو اس سے نصیحت حاصل کرتے ہیں۔

سورۃ البقرہ آیت 198 میں حج کے ذکر میں اللہ تعالیٰ نے حاجیوں کو عقلمند قرار دے کر تقویٰ اختیار کرنے کا بہت ہی لطیف مگر ایک عظیم سبق دیا ہے۔ فرماتا ہے:
تَزَوَّدُوۡا فَاِنَّ خَیۡرَ الزَّادِ التَّقۡوٰی وَ اتَّقُوۡنِ یٰۤاُولِی الۡاَلۡبَابِ۔ کہ حج کے سفر میں نہ شہوت کی بات ہے ، نہ نافرمانی کی اور کوئی جھگڑا نہیں۔ ہاں تقویٰ اللہ ہے۔ اسے اختیار بھی کرو اور زادِ راہ (Bank Balance) کے طور پر اپنے ساتھ بھی لف رکھو۔

سورۃ الطلاق آیت 11 میں اللہ تعالیٰ نے اُولی الالباب کی تعریف بیان کرنے سے قبل فَاتَقُوااللّٰہَ کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو، کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں اور لکھا ہے:۔

الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ؕ۟ۛ قَدۡ اَنۡزَلَ اللّٰہُ اِلَیۡکُمۡ ذِکۡرًا۔ کہ وہ ایک ذکر یعنی رسول پر کامل یقین کے ساتھ ایمان لاتے ہیں جو اللہ کی آیات اس لئے پڑھتا ہے تا مومنوں اور عقلمندوں کو ظلمات (اندھیروں) سے نور اور روشنی کی طرف لائے۔

اللہ تعالیٰ نے ’’اولی الالباب‘‘ کا تعلق تقویٰ سے باندھا ہے ۔ بعض جگہوں پر اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنے کی تلقین ملتی ہے جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے

10۔ لیکن سورۃ البقرہ آیت 180 میں اللہ تعالیٰ نے ’’اولی االالباب‘‘ کو مخاطب ہو کر بڑے پیار سے کہا کہ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ۔ تاکہ تم متقی بن سکو۔ اور حکم یہ دیا جا رہا ہے کہ قصاص یعنی مقتول کے لئے برابر کا بدلہ لینا فرض کیا ہے ۔(اس میں بھی خوفِ خدا اور تقویٰ مدِ نظر رہے) اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ تفسیر صغیر میں اس آیت کے تحت Foot Note میں تحریر فرماتے ہیں۔ ’’قصاص کے حکم سے نا واجب قتل و خون کم ہو جائے گا۔ اور لوگوں کی اصلاح ہو جائے گی‘‘۔ گویا قصاص لینا اور قصاص میں انصاف برتنا بھی عقلمندوں کاکام ہے تاکہ معاشرہ میں اصلاح ہو۔

پھر سورۃ المائدہ آیت نمبر 101 میں پہلے والے مضمون کو ’’اولواالالباب‘‘ کے ساتھ باندھ کر سمجھایا ہے کہ:

11۔ نیکی اور بدی، طیّب اور خبیث میں تمیز کرنا بھی اولواالالباب کا کام ہے۔ اس سلسلہ میں تقویٰ اختیار کرنے کی تلقین ہے تا عقلمند کامیاب ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے پیار سے اولواالالباب کے لئے کامیابی کی تمنا کی ہے۔

اور سورۃ یوسف آیت 112 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
12۔ لَقَدۡ کَانَ فِیۡ قَصَصِہِمۡ عِبۡرَۃٌ لِّاُولِی الۡاَلۡبَابِ۔ کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جو سابقہ قوموں اور انبیاء کے تعلق میں قصص بیان فرمائے ہیں۔ وہ صرف قصص نہیں ان میں سبق ہے اور عبرت بھی ہے اولواالالباب کے لئے۔ اس میں غور و فکر کرنے اور سابقہ تاریخی واقعات سے عبرت حاصل کرنے کی طرف توجہ دلائی کیونکہ یہ مسلّم ہے کہ سابقہ واقعات اور قصص میں آئندہ زمانے کی پیشگوئیاں بھی ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو ایسے اولواالالباب میں شمار کرے جن کی صفات اُوپر بیان ہوئی ہیں اور ہم سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا کے اعلیٰ مقام کو پانے والے ہوں۔ آمین

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 جنوری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 جنوری 2021