• 15 جولائی, 2025

سورۃ الحجرات، ق اور الذٰریٰت کا تعارف (حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ)

سورۃ الحجرات، ق اور الذٰریٰت کا تعارف
از حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ

سورۃ الحُجُرات

یہ سورت فتح مکہ کے بعد مدینہ میں نازل ہوئی اور بسم اللہ سمیت اس کی انیس آیات ہیں۔

گزشتہ سورت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جلال اور جمال کے جو مراتب بیان ہوئے ہیں اس کے بعد یہاں صحابہؓ کی یہ ذمہ داری بیان فرمائی گئی ہے کہ اس عظیم الشان رسول کے سامنے نہ تو نظر اٹھا کر بات کرنا تمہیں زیب دیتا ہے نہ اونچی آواز میں۔ چنانچہ وہ لوگ جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دُور سے آوازیں دیتے ہوئے اپنے گھر سے باہر آنے کی تکلیف دیا کرتے تھے ان پر سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا گیا ہے۔

اس کے بعد آیت نمبر10میں آئندہ زمانہ میں مسلمان حکومتوں کے باہمی اختلاف کی صورت میں بہترین طریق کار کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تو مسلمان حکومتوں کے آپس میں لڑنے کا کوئی سوال نہیں تھا۔ اس لئے در اصل اس آیت ِ کریمہ میں ایک عظیم الشان چارٹر پیش کیا گیا ہے جو مسلمانوں ہی کے لئے نہیں غیر مسلموں کے لئے بھی قوموں کے اختلاف کی صورت میں اُن میں صلح کرانے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کے بنیادی خدّو خال یہ ہیں کہ:
اگر دو مسلمان حکومتیں آپس میں لڑ پڑیں تو باقی مسلمان حکومتوں کا فرض ہے کہ وہ اکٹھے ہو کر دونوں کو لڑائی سے روکیں اور اگر ان میں سے کوئی نصیحت نہ سنے تو فوجی اقدام کے ذریعہ اس کو مجبور کردیں۔

پس جب وہ لڑائی سے باز آجائیں تو پھر ان کے درمیان صلح کروانے کی کوشش کرو۔

مگر جب صلح کروانے کی کوشش کرو تو کامل انصاف کے ساتھ کرو اور دونوں فریق کے ساتھ انصاف سے پیش آؤ کیونکہ آخری نتیجہ اس کا یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے اور جن سے اللہ تعالیٰ محبت کرے ان کو وہ ہر گز ناکام نہیں ہونے دیتا۔

ایک دفعہ پھر متوجہ کیا جاتا ہے کہ اگرچہ یہاں خطاب مسلمانوں سے ہے مگر جو طریق کار اُن کو سمجھایا گیا ہے وہ تمام بنی نوع انسان کے لئے قابلِ تقلید ہے۔

اس کے بعد مختلف قوموں میں تفرقہ اور انشقاق کی بنیادی وجہ بیان فرما دی گئی جو دراصل نسل پرستی ہے۔ ہر قوم جب دوسری قوم سے تمسخر کرتی ہے تو اپنے آپ کو ان سے گویا الگ اور اعلیٰ نسل شمار کرتے ہوئے ایسا کرتی ہے۔ اس کے بعد متفرق ایسی معاشرتی خرابیاں بیان فرما دیں جن کے نتیجہ میں افتراق پیدا ہوتے ہیں۔

اس کے بعد یہ وضاحت فرمائی گئی کہ اللہ تعالیٰ نے قوموں کو مختلف رنگوں اور نسلوں میں بانٹا کیوں ہے؟ اس کا مقصد یہ بیان فرمایا گیا کہ ایک دوسرے پر برتری جتانے کے لئے نہیں بلکہ ایک دوسرے کی پہچان میں سہولت کی خاطر ایسا کیا گیا ہے۔ مثلاً جب کہا جائے کہ فلاں شخص امریکن ہے یا فلاں جرمن ہے تو اس وجہ سے نہیں کہا جاتا کہ امریکن نسل کو سب پر فضیلت حاصل ہے یا جرمن نسل کو سب قوموں پر فضیلت حاصل ہے بلکہ محض پہچان کی خاطر یہ ذکر کیا جاتا ہے۔

(قرآن کریم اردو ترجمہ مع سورتوں کا تعارف از حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابعؒ، صفحہ 929-930)

سورۃ قٓ

یہ سورت ابتدائی مکی دور میں نازل ہوئی۔ بسم اللہ سمیت اس کی چھیالیس آیات ہیں۔

یہ سورت مقطعات میں سے حرف ’’ق‘‘ سے شروع ہوتی ہے۔ ’’ق‘‘ کے متعلق جیّد علماء کا خیال ہے کہ لفظ قدیر کا اختصار ہے۔ اور اس کے بعد پہلا لفظ قرآن آیا ہے جو ’’ق‘‘ ہی سے شروع ہوتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی قدرت کا انکار کرنے والوں کا یہ بیان مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ میں یہ قدرت کہاں سے آگئی کہ ہمیں مر کر مٹی ہوجانے کے بعد ایک دفعہ پھر قیامت کے دن اکٹھا کرے۔ ان کے نزدیک یہ ایک بہت دُور کی بات ہے یعنی بعید از عقل ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہمیں معلوم ہے کہ زمین ان میں سے کیا کچھ کم کرتی چلی جا رہی ہے لیکن اس کے باوجود ہم یہ قدرت رکھتے ہیں کہ ان کے منتشر ذرّات کو اکٹھا کر دیں۔ ان کی توجہ آسمان کی وسعتوں کی طرف پھیری گئی ہے کہ اتنی عظیم الشان کائنات میں کوئی ایک نقص بھی وہ نہیں دکھا سکتے، پھر اس کے پیدا کرنے والے کی قدرتوں کا وہ کیسے انکار کر سکتے ہیں۔

اس کے بعد فرمایا کہ جو وساوس ان کے دل میں اٹھتے ہیں ہم کلیۃً ان سے با خبر ہیں کیونکہ ہم انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔

پھر یہ پیشگوئی فرمائی گئی کہ ضرور تم لوگ اٹھائے جاؤ گے اور اٹھائے جانے والوں کے ساتھ ان کو ایک ہانک کر لے جانے والا ہو گا اور ایک گواہ۔

جہنم کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ بے دین انسان یکے بعد دیگرے گروہ در گروہ جہنم کا ایندھن بننے والے ہیں۔ ایک ایسی جہنم کا جس کا کبھی پیٹ نہیں بھرے گا۔ جب تمثیلی طور پر اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا کہ کیا تیرا پیٹ بھر گیا ہے تو وہ زبانِ حال سے جواب دے گی کہ کیا اور بھی ایسے بد قسمت ہیں؟ میرے اندر اُن کی بھی گنجائش ہے۔

اور اس کے برعکس جنت متقیوں کے قریب تر کر دی جائے گی۔ غَیْرَ بَعِیْد کا یہ مفہوم بھی ہے کہ یہ بات ہر گز بعید از قیاس نہیں۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نصیحت فرمائی گئی کہ ان کے طعن و تشنیع کو صبر کے ساتھ برداشت کریں۔ جو پیشگوئیاں قرآن کریم میں فرمائی گئی ہیں وہ لازماً پوری ہو کر رہیں گی۔ پس قرآن کریم کے ذریعہ تُو اس شخص کو نصیحت کرتا چلا جا جو میری تنبیہ سے ڈرتا ہو۔

یہاں یہ مراد نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چن چن کر صرف اس کو نصیحت کریں گے جو تنبیہ سے ڈرتا ہو۔ نصیحت تو آپ تمام بنی نوع انسان کو کر رہے ہیں مگر فائدہ وہی اٹھائے گا جو تنبیہ سے ڈرنے والا ہو گا۔

(قرآن کریم اردو ترجمہ مع سورتوں کا تعارف از حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابعؒ، صفحہ936)

سورۃ الذاریات

یہ سورت ابتدائی مکی سورتوں میں سے ہے۔ بسم اللہ سمیت اس کی اکسٹھ آیات ہیں۔

اس سورت کےآغاز ہی میں گزشتہ سورتوں کی پیشگوئیوں کو جن میں جنت و جہنم وغیرہ کی پیشگوئیاں شامل ہیں اتنا یقینی بیان فرمایا گیا ہے جیسے قرآن کے مخاطب آپس میں باتیں کرتے ہیں۔

اس سورت کریمہ میں آئندہ زمانہ میں پیش آمدہ جنگوں کو پھر بطور گواہ ٹھہرایا گیا تاکہ جب بنی نوع انسان ان پیشگوئیوں کو یقینی طور پر پورا ہوتا دیکھ لیں تو اس بات میں کوئی شک نہ رہے کہ جس رسول پر یہ غیب کھولا گیا، مرنے کے بعد کی زندگی کے امور بھی یقینی طور اسے عالم الغیب اللہ نے بتائے۔

فرمایا: ’’قسم ہے بیج بکھیرنے والیوں کی ۔ ۔ ۔ ۔‘‘ اب ظاہری طور پر لفظاً لفظاً بھی یہ پیشگوئی پوری ہو چکی ہے کیونکہ واقعی آجکل ہوائی جہازوں اور ہیلی کاپٹروں کے ذریعہ بیج بکھیرے جاتے ہیں اور بہت بڑے بڑے بوجھ اٹھا کر جہاز اُڑتے ہیں اور باوجود ان بوجھوں کے سبک رَو ہوتے ہیں اور اہم اطلاعات ان جہازوں کے ذریعہ مختلف غالب قوموں کو بھی پہنچائی جاتی ہیں اور مغلوب اور مقہور قوموں کو بھی۔ ان سب کو گواہ ٹھہرا کر یہ نتیجہ نکالا گیا کہ جس کا تم وعدہ دئیے جاتے ہو وہ یقیناً ہو کر رہنے والا ہے اور جزا سزا کا دن یعنی فیصلے کا دن دنیا میں دنیاوی قوموں کے لئے بھی ہو گا اور آخرت میں تمام بنی نوع انسان کے لئے بھی۔

اس کے بعد یہ واضح کر دیا گیا کہ یہ بیج بکھیرنے والیاں اور بوجھ اٹھانے والیاں کوئی زمین پر بوجھ اٹھا کر چلنے والی چیزیں نہیں ہیں بلکہ آسمان پر اُڑنے والے وجود ہیں۔ چنانچہ اس آسمان کو گواہ ٹھہرایا گیا جو فضائی راستوں والا آسمان ہے۔ چنانچہ آج نظر اٹھا کر دیکھیں تو ہر جگہ جہازوں کے رستوں کے نشان ملتے ہیں۔ پس ان سب امور کا نتیجہ یہ نکالا گیا کہ تم آخرت کا انکار کر کے شدید گمراہی میں مبتلا ہو چکے ہو۔ اگر نعوذ باللہ یہ باتیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیان فرما رہے ہیں کسی اٹکل پچو مارنے والے کی باتیں ہوتیں تو اٹکل پچو سے کام لینے والے تمام ہلاک ہو گئے مگر یہ رسول ؐ ہمیشہ کے لئے باقی ہے۔

یہ کلام فصاحت و بلاغت کا مرقع ہے۔ آسمان سے بیج بکھیرنے والیوں کے ذکر کے بعد اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ تمہارے رزق کے سب ذرائع آسمان سے اترتے ہیں لیکن ایک آسمانی رزق وہ بھی ہوتا ہے جس کی کُنہ انسان نہیں سمجھ سکتا اور فرشتوں کو بھی وہی رزق دیا جاتا ہے۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمانوں کا ذکر فرمایا جو ملائک تھے اور انسانی روپ میں آپؑ پر ظاہر ہوئے تھے۔ جب ان کے سامنے حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے وہ بہترین رزق رکھا جو انسانوں کی زندگی کا سہارا بنتا ہے تو انہوں نے اس کو کھانے سے انکار کر دیا کیونکہ ان کو عطا ہونے والا رزق مختلف نوعیت کا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذکر کے بعد اور بہت سے گزشتہ انبیاء کا بھی ذکر فرمایا۔

اس کے بعد ایک ایسی آیت ہے جو آسمان کے ہمیشہ وسعت پذیر ہونے کا ذکر کرتی ہے جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کسی انسان کو واہمہ تک نہ تھا۔ فی زمانہ ماہرین فلکیات نے یہ حقیقت پیش کی ہے کہ آسمان ہمیشہ وسعت پذیر رہتا ہے یہاں تک کہ ایک اجلِ مسمّٰی تک پہنچنے کے بعد پھر ایک مرکز کی طرف لوٹ آئے گا۔

رزق کے مضمون کو اس رنگ میں بھی پیش فرمایا کہ تمام انسانی اور ملکوتی وجود بہر حال کسی نہ کسی نوعیت کے رزق کے محتاج ہیں۔ صرف ایک ذات ہے جو کسی رزق کی محتاج نہیں اور وہ اللہ کی ذات ہے جو رازق ِ کُل ہے۔

(قرآن کریم اردو ترجمہ مع سورتوں کا تعارف از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ، صفحہ943-944)

(عائشہ چودھری۔ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 جنوری 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ