اطفال کارنر
تقریر
قُرَّۃُ عَیْنِیْ فِی الصَّلَاۃِ
یہ نبی کریمؐ کا ایک جملہ ہے جس میں آپؐ نے اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک نماز کو قرار دیا ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدائش کا بنیادی مقصد ایک خدا کی عبادت کرنا قرار دیا اور ان عبادات میں سے سب سے افضل عبادت نماز کا قیام ہے۔ قرآن کریم میں بھی سب سے زیادہ جس امر کی طرف اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی ہے وہ نماز ہی کا قیام ہے۔ چنانچہ آنحضرتؐ نے بھی سب سے زیادہ توجہ اسی امر کی طرف ہی دلائی ہے۔
آپؐ نے نماز کو محبت ِ الٰہی کے حصول کا ذریعہ قرار دیا جبکہ ایک صحابی نے آپؐ سے پوچھا کہ کون سا عمل خدا تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسند ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا: اَلصّلَاَۃُ عَلیٰ وَقْتِھَا کہ وقت پر نماز پڑھنا۔
پھر آپؐ نماز کو گناہوں کا کفارہ قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں۔
اِنَّ الْعَبْدَ الْمُسْلِمَ لُیُصَلِّیَ الصَّلَاۃَ یُرِیْدُبِھَا وَجْہَ اللّٰہِ تَھَافَتْ عَنْہُ ذُنُوْبَہٗ کَمَا یَتَھَا فَتُ ھٰذَا الْوَرَقُ عَنْ ھَذِہِ الشَّجَرَۃِ
(مشکوۃ المصابیح، کتاب الصلوۃ)
جب ایک مسلمان اللہ کی رضا مندی حاصل کرنے کے لیے نماز پڑھتا ہے تو اس کے گناہ اسی طرح جھڑ جاتے ہیں جس طرح اس درخت سے یہ پتے جھڑ رہے ہیں۔
ایک موقعہ پر آپؐ نے نمازوں کی اہمیت کو ایک مثال دے کر واضح فرمایا:
مَثَلُ الصّلَوَاتِ الْخَمْسِ کَمَثَلِ نَھْرٍجَارٍ عَلٰی بَابِ اَحَدِ کُمْ یَغْتَسِلُ مِنْہُ کُلَّ یَوْمٍ خَمْسَ مَرَّاتٍ
(مسلم کتاب الصلوۃ باب المشی الی الصلوۃ)
کہ پانچ نمازوں کی مثال ایسی ہے جیسے تم میں سے کسی کے دروازے کے پاس پانی سے بھری ہوئی نہر چل رہی ہو اور وہ اس میں دن میں پانچ بار نہائے۔
اور ایک روایت میں ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے موجود صحابہ سے پوچھا۔ کیا ایسے شخص پر میل رہے گی؟ صحابہ نے عرض کی کہ نہیں حضور! ہر گز نہیں۔ حضور نے فرما یا کہ یہی کیفیت اس شخص کی ہو گی جو روزانہ پانچ وقت نماز پڑھنے کے لئے روحانی نہر میں نہاتا ہے۔
پس نماز سے متعلق جب ہم آنحضورؐ کے نمونہ کی طرف دیکھتے ہیں تو کہیں آپ قُرَّۃُ عَیْنِی فِی الصَّلَاۃ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں تو کہیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو آپ کا قول ’’اَفَلَا اَنْ اَ کُوْنَ عَبْداً شَکُورًا ‘‘ کہتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ یہی وہ نمونہ ہے جو حضورؐ نے اپنی امت کے سامنے پیش کیا۔ اب امت کا فرض ہے اس اسوہ کو اپناتے ہوئے اس محبت کا حق ادا کریں جس کے ذریعہ خدا تعالیٰ سے محبت ممکن ہوگی۔ کیوں کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِی ْیُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ کہ اگر اللہ سے محبت کرنی ہے تو میری اتباع کرو۔ میری پیروی کرو میرے اسوہ پر چلو۔ خدا کی محبت اور قرب اسی صورت میں میسر ہوگا جب نبیؐ کے اسوہ پر چلا جائے۔ اور آپؐ کے اسوہ میں سب سے زیادہ اہمیت اور آپؐ کی آنکھوں کی ٹھنڈک نماز ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام، حضوراکرمؐ کے اسی اسوہ کے بارے میں کچھ یوں نصیحت فرماتے ہیں:
نمازوں کو باقاعدہ التزام سے پڑھو۔ بعض لوگ صرف ایک ہی وقت کی نماز پڑھ لیتے ہیں۔ وہ یاد رکھیں کہ نمازیں معاف نہیں ہوتیں۔ یہاں تک کہ پیغمبروں تک کو معاف نہیں ہوئی۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہؐ کے پاس ایک نئی جماعت آئی۔ انہوں نے نماز کی معافی چاہی آپ نے فرمایا کہ جس مذہب میں نماز نہیں وہ مذہب نہیں۔
(ملفوظات جلد1 صفحہ263)
حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ کان کھول کر سنو! جو نماز کا مضیع ہے۔ اس کا کوئی کام دنیا میں ٹھیک نہیں۔
(خطبات نور جلد دوم صفحہ98)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:۔ وہ سب جن کا جماعت سے تعلق ہے جو مجھے اپنا سمجھتے ہیں ان سب سے میری عاجزانہ التماس ہے کہ نمازوں کو قائم کریں اپنے گھروں میں بھی اپنے گردوپیش اپنے ماحول میں بھی اور صلوۃ وسطی کی حفاظت کریں اور صبح کی نماز کی طرف واپس لوٹیں کیونکہ اگر یہ نماز ادا نہ ہوئی تو ان کی ساری زندگی جہنم کمانے میں صرف ہو رہی ہے۔
(خطبہ جمعہ 10 اکتوبر 1997ء)
نیز فرمایا:۔ نماز وہ بنیادی کام ہے جس کے بغیر ہم دنیا میں کوئی انقلاب نہیں برپا کر سکتے۔
(خطبہ جمعہ 22 جولائی 1988ء)
ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
ہر احمدی کو یہ بات اپنے ذہن میں اچھی طرح بٹھا لینی چاہیے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے اس انعام کا جو خلافت کی صورت میں جاری ہے تبھی فائدہ اُٹھا سکیں گے جب ہم اپنی نمازوں کی حفاظت کرنے والے ہوں گے۔‘‘
اللہ کرے ہم نبیؐ کے اسوہ پر چلتے ہوئے اپنے محبوب امام کی خواہشات کے مطابق نمازوں کو قائم کرنے والے ہوں ورنہ ہمارا صرف دعویٰ ہی ہوگا۔ جس کی کوئی حیثیت نہیں۔ اللہ کرے ہم خدا کی محبت کو اور رسولؐ کے اسوہ کو اپنانے والے ہوں۔ آمین
(فرخ شاد)