• 20 اپریل, 2024

انبیاء اور تقویٰ

اللہ تعالیٰ جب بھی انبیاء مبعوث فرماتا ہے تو اس کے ماننے والے، اس پر ایمان لانے والے، تقویٰ کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والے ہوتے ہیں اور ان کے تقویٰ کا اعلیٰ معیار اس لئے قائم ہو رہا ہوتا ہے، اس کا اظہار اس لئے ہو رہا ہوتا ہے، دنیا کو نظر آ رہا ہوتا ہے (ان کی اپنی طرف سے نہیں ہوتا دنیا کو نظر آتا ہے) اور ان کے اندر یہ تبدیلی اس لئے نظر آ رہی ہوتی ہے کہ انہوں نے اس قرب کی و جہ سے جو ان کو نبی سے ہے اللہ کی مدد اور فضل سے اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کی ہوتی ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ وہ خود بھی اس سچی پیروی کی و جہ سے، اس سچے ایمان کی و جہ سے، اپنے اندر تقویٰ قائم ہونے کی و جہ سے، اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرنے کی وجہ سے، صادقوں میں شامل ہو گئے ہوتے ہیں اور پھر آگے بہت سوں کی رہنمائی کا باعث بنتے ہیں، بن رہے ہوتے ہیں، تو جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایاہے یہ فیض رک نہیں جاتا بلکہ یہ ایک مسلسل عمل ہے۔ ورنہ تو اس آیت میں جو حکم ہے کہ کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ اس کا مقصد ہی ختم ہو جاتا ہے۔ اگر یہ عمل رکنے والا ہو تو یہ حکم تاریخ کا حصہ بن جائے گا۔ پھر تو لوگ پوچھتے کہ وہ کون ہیں صادق، وہ کہاں ہیں جن کے ساتھ ہم نے ہونا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنا ہے۔

تو یہ معرفت کی باتیں ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادقؑ کے ذریعے سے ہی پتہ لگی ہیں۔ آپ کی قوت قدسی نے صادقین کی ایک فوج تیار کی جو روحانیت میں اتنی ترقی کر گئی کہ ان کو صحابہ کا مقام حاصل ہو گیا۔ اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عاشق صادق کی جماعت میں رہ کر آپ کے قرآنی علوم و معارف سے فیضیاب ہو کر ہی صادقین میں شمار ہو سکتا ہے۔

(خطبہ جمعہ 11؍جون 2004ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 جنوری 2023

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی