• 6 مئی, 2024

ہم کس کی محبت میں دوڑے چلے آئے تھے

حضور انور سے ملاقات کی نوید کیا ملی گھر پر جشن کا سماں بندھ گیا۔سفر کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ بڑی بیٹی عزیزہ نعیمہ کا نونہال عزیزم اویس احمد بھی نہال تھا کہ پیارے آقا سے پہلی بار ملاقات کا شرف حاصل ہو رہا ہے حضور اقدس 2019ء کے جلسہ پر تشریف لائے تھے تو وہ اس وقت اڑھائی سال کا تھا۔ اس نے اس وقت دور سے دیکھا تھا گو ہر جمعہ ایم ٹی اے پر دیدار بھی کرتا ہے۔ مگرپیارے کو سامنے دیکھنے کی تو بات ہی اور ہے۔ بہرحال سبھی خوشی خوشی تیاریوں میں مصروف تھے کہ خبر ملی کہ امریکہ دورے کے بعد حضور انور کی طبیعت ناساز ہوگئی ہے اور شاید ملاقاتیں منسوخ ہوجائیں۔ یہ سن کر دہری پریشانی ہوئی ایک تو حضورانور کی ناسازی طبع کی اور پھر ملاقات منسوخ ہونے کی۔ اب ہماری دعا میں تیزی آگئی اور پھر شرمندگی بھی ہوئی کہ صرف اپنی ملاقات کی خاطر دعا میں انہماک ہے۔ پھر خدا سے عرض کی کہ خدایا! ہم تو کمزور بندے ہیں کمر پر لات پڑے تو خشوع و خضوع طاری ہوتا ہے اور حلوہ چھن جانے پر رونا دھونا ہوتا ہے۔ ہمیں بھی حلوہ چھن جانے کا خطرہ تھا۔ بہرحال سفر پر روانہ ہوگئے۔ فیری پر پہنچنے سے قبل نئی پریشانی کا سامنا ہوا کہ گاڑی خراب ہوگئی۔ ڈسپلے میں کسی فلٹر کے خراب ہونے کی نشاندہی تھی۔ جو میری سمجھ سے باہر تھی۔ گاڑی چل رہی تھی مگر مناسب رفتار نہیں پکڑ رہی تھی اس کے باوجود ہم منزل کی طرف رواں دواں رہے۔ فیری سے اتر کر کچھ دیر کے لیے یہ نشان اوجھل ہوگیا۔ خوشی کی لہر عارضی ثابت ہوئی کہ چند میل کے بعد رفتار پھر دھیمی ہوگئی اور خرابی کا نشان بھی پھر نمودار ہوگیا۔علیٰ الصبح چار بجے بیت الفتوح پہنچے۔ محترم بھائی جان نفیس صاحب انتظار میں تھے۔ ان کو گاڑی کی خرابی کا بتایا تو وہ بھی پریشان ہوئے کہ واپس کس طرح جاؤ گے۔ AA والوں کو بلایاتو انہوں نے تشخیص کی کہ EGR خراب ہے۔ ہماری بلا جانے کہ یہ کیا ہے؟ ورکشاپ گئے تو انہوں نے کہا کہ گاڑی چلتی تو رہے گی لیکن لمبا سفر مناسب نہیں کسی بھی وقت جواب دے سکتی ہے اور مرمت کے لیے تقریباً سات سو پونڈ اور دو دن درکار ہوں گے۔ بہرحال اسی گاڑی پر اسلام آباد روانہ ہوگئے۔ حضورانور کی اقتدا میں نماز جمعہ مسجد مبارک اسلام آباد میں ادا کی۔ اگلے روز مغرب و عشا کی نمازیں بھی مسجد مبارک میں ہی ادا کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ موسم بھی غیر معمولی طور پر خوشگوار تھا۔

اسلام آباد کی تعمیر نو کے بعدپہلی بار آنا ہوا تھا جو اب نہایت ہی دیدہ زیب بستی میں تبدیل ہو چکا تھا۔سادہ مگر دلفریب گھر، خوبصورت سبزے کی بہار اور جا بجا کھلتے ہوئے پھول اور پودے، جیسی تعریف سنی تھی اس سے بڑھ کر پایا۔ قصر خلافت اور مسجد مبارک کی تو شان ہی الگ ہے۔ COVID سے قبل اللہ تعا لیٰ نےشہر سے باہر پُر فضا جگہ پرایسی بستی عطا کی جو بظاہر تو دنیا سے الگ تھلگ ہےمگر ساری دنیا کا روحانی مرکز ہے اور پھر اس بستی کی خاک میں ابدی نیند میں سوئی ہوئی ایسی ہستی جس کے خوابوں کی تعبیر خدا نے اس رنگ میں بھی پوری کی۔ جمعہ کی شام کونماز مغرب کے بعد محترم حنیف محمود ایڈیٹر روزنامہ الفضل آن لائن سے بھی ملاقات ہوگئی۔ نہایت محبت سے ہاتھ پکڑ کر ایک بینچ پر بیٹھ گئے۔ میں اس محبت و شفقت پر حیران تھا مگر وہ بےتکلفی سے بینچ پر بیٹھے دیر تک گفتگو کرتے رہے۔ اسی بہانے کئی دوسرے احباب سے بھی ملاقات ہوگئی جو ایڈیٹر صاحب الفضل کو دیکھ کر رک گئے تھے۔ ایڈیٹر صاحب نے الفضل کی تاریخ اور اس کے دوبارہ لندن سے اجراء اور اشاعت کی تفصیل بتائی۔ سُن کر اس بزرگ کا واقعہ یاد آگیا جنہوں نے لڈو ہاتھ میں بھور بھورکر کئی منٹوں میں کھایا۔ پوچھنے پر بتایا کہ میں سوچ رہا تھا کہ اس کے پیچھے کتنے انسانوں کی کتنی محنت ہےجبکہ لوگ اس کو ایک لقمے میں ہی کھا جاتے ہیں۔ ایڈیٹرصاحب اور ان کی ٹیم کی محنت قابل تعریف ہے۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ یہ سن کر دل کھل اُٹھااور حمد سے بھر گیا کہ حضور انور کی طبیعت بہتر ہے اور ملاقاتیں ہو رہی ہیں، الحمدللّٰہ۔ اللہ رحمت کے اس شجر کو قائم دائم رکھے اور ہمیں آنکھ کے پانی سے اس کی آبیاری کی توفیق دے، آمین۔ ان دنوں خوب دعا کی توفیق ملی اور پھر آخر وہ دن آگیا۔

؏ دن گنے جاتے تھے جس دن کے لیے

تیار ہوکر ایک عجیب کیف و سرور کے عالم میں اسلام آباد پہنچے۔ انتظار کے لمحےکسی طور کٹے اور ہم خدمت اقدس میں موجود تھے۔ ڈھیروں باتیں سوچ کر جاتے ہیں مگر خداداد رعب اور دبدبہ کی وجہ سے سب بھول جاتا ہے۔ شکر ہے کہ حضور انور خود ہی سب دریافت فرما لیتے ہیں اور اس طرح کچھ بھولی ہوئی باتیں بھی یاد آجاتی ہیں۔ مگر پھر بھی باہر نکلتے وقت یہی احساس ہوتا ہے کہ

؏ ان کہی ہی رہ گئی وہ بات سب باتوں کے بعد

گاڑی کی خرابی کا بتایا تو فرمایا کہ ’’نئی گاڑی لے کے آنی تھی ناں‘‘ عرض کیا کہ حضور دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ نئی گاڑی عطا فرمائے۔ پھر فرمایا کہ اچھا آرام آرام سے جائیں اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا۔ میں نے اہلیہ اور بچوں سے کہہ دیا کہ اب واپسی کی گارنٹی مل گئی ہے اور ایسا ہی ہوا۔ بلکہ واپس پہنچ کر بھی دو تین دن بعد گاڑی ورکشاپ میں دی۔ بچیوں کے رشتوں اور مستقبل کے بارہ میں بھی حضورانور نے دریافت فرمایا اور دعا بھی دی۔ زیادہ دیر اہلیہ اور بچوں سے ہی نہایت شفقت سے بات فرماتے رہے اور میں اس شفقت اور لطف و کرم کو دیکھ کر ہی باغ باغ ہوتا رہا۔

؎تیرے پیار کا جو منظر تھا
وہ الفاظ سے بالا تر تھا
پلکوں پر جو نور سحر تھا
اس سے تاریکی کو ڈر تھا

آخر پر تصویر ہوئی تو میں نے عرض کی کہ حضور ایک اور درخواست ہے فرمایا اب کیا ہے؟ عرض کیا کہ میرے نواسے عزیزم اویس احمد کے ساتھ ایک تصویر ہوجائے تو حضور کا مزید ایک احسان ہوگا۔ فرمایا آجاؤ۔

عزیزم اویس کے سر پر دستِ شفقت رکھ کر تصویر بنوائی۔ جو آج میری بیٹی نعیمہ انیس اور خاکسا رکے گھر کی زینت ہے۔ کیسے اتاریں گے ان احسانوں کا بدلہ۔ ہم تو تہی دست ہیں اور اس دربار میں مالا مال ہونے کے لیے ہی تو جاتے ہیں۔ لے دے کے ایک دعا ہی تو ہے جو ہم کر سکتے ہیں۔ مگر اس میں بھی اس کا قدم اور اس کے احسانات اتنے ہیں کہ کوئی آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اللہ ہی ہے جو اس شفقت محبت اور احسان کی جزا عطا فرمائے۔ آمین

؎وہ شجر تھا گھنا محبت کا
اس کے سائے میں بیٹھ جانا تھا

اگلے دن سب سے ملاقات کی مبارکباد وصول کی اور پھر چند ایک رشتہ داروں سے ملے۔ محترم بھائی جان کی خواہش تھی کہ ہمارے والد محترم مولانا محمد اسماعیل دیالگڑھی صاحب مرحوم کی کتاب ’’خلیل احمد‘‘ جو 1939ء میں قادیان سے شائع ہوئی تھی اس کو دوبارہ شائع کیا جائے۔ اس سلسلہ میں مکرم مولانا نصیر احمد قمر صاحب سے ملاقات کی غرض سے ڈئیر پارک طاہر ہاؤس میں پہنچے۔ مولانا قمر صاحب ہم دونوں کو دیکھتے ہی اُٹھ کھڑے ہوئے نہایت تپاک سےملے۔ ان کو دیکھ کر پرانے بزرگ یاد آ گئے۔ ہم نے مدعا عرض کیا تو کہا کہ آپ ایک درخواست لکھ کر دے دیں۔ میں حضور انور کی خدمت اقدس میں پیش کرکے اس کتاب کی دوبارہ اشاعت کی اجازت لینے کی کوشش کروں گا۔ بھائی جان نے اگلے ہی روز تحریری درخواست دے دی اور چند دنوں کے بعد ان کا خط موصول ہوا کہ حضورانور نے ازرہ شفقت اجازت عطا فرمائی ہے۔ الحمدللّٰہ ثم الحمدللّٰہ

غرض یہ سفر ہر لحاظ سے وسیلہ ظفر ثابت ہوا۔

؎کل بھی تھے اور آج بھی ہیں
ہم محتاج دعاؤں کے
اک نظر اس جانب بھی
بخشنہار خطاؤں کے

(محمد انیس دیال گڑھی۔ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 جنوری 2023

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی