• 8 جولائی, 2025

حضرت مسیح موعود ؑ اور بنی نوع انسان کی ہمدردی

قادیان کی گمنام اور چھوٹی سی بستی میں قوم برلاس کے رئیس مغل گھرانے میں ایک ایسی عظیم الشان ہستی نے جنم لیا جس کو اپنے ظاہری خاندانی جاہ وجلال اور زمین و جائیداد سے کوئی دلچسپی نہ تھی ،کاروبار دنیا سے جسے کوئی سرو کار نہ تھا ۔اور اس کا زیادہ تر وقت ذکر الہٰی اور قرآن کریم کے تدبر ،تفاسیر اور احادیث کے مطالعہ میں صرف ہوتا تھا ۔جس کا جواب دنیاوی امور کے بارے میں یہ ہوا کرتا تھا ۔کہ میں نے جہاں نوکر ہونا تھا ہوچکا ۔اس وقت کون جانتا تھا کہ یہ عظیم الشان انسان جو کہ خدا کے گھر کا نوکر ہوچکا ہے،آسمانی بادشاہت کا وارث ٹھہرنے والا ہے ۔اس کو بشارت مل چکی تھی کہ اب سے صرف اللہ اس کے لئے کافی ہے ۔خدا نے اسے برکت دی اور وہ وقت آنے آچکا ہے کہ جب بادشاہ بھی اس کے کپڑوں سے برکت دھونڈتے ہیں ،دنیا کے ہر کونے سے لوگ اس کے در پر حاضر ی دینے کے لئےآنے والے ہیں وہ تو اپنا مکان وسیع کرنے والا ہے وہ جس کا اپنا دسترخوان ٹکڑے ہیں اب دنیا کی قومیں اس کے دسترخوان سے کھانے والی ہیں ۔

اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے: وَ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلیٰ حُبِّہِ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْمًا وَّاَسِیْرًا اور وہ کھانے کو اس کی چاہت کے ہوتے ہوئے مسکینوں، یتیموں اور اسیروں کو کھلاتے ہیں۔

(الدھر:9)

اس بارے میں خود آپ ؑ کا بیان ہے: ’’قرآن شریف نے جس قدر والدین اور اولاداور دیگر اقرباء اور مساکین کے حقوق بیان کئے ہیں۔ میں نہیں خیال کرتا کہ وہ حقوق کسی اور کتاب میں لکھے گئے ہوں‘‘

(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد نمبر 23صفحہ 208)

یہ تو وہ ہیں جس کے عہد پر رسولوں کو بھی فخر ہے۔ خدا اپنے گروہ کے ساتھ اس کی تائید کو آنے والا ہے جس کے آنے کی خبر امتِ محمدیہ ﷺ کے مجددِ دین بھی دے رہے ہیں ۔ایسے وقت میں جب برصغیر میں مذاہبِ باطلہ دینِ حق پر بڑھ بڑھ کر حملے کر رہے تھے تو خدا کا یہ پہلوان تنِ تنہا سپر بن کر ان کا منہ توڑ جواب دے رہا تھا ۔آپؑ کے اس عظیم الشان کارنامے پر کیا اپنے کیا غیر تمام اہلِ حق یک زبان ہو کر آپؑ کی تائیدکے گُن گا رہے تھے ۔وہ جری ﷲ فی حلل الانبیاء تھا۔اور مجسم خدا کی قدرت تھا ،ان کا خدا سے ایک زندہ تعلق تھا اور وہ ان سب کی امیدوں اور نگاہوں کا مرکز تھے جن کے درمیان وہ اپنی پاک زندگی بسر کر چکاتھا ان سب کی یہی پکار تھی۔

؎

ہم مریضوں کی ہے تمہی پہ نظر
تم مسیحا بنو خدا کے لئے

خدا کی اس منادی کی زمین وآسماں ،کون و مکاں بھی گواہی دینے لگے کہ یہی ہے ہمارا مہدی ومسیح جس کا انتظار مدتوں سے تھا ۔یہی ہے امام کامگارجس کا نزول مبارک اور مقدر تھا ۔جس کی بدولت گمنام بستی میں انوار کا سیلِ رواں ہوگیا۔اور جس کے پہلو میں آتے ہی لوگ اپنے وطنوں کو بھول جاتے۔ آپؑ کے عاشقوں کا یہ عالم تھا کہ مانند پروانہ اپنی شمع کے گرد منڈلاتے یہاں تک کہ ان کو اپنی ہوش نہ رہتی ۔ایسے عاشقوں کے محبوبؑ کا یہ عالم تھا کہ اس کی ذات کا رُواں رُواں مخلوقِ خدا کی ہمدردی کے لیے وقف تھا۔

حضرت مولوی شیر علی سے روایت ہے کہ ’’حضرت مسیح موعودؑ کی صحبت اور مجلس میں بیٹھنے سے دل میں خوشی اور بشاشت اور اطمینان پیدا ہوتے تھے اور خواہ انسان کتنا بھی متفکراور غمگین یا مایوس ہو آپؑ کے سامنے جاتے ہی قلب کے اندر مسرت اور سکون کی ایک لہر دوڑ جاتی تھی ۔‘‘

(از سیرت المہدی جلد اول صفحہ 357 روایت397)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جذبہ ہمدردی خلق آپ کی تحریرات کی روشنی میں

آپؑ نہ صرف خود بنی نوع انسان کی ہمدردی میں مشغول رہتے بلکہ اپنے رفقاء کو بھی اس کی عمومی نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ’’حدیث میں بھی ذکر آتا ہے کہ ایک صحابی نے آنحضرت ﷺ سے پوچھا کہ ایام جاہلیت میں میں نے بہت خرچ کیا تھا، کیا اس کا ثواب بھی مجھ کو ہو گا؟آنحضرت ﷺ نے جواب دیا کہ یہ اسی صدقہ و خیرات کا ثمرہ ہے کہ تو مسلمان ہو گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کسی کے ادنی ٰفعلِ اخلاص کو بھی ضائع نہیں کرتا۔ اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مخلوق کی ہمدردی اور خبرگیری حقوق اللہ کی حفاظت کا باعث ہوتی ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ نمبر 216)

ایک اور جگہ آپؑ بیان کرتے ہیں ’’کہ میری تو یہ حالت ہے کہ اگر کسی کو دردہوتا ہو اور میں نماز میں مصروف ہوں میرے کان میں اس کی آواز پہنچ جاوے تو میں چاہتا ہوں کہ نماز توڑ کر بھی اگر اس کو فائدہ پہنچا سکتا ہوں تو پہنچاؤں اور جہاں تک ممکن ہے اس سے ہمدردی کروں۔ یہ اخلاق کے خلاف ہے کہ کسی بھائی کی مصیبت اور تکلیف میں اس کا ساتھ نہ دیا جاوے۔ اگر تم کچھ بھی اس کے لئے نہیں کر سکتے تو کم از کم دعا ہی کرواپنے تو درکنار میں تو کہتا ہوں کہ غیروں اور ہندوؤں کے ساتھ بھی ایسے اخلاق کا نمونہ دکھاؤ اور ان سے ہمدردی کرولاابالی مزاج ہرگز نہیں ہونا چاہئے۔ ایک مرتبہ میں باہر سیر کو جارہا تھا، ایک پٹواری عبدالکریم میرے ساتھ تھا وہ ذرا آگے تھا اور میں راستہ میں ایک بڑھیا 70 یا 75 برس کی ضعیفہ ملی ا س نے ایک خط اسے پڑھنے کو کہا مگر اس نے اسے جھڑکیاں دے کر اسے ہٹادیامیرے دل پر چوٹ سی لگی اس نے وہ خط مجھے دے دیا ۔میں اس کو لے کر ٹھہر گیا، اور اس کو پڑھ کر اچھی طرح سمجھا دیا ۔اس پر اسے سخت شرمندہ ہونا پڑا کیونکہ ٹھہرنا تو پڑا اور ثواب سے بھی محروم رہا‘‘

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 82 ,83)

آپؑ فرماتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ متقی کو پیار کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عظمت کو یاد کرکے سب ترساں رہواور یاد رکھو کہ سب اللہ کے بندے ہیں۔ کسی پر ظلم نہ کرو۔ نہ تیزی کرو۔ نہ کسی کو حقارت سے دیکھو۔ جماعت میں اگر ایک آدمی گندہ ہے تو وہ سب کو گندہ کر دیتا ہے۔ اگر حرارت کی طرف تمہارا میلان ہو تو پھر اپنے دل کو ٹٹولو کہ یہ حرارت کس چشمہ سے نکلتی ہے۔ یہ مقام نازک ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد 1صفحہ 8 ،9)

اسی طرح ایک اور جگہ آپؑ فرماتے ہیں ’’اس کے بندوں پر رحم کرو ان پر زبان یا ہاتھ کسی تدبیر سے ظلم نہ کرو اور مخلوق کی بھلائی کے لئے کوشش کرتے رہو اور کسی پر تکبر نہ کروگو اپنا ماتحت ہو، کسی کو گالی مت دو گو وہ گالی دیتا ہو ۔غریب اور حلیم اور نیک نیت اور مخلوق کے ہمدرد بن جاؤتا قبول کیے جاؤ…بڑے ہو کر چھوٹوں پر رحم کرونہ ان کی تحقیراور عالم ہوکر نادانوں کو نصیحت کرونہ خودنمائی سے ان کی تذلیل۔ اور امیر ہو کر غریبوں کی خدمت کرو نہ خود پسندی سے ان پر تکبرہلاکت کی راہوں سے ڈرو…‘‘

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد نمبر 19صفحہ11 ،12)

آپؑ مزید فرماتے ہیں: ’’پس مخلوق کی ہمدردی ایک ایسی شئے ہے کہ اگر انسان اسے چھوڑ دے اور اس سے دور ہوتا جاوے تو رفتہ رفتہ پھر وہ درندہ ہوجاتا ہے۔ انسان کی انسانیت کا یہی تقاضا ہے اور وہ اسی وقت تک انسان ہے جب تک اپنے دوسرے بھائی کے ساتھ مروت ،سلوک اور احسان سے کا لیتا ہے اور اس میں کسی قسم کی تفریق نہیں جیسا کہ سعدی نے کہا ہے۔

ع

بنی آدم اعضائے یک دیگر اند

میں …یہ نہیں کہنا چاہتا کہ تم اپنی ہمدردی کو صرف مسلمانوں سے ہی مخصوص کرو۔نہیں ۔میں کہتا ہوں کہ تم خدا تعالیٰ کی ساری مخلوق سے ہمدردی کرو خواہ کوئی ہو ہندو ہو یا مسلمان۔ میں کبھی ایسے لوگوں کی باتیں پسند نہیں کرتا جو ہمدردی کو صرف اپنی ہی قوم سے مخصوص کرنا چاہتے ہیں‘‘

(بحوالہ ملفوظات جلد 4صفحہ 216 ،217)

ایک اور موقع پہ آپ ؑنے فرمایا ۔ ’’میں پھر کہتا ہوں کہ جو لوگ نافع الناس ہیں اور ایمان اور صدق و وفا میں میں کامل ہیں۔ وہ یقیناً بچا لئے جائیں گے پس تم اپنے اندر یہ خوبیاں پیدا کرو‘‘

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 184)

آپ ؑ فرماتے ہیں ۔’’دراصل خدا کی مخلوق کے ساتھ ہمدردی کرنا بہت بڑی بات ہے خدا تعالیٰ اس کو بہت پسند کرتا ہے ۔اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گا کہ وہ اس سے ہمدردی ظاہر کرتا ہے ۔عام طور پر دنیا میں بھی ایسا ہو تا ہے کہ اگر کسی شخص کا خادم اس کے کسی دوست کے پاس جاوے اور وہ شخص اس کی خبر بھی نہ لے تو کیا وہ آقا جس کا وہ خادم ہے اس اپنے دوست سے خوش ہوگا؟ کبھی نہیں۔ اس نوکر کی خدمت اور اس کے ساتھ حسن ِ سلوک گویا مالک کے ساتھ سلوک ہے ۔خدا تعالیٰ کو بھی اس طرح پر اس بات کی چڑ ہے کہ کوئی اس کی مخلوق سے سرد مہری برتے ،کیونکہ اس کو اپنی مخلوق بہت پیاری ہے ۔پس جو شخص خدا تعالیٰ سے ہمدردی کرتا ہے وہ گویا اپنے خدا کو راضی کرتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد4 صفحہ 215 ،216)

حضرت اقدس ؑ نہم شرطِ بیعت میں فرماتے ہیں۔ ’’یہ کہ عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض للہ مشغول رہے گا اور جہاں تک بس چل سکتا ہے اپنی خدا داد طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچائے گا‘‘

(شرائط بیعت اور احمدی کی ذمہ داریاں صفحہ نمبر 147، مجموعہ اشتہارات 12 جنوری 1889ء)

حضرت مسیح موعود ؑ کا ہمدردی خلق آپ ؑ کی ذات کے آئینہ میں یوں تو آپ ؑ کی زندگی آپؑ کے حسنِ اخلاق کے واقعات سے بھری پڑی ہے مگر ذیل میں خاکسار آپ ؑ کے حسن سلوک کی چند مثالیں دے گی۔ آپؑ کی زندگی میں بے شمار ایسے واقعات ملتے ہیں کہ آپؑ نے خلقِ خدا سے ایسا شفقت و محبت کا سلوک کیا کہ لوگوں نے برملا اس بات کا اعتراف کیا کہ آپ ؑسنتِ رسول ﷺ پر کس طور پر عمل پیرا تھے اور خلقِ خدا کی ہمدردی میں شب و روز سے بیگانہ تھے۔

حضرت اقدسؑ کا اپنے خدام سے حسن سلوک

حضرت مفتی محمد صادق ؓبیان کرتے ہیں کہ ’’حضرت مسیح موعود ؑ اپنے خدام کے ساتھ بہت بے تکلف رہتے تھے جس کے نتیجہ میں خدام بھی حضورؑ کے ساتھ ادب و احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے بے تکلفی سے بات کر لیتے تھے چنانچہ ایک دفعہ میں لاہور سے حضور ؑ کی ملاقات کے لئے آیا اور وہ سردیوں کے دن تھے۔ میرے پاس اوڑھنے کے لئے رضائی وغیرہ نہیں تھی ۔میں نے حضرت ؑ کی خدمت میں کہلا بھیجا کہ حضورؑ رات کو سردی لگنے کا اندیشہ ہے حضور ؑمہربانی کرکے کوئی کپڑا وغیرہ عنایت فرماویں ۔حضرت صاحب ؑ نے ایک ہلکی رضائی اور ایک دُھسا ارسال فرمایا اور ساتھ ہی پیغام بھیجا کہ رضائی محمود کی ہے اور دُھسا میرا ہے ۔ان دونوں میں سے جو پسند کریں رکھ لیں اور چاہیں تو دونوں رکھ لیں میں نے رضائی رکھ لی اور دُھسا واپس بھیج دیا نیز مفتی صاحب ؓنے بیان کیا کہ جب میں قادیان سے واپس لاہور جایا کرتا تھا تو حضورؑ اندر سے میرے لئے ساتھ لے جانے کے واسطے کھانا بھجوایا کرتے ۔چنانچہ ایک دفعہ جب میں شام کے قریب قادیان سے آنے لگا تو حضرت صاحب ؑ نے اندر سے میرے واسطے کھا نا منگایا جو خادم کھانا ساتھ لایا وہ یونہی کھلا کھانا لے آیا۔ حضرت صاحب ؑ نے اس سے فرمایا کہ مفتی صاحب ؓ کس طرح یہ کھانا ساتھ لے جائیں گے کوئی رومال بھی تو ساتھ لانا تھا ۔اچھا میں کچھ انتطام کرتا ہوں ۔اور پھر آپ ؑنے اپنے سر کی پگڑی کاایک کنارہ کاٹ کر اس میں کھانا باندھ دیا …مفتی صاحبؓ نے بیان کیا کہ حضرت صاحب ؑ نے ایک دفعہ مجھے دو گھڑیاں عنایت فرمائیں اور کہا کہ یہ ایک عرصہ سے ہمارے پاس رکھی ہوئی ہیں اور کچھ بگڑی ہیں آپؓ انہیں ٹھیک کرالیں اور خود ہی رکھیں‘‘

(از سیرت المہدی جلد اول صفحہ 392 ،391 روایت433)

آپؑ کا اکرام ضیف اور مہمان نوازی

آپؑ اکرام ضیف اور مہمان نوازی کے لئے کس قدر حوصلہ اور وست اپنے قلب میں رکھتے تھے اور آپؑ کا قلبِ مطہر اس بات کو جائز ہی نہ رکھ سکتا کہ مہمان کو کچھ بھی رنج ہو ۔ اسی واسطے آپؑ اپنے اکابر اور صاحب ِ حیثیت صحابہ کرام کو خطوط بھی لکھا کرتے تھے تاکہ ان کی مالی معاونت سے مخلوق ِ خدا اور مہمانان کرام کی احسن رنگ میں خدمت ہو سکے اس ضمن میں آپ ؑکے ایک مکتوب کا ذکر کرنا چاہوں گی جس میں آپ ؑ نے مہمانان کی تواضح کے لیے ہونے والے اخراجات کا تذکرہ کیا ہے یہ خط آپ نے اپنے مخلص اور فدائی صحابی مکرم حضرت سیٹھ عبدالرحمان صاحبؓ مدراسی کے نام تحریر کیا تھا۔

مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ ٗ

السلام وعلیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ

کل کی ڈاک میں مبلغ ایک سو روپیہ نقد مرسلہ آنمکرم مجھ کو مل گیا …یہ آپ کے حصہ میں اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے کہ مشکلات میں آپ کی طرف سے مدد پہنچتی ہے ۔اس ملک میں سخت قحط ہو گیا ہے اور اب تک بارش نہیں ہوئی اور اب کی دفعہ ابتلا کا سخت اندیشہ ہے کیونکہ ہمارے سلسلہ کے اخراجات کا یہ حال ہے کہ علاوہ اور خرچوں کے دو سو روپیہ ماہوار کا آٹا ہی آتا ہے ۔اب میں خیال کرتا ہوں اور پانچ سو روپیہ آئے گا اور زیادہ سے زیادہ ایک ماہ تک چلے گا اور دوسرے اخراجات بھی مہمان داری کے ہوتے ہیں وہ بھی اس کے قریب قریب ہیں چنانچہ ایندھن یعنی جلانے کی لکڑی وغیرہ غلہ کی طرح کمیاب ہوگئی ہیں اور ایسی کمیاب ہے کہ شائد اب کی دفعہ ڈیڑھ سو یا دو سو روپے ماہواراسی کا خرچ ہو…ہماری جماعت میں اہل استطاعت میں سے ایک آپ ہیں جو حتی الوسع اپنی خدمات میں تعہد رکھتے ہیں اور دوسرے لوگ یا تو نادار ہیں یا سچا ایمان ان کے دلوں میں داخل نہیں ہوا …میں چاہتا ہوں کہ مشکلات کے وقت میں ایک اشتہار شائع کروں تا ہر ایک صادق کو ثواب کا موقع ملے اور اس میں کھلے کھلے طور پر آپ کا بھی ذکر کردوں کیونکہ اب سخت ضرورت کا سامنا ہے اور ہمارے سید ومولیٰ پیغمبر خدا ﷺ ایسی ضرورتوں کے وقت جب ایسا کرتے تھے تو صحابہ دل وجان سے اس راہ میں قربان تھے جو کچھ گھروں میں ہوتا تھا تمام آگے رکھ دیتے تھے ۔غرض اسی طرح کا اشتہار ہو گا ۔

والسلام
خاکسار
26 ستمبر 1895
مرزا غلام احمدؑ

(بحوالہ مکتوبات احمد جلد دوئم صفحہ337)

حضرت مرزا بشیر احمد ؓ رقم کرتے ہیں: ’’منشی کپور احمد صاحبؓ کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ دو شخص منی پور آسام سے قادیان آئے اور مہمان خانہ میں آکر انہوں نے خادمان مہمان خانہ سے کہا کہ ہمارے بستر اتارے جائیں اور ہمارا سامان لا یا جائے۔ چارپائی بچھائی جائے۔ خادمان نے کہا کہ آپ خود اپنا اسباب اتروائیں ۔چارپائیاں بھی مل جائیں گی ۔دونوں مہمان اس بات پر رنجیدہ ہو گئے اور فوراً یکہ میں سوار ہوکر واپس روانہ ہوگئے…حضرت مسیح موعود ؑ کو اس واقعہ کاعلم ہوا تونہایت جلدی سے ایسی حالت میں کہ جوتا پہننا بھی مشکل ہوگیا حضور ؑ ان کے نہایت تیز قدم چل پڑے ۔چند خدام بھی ہمراہ تھے ۔میں بھی ساتھ تھا نہر کے قریب پہنچ کر ان کا یکہ مل گیا اور حضور ؑ آتا دیکھ کر وہ یکہ سے اتر پڑے اور حضور ؑ نے انہیں واپس چلنے کے لئے فرمایا کہ آپ کے واپس ہونے کا مجھے بہت درد پہنچا ۔چنانچہ وہ واپس آئے ۔حضورؑ نے یکہ میں سوار ہونے کے لئے انہیں فرمایاکہ میں ساتھ ساتھ چلتا ہوں مگر وہ شرمندہ تھے سوار نہ ہوئے اس کے بعد مہمان خانہ میں پہنچے ۔حضورؑ نے خود ان کے بستر اتارنے کیلئے ہاتھ بڑھایا مگر خدام نے اتار لیا ۔حضورؑنے اسی وقت دو نواڑی پلنگ منگوائے اور ان پر ان کے بستر کروائے اور ان سے پوچھا کہ آپ کیا کھائیں گے اور خود ہی فرمایا کہ اس طرف چاول کھائے جاتے ہیں ۔اور رات کو دودھ کے لئے پوچھا غرض یہ کہ ان کی تمام ضروریات اپنے سامنے پیش فرمائیں اور جب تک کھانا آیا وہیں ٹھہرے رہے اس کے بعد حضورؑ نے فرمایا کہ ایک شخص جو اتنی دور سے آتا ہے۔راستہ کی تکالیف اور صعوبتیں برداشت کرتا ہوا ۔یہاں پہنچ کر سمجھتا ہے کہ میں منزل پر پہنچ گیا ۔اگر یہاں آکر بھی اس کو وہی تکلیف ہو تو یقینا اس کی د ل شکنی ہوگی ۔ہمارے دوستوں کو اس کا خیال رکھنا چاہیے…‘‘

(از سیرت المہدی جلد اول صفحہ نمبر56،57روایت نمبر1069)

حضرت مسیح موعود ؑ کی ہمدردی اور شفقت کا ایک واقعہ

حضرت مرزا بشیر احمد ؓ اپنی تصنیف سیرت المہدی میں رقم کرتے ہیں۔ ایک اور روایت میں آتا ہے محترمہ مرادبی بی بنت حاجی عبداللہ صاحبؓ ارائیں ننگل نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ و الدہ خلیفہ صلاح الدین صاحبؓ بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’جب میں جوان ہوئی تو ہمارے گاؤں میں کھجلی کی بیماری پھیل گئی تو مجھے بھی پڑگئی۔ میں نو مہینے بیمار رہی ۔میرے والد صاحب ؓنے کہا ’’حضرت مسیح موعود ؑ کے پاس علاج کے واسطے لے جاؤ‘‘ میری والدہ مجھے لے کر آئی ۔اس وقت نیچے دلان میں حضوؑر ٹہل رہے تھے۔ ہم کھرلی کے پاس بیٹھ گئے ۔میری ماں نے عرض کی کہ ’’میں اپنی لڑکی کو علاج کے واسطے لائی ہوں ۔حضور ؑدیکھ لیں‘‘ حضورؑ نے فرمایا ‘‘کہ اس وقت فرصت نہیں ہے’’ میں اس کھرلی میں لیٹ گئی اور میں نے کہا کہ میرا علاج کریں نہیں تو میں یہیں مر جاؤں گی (حضرت المومنینؓ اب تک میرا کھرلی میں لیٹنا یاد کرتی ہیں) تو حضرت مسیح موعود ؑ نے فرمایا کہ ’’اچھا لڑکی کو لے آؤ‘‘ آپؓ نے میری حالت دیکھ کر دوا لکھی آنولے، بہٹیرے، مہندی اور نیم یہ دوا لکھی میری ماں نے کہا کہ یہ لڑکی بڑی لاڈلی ہے ۔کڑوی دوائی نہیں پینی حضور ؑ نے میرے سر پر ہاتھ رکھا اور فرمایا کہ ’’بی بی تو دوائی پی لے گی تو اچھی ہو جاوے گی‘‘ آپ ؑ نے تین مرتبہ فرمایا تھا اور فرمایا کہ ’’علی نائی کی دوکان سے یہ دوائیں لاکر مجھے دکھاؤ‘‘ میری ماں دوا لائی تو حضورؑ نے دیکھی اور فرمایا ’’اس کا عرق نکال کے اسے پلاؤ‘‘ ۔میری والدہ نے تین بوتلیں عرق کی بنائیں۔ میں پیتی رہی اور بالکل اچھی ہوگئی‘‘

(سیرت المہدی جلد دوئم صفحہ نمبر300روایت نمبر 1543)

سائل کو خالی نہ جانے دیا

حضرت مرزا بشیر احمد ؓ اپنی تصنیف سیرت المہدی میں رقم کرتے ہیں: ’’صفیہ بیگم بنت مولوی عبدالقادر صاحب مرحوم لدھیانویؓ حال معلمہ نصرت گرلز ہائی سکول قادیان نے بذریعہ تحریر مجھ سےبیان کیا کہ ایک دفعہ ایک سوالی دریچے کے نیچے کرتا مانگتا تھا۔ حضرت صاحبؑ اپنا کُرتا اتار کر دریچہ سے فقیر کو دے دیا ۔والد صاحب ؓمرحوم نے فرمایا کی اللہ اللہ کیسی فیاضی فرمارہے ہیں‘‘

(از سیرت المہدی جلد دوئم صفحہ نمبر311روایت نمبر1565)

آپؑ کی حیات ِمبارکہ ایسے بے شمار حسین واقعات سے مزین ہے جن کے مطالعہ سے علم ہوتا ہے کہ آپؑ مخلوقِ خدا کی خدمت میں کس طرح شب وروز سے بے نیاز ہوکر مصروف رہا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس مسیح پاکؑ کی روحانی اولاد کی حیثیت سے توفیق عطا فرمائے کہ ہم بھی خلق اللہ سے ہمدردی اور احسان کا سلوک کرنے والے ہوں آمین۔


(درثمین احمد ۔جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 فروری 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 فروری 2020