• 23 اپریل, 2024

پُرنور جلسہ سالانہ قادیان 2005ء کی یادیں

2005ء میں مکرم میر محموداحمد ناصرپرنسپل جامعہ احمدیہ ربوہ نے موسم گرما کی چھٹیوں سے قبل یہ اعلان کیا کہ جو قادیان جانا چاہتا ہے وہ اپنا پاسپورٹ بنوالے۔ میں چھٹیوں میں اپنےابوجان مرحوم کے ساتھ پاسپورٹ بنوانے کے لئے گیا۔ اس وقت میرے والدین لاہور میں مقیم تھےاوراس وقت لاہور میں ایک ہی پاسپورٹ آفس تھا ۔پاسپورٹ کے لئے جو ضروری دستاویزات درکار تھیں وہ جمع کروا دیں اور 12 دن کے بعد پاسپورٹ کے ملنے کا انتظار کرنے لگا۔پاسپورٹ لینے کے لئے پہنچا کچھ انتظار کے بعد کھڑکی کے پاس پہنچ گیا۔ آفیسر نے کھڑکی کھولی اور ٹوکن کے نمبر کے حساب سے آواز دینا شروع کی۔میں نے اپنا پاسپورٹ لیا اور خوشی خوشی گھر کی طرف چل دیا۔ جب میں اپنےسٹاپ پر اُتراتو جیب بالکل خالی تھی اس پر میں خدا کا شکر ادا کیا کہ خیریت سے گھر پہنچ گیاہوں۔

چھٹیوں کے دوران ہی میں نے فارم بھر کر جامعہ میں جمع کروایا۔میرا نام بھی ان چار طلباء میں شامل تھا جن پرخدا تعالیٰ نے خاص فضل فرمایا تھا۔اب مرحلہ قادیان جانے کاتھا ۔ خوشی بہت زیادہ تھی۔ یہ میری زندگی کا پہلا جلسہ سالانہ تھا جس میں مَیں شامل ہورہا تھا۔ میری خوشی کو چار چاند اور خدا تعالیٰ کا خاص الخاص فضل یہ ہواکہ جب مجھے یہ معلوم ہوا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بنفس نفیس اس جلسہ میں شمولیت فرما رہے ہیں۔ حضور انور چونکہ جلسہ سے کچھ دن قبل قادیان تشریف لے آئے تھے اور ایم ٹی اے کی براہ راست کوریج سے جب حضور انور کو دیکھا تو قادیان جانے کے دن گننا شروع کر دئیے۔

خیر 18 دسمبر کا دن آگیا جب بارڈر پار کر کے قادیان کی طرف اپنے سفر کا آغاز کیا ربوہ سے سفر شروع کر کے واہگہ بارڈر پہنچے۔اپنا پاسپورٹ ہاتھ میں تھاما بارڈر پار کیا اور قادیان کی طرف سفر شروع کردیا۔ بارڈر پار کے مناظر ایسے ہی تھے جیسے ہم سیالکوٹ میں اپنے گاؤں کے باہر سے گزر رہے ہوں۔ہرے بھرے، لہلہاتے سرسبز و شاداب کھیت ہمارے گاؤں جیسا ہی منظر پیش کر رہے تھے۔

قادیان سے دو تین کلو میٹر کے فاصلے سے مینارۃ المسیح پر پہلی دفعہ نظر پڑتے ہی گاڑی میںموجودتمام مسیح کے پروانوں نے جوشیلے انداز سے نعرہ ہائے تکبیر بلند کئے جس سے فضا گونج اٹھی۔ راستے میں اتنے نعرے لگائے کہ گلا بیٹھ گیا۔شام کے وقت قادیان دارالامان پہنچے۔ پر دیس میں آ ئے تھے لیکن ذرا بھر بھی ایسا معلوم نہ ہوا کہ گھر سے دور ہیں۔پہلی بار آنے کے سبب معلوم نہ تھا کہ کس طرف جانا ہے کہاں قیام کرنا ہے۔کچھ سینئر طلباء ملے انہوں نے رہنمائی کی کہ رات قیام بہشتی مقبرہ کے خیمہ جات میں کرنا ہے۔اپنے ساز سامان خیمہ میں رکھ کر سب سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار مبارک پر دعا کی اور حدیث کے مطابق اپنے پیارے رسول ﷺ کا سلام پہنچایا۔ اب دل میں یہ خواہش تھی کہ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ کادیدار ہو اس خواہش کو دل میں لئے بستر پر چلاگیا۔ نیند تو آنے کا نام نہ لے رہی تھی۔سب سے بڑی وجہ حضور انور کا دیدار کرنا تھادوسرا اوپری جگہ تھی تیسرا ٹھنڈ بہت تھی۔خیر سفر کی تھکاوٹ کی وجہ سے پتا ہی نہیں چلا کہ کب نیند آگئی۔

تہجد کے وقت خود بخود آنکھ کھلی جلدی جلدی وضو کرکے مسجد مبارک پہنچا۔میں دیکھ کر حیران ہو گیا کہ حضور انور کے دیدار کے لئے دیوانہ وار لوگ مسجد مبارک میں پہنچ چکے تھے۔میں اپنی طرف سے بہت جلد جا رہا تھا لیکن مجھے مسجد مبارک کے ستونوں میں جگہ ملی۔ میں زندگی میں پہلی دفعہ اپنی کسی مسجد میں لاؤڈاسپیکر پر اذان سن رہا تھا۔اذان کے بعد حضور انور تشریف لائے اور نماز فجر کی امامت فرمائی۔

آج کے دن حضور انور کا ڈیوٹی والوں سے خطاب بھی تھا۔ خطاب کے وقت حضور انور تشریف لائے جلسہ کے انتظامات کا معائنہ فرمایا اور کارکنان سے خطاب سے پہلے حضور انور کارکنان کے درمیان تشریف لائے اور تمام ناظمین کو مصافحہ کاشرف بخشا۔ میں چونکہ اپنے ناظم مکرم مرزامحمد الدین ناز کے پیچھے کھڑا تھا حضور انور سے مصافحہ تو نہ کر سکا لیکن حضور انور کو قریب سے دیکھنے کا ایک بارپھر موقع مل گیا۔

آج کا دن میری زندگی کا کوئی خاص اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے کا دن تھا کیونکہ آج ہی میری حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات بھی تھی۔ ملاقات کے وقت جب میں حضور انور کے دفتر کے باہر کھڑا تھا اپنے دوستوں سے بات ہو رہی تھی کہ اگر یہاں ابھی اسی وقت آئیں تو کیا نظارہ ہوگا۔ ابھی بات ہو رہی تھی کہ حضور انور تشریف لائے اور ہمیں سلام کیا اور سیدھا بہشتی مقبرہ تشریف لے گئے اور دعا کے بعد حضور انور نے واپس اپنے دفتر میں تشریف لا کر اپنی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھا۔

حضور انور سے ملاقات کا بھی عجیب ہی نظارہ تھا۔ایک بات میں یہاں کہنا چاہوں گا کہ حضور انور کا نورانی چہرہ جو حقیقت میں نظر آتا ہے وہ ہم کبھی ٹی وی پر دیکھ ہی نہیں سکتے۔ اتنا نور کہ کسی کی مجال نہیں کہ آنکھیں اٹھا کر حضور کا چہرہ دیکھ سکے۔ ملاقات سے پہلے بڑی خواہش تھی کہ حضور انور کو جی بھر کے دیکھنا ہے یہ موقع زندگی میں پہلی دفعہ آیا ہے اور پھر پتا نہیں کب آئے اس لئے آج ہی دیکھ لوں جتنا ہو سکے۔ لیکن مجال ہے کہ آنکھوں نے ہمت پکڑی ہو حضور انورکو دیکھنے کی۔ حضور انور نے ازراہ شفقت تبرک بھی عنایت فرمایا۔

حضور انور کے بارے میں میری ڈیوٹی والی جگہ پر جو جنریٹر والےدو لڑکے تھے۔ (ایک ہندو اور ایک عیسائی تھا) کہتے ہیں ہمارے قادیان میں سکھوں کے بڑے بڑے گرو آتے ہیں۔ صاف ستھرے چہرے اور لمبی لمبی داڑھیوں والے ہوتے ہیں۔ لیکن آپ کے جو خلیفہ آئے ہیں بہت خوبصورت ہیں اور بہت نور والے ہیں۔ ان سے پہلے کوئی اتنا خوبصورت نہیں آیا۔

میں نے قادیان میں 15 دن قیام کیا۔ جلسہ کے 3 دن تو بابرکت تھے ہی کیونکہ حضور انور کے تین خطابات تھے میں نے تینوں خطابات جلسہ گاہ میں بیٹھ کر سنے تھے۔ باقی 12 دن بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والے دن تھے۔ نمازوں کے علاوہ کہیں نہ کہیں حضور انور کا دیدار ہو جاتا تھا جب معلوم ہوتا کہ حضور انور فلاں جگہ تشریف لا رہے ہیں تو میں بھی وہاں پہنچ جاتا۔ روز صبح نماز فجر کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار مبارک پر دعا کی توفیق ملتی تھی۔ یہ 15 دن خدا تعالیٰ کی رحمتوں، فضلوں اور برکتوں کو سمیٹنےکے دن تھے۔ جب بھی وہ دن یا د آتے ہیں میں خدا تعالیٰ کے پیارے مسیح کی اس پیاری بسستی میں چلا جاتا ہوں اور خیالوں میں اس بستی کے نظاروں سے پھر تازہ دم ہو جاتا ہوں جیسے ابھی وہاں سے ہو کے آیا ہوں۔


(رانا مسرور مبارک)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 فروری 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 فروری 2020