• 26 اپریل, 2024

بہاولپور کا لال سوہانرہ پارک کالے ہرن اور راج ہنس کا مسکن

کالا ہرن اگر کسی شکاری کو دوڑ میں پیچھے نہیں چھوڑ سکتا تو وہ صرف چیتا ہے۔ برصغیر میں مغل دور میں کالے ہرن کے شکار کے لیے چیتے پالے جاتے تھے۔ ایک کھیل جسے ’کورسنگ‘ کہا جاتا ہے اس میں چیتے کو کالے ہرن پر چھوڑ جاتا تھا۔

تیکھے نین نقش اور منفرد رنگت والے اس غزال کی کبھی اس خطے میں بہتات تھی۔ اس دور میں آٹھ سے دس ہزار کالے ہرنوں پر مشتمل غول نظر آنا عام سی بات تھی۔ اب 30 سے 50 بھی اکٹھے نظر آ جائیں تو بڑی غنیمت ہو گی۔

انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے مطابق برصغیر کے اس خطے میں سنہ 1947ء میں ان کی تعداد 80 ہزار تھی جو کم ہو کر 1964ء میں آٹھ ہزار پر آ گئی۔ تاہم بحالی کی کوششوں کے بعد اب دوبارہ ان کی تعداد 25000 کے قریب ہو چکی ہے۔

شکار کی روایت اور قدرتی مسکن کی عدم دستیابی نے بہرحال پاکستان میں کالے ہرن کو مکمل طور پر ناپید کر دیا۔ ضلع بہاولپور میں چولستان کے صحرائی علاقے میں اس کی بہتات ہوا کرتی تھی۔

مگر اب بھی پاکستان میں ایک جگہ ایسی ہے جہاں آپ اس کو قدرتی ماحول میں دیکھ سکتے ہیں۔ بہاولپور شہر سے 30 کلو میٹر دور لال سوہانرہ نیشنل پارک واقع ہے۔ ایک لاکھ 62 ہزار ایکڑ سے زائد رقبے پر پھیلے اس پارک میں 70 ایکڑ پر کالے ہرن کا حصہ بنایا گیاہے۔

یوں تو آپ ایک پورا دن کالے ہرن کے ساتھ بھی گزار سکتے ہیں مگر لال سوہانرہ میں تفریح کے مواقع اور بھی ہیں۔جنوبی ایشیا کے چند بڑے پارکوں میں شامل اسی پارک میں کالے راج ہنس کی افزائشِ نسل بھی کروائی جاتی ہے۔

ہرن کی ایک اور قسم چنکارہ بھی یہاں آپ کو دوڑتے اور پھدکتے ملیں گے۔ بچوں کے لیے تفریح کا خاطر خواہ بندوبست ہے۔ یہاں پانی کی قدرتی جھیلیں بھی موجود ہیں جہاں جانے کے لیے آپ کو ایسے راستے سے گزرنا پڑتا ہے کہ سفاری جیسا ماحول بن جاتا ہے۔

دن کا پہلا حصہ: ہیرو اور 446 کالے ہرن

آپ لال سوہانرہ میں ایک بہترین تفریحی دن گزار سکتے ہیں۔ کالا ہرن یہاں کی بنیادی کشش ہے۔ جب آپ یہاں آئیں تو سیدھے اس کے انکلوژر چلے آئیں۔ یہ انکلوژر سنہ 1972ء میں امریکہ اور ہالینڈ کے بچوں کی جمع پونجی سے بنا تھا۔

لال سوہانرہ نیشنل پارک کے ضلعی فارسٹ آفیسر اعجاز احمد نے ہمیں بتایا کہ اس انکلوژر میں 446 کالے ہرن موجود ہیں۔ انھیں قدرتی ماحول فراہم کیا گیا ہے جہاں ان کی افزائشِ نسل بھی ہوتی ہے۔

آپ جب یہاں آئیں تو ہیرو سے ضرور ملیے گا۔ یہ ہماری لال سوہانرہ کی کہانی کے مرکزی کردار ہیں۔ یہاں تمام ہرن بے نام ہیں اس لیے ان کا نام ہم نے از خود تجویز کیا، آپ اپنی پسند سے رکھ سکتے ہیں۔ تاہم قوی امکان ہے کہ آپ کا ہیرو بھی وہی ہو جو ہمارا تھا۔ آپ انکلوژر میں داخل ہوں تو بالکل سامنے ہی آپ کو کالے ہرن چارا کھاتے اور دھوپ سینکتے نظر آئیں گے۔

وہاں کچھ وقت گزار کر آپ بائیں جانب راستے پر ہو لیں۔ آپ ایک چبوترے پر پہنچیں گے، ہیرو آپ کو سامنے ہی ملے گا۔

اس نے اپنا علاقہ متعین کر رکھا ہے۔ یہاں ایک چھوٹا سا گڑھا ہو گا اور اس کے ارد گرد کوئی دوسرا نر نظر نہیں آئے گا۔ اگر آئے گا تو پھر اسے ہیرو کے لمبے سینگوں کا سامنا کرنا ہو گا۔ ہاں البتہ مادہ جتنی زیادہ آئیں ہیرو اتنا ہی خوش ہوتا ہے۔

دن بھر ہیرو اور اس جیسے دوسرے نر خوراک کھاتے، دھوپ سینکتے اور پھر مادہ کی توجہ حاصل کرنے کے جتن کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ آپ اس دوران تقریباً آٹھ کلومیٹر دور واقع چلڈرن پارک کی طرف جاسکتے ہیں۔

دن کا دوسرا حصہ: کالے راج ہنس اور چنکارہ

یہ وسیع و عریض پارک دوسری بہت سی تفریح گاہوں کی طرح ہی ہے۔ یہاں بچوں کی تفریح کے لیے مصنوعی جھیل میں کشتی کی سواری، چڑیا گھر اور جھولے موجود ہیں۔ آپ کو یہاں کھانے پینے کی اشیا بھی مل جائے گیں۔

تاہم کھانے پینے کا سامان آپ ساتھ لائیں تو یہاں سے نکل کر تقریباً دس کلو میٹر دور ڈیزرٹ برانچ کینال کی دوسری طرف واقع قدرتی جھیلوں کے کنارے بیٹھ کر سکون سے کھانا پینا کر سکتے ہیں۔

مگر اس سے قبل آپ راج ہنس اور چنکارہ سے ملنا مت بھولیے گا۔ چلڈرن پارک میں ان کے انکلوژر واقع ہیں۔ پہلے راج ہنس کا گھر پڑتا ہے۔
ضلعی فارسٹ آفیسر اعجاز احمد کے مطابق یہاں ان کی افزائشِ نسل ہوتی ہے۔

اس کے بالکل سامنے ایک وسیع و عریض انکلوژر خالی پڑا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک اس میں دو گینڈے ہوا کرتے تھے۔ ان کی موت ہو گئی۔ اس کے پہلو میں چنکارہ کا انکلوژر ہے۔ یہ ہرن قد میں چھوٹا مگر انتہائی پھرتیلا ہے۔ اس کو بھاگتے ہوئے دیکھنا بھی ایک دلفریب نظارہ ہے۔

لال سوہانرہ میں سفاری کی طرز پر تفریح کے لیے بہترین مواقع موجود ہیں۔ مگر اس کے لیے سہولیات کی کمی نظر آتی ہے۔ اس بائیو سفیئر میں موجود پانی کی قدرتی جھیلوں تک سفاری طرز کی کا ایک کچہ رستہ جاتا ہے مگر وہاں پہنچ کر آپ کو قدرے مایوسی ہوتی ہے۔

ان دنوں یہاں ہٹ تعمیر کیے جا رہے ہیں جہاں رکنے کا بندوبست ہو گا۔ فی الحال بہتر ہے کہ آپ چٹائیاں اور اپنا کھانا ساتھ لے جائیں اور کسی درخت کی چھاؤں میں جھیل کنارے بیٹھ کر تناول فرمائیں۔

یہاں آپ لال سوہانرہ میں اپنے دن کا دوسرا حصے گزار سکتے ہیں مگر سورج ڈھلنے سے قبل آپ کو واپس کالے ہرن کے انکلوژر پہنچ جانا چاہیے۔ ہیرو اور اس کے ساتھی اب چبوترے کے سامنے جمع ہو چکے ہوں گے۔ یہاں انھیں خوراک کہ طور پر چنے ڈالے جاتے ہیں۔ یہ منظر آپ کے دورے کا حاصل ہو گا۔
دن کا تیسرا حصہ: جب کھانا کُھلتا ہے

کالے ہرن کے انکلوژر کے بارے میں ایک دلچسپ واقعہ مشہور ہے۔ سنہ 1972ء میں 70 ایکڑ کی اس زمین پر بیرونی جنگلہ نہیں ہوا کرتا تھا۔ اس طرح کالے ہرن کو جنگلی بلی سے خطرہ رہتا تھا۔ چیتے کی غیر موجودگی میں وہ اس کا بنیادی شکاری ہے۔

پھر امریکہ اور ہالینڈ میں چند بچوں نے اپنا جیب خرچ جمع کر کے جنگلے کے لیے چندہ کیا۔ جنگلے کی تعمیر سے کالا ہرن بھی محفوظ ہو گیا اور جنگلی بلی کو بھی مارنے کی ضرورت نہیں پڑی۔

ہر شام سونے سے پہلے کالا ہرن چنے کا کھانا کھاتا ہے۔ انکلوژر کا ایک حصہ اس کے لیے مختص کیا گیا ہے۔ اس میں پکے پلیٹ فارم بنائے گئے ہیں جہاں برتنوں میں انھیں چنے ڈالے جاتے ہیں۔ پاس ہی ایک چبوترے پر سیاحوں کے لیے کرسیاں لگائی گئی ہیں۔

برتنوں میں چنے ڈالتے وقت ہرنوں کو ایک طرف روک لیا جاتا ہے۔ جیسے ہی کھانا کھلنے کا اشارہ ہوتے ہیں، سینکڑوں کی تعداد میں یہ غزال چونکڑیاں بھرتے اس طرف لپکتے ہیں۔ ایک گھمسان ہوتا ہے۔ ہمارا ہیرو بھی اس میں کہیں گم ہو گیا۔ آپ آئیں تو اسے تلاش کیجیے گا۔ ماخوذاز:

www.bbc.com/urdu/pakistan-50921057

(عادل منصور ملہی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 فروری 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 فروری 2020