• 26 اپریل, 2024

نماز کی حقیقت

نماز کیا ہے؟ یہ ایک خاص دعا ہے۔ مگر لوگ اس کو بادشاہوں کا ٹیکس سمجھتے ہیں۔ نادان اتنا نہیں جانتے کہ بھلا خدا تعالیٰ کو ان باتوں کی کیا حاجت ہے۔ اس کے غناء ذاتی کو اس بات کی کیا حاجت ہے کہ انسان دعا، تسبیح اور تہلیل میں مصروف ہے بلکہ اس میں انسان کا اپنا ہی فائدہ ہے کہ وہ اس طریق پر اپنے مطلب کو پہنچ جاتا ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے کہ آجکل عبادات اور تقویٰ اور دینداری سے محبت نہیں ہے۔ اس کی وجہ ایک عام زہریلا اثر رسم کا ہے۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی محبت سرد ہورہی ہے۔ اور عبادت میں جس قسم کا مزا آنا چاہیے وہ مزا نہیں آتا۔ دنیا میں کوئی ایسی چیز نہیں جس میں لذت اور ایک خاص حظّ اللہ تعالیٰ نے نہ رکھا ہو۔ جس طرح پر ایک مریض ایک عمدہ سے عمدہ خوش ذائقہ چیزکا مزہ نہیں اُٹھا سکتا۔ اور وہ اسے تلخ یا بالکل پھیکا سمجھتا ہے۔ اسی طرح وہ لوگ جو عبادتِ الٰہی میں حظّ اور لذت نہیں پاتے۔ ان کو اپنی بیماری کا فکر کرنا چاہیے۔ کیونکہ جیسا میں نے ابھی کہا ہے دنیا میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے۔ جس میں خدا تعالیٰ نے کوئی نہ کوئی لذت نہ رکھی ہو۔ اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو عبادت کے لئے پیدا کیا تو پھر کیاوجہ ہے کہ اس عبادت میں اس کے لیے لذت اور سُرور نہ ہو۔ لذت اور سُرور تو ہے مگر اس سے حظّ اُٹھانے والا بھی تو ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ۔

(الذاریات:57)

اب انسان جب کہ عبادت ہی کے لیے پیدا ہوا ہے۔ ضروری ہے کہ عبادت میں لذت اور سُرور بھی درجہ غایت کارکھا ہو۔ اس بات کو ہم اپنے روز مرہ کے مشاہدہ اور تجربے سے خوب سمجھ سکتے ہیں۔ مثلاً دیکھو اناج اور تمام خوردنی اور نوشیدنی اشیاء انسان کے لیے پیدا ہوئی ہیں تو کیا ان سے وہ ایک لذت اور حظ نہیں پاتا ہے؟ کیا اس ذائقہ، مزے اور احساس کے لیے اُس کے منہ میں زبان موجود نہیں۔ کیا وہ خوبصورت اشیاء دیکھ کر نباتات ہوں یا جمادات، حیوانات ہوں یا انسان حظّ نہیں پاتا؟ کیا دل خوش کُن اورسُریلی آوازوں سے اس کے کان محظوظ نہیں ہوتے؟ پھر کیا کوئی دلیل اَوربھی اس امر کے اثبات کے لیے مطلوب ہے کہ عبادت میں لذت نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے عورت اور مرد کو جوڑا پیدا کیا اور مرد کو رغبت دی ہے۔ اب اس میں زبر دستی نہیں کی بلکہ ایک لذت بھی دکھلائی ہے۔ اگر محض توالد وتناسل ہی مقصود بالذات ہوتا تو مطلب پورا نہ ہوسکتا۔ عورت اور مرد کی بر ہنگی کی حالت میں ان کی غیرت قبول نہ کرتی کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ تعلق پیدا کریں۔ مگر اس میں اُن کے لیے ایک حظّ ہے اور ایک لذت ہے۔ یہ حظّ اور لذت اس درجہ تک پہنچی ہے کہ بعض کوتاہ اندیش انسان اولاد کی بھی پروا اور خیال نہیں کرتے بلکہ ان کو صرف حظّ ہی سے کام اور غرض ہے۔ خدا تعالیٰ کی علّتِ غائی بندوں کا پیدا کرنا تھا اور اس سبب کے لیے ایک تعلق عورت مرد میں قائم کیا اور ضمناً اس میں ایک حظّ رکھ دیا جو اکثر نادانوں کے لیے مقصود با لذات ہوگیا ہے۔

اسی طرح سے خوب سمجھ لو کہ عبادت بھی کوئی بوجھ اور ٹیکس نہیں۔ اس میں بھی ایک لذت اور سُرورہے اور یہ لذت اور سُرور دنیا کی تمام لذتوں اور تمام حظوظِ نفس سے بالاتر اور بلند ہے۔

(ملفوظات جلد نمبر 1۔ ص159، 160۔ ایڈیشن 1984ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 فروری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 فروری 2021