• 24 اپریل, 2024

آج کی دعا

روزنامہ الفضل لندن آن لائن میں گزشتہ ایک سال سے عنوان ’’آج کی دعا‘‘ کے تحت محترمہ مریم رحمٰن روزانہ ہی قرآن، احادیث یا حضرت مسیحِ موعودؑ کی دعاؤں میں سے ایک دعا بطور روحانی مائدہ لے کر حاضر ہوتی ہیں۔ اور اب کچھ عرصہ سے اس دعا کو حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی معرفت بھری تشریح سے مزین کر رہی ہیں۔ فجزاھا اللہ خیراً

میں نے بارہا یہ محسوس کیا ہے اور اسے اتفاقِ حسنہ ہی سمجھ لیں کہ جب علی الصباح میں یہ دعا تازہ شمارہ میں پڑھتا ہوں تو وہ اس دن کے عین مطابق ہوتی ہے اور مجھے اُس روز اس دعا کی ضرورت دوسری دعاؤں سے زیادہ محسوس ہورہی ہوتی ہے۔ مؤرخہ 21جنوری 2021ء کی دعا کو جب خاکسار نے پڑھا تو وہ نہ صرف دل میں اُترتی گئی بلکہ ایک نیا مضمون ذہن میں اُبھرتا چلا گیا۔

یہ دعا یوں تھی

سُبۡحٰنَ الَّذِیۡ سَخَّرَ لَنَا ہٰذَا وَ مَا کُنَّا لَہٗ مُقۡرِنِیۡنَ، وَ اِنَّاۤ اِلٰی رَبِّنَا لَمُنۡقَلِبُوۡنَ (القرآن)۔

اَللّٰھُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ فِيْ سَفَرِنَا هٰذَا الْبِرَّ وَالتَّقْوٰى، وَمِنَ الْعَمَلِ مَا تَرْضٰى، اَللّٰھُمَّ هَوِّنْ عَلَيْنَا سَفَرَنَا هٰذَا، وَاطْوِ عَنَّا بُعْدَهُ، اَللّٰھُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِي السَّفَرِ، وَالْخَلِيْفَةُ فِي الْأَهْلِ، اَللّٰھُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُ بِكَ مِنْ وَعْثَآءِ السَّفَرِ، وَكَآبَةِ الْمَنْظَرِ، وَسُوْٓءِ الْمُنْقَلَبِ فِي الْمَالِ وَالْأَهْلِ آیِبُوْنَ تَائِبُوْنَ عَابِدُوْنَ لِرَبِّنَا حَامِدُوْنَ۔

ترجمہ:
پاک ہے وہ ذات جس نے اس جانور کو ہمارے تابع کر دیا حالانکہ ہم میں اسے قابو میں رکھنے کی طا قت نہیں تھی اور ہم اپنے پروردگار کے پاس لوٹ جانے والے ہیں (الزخرف:14۔15) اے اللہ! ہم تجھ سے اپنے اس سفر میں نیکی اور پرہیزگاری مانگتے ہیں اور ایسا عمل جسے تو پسند کرے۔ اے اللہ! ہم پر اس سفر کو آسان کر دے اور اس کی مسافت کو ہم پر تھوڑا کر دے۔ اے اللہ تو ہی سفر میں رفیق سفر اور گھر میں نگران ہے۔ اے اللہ! میں تجھ سے سفر کی تکلیفوں اور رنج و غم سے اور اپنے مال اور گھر والوں میں بُرے حال میں لوٹ کر آنے سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ ہم لوٹنے والے ہیں، توبہ کرنے والے، خاص اپنے رب کی عبادت کرنے والے اور اسی کی تعریف کرنے والے ہیں۔

(صحیح مسلم كِتَابُ الْحَجِّ بَاب مایَقُوْلُ اِذارَکِبَ اِلَی سَفَرِحدیث: 3275)

کتب احادیث میں کچھ زائد الفاظ کے ساتھ یہ دعا یوں ملتی ہے۔ جیسے ترمذی کتاب الدعوات اور ابو داؤد باب الجہاد میں یہ الفاظ زائد ہیں

اللّٰهُمَّ اصْبَحْنَا بِنُصْحِکَ وَ اَقْلِبْنَا بِذِمَّتِہٖ، اللّٰهُمَّ اْزو لَنَا الْاَرْضَ

کہ اے اللہ !تو اپنی خیر خواہی کے ساتھ ہمارا رفیقِ سفر ہو جا اور ہمیں اپنے عہد وپیمان کے ساتھ واپس لوٹانا۔ اے اللہ! زمین کو ہمارے لئے سمیٹ دے۔

اب اس دعا کے الفاظ پر غور کریں تو یہ دعا کے الفاظ ہماری زندگی کے سفر پر بھی لاگو ہوتے ہیں ۔قرآنی دعائیہ الفاظ یا آنحضورﷺ کے دعائیہ الفاظ کسی محدود وقت کے لئے نہیں ۔اسلام ایک دائمی مذہب ہے۔اسکی دعائیں انسانی زندگی کے تمام حصوں اور تمام مرحلوں پر لاگو ہوتی ہیں۔انسان ہر وقت تو سفر پر نہیں رہتا کہ اس دعا کو محدود کردیا جائے ۔لہذا انسان کو اپنی زندگی کے تمام سفر پر اس دعا کو لاگو کرنا چاہئے۔

میں اپنے ما فی الضمیرکو قارئین الفضل کو سمجھانے کی خاطر ایک دو دعاؤں کا حوالہ دیتا ہوں جیسے حضرت انس ؓ سے بلندی پر چڑھنے کی دعا یوں مروی ہے۔

اَللّٰہُمَّ لَکَ الشَّرَفُ عَلٰی کُلِّ شَرَفٍ وَلَکَ الْحَمْدُ عَلٰی کُلِّ حَالِ

(مسند احمد جلد3 صفحہ:239)

کہ اے اللہ ! تیرے ہی لئے عزت ہے ہر ایک بلندی پر ۔اور تیرے ہی لئے سب تعریف ہےہر ایک حال میں ۔

اب انسان ہر وقت پہاڑوں کا سفر تو نہیں کرتا ۔اس سے روحانی ترقیات اور روحانی بلندی کا سفر بھی مراد ہے۔

ایک اور مثال بیان کرکے میں اپنے مضمون کی طرف لوٹتا ہوں جہاد پر جانے کی بھی یہ دعا آنحضرتﷺ سے مروی ہے

اللّٰهُمَّ أَنْتَ عَضُدِيْ وَ أَنْتَ نَصِيْرِيْ وَبِکَ أُقَاتِلُ

(ترمذی کتاب الدعوات حدیث: 3584)

کہ اے اللہ !تو ہی میرا سہارا اور مددگار ہے۔ تیرے نام سے ہی میں لڑتا ہوں۔

اب ہر انسان کو تو جہاد کی کیفیت سے ہر وقت نہیں گزرنا پڑا۔دعوت الی اللہ اور اصلاح و ارشادوتعلیم وتربیت کے فرائض ادا کرنا بھی جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ایسے وقت میں یہ دعا کرنی چاہئے۔

اب میں اپنے اصل مضمون کی طرف لوٹتا ہوں۔ حضرت مسیحِ موعودؑ نے فرمایا ہے کہ ہر انسان، مسافر ٹرین پر سوار ہے اور جب اس کا اسٹیشن آئے گا تو وہ اس ا سٹیشن پر اُتر جائے گا۔یہی وہ سفر ہے زندگی کا جس کی طرف میں اشارہ کرنا چاہتا ہوں۔اس دعا میں ایک سفر کے دوران جن مصائب مشکلات، آفات کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ یہ ہیں ۔

*سفر کی مشقت ،وحشت، تکلیف، رنج وغم ،گھر میں بُری واپسی سے اور ان تمام مصائب کا ایک انسان کو اپنی زندگی کے سفر میں سامنا رہتا ہے۔اور ایک مؤمن کو خاتمہ بالخیر کی دعا سکھلائی گئی ہے ۔جیسے گھر میں بُری واپسی سے پناہ مانگی گئی ہے۔

*پھر اس مادی سفر اختیار کرنے کی دعا میں نیکی اور تقویٰ کے طلبگار رہنے ،راضی بقضا اعمال بجا لانے کی توفیق اللہ تعالیٰ سے مانگی گئی ہے اور انسانی زندگی کے سفر میں بدرجہ اولیٰ ان دعاؤں کے مانگنے کی ضرورت رہتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے ایک مؤمن کو اعمالِ صالحہ وحسنہ سے اپنے آپ کو مزین رہنے کی تلقین فرمائی ہے۔

*پھر دنیاوی سفر کے لئے اللہ تعالیٰ کی رفاقت چاہی گئی ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کو رفیق اور دوست بنانا اس فانی زندگی کے لئے بہت ضروری ہے اور اس کے لئے الگ سے دعائیں بھی ملتی ہیں۔

*پھر سفر کی آسانی اور زمین کی دوری اور اس کے سمٹ جانے کے لئے دعا کی جاتی ہے جبکہ ہماری زندگی کے سفر کے لئے آسانیاں مانگی جاتی ہیں اور

All is well that ends well

کے مطابق زمین کی سختیوں کو دور کرنے کی دعا مانگتے ہیں۔ آنحضورﷺ بھی ایسی ہی دعا مانگا کرتے تھے

رَبِّ یَسِّرْ وَلَا تُعَسِّرْ تَمِّمْ بِالْخَیْر

کہ اے میرے رب! میرے لئے آسانیاں مہیا فرمااورعسر والی، تنگی والی زندگی نہ کرنا اور میرا خاتمہ بالخیر کرنا۔

اسی طرح انجام بخیر کے لئے آنحضورﷺ سے صحابہ نے یہ دعا پڑھتے سنا

اللّٰهُمَّ أحْسِنْ عَاقِبَتَنَا فِي الْأُمُورِ كُلِّهَا، وَأجِرْنَا مِنْ خِزْيِ الدُّنْيَا وَعَذَابِ الْآخِرَةِ

(مستدرک حاکم جلد3صفحہ591)

کہ اے اللہ! (زندگی کے سفر کے) تمام کاموں میں ہمارا انجام بخیر کر اورہمیں دنیا کی رسوائی اورآخرت کے عذاب سے بچا۔

اس سفر کی دعا کے آخری الفاظ یہ ہیں آئِبُوْنَ تَائِبُوْنَ عَابِدُوْنَ لِرَبِّنَا حَامِدُوْنَ۔ ہم لوٹنے والے ہیں، توبہ کرنے والے، خاص اپنے رب کی عبادت کرنے والے اور اسی کی تعریف کرنے والے ہیں۔

یہ الفاظ مادی سفر کی دعا میں درج ہیں لیکن انسانی زندگی کے تمام سفروں میں ہم اپنے اللہ کی طرف لوٹتے بھی ہیں، توبہ بھی کرتے ہیں۔ اس کی عبادت کرتے ہیں کیونکہ یہی ہماری پیدائش کا مقصد قرار دیا گیا ہے اور ہر وقت ہماری زبانیں اس کی تعریف سے تر رہتی ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی زندگیوں کے سفر کو اسلامی طریق اور تعلیم کے مطابق بنانے اور گزارنے کی توفیق دے۔آمین

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 فروری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 فروری 2021