• 20 اپریل, 2024

مکرم محمود احمد شاہد صاحب، وقت کے سلطان نصیر

سیدنا حضرت خلیفتہ ا لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 25 اپریل 2014 میں مکرم محمود احمد صاحب شاہد،امیر آسٹریلیاو سابق صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کی وفات پران کا ذکر خیر فرماتے ہوئے، آپ کی جماعتی خدمات، اوصاف حمیدہ کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ آپ کے خاندانی حالات کا بھی تذکرہ فرمایا۔ اور محمود احمد صاحب کو وقت کے سلطان نصیر کے نام سے یاد فرمایا حضور نے فرمایا کہ، ہر انسان نے یہ دنیا چھوڑنی ہے لیکن کتنے خوش قسمت ہیں وہ انسان جواپنی زندگیاں خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق گزارنے کی کوشش کرتے،اپنے عہدوں کو نبھانے کی حتی المقدور کوشش کرتے اور خدمت دین کے ساتھ ہمہ وقت خدمت انسانیت کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ آنحضورﷺ کے قول کے مطابق جنت ایسے لوگوں پر واجب ہو جاتی ہے۔ محترم محمود احمد صاحب بھی ایسے ہی لوگوں میں سے ایک تھے۔ آ پ سلسلہ کے خادم، خلفاء وقت کے سلطان نصیر اور خلافت کے لئے انتہائی غیرت رکھنے والے تھے۔ آپ خلیفہ وقت کے ساتھ نبض کی طرح چلتے تھے۔ خلیفہ وقت کے فدائی،سچے عاشق اور کامل اطاعت گزار تھے ۔۔۔۔۔

پیارے حضور نے جن الفاظ سے مکرم محمود احمد صاحب شاہد کا ذکر خیر فرمایا ہے حقیقت میں وہ ہی حقیقی معیار ہے ایک عہدہدار کا جس کا ذکرحضور بار بار اپنے خطبات میں ارشاد فر ما رہے ہیں یعنی کہ وہ خلیفہ وقت کے ساتھ نبض کی طرح چلنے والے ہوں اور کامل اطاعت گزار ہوں اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایسی ہی راہوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

خدام الاحمدیہ کی ذمہ داریوں سے فراغت پانے کے بعد آپ1991 میں اسٹریلیا تشریف لے گئے اور امیر آسٹریلیا کی حثیت سے نئی ذمہ داریاں سنبھالیں اور تادم وفات اپریل2014 تک اس کو نبھانے کی توفیق پائی۔

مکرم محمود احمد صاحب شاہد،نہایت مخلص، فدائی ،جہان دیدہ دور اندیش اور خلافت سے غیر معمولی محبت رکھنے والے نیک وجود تھے۔ آپ کو بفضل تعالیٰ تین خلافتوں کے دور میں خلفائے احمدیت کی بھر پور شفقت نصیب ہوئی۔ اس کا آغاز 1979 میں اس وقت ہوا جب آپ صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ منتخب ہوئے۔ غیر معمولی بات یہ تھی کہ آپ کا انتخاب میں پانچواں نمبر تھا لیکن خلیفہ وقت کی نظروں نے آپ کی صلاحیتوں اور خوبیوں کو بھانپ لیا ہوا تھا لہٰذا آپ صدر خدام الاحمدیہ مرکزیہ بنے اور بعد میں آنے والے دنوں اور وقت نے اس انتخاب کی بھر پور تائید بھی کردی تھی۔ اور خدام الاحمدیہ نے غیر معمولی نوعیت کی مساعی کی توفیق پائی اور خاص کر بیرون ممالک میں تنظیم کو مضبوط کرنے اور خلیفہ وقت کے ارشادات پر عمل درآمد کروانے میں آپ کی قائدانہ صلاحیتوں ، عشق خلافت اور منصوبہ بندی کا بہت کردار تھا،آپ ہی کے دور میں خدام لاحمدیہ کو اپنے قیام کے پچاس سال مکمل ہونے اور اس موقع پر یادگارخدمات کی توفیق بھی ملی۔ ضیاء الحق کابدنام زمانہ آرڈیننس کانفاذ ہواتو آپ کاہی دور تھا اور ان ابتلاء کے دنوں میں آپ کی قیادت میں خدام لاحمدیہ کو پاکستان کے طول وعرض میں غیر معمولی خدمات کی توفیق ملی تھی جو ہر طرح کے خطرات میں گھری ہوئی تھی لیکن آپ کی دلیرانہ ،دانشمندانہ حکمت عملی کے باعث تمام نازک نوعیت کے امور عین خلیفہ وقت کی منشاء کے مطابق بروقت پورے ہوئے۔ ان میں سب سے قابل ذکر واقعہ شرعی عدالت میں کاروائی کا تھا۔ لاہور ہائی کورٹ کی شرعی عدالت میں آرڈیننس کے خلاف کارروائی کے دوران دار الذکر لاہور کی لجنہ گیلری میں احمدی وکلاء اور جماعت کے جید علمائے کرام کے مقامِ قیام پر خاکسار کی ڈیوٹی ہوا کرتی تھی اور ان حالات میں مکرم فہیم احمد صاحب ناگی کے ساتھ دیگر خدام کی ایک ایسی ٹیم تھی جو ہر وقت ہر قسم کے حالات کے لئے تیار رہتی تھی مکرم ڈاکٹرسلطان احمد صاحب مبشرکی موجودگی ہم سب کے لئے ایک ٹھنڈے ہوا کے جھونکے کی مانند تھی جو ہم سب کی سارے دن کی تھکاوٹ ختم کردیتی تھی۔ ان تمام معاملات پر ایوان محمود کی مکمل راہنمائی تھی۔ قافلے کی دارالذکر سے روانگی اور پھر ہائی کورٹ سے واپسی کی کامیاب حکمت عملی آپ کی غیر معمولی بصیرت اور دانائی کی آئینہ دارتھی۔ وہ دن تاریخی بھی تھے اور یادگار بھی۔ رات کو سونے سے پہلے مکرم مولانا دوست محمد شاہد صاحب کو دبانے کی خوب سعادت ملی تھی اور آج بھی ان کویاد کرکے ان کے بھرپور علمی لطائف آج بھی ہونٹوں پر مسکراہٹ لے آتے ہیں۔

1985 میں کلمہ طیبہ کے خلاف ضیاء حکومت کی کارروائیوں پر حضرت خلیفتہ المسیح الرابعؒ کی ہدایات پر خدام الاحمدیہ کی خدمات کو آپ جیسے فدائی صدر کی قیادت میسر تھی اور نوجوانان احمدیت نے ان دنوں میں حقیقی معنوں میں دین کو دنیا پر مقدم رکھتے ہوئے اپنے خلیفہ وقت کے ہر حکم کی تعمیل میں ہتھکڑیوں کو خوشی خوشی پہنا اور جیلوں میں گئے علاوہ ازیں خلافت کی ہجرت کے وقت اور بعد میں جماعت احمدیہ پاکستان ایک نازک دور سے گزر رہی تھی اور ان حالات اور دنوں میں سب سے زیادہ کام اور ذمہ داریاں خدام الاحمدیہ پر ہی عائد ہوتی تھیں جنھوں نے پاکستان بھر کی جماعتوں کا خلیفہ وقت سے رابطے برقرار رکھنے کا فریضہ سر انجام دینا تھا اس کے لئے سب سے پہلے خطوظ لکھوانے کا سلسلہ شروع ہوا اور ان خطوط کو بعد ازاں مرکز بھجوانا ہوتا تھا یہ خلیفہ وقت سے رابطے برقرار رکھنے کی کامیاب حکمت عملی تھی بعد ازاں جواب آنے پر ان کی ترسیل کا کام بھی خدام الاحمدیہ کے ہی ذمہ ہوتا تھا، کئی سال تک یہ سلسلہ جاری رہا اس کے بعد پھر حضور کے خطبات کی آڈیوز کی تیاری اور سنانے کے لئے آڈیو خطبات کا نظام جاری ہوا۔ جوٹی ڈی کے کی کیسٹوں میں ہوتے تھے ان کو احباب جماعت تک پہچانے کی ذمہ داری بھی خدام الاحمدیہ ہی کے ذمہ تھی ان دنوں میں خاکسار کیسٹوں کی تیاری کا کام موجودہ امیر صاحب کے گھر ان کی ہدایات پر کیا کرتا تھا اور ان تمام منصوبوں اور ذمہ داریوں کی نگرانی محمود احمد شاہد صاحب صدر مجلس خدام لاحمدیہ مرکزیہ آپ خود کرتے تھے اور یہ کوئی معمولی اور آسان کام نہ تھا۔ اگست 1988ء میں ضیاء کی موت ہوئی جب آپ کی صدارت کا آخری سال تھا۔ اس جانثار فدائی سلسلہ احمدیت نے ریاست اور مخالفین کی ان تمام سازشوں کو ناکام بنا دیا جو انہوں نے احمدیوں کو اس کے خلیفہ سے دور رکھنے کے لئے کی تھیں

لاہور میں قائد ضلع کا تقرر۔ مکرم محمود احمد شاہد صاحب کی خلافت سے وابستگی اور اس سے والہانہ عشق کے نتیجہ میں آپ کے اندر دور اندیشی اور بصیرت کا غیر معمولی عنصر موجود تھا لاہور میں اعجاز احمد صاحب قائد ضلع تھے ان کے بعد اب لاہور میں قائد ضلع کی تقرری ہونا تھی آپ نے مجلس عاملہ ضلع کی بجائے مقامی قائد مجلس وحدت کالونی مکرم محمد احمد صاحب کو قائد ضلع مقرر کر دیا جو چند سال پہلے ہی کراچی سے لاہور شفٹ ہوئے تھے جو اس لحاظ سے ایک حیران کن فیصلہ تھا کہ اس سے پہلے ایسی کوئی مثال نہ تھی لیکن آج تاریخ خدام الاحمدیہ گواہ ہے کہ اس فیصلے نے لاہور کو بدل کر رکھ دیا

محمد احمد صاحب کے پہلے سال خاکسار کو نائب معتمد ضلع اور پھر آخری دو سال بطور معتمد ضلع کے کام کرنے کی توفیق ملی اور ان دوسالوں میں محترم محمود احمد صاحب شاہد، نے صدر مجلس کی حیثیت سے لاہور کو ایک نئے روپ میں ڈھال دیا جو خلیفہ وقت سے محبت، خلافت کے عشق کی بدولت تنظیمی طور پر مزید مضبوط تر ہوا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جماعت احمدیہ کی صد سالہ جوبلی کے سال اور خدام الاحمدیہ کے پچاسویں سال لاہور کو یہ غیر معمولی اعزاز نصیب ہوا کہ ان دونوں تاریخی سالوں میں پہلی چاروں اول پوزیشنیں ضلع لاہور میں آئیں۔ اور یہ سب کچھ اس فیصلے کا نتیجہ تھا جو مکرم محترم محمود احمد صاحب صدر مجلس نے کیا تھا جو آپ کی بصیرت اور دور اندیشی کی روشن مثال ہے پھر ایک دہائی تک لاہور میں قیادت کا بحران نہ رہا۔ محمود صاحب نے اس دوران کثرت سے دورے کئے اور تربیتی اجتماعات کا انعقاد کرایا، آ پ کے دور میں مرکزی مہمتمین صاحبان کے دوروں نے تنظیمی طور پرلاہور کو بہت مضبوط کر دیا تھا اور خدمت دین ، خلافت سے وابستگی اور اطاعت کی ایک نئی روح پھونک دی تھی لاہور میں۔

ذاتی تعلق اور آپ کی شفقت۔ آپ کے دور کے غالباً آخری سال کی بات ہے کہ خاکسار کے رشتہ کی بات دور کے عزیزوں میں جو کوئٹہ نوشکی میں رہتے تھے طے ہو گئی اور چونکہ خاکسار ان کے بارے میں کچھ نہ جانتا تھا اوکچھ فکر مند تھا۔ آپ ازراہ شفقت میری شادی کے بارے میں خاکسار سے استفسار بھی کیا کرتے تھے تو ایک ملاقات میں خاکسار نے ذکر کیا اور درخواست کی کہ ان کے بارے میں کچھ معلوم ہوسکے تو بہتر ہوگا تو آپ نے ان کا ایڈریس خاکسار سے لے لیا۔ کچھ دنوں بعد خاکسار کو آپ کی طرف سے جواب موصول ہوا، اور اس کے بعد وہ رشتہ ختم کر دیا گیا اور اس کے بعد میرا نیا رشتہ حضرت عبدالعزیز مغل صحابی کی نواسی سے ہواجن کے پڑناناں حضرت میاں چراغ دین رئیس کے ہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام بعثت سے قبل قیام فر مایاکرتے تھے۔ آپ کا وہ خط آج بھی خاکسار کے پاس محفوظ ہے سلسلہ کے بزرگوں کے ساتھ صحبت صالحین کی برکات ہر شکل میں ظاہر ہوتی ہیں۔ ایک مرتبہ آپ کی خدمت میں معتمدین مجالس خدام الاحمدیہ کی راہنمائی کی غرض سے مرکزی معتمد صاحب کو لاہور بھجوانے کی درخواست کی گئی جس کو آپ نے از راہ شفقت منظور فرمایا اور مکرم شمیم پرویز صاحب،ان دنوں آپ کے معتمد خدام الاحمدیہ مرکزیہ تھے،لاہور تشریف لائے اورمعتمدین مجالس کے ساتھ میٹنگ کی۔ اس میں علاقہ لاہور کی بھی نمائندگی مکرم عبد المالک صاحب مرحوم نے کی تھی۔ اس موقع کی بھی یادگار تصویر موجود ہے۔

محترم محمود احمد شاہد صاحب کی یہ بھی خوبی تھی کہ آپ تربیت کی معمولی معمولی باتوں کا بھی خیال رکھتے تھے۔ آپ کا خاکسار کے بارے میں ایک جملہ آج بھی یاد ہے جو آپ کبھی کبھار اجلاس یا ملاقات میں کہا کرتے تھے کہ۔۔۔۔ منور تم خط بہت لکھتے ہو۔۔۔ میری طرف سے ہر مہتمم صاحب کے نام الگ الگ لفافے میں خط بھجوانے پر ایک مرتبہ یہ پیغام دیا کہ جماعت کے پیسوں کا غیر ضروری استعمال مناسب نہیں اور ہدایت ملی کہ ایک ہی لفافوں میں سب کے خط بھجوائے جایا کریں اور ممکن ہو تو استعمال شدہ لفافے بھی دوبارہ استعمال ہو سکتے ہیں۔ اس کے بعد آج تک خاکسار اس پر عمل کی کوشش کرتا ہے اور جب کبھی کوئی موقع ملے دوسروں کو بھی آپ کا یہی پیغام دیتا ہے۔

خدام الاحمدیہ کے ایک خصوصی جوبلی نمبر کی تیاری ہو رہی تھی اور رائل پارک میں مرحوم عبدالستار صاحب کے پریس میں باقاعدگی سے ذاتی طور پر تشریف لایا کرتے تھے اور مضامین اور تصاویر وغیرہ کے متعلق خود نگرانی کرتے اور ضروری اصلاحات کرتے تھے۔ وہاں بھی اکثر ملاقات ہو جایا کرتی تھی۔ مکرم عبدالمالک صاحب مرحوم ان دنوں ناظم مال ہوا کرتے تھے اور ان کا مکرم محمود احمد صاحب کے ساتھ ایک خصوصی تعلق تھا وہ بھی آپ کی تشریف آوری کے موقع پر موجود ہوتے تھے۔ ایک مرتبہ مکرم عبد الستار صاحب کے ہی دفتر میں گفتگو کے دوران میں نے اپنا پرس میز پر رکھ دیا تو آپ نے فوراً نوٹس لیا اور پوچھا کہ کیا یہ پرس میرا ہے؟ میرے جواب پر کہا دیکھو! یہ غلط طریق ہے۔ پرس اپنی جیب میں رکھو۔ اور آئندہ کبھی ایسی غلطی نہ کرنا ورنہ نقصان ہوگا۔ پرس سے پیسے نکال کر پہلے اس کو جیب میں رکھو اور پھر دوسرا کام کرو۔ سچی بات یہ ہے کہ اس نصیحت نے مجھے متعدد بار نقصان سے بچایا ہے۔ کارکنوں کے ساتھ ان کی شفقت غیر معمولی ہوا کرتی تھی۔ مکرم چوہدری منور علی صاحب ان دنوں ناظم اطفال اور نائب قائد ضلع تھے۔ ان کی شادی کے موقع پر ان کی بارات کے ساتھ اوکاڑہ تشریف لے گئے تھے۔

28 مئی 2010ء کے سا نحہ کے بعد عاجز حسب ہدایت مکرم امیر صاحب ضلع لاہور اور دیگر شہداء کے بارے میں کچھ کوائف اکھٹے کر رہا تھا ایک شہید کے بارے میں معلوم ہوا کہ ان کے قریبی عزیز آسٹریلیا میں ہیں۔ خاکسار نے جملہ کوائف فارم آسٹریلیا میں آپ کو فیکس کردیا اور راہنمائی کی درخواست کی۔

بہت جلد آپ کی طرف سے نہ صرف جواب وصول ہوا بلکہ شہید کے مطلوبہ عزیز کی طرف سے رابطہ بھی ہو گیا اور یوں کام بروقت مکمل ہوا۔ اس کے ساتھ ہی از راہ شفقت ایک جملہ بھی الگ سے تحریر تھا کہ ’’تم مؤرخ بن گئے ہو‘‘۔

مکرم محمود احمد شاہد صاحب بے پناہ خوبیوں کے مالک تھے۔ جن جن احباب کو ان کی قربت میں رہنے کے مواقع ملے ہیں وہی جانتے ہیں کہ ان میں کیا کیا خوبیا ں تھیں۔ آپ ایک نفیس، صاف ستھرے، ملنسار، نیک انسان، جان نثار، فدائی مخلص احمدی، خلافت کے شیدائی اور خلیفۂ وقت کے اطاعت گزار امیر تھے۔ میری ان سے آخری ملاقاتیں لاہور میں ہوئیں تھیں۔ ایک بار کڑک ہاؤس میں بھی ملاقات ہوئی تھی جہاں ان کے اعزاز میں ایک تقریب منعقد کی گئی تھی اور پھر دار الذکر میں احباب جماعت لاہور سے ملاقات کا اہتمام کیا گیا تھا۔ دار الذکر کی تقریب میں مکرم سید قمر سلیمان احمد صاحب، وکیل وقف نو بھی موجود تھے۔ اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کو ایسے وفاشعار، مخلص، اطاعت گزار اور فدائی احمدی عطا فرماتا رہے۔ آمین

مکرم محمود احمد صاحب اور مکرم حافظ مظفر احمد صاحب کے ہمراہ مجلس خدام الاحمدیہ لاہور کے عہدیداران کا ربوہ میں گروپ فوٹو
گروپ فوٹو ہمراہ مکرم محمود احمد صاحب، مکرم حافظ مظفر احمد صاحب، مکرم حمید نصراللہ خان صاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور اور لاہور کے خدام و دیگر احباب۔ بموقع مجلس شوریٰ ربوہ

(از منور علی شاہد (جرمنی))

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 فروری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 فروری 2021