• 12 مئی, 2025

خدا تعالیٰ کے وجود کے بارے میں (رچرڈ ڈاکنس صاحب کے چند نظریات پر تبصرہ) (قسط اول)


خدا تعالیٰ کے وجود کے بارے میں
رچرڈ ڈاکنس صاحب کے چند نظریات پر تبصرہ
قسط اول

جدید محققین کا دعویٰ ہے کہ آج سے پچیس تیس ہزار سال قبل بھی جبکہ انسانوں میں پتھر کا دور اپنے آخری مراحل میں داخل ہو رہا تھا انسانوں میں مذہب کا تصور موجود تھا۔اس دور میں انسان چھوٹی چھوٹی جھونپڑیوں یا غاروں میں رہتا اور پتھر اور ہڈیوں سے کچھ اوزار بنا لیتا۔ کچھ شکار کر کے اور کچھ خوراک کو جمع کر کے گذارا کرتا۔ اس ابتدائی دور میں بھی دنیا کے کئی مقامات پر غاروں میں ایسے تصویریں ملی ہیں جن سے اس دور میں انسانی ذہن کے متعلق کچھ نہ کچھ نتائج اخذ کئے جا سکتے ہیں۔اس دور میں بھی ایسے روحانی لوگوں کی موجودگی کے ثبوت ملتے ہیں جو کہ خاص وجد کی کیفیت میں روحانی عالم سے رابطہ کر کے باقی انسانوں کی راہنمائی کرتے تھے۔ہمارے انسانی دور کا آغاز تو چھ ہزار سال قبل ہوا لیکن مذہب کا تصور اس سے قبل بھی موجود تھا۔

خدا تعالیٰ کے وجود کے بارے میں مختلف نظریات

اس قدیم دور سے اب تک خدا تعالیٰ کے وجود کے بارے میں نظریات اور مذہب کے تصور ات انسانی توجہ کا مرکز بنے رہے ہیں اور قدیم زمانہ سے ہی ایسے لوگ موجود رہے ہیں جو کہ خدا تعالیٰ کے وجود، کسی روحانی عالم اور حیات بعد الموت کا انکار کرتے رہے ہیں۔انہیں دہریہ (Atheist)کہا جاتا ہے۔اور ایسا طبقہ بھی موجود ہے جن کا یہ نظریہ ہے کہ ہمارے لئے یہ جاننا ممکن نہیں ہے کہ خدا موجود ہے کہ نہیں اور اگر ایسی کوئی ہستی موجود ہے تو اس کی نوعیت کیا ہے ؟ انہیں Agnosticکہا جاتا ہے۔پھر ایک طبقہ ایسا ہے جس کا نظریہ ہے کہ اس کائنات کا ایک خالق تو موجود ہے مگر اس خالق نے ابتداء میں کچھ قوانین مقرر کر دیئے ہیں جن کے مطا بق یہ کائنات چل رہی ہے۔ اب اس ہستی کا اس کائنات میں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔نہ یہ ہستی دعاؤں کو سنتی ہے اور نہ ہی انسانوں کی راہنمائی کے لئے کوئی وحی اور الہام نازل کرتی ہے۔ ایسے نظریات رکھنے والوں کے لئے Deistکی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔

دنیا کے مختلف ممالک میں کتنی آبادی دہریہ ہے، اس معاملہ میں اعداد و شمار میں بہت اختلاف پایا جاتا ہے کیونکہ لفظ دہریہ کی تعریف مختلف طریق پر کی جاتی ہے۔ لیکن اس میں چین سر فہرست ہے اورچین کی آبادی کا 79 فیصد دہریہ ہے۔ اس کے علاوہ چیک ریپبلک، سویڈن، ہالینڈ، یوکے، فرانس، جنوبی کوریا اور ڈنمارک میں آبادی کے تناسب کے لحاظ سے دہریہ لوگ کافی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔

(https://colinmathers.com/2020/09/30/global-trends-in-religiosity-and-atheism-1980-to-2020/ accessed on 28.1.2023)

آئندہ آنے والی دہائیوں میں کیا رجحان ہوگا ؟ اس بارے میں Pew Research Instituteنے جو اعداد و شمار شائع کئے ہیں ان کے مطابق گو کہ بعض ممالک میں ایسے لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جو کہ کسی مذہب سے وابستہ نہیں ہیں لیکن 2050ء تک دنیا کی آبادی میں ان کا تناسب آج کی نسبت کچھ کم ہوگا۔ 2010ء میں دنیا کی آبادی کا 16.4%کسی مذہب سے وابستہ نہیں تھا اور اس تحقیق کے مطابق 2050ء میں دنیا کی آبادی کا 13.2%کسی مذہب سے وابستہ نہیں ہوگا۔

(The Future of World Religions: Population Growth Projections, 2010- 2050 by Pew Research Institute)

بہر حال دنیا کی آبادی کا دس فیصد سے اوپر ان خیالات کے لوگوں پر مشتمل ہے۔

رچرڈ ڈاکنس صاحب کا
Agnosticنظریات پر غصہ

اس دور میں دہریت کے بہت سے نمائندوں نے ایسی بہت سی کتب شائع کی ہیں جن میں شد ومد سے یہ ثابت کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں کہ خدا کا کوئی وجود نہیں، یہ تمام کائنات اور زمین پر زندگی خود بخود وجود میں آئی اور تمام مذاہب محض اپنے وہموں کی پیروی کر رہے ہیں۔اس دور میں دہریت کے منادیوں اور مذہب کے مخالفین میں ایک نہایت نمایاں نام رچرڈ ڈاکنس صاحب (Richard Dawkins) کا ہے۔ یہ صاحب ارتقائی حیاتیات (Evolutionary Biology)کے سائنسدان ہیں اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے بھی منسلک رہے ہیں۔ڈاکنس صاحب نے حیاتیات کی سائنس اور دہریت کی تائید میں بہت سی کتابیں تحریر کی ہیں۔انہوں نے

Blind Watchmaker, The God Delusion

اور

Outgrowing God

جیسی کتب میں ہستی باری تعالیٰ اور مذہب کے تصور کے خلاف بہت کچھ لکھا ہے۔ان کتب میں زیادہ تر وہی دلائل بیان کئے گئے ہیں جو کہ اکثر دہریہ حضرات کی طرف سے اس دور میں بیان کئے جاتے ہیں۔اس مضمون میں زیادہ تر ان کی ایک کتاب میں بیان کردہ چند بنیادی دلائل کا تجزیہ پیش کیا جائے گا۔اور اس میں دیگر دہریہ احباب کے بہت سےنظریات پر تبصرہ خود بخودآ جائے گا۔

جیسا کہ پہلے عرض کی گئی تھی کہ وہ لوگ جن کا یہ نظریہ ہے کہ ہمارے لئے یہ جاننا ممکن نہیں کہ خدا موجود ہے کہ نہیں، انہیں Agnosticکہا جاتا ہے۔ اور دہریہ یا Atheistوہ ہیں جو خدا کے وجود کا مکمل انکار کرتے ہیں۔رچرڈ ڈاکنس نے اپنی کتاب The God Delusionمیں ایسے لوگوں پر بہت برہمی کا اظہار کیا ہے۔لیکن اس فہرست میں کئی جانے پہچانے سائنسدانوں کے نام بھی آ تے ہیں۔ لیکن رچرڈ ڈاکنس نے اپنی کتاب کے ایک باب The Poverty Of Agnosticism میں اس بات پر بہت زور دیا ہےکہ گو کہ ہم اس بات کو سو فیصد ثابت نہیں کر سکتے کہ اس کائنات کا کوئی خدا موجود نہیں ہے لیکن اس بات کا امکان کم ہے کہ اس کائنات کا کوئی پیدا کرنے والا اور اسے چلانے والا کوئی خدا موجود ہو۔اور انہیں یہ فکر بھی لاحق نظر آتی ہے کہ اگر یہ مان لیا جائے کہ ہمارے لئے یہ ممکن نہیں کہ معلوم کر سکیں کہ کوئی خدا موجود ہے کہ نہیں تو اس کا مطلب تو یہ ہوگا کہ ہم یہ تسلیم کر رہے ہیں بعض باتیں سائنس کی پہنچ سے باہر ہیں۔اس پر ان کی برہمی سائنسی لحاظ سے بھی بلا جواز ہے کیونکہ دنیا کا کوئی بھی سائنسدان یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ کبھی بھی انسان کا ذہن دنیا کے تمام رازوں سے پردہ اٹھا دے گا۔ اگر ایسا کوئی سائنسدان موجود ہے تو یہ بار ثبوت رچرڈ ڈاکنس صاحب پر ہے کہ وہ اس عجیب و غریب سائنسدان کا نام بتائیں۔

لیکن ان کے دل کو کیا دھڑکا لگا ہوا ہے اس کا اظہار وہ ان الفاظ میں کرتے ہیں

“God, though not technically disprovable, is very very improbable indeed”
ترجمہ: گو کہ تکنیکیطور پر یہ ثابت تو نہیں کیا جا سکتا کہ خدا موجود نہیں ہے، لیکن اس کے وجود کے ثبوت کا امکان بہت بہت کم ہے۔

(The God Delusion , by Richard Dawkins, published by Transworld Publishers 2016 p 136)

گو کہ وہ بار بار اس بات کا اظہار کر رہے ہیں کہ میں پکا دہریہ ہوں اور مجھے یقین ہے کہ کوئی خدا موجود نہیں ہے لیکن وہ جانتے ہیں کہ خود ان کے دل کو اس پر مکمل یقین نہیں ہے۔ اور ہم بعد میں مثالیں پیش کریں گے کہ وہ پوری کتاب میں اسی الجھن کا شکار نظر آ تے ہیں۔

ڈارون سے بھی زیادہ ڈارون

Agnosticحضرات پر ان کا اظہار برہمی اس لئے بھی عجیب ہے کیونکہ اس ساری کتاب میں انہوں نے اپنے دلائل کی بنیاد ڈارون کے نظریہ ارتقا اور Natural Selectionپر رکھی ہے۔ یعنی کہ قدرت خود زیادہ بہتر مخلوق کا انتخاب کرتی ہے اور اس طرح زندگی کی ترقی کا سفر آگے چلتا رہتا ہے۔ اس کتاب میں ہر کچھ صفحات کے بعد ڈارون اور اس کے نظریات کا ذکر شروع ہوجاتا ہے۔

ڈارون نے یہ ضرور لکھا ہے کہ اب انہیں عیسائیت کے عقائد پر یقین نہیں رہا۔ لیکن خود ڈارون نے واضح طور پر یہ اظہار کیا تھا کہ وہ کبھی بھی دہریہ نہیں رہے، وہ اپنے آپ کو ان لوگوں میں شمار کرتے ہیں جو Agnostic ہیں۔ انہوں نے 7؍ مئی 1879ء کو James Doyce کے نام اپنے ایک خط میں لکھا:
’’اپنے ذہن کے انتہائی اتار چڑھاؤکے دوران کبھی بھی دہریہ نہیں رہا کہ میں نے خدا کے وجود کا انکار کیا ہو۔ جیسے جیسے میری عمر بڑھ رہی ہے عمومی طور پر مگر ہمیشہ نہیں میرے خیالات کے پیش نظر مجھے Agnosticکہا جا سکتا ہے۔‘‘

(https://www.darwinproject.ac.uk/letter/DCP-LETT-12041.xml)

یہ مثال تو مشہور ہے کہ فلاں شخص More Christian than Christ himselfیعنی حضرت عیسیٰ سے بھی زیادہ عیسائی ہے۔ اس کتاب میں رچرڈڈاکنس صاحب ڈارون سے بھی زیادہ ڈارون نظر آ تے ہیں۔کیونکہ ڈارون تو اپنے آپ کو Agnostic کہتے ہیں اور ڈاکنس صاحب اس سے بھی ایک قدم آگے چلے جاتے ہیں۔

برٹرنڈ رسل: بار ثبوت کس پر ہے؟

اس سلسلہ میں مصنف ایک دلچسپ مثال پیش کرتے ہیں اور وہ مثال مشہور فلاسفر برٹرنڈ رسل کی تحریر سے ہے۔ برٹرنڈ رسل لکھتے ہیں :

Many orthodox people speak as though it were the business of sceptics to disprove received dogmas rather than of dogmatists to prove them. This is, of course, a mistake.

(Is there God by Bertrand Russel by Bertrand Russel)

ترجمہ : بعض پرانے خیالات کے لوگ اس طرح کا اظہار کرتے ہیں جیسے کسی اصول پر شک کرنے والوں کا یہ کام ہے کہ وہ جس اصول کو سنیں اسے غلط ثابت کریں بجائے اس کے کہ اس اصول کو پیش کرنے والے اس اصول کی سچائی کو ثابت کریں۔ یہ یقینی طور پر ایک غلطی ہے۔

خدا تعالیٰ کے وجود کے بارے میں ایک نامور دہریہ فلاسفر اور ریاضی دان کے یہ الفاظ اس نفسیاتی جھجک کو ظاہر کرتے ہیں جو کہ عمومی طور پر دہریہ مزاج کے احباب میں پائی جاتی ہے۔ وہ اس بات سے کترا رہے ہیں کہ اس بات کے دلائل پیش کریں کہ اس کائنات کو کوئی بنانے والا خدا موجود نہیں ہے۔ اس سے اپنی جان چھڑانے کے لئے وہ یہ کہنے کی کوشش کریں کہ جو اس نظریہ پر قائم ہیں کہ خدا موجود ہے یہ ان کا فرض ہے کہ وہ اس بات کے دلائل پیش کریں کہ خدا موجود ہے۔ اور دہریہ احباب کا کام فقط اتنا ہی ہے کہ وہ ان دلائل پر تنقید کریں اور اس کی وجہ یہ بیان کر رہے ہیں کہ ہر نظریہ کوپیش کرنے والے کا یہ فرض ہے کہ وہ اس نظریہ کے حق میں دلائل بیان کرے۔

لیکن یہ تیر تو پلٹ کر چلانے والے کے سینے میں آکر پیوست ہورہا ہے کیونکہ ان حضرات کایہ نظریہ ہے کہ یہ عظیم کائنات اور اس زمین پر موجود زندگی محض اتفاقاًوجود میں آ گئی تھی اور اس کا کوئی خالق موجود نہیں ہے۔ تو ان حضرات کا بھی تو فرض ہے کہ وہ اس نظریہ کے حق میں دلائل پیش کریں کیونکہ ان کا اصرار ہے ہر نظریہ کو پیش کرنے والے کا یہ فرض ہے کہ وہ اس کے حق میں دلائل پیش کرے۔خدا کو ماننے والے بھی تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ دہریہ حضرات اپنے اس فرض سے سبکدوش ہونے کی کوشش کریں۔

جاندار اشیاء تو بہت پیچیدہ اشیاء ہیں جہاں ایسی کوئی سادہ بے جان چیز بھی نظر آئے جس میں کوئی ترتیب نظر آ رہی ہو یا اس کی ساخت بتا رہی ہو کہ یہ کسی خاص کام کے لئے بنی ہے تو وہاں یہی یقین کیا جاتا ہے کہ اس کو کوئی بنانے والا موجود ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی ماہر آثار قدیمہ کو ایک سادہ سا برتن بھی مل جائے اور وہ اسے کسی یونیورسٹی یا عجائب گھر میں لے جائے یا کسی کانفرنس میں پیش کرے کہ مجھے فلاں تہذیب کے کھنڈرات میں یہ برتن ملا ہے اور اس تہذیب کے لوگ اس طرح کے برتن استعمال کرتے تھے۔ اور کوئی صاحب کھڑے ہو کر کہیں کہ پہلے یہ ثابت کریں کہ یہ برتن کسی شخص نے بنایا تھا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کروڑوں سال کے عمل سے اتفاقی طور پر یہ برتن خود بخود وجود میں آ گیا ہو۔ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ یہ برتن کسی انسان کی تخلیق ہے۔یہ ثابت کرنا آپ کا کام ہے۔

میرے خیال میں اس کے بعد اس کانفرنس یا مجمع میں سوائے قہقہوں کے کوئی آواز سنائی نہیں دے گی۔یا اگر کسی غار کی دیوار پر کسی بھی زبان میں دو لفظ لکھے مل جائیں اور کوئی ماہر آثار قدیمہ یہ کہے کہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس غار میں رہنے والے یہ زبان لکھتے اور بولتے تھے اور کوئی صاحب اٹھ کر کہیں کہ میں یہ لغو بات نہیں مانتا۔ اصل میں کسی پتھر کے گرنے سے یہ الفاظ خود بخود لکھے گئے ہیں۔ تو ہر کوئی یہی کہے گا، اب آپ کا یہ فرض ہے کہ اس عجیب مفروضے کے حق میں دلائل پیش فرمائیں۔

جہاں تک جاندار اشیاء کا تعلق ہے تو وہ ان سادہ ترین اشیاء سے کروڑوں نہیں بلکہ اربوں گنا زیادہ پیچیدہ ہیں اور اس میں اربوں گنا زیادہ حکمت نظر آ تی ہے۔ چنانچہ یہ فرض دہریہ احباب کا ہے کہ وہ اس بات کے حق میں دلائل پیش کریں کہ یہ زندگی خود بخود وجود میں آ گئی اور پھر مسلسل ترقی بھی کرتی گئی۔

اس ثقیل مضمون میں ایک لطیفہ یاد آتا ہے۔ ایک بار ملا نصیرالدین ایک شخص کے گھر میں داخل ہو کر سبزیاں چوری کررہے تھے۔ اور سبزیاں اکھیڑ کر اپنے تھیلے میں ڈال رہے تھے کہ مالک مکان آ گیا اور لعنت ملامت کرنے لگا کہ داڑھی رکھی ہوئی ہے اور چوری کرتے ہو۔ ملا نے کہا میری بات تو سنو میں تو بازار جا رہا تھا کہ زور سے ہوا چلی اور اڑا کر محض اتفاق سے اس ہوا نے مجھے تمہارے صحن میں پھینک دیا۔اس پر مالک مکان نے کہا پھر میری سبزیاں خود بخود اکھڑ کس طرح گئیں کیا یہ بھی اتفاق تھا؟ اس پر ملا نے کہا جب ہوا مجھے اڑا کر لے جا رہی تھی تو میں اپنے آپ کو روکنے کے لئے ان سبزیوں کو پکڑ رہا تھا۔ یہ اس طرح اکھڑتی گئیں۔ اس پر مالک مکان نے کہا پھر یہ سبزیاں تمہارے تھیلے میں کس طرح جمع ہوتی گئیں۔ ملا گھبرا کر کہتے کہ مجھے بھی یہی خوف تھا کہ تم یہ سوال نہ پوچھ لو۔اس لطیفے سے یہ سبق ضرور ملتا ہے ہر چیز کو محض اتفاق قرار دے کر بحث سے جان نہیں چھڑائی جا سکتی۔

ایک فرضی چائے دانی کا قصہ

بہر حال اس وضاحت کے بعد اب برٹرنڈ رسل صاحب کی اس تحریر کی طرف واپس آ تے ہیں جسے رچرڈ ڈاکنس صاحب نے اپنی کتاب کے صفحہ 74و75 پر ایک بہت اہم دلیل کے طور پر درج کیا ہے۔اس میں برٹرنڈ رسل صاحب لکھتے ہیں کہ اگر ہمیں یہ بتایا جائے کہ زمین اور مریخ کے درمیان ایک چینی کی چائے دانی سورج کے گرد ایک بیضوی مدار میں گھوم رہی ہے۔ اس کے ساتھ یہ اضافہ بھی کر دیا جائے کہ یہ چائے دانی اتنی چھوٹی ہے کہ طاقتور ترین دور بین سے بھی نظر نہیں آ تی۔ اور پھر یہ اصرار کیا جائے چونکہ یہ ثابت نہیں ہو سکتا کہ یہ چائے دانی موجود نہیں، اس لئے یہ ماننا پڑے گا کہ یہ چائے دانی موجود ہے۔ ظاہر ہے کہ اس منطق کو قبول نہیں کیا جا سکتا اور اسے لغو قرار دیا جائے گا۔اس کے بعد وہ لکھتے ہیں کہ لیکن اگر یہ دعویٰ قدیم کتابوں میں لکھا ہو اور ہر اتوار کو اسے ایک مقدس سچ کے طور پر پڑھایا جاتا ہو اور سکول میں بچوں کے دماغوں میں ڈالا جاتا ہو تو اس کا انکار کرنے والے کوسنکی قرار دے کر ماہر نفسیات کے حوالے کر دیا جائے گا۔

دہریہ مصنفین اور فلاسفروں کی تحریروں اور تقاریر میں یہ مثال بار بار بیان کی جاتی ہے۔لیکن اس تمثیل میں ایک بہت بڑا نقص ہے۔اور وہ یہ کہ ہر چیز اپنے اثر سے پہچانی جاتی ہے اور دنیا میں بھی ہر کاریگر اپنے کام سے پہچانا جاتا ہے جیسا کہ پہلے مثال پیش کی گئی ہے کہ ایک برتن کو خود بخود بنا ہوا قرار نہیں دیا جا سکتا اور یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کسی پتھر پر لکھے ہوئے دو لفظ محض اتفاقی طور پر لکھے گئے ہیں ان کو لکھنے والا کوئی موجود نہیں ہے۔برٹرنڈ رسل نے اس فرضی چائے دانی کا کوئی اثر بیان نہیں کیا اور یہ اضافہ کر دیا ہے کہ یہ چائے دانی کسی دوربین سے بھی نظر نہیں آتی۔ لیکن خدا پر ایمان لانے والا اس بنیاد پر یہ جانتا ہے کہ اس عالم کا ایک خالق ہونا چاہیے اور وہ عالم اسے نظر آ رہا ہوتا ہے جو اس خالق کی تخلیق ہے اور اس بات کا کوئی ثبوت موجود نہیں کہ یہ عالم خود بخود وجود میں آ گیا۔اس سلسلہ میں چند آیات پیش کی جاتی ہیں۔

وَلَئِنۡ سَاَلۡتَہُمۡ مَّنۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ وَسَخَّرَ الشَّمۡسَ وَالۡقَمَرَ لَیَقُوۡلُنَّ اللّٰہُ ۚ فَاَنّٰی یُؤۡفَکُوۡنَ ﴿۶۲﴾

(العنکبوت: 62)

ترجمہ : اگر تو ان سے پوچھے کس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور سورج اور چاند کو مسخر کر دیا ؟تو وہ ضرور کہیں گے اللہ نے تو پھر(وہ )کس طرف الٹے پھرائے جاتے ہیں؟

پھر انسان کی اپنی پیدائش کو دلیل بناتے ہوئے قرآن مجید بیان فرماتا ہے:

وَ لَىٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَهُمْ لَیَقُوْلُنَّ اللّٰهُ فَاَنّٰى یُؤْفَكُوْنَ

(الزخرف: 88)

ترجمہ: اگر تو ان سے پوچھے انہیں کس نے پیدا کیا ہے تو وہ ضرور کہیں گے اللہ نے۔پھر وہ کس طرف بہکائے جا رہے ہیں۔

اور جہاں ایک پر حکمت نظام نظر آئے وہاں ہمیں یہ نتیجہ نکالنا پڑتا ہے کہ کسی منتظم کا وجود ہونا چاہیے جیسا کہ اس آیت میں بیان کیا گیا ہے

وَلَئِنۡ سَاَلۡتَہُمۡ مَّنۡ نَّزَّلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَحۡیَا بِہِ الۡاَرۡضَ مِنۡۢ بَعۡدِ مَوۡتِہَا لَیَقُوۡلُنَّ اللّٰہُ ؕ قُلِ الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ ؕ بَلۡ اَکۡثَرُہُمۡ لَا یَعۡقِلُوۡنَ ﴿۶۴﴾

(العنکبوت : 64)

ترجمہ:اور اگر تو ان سے پوچھے کس نے آسمان سے پانی نازل کیا پھر اس کے ذریعہ زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کر دیا تو وہ ضرور کہیں گے اللہ نے۔ تو کہہ سب تعریف اللہ ہی کے لئے ہے لیکن اکثر ان میں سے عقل نہیں رکھتے۔

یعنی یہ علم کے ایک خدا ہونا چاہیے، اس خدا کی تخلیق پر نظر ڈالنے سے حاصل ہوجاتا ہے۔ اس کی بنیاد صرف قدیم نظریات پر نہیں ہے اور محض سنی سنائی باتوں پر نہیں ہے۔

کیا اسلام سوالات کی حوصلہ شکنی کرتا ہے

آگے بڑھنے سے قبل یہ ذکر کرنا ضروری ہےکہ اپنی کتاب The God Delusionمیں دوسرے دہریہ مصنفین کی طرح رچرڈ ڈاکنس صاحب بار بار اس بات پر طنز کرتے ہیں کہ دوسرے مذاہب اور اسلام بھی سوالات اٹھانے کے خلاف ہیں اور اس طرح بغیر دلیل کے عقائد اور نظریات لوگوں کے ذہنوں پرٹھونسے جاتے ہیں۔ جیسا کہ وہ تحریر کرتے ہیں

Religious faith is an especially potent silencer of rational calculation, which usually seems to trump all others……… it is also partly because it discourages questioning, by its very nature. Christianity, just as much as Islam, teaches children that unquestioned faith is a virtue. You don’t have to make the case for what you believe.

(The God Delusion , by Richard Dawkins, published by Penguin Random House UK 2016 p 364)

ترجمہ: مذہبی ایمان عقلی استدلال کو خاموش کرانے ایک نہایت موثر ذریعہ ہے۔یہ طریق دوسرے تمام طریقوں کو مات دے دیتا ہے…..ایساجزوی طور پر اس لئے ہے کہ اس کی فطرت ہی ایسی ہے کہ سوال اٹھانے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ اسلام کی طرح عیسائیت بھی بچوں کو یہی سکھاتی ہے کہ ایسا ایمان نیکی ہے جس میں کوئی سوال نہ کیا جائے۔ جس چیز پر تمہیں ایمان ہے، تمہیں اس کو ثابت کرنے کی ضرورت نہیں۔

ہستی باری تعالیٰ کے بارے میں مندرجہ بالا آیات پر ہی ایک نظر ڈال لی جائے تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ قرآن مجید سوالات اٹھانے کا حکم دیتا ہے نہ یہ کہ اس کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ ان کے علاوہ بھی قرآن مجید کی آیات میں متعدد موضوعات پر سوال اٹھانے کا بار بار ذکر ملتا ہے۔قرآن مجید میں یہ ارشاد ہے هَاتُوْا بُرْهَانَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ (البقرہ :112) اگر تم سچے ہو تو اپنی دلیل لاؤ یعنی سچائی ثابت کرنے کا معیار دلیل ہی ہے۔ اس کے باوجود ڈاکنس صاحب کا یہ دعویٰ کہ اسلام سوال اٹھانے اور ثبوت پیش کرنے کی حوصلہ شکنی کرتا ہے محض ایک بے اصل دعویٰ ہے جس کی انہوں نے قرآن مجید سے کوئی دلیل پیش نہیں کی۔

وحی اور الہام یقین تک پہنچاتے ہیں

جیسا کہ ان آیات سے ظاہر ہے کہ اس کائنات اور زندگی اور پھر انسانی زندگی کی حکمتوں کو دیکھ کر اور اس زندگی کے قیام کے لئے موجود انتظام کو ملاحظہ کر کے عقل یہ نتیجہ نکالتی ہے کہ ان سب کا خالق اور اس نظام کو چلانے والا ایک خدا ہونا چاہیے۔ لیکن جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا ہے کہ یہ یقین حاصل کرنے کے لئے کہ ایسا خدا نہ صرف موجود ہونا چاہیے بلکہ یقینی طور پر موجود ہے آسمانی الہام کا راستہ موجود ہے۔ جیسا کہ آپؑ تحریر فرماتے ہیں۔

’’قرآن شریف پر سچا ایمان لانے والا صرف فلسفیوں کی طرح یہ ظن نہیں رکھتا کہ اس پُر حکمت عالم کا بنانے والا کوئی ہونا چاہیے بلکہ وہ ایک ذاتی بصیرت حاصل کرکے اور ایک پاک رؤیت سے مشرف ہوکر یقین کی آنکھ سے دیکھ لیتا ہے کہ فی الواقع وہ صانع موجود ہے اور اس پاک کلام کی روشنی حاصل کرنے والا محض خشک معقولیوں کی طرح یہ گمان نہیں رکھتا کہ خدا واحد لاشریک ہے بلکہ صدہا چمکتے ہوئے نشانوں کے ساتھ جو اُس کا ہاتھ پکڑ کر ظلمت سے نکالتے ہیں واقعی طور پر مشاہدہ کرلیتا ہے کہ درحقیقت ذات اور صفات میں خدا کا کوئی بھی شریک نہیں اورنہ صرف اس قدر بلکہ وہ عملی طور پر دنیا کو دکھا دیتا ہے کہ وہ ایساہی خدا کو سمجھتا ہے اوروحدتِ الٰہی کی عظمت ایسی اس کے دل میں سما جاتی ہے کہ وہ الٰہی ارادہ کے آگے تمام دنیا کو ایک مرے ہوئے کیڑے کی طرح بلکہ مطلق لَاشَے اورسراسر کالعدم سمجھتا ہے۔‘‘

(روحانی خزائن جلد 21صفحہ 25-26)

کیا چائے دانی خود بخود بن سکتی ہے؟

اگر تھوڑا سا بھی غور کیا جا ئے تو چائے دانی والی مثال دہریہ احباب کے نظریات کی تردید کرتی ہے۔اب انسان کی بنائی ہوئی ہزاروں متروک اشیاء خلا میں موجود ہیں، جو مختلف سیٹیلائٹوں اور راکٹوں سے برآمد ہوئی تھیں۔ بالفرض خلا میں یا کسی سیارے پر یا چاند پر یا سمندر کی تہہ میں یا کسی ایسے صحراء میں جہاں کوئی آبادی نہیں ایک چائے دانی ملتی ہے۔ تو کیا ہم یہ نتیجہ نکالنے پر مجبور ہوں گے کہ اس چائے دانی کا کوئی بنانے والا ہے یا یہ گمان کریں گے کہ یہاں تو انسان نہیں بستے تو ضرور یہ چائے دانی خود بخود اتفاقی واقعات کے نتیجہ میں بن گئی ہو گی۔ یقینی طور پر ہر کوئی یہی نتیجہ نکالے گا کہ ضرور یہ چائے دانی کسی انسان نے بنائی تھی کیونکہ اس کی ساخت کا ایک مقصد ہے کہ اس میں چائے ڈالی جائے اور اس سے پیالیوں میں انڈیلی جائے۔ جب ایک سادہ سی چائے دانی کے متعلق یہ گمان نہیں کیا جا سکتا تو اتنی پر حکمت اور اربوں گنا پیچیدہ زندہ اشیاء کے بارے میں یہ کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ وہ خود بخود اتفاقی طور پر وجود میں آ گئیں۔

علت العلل کی بحث

اس سوال پر کہ اس کائنات کا کوئی تو First Causeیعنی ایسا وجود جس نے ابتدا میں تمام کائنات کو پیدا کیا ہونا چاہیے، رچرڈ ڈاکنس کچھ الجھن میں مبتلا نظر آ تے ہیں اور وہ اس الجھن سے نکلنے کے لئے ایسے مفروضے کا سہارا لیتے ہیں جو کہ سائنسی طور پر درست نہیں ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔

‘‘Time and again, my theologian friends returned to the point that there had to be a reason why there is something rather than nothing. There must have been a first cause of everything, and we might as well give it the name God. Yes, I said, but it must have been simple and therefore, whatever else we call it, God is not an appropriate name.’’

( The God Delusion by Richard Dawkins , published by Penguin Random House UK 2016 p 184)

ترجمہ : بار بار میرے مذہبی دوست اس نکتے کی طرف واپس آ تے ہیں کہ محض عدم سے کسی چیز کے پیدا ہونے کی کوئی وجہ ہونی چاہیے۔ اس عمل کو شروع کرنے والی کوئی علت العلل تو ہونی ضروری ہے۔ ہر چیز کی ابتداء کرنے والا تو کوئی ہونا چاہیے اور ہم اسے خدا کہہ سکتے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ ہاں ایسا ہونا چاہیے لیکن یہ وجود پھر بالکل سادہ ہونا چاہیے چنانچہ ہم اسے کچھ بھی کہیں اسے خدا نہیں کہا جا سکتا۔

ان سطور کو لکھتے ہوئے رچرڈ ڈاکنس صاحب یہ نظریہ پیش نہیں کر رہے کہ یہ کائنات ہمیشہ سے موجود ہے۔ بلکہ وہ اس بات کو تسلیم کر رہے ہیں اس کائنات کا کوئی نکتہ آ غاز تھا۔ اور وہ یہ بھی مان رہے ہیں کہ اس عمل کو شروع کرنے والا اور اسے حرکت میں لانے والا کوئی محرک ہونا چاہیے۔ لیکن وہ یہ لکھ رہے ہیں کہ یہ محرک خدا تعالیٰ کا وجود نہیں ہو سکتا کیونکہ لازم ہے کہ یہ محرک اور تمام کائنات کا آغاز کرنے والا سادہ اور ابتدائی حالت میں ہو۔ یہ ان کا ایک دعویٰ ہے جس کے حق میں وہ کوئی دلیل بیان نہیں کر تے۔

ان کی اس کتاب میں ڈارون کے نظریہ ارتقاء اورnatural selectionکا بہت ذکر ہے اور بار بار اسے اپنے نظریات کی بنیاد بیان کیا گیا ہے، اس لئے شاید ان کا نظریہ یہ ہے کہ اشیاء ہمیشہ سادہ سے پیچیدہ کیفیت میں منتقل ہوتی ہیں۔ جیسے کائنات کے آغاز پر تمام کائنات کا مادہ ایک نکتے پر مرکوز تھا اور ایک عظیم الشان دھماکے کے نتیجہ میں یہ مادہ منتشرہونا شروع ہوا۔پھر اس ابتدائی حالت سے ایٹم اور پھر مالیکیول بننے شروع ہوئے۔ پھر مختلف مقامات پر مادہ جمع ہونا شروع ہوا۔ ستارے اور سیارے اور کہکشائیں وجود میں آ ئیں۔ اور پھر زمین پر زندگی وجود میں آئی اور سادہ سے پیچیدہ حالت میں منتقل ہوتی ہوئی اور ترقی کرتے کرتے انسان کی تخلیق ہوئی۔ اس لئے جو کائنات کا آغاز ہوگا وہ بالکل سادہ ترین حالت میں ہونا چاہیے۔

اگر اس عجیب نظریہ کے پیچھے یہ مفروضہ ہے تو یہ مفروضہ غیر متعلقہ ہونے کے علاوہ سائنسی طور پر بھی درست نہیں ہے۔ کیونکہ سائنسی علم کے مطابق اشیاء ہمیشہ سادہ سے پیچیدہ کیفیت میں منتقل نہیں ہو رہی ہوتیں بلکہ ساتھ کے ساتھ یہ عمل الٹا بھی چل رہا ہوتا ہے۔جہاں کائنات میں نئے ستارے بن رہے ہیں، وہاں کئی ستارے اپنی زندگی مکمل کر کے بلیک ہول کا روپ دھار لیتے ہیں۔ اس بلیک میں ہول میں ان ستاروں کا مادہ ایک نکتے میں اسی طرح محصور ہوجاتا ہے جس طرح آغاز کائنات کے وقت تھا۔

چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ اصول بیان فرمایا ہے کہ مذہبی بحث میں جو بات بیان کی جائے وہ اپنی کتاب سے بیان کی جائے۔ چنانچہ جہاں تک first causeہونے کا تعلق ہے تو اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے

ہُوَ الۡاَوَّلُ وَالۡاٰخِرُ وَالظَّاہِرُ وَالۡبَاطِنُ ۚ وَہُوَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ ﴿۴﴾

(الحدید:4)

ترجمہ: وہی اول وہی آخر، وہی ظاہر وہی باطن ہے اور وہی ہر چیز کا دائمی علم رکھتا ہے۔

اس میں نہ صرف یہ بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اوّل اور آخر ہے۔ اور ڈاکنس صاحب یہ زور دے رہے ہیں کہ اوّل وجود سادہ ترین ہونا چاہیے تھا۔ لیکن قرآن کریم یہ بیان کرتا ہے کہ کامل علم رکھنے والی ذات وہی اوّل ذات ہے۔

(باقی آئندہ کل ان شاءاللّٰہ)

(ابو نائل)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 فروری 2023

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی