آداب معاشرت
قرآن کریم کی تلاوت کے آداب
قسط 1
آداب معاشرت دوالفاظ کا مرکب ہے۔ آداب، ادب کی جمع ہے جس کے معنی عزت، تعظیم، قدر کی نگاہ سے کسی کو دیکھنے اور اخلاقی و معاشرتی اصولوں کی پابندی کرنے کے ہیں۔ جبکہ معاشرت، اجتماعی زندگی اختیار کرنے یعنی آپس میں مل جل کر زندگی بسر کرنے کے ہیں۔ جسے انگریزی میں Way of Living اور Mode of Life کہتے ہیں اور ایشیائی کلچر میں ہم اسے سماجی زندگی یا تمدن بھری زندگی کا نام دے سکتے ہیں۔
اصطلاحی معنوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انسان اکیلے نہیں بلکہ مل جل کر رہنے کا عادی ہے۔ ہرشخص کی صلاحیتیں، خوبیاں، خامیاں اور حالات مختلف ہوتے ہیں۔ ان مختلف حالات میں مختلف افراد کا میل جول کے ساتھ رہنا معاشرت ہے اور اگر اس میں دینی تعلیم، کردار کا رنگ بھر دیا جائے تو اس معاشرے کو چار چاند لگ جاتے ہیں اور اپنے بہت ہی پیارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کی پیاری طرز زندگی کو شامل کرلیں تو معاشرہ بہت حسین نظر آنے لگے۔
حسن معاشرت سے ایک ایسا معاشرہ جنم لیتا ہے۔ جس میں نیکیاں اور بُرائیاں برابر کے طور پر پنپ رہی ہوتی ہیں۔ دنیا کے تمام معاشروں میں نیکیوں کو سراہا جاتا ہے اور بدیوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ اسی ناطے سے اللہ تعالیٰ نے اسلامی تصور یوں ہمارے سامنے رکھا کہ :تم بہترین امت ہو جو تمام انسانوں کے فائدہ کے لئے نکالی گئی ہو تم اچھی باتوں کا حکم دیتے ہو اور بُری باتوں سے روکتے ہو۔
(آل عمران:111)
اس قرآنی تصور سے خطے میں بسنے والے خواہ ان کا تعلق کسی خاص قوم، مذہب یا تہذیب سے ہو ایک ہوکر حسین معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔ جس میں ہر انسان کو بنیادی ضروریات بھی میسر ہوں گی اور ذہنی آسودگی بھی۔ اللہ تعالیٰ نے صحابہ رسول رضوان اللہ علیہم کے حسن معاشرت کے متعلق بتا دیا کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنے، نیکی کی طرف بلانے اور منکرات سے روکنے کی تلقین کی وجہ سے وہ بھائی بھائی بن گئے۔
(آل عمران:104-106)
1947ء میں پارٹیشن کے وقت جب قادیان میں مقامات مقدسہ کی حفاظت اور ان کی دیکھ بھال کے لئے چند مخلصین اور قربانی کرنے والوں کی ضرورت محسوس ہوئی تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اس اہم قربانی کرنے والوں کی فہرست میں قصائی، موچی، حلوائی اور دیگر اہم پیشہ والے لوگ بھی شامل فرمائے تا محاصرہ کی صورت میں یہ تمام لوگ ایک جگہ رہ کر معاشرتی زندگی اکٹھے بسر کرسکیں۔
اسلام نے حسن معاشرت کے جو اصول وضع فرمائے وہ یہ ہیں:
1۔اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رکھو۔
2۔اللہ کی نعمتوں کو یاد رکھو۔
3۔نیکی کی باتیں کرو۔
4۔بدی سے رُکنے کی تلقین کرو۔
5۔ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جو الگ الگ ہوگئےاور آپس میں اختلاف کیا۔
6۔ اہل کتاب کی عورتوں سے شادی کرلیں۔
7۔اہل کتاب کے ہاتھ کا پکا ہوا کھالیں۔ (المائدہ:6)
8۔ غیرمسلم شرفاء سے بھی حسن معاشرت کریں۔(الممتحنہ:9)
9۔ آواز دھیمی رکھیں۔(لقمان:20)
10۔لوگوں سے اچھی بات کریں۔ (البقرہ:84)
11۔گفتگو میں عدل سے کام لیں۔ (الانعام:153)
12۔بہترین طریق پر اپنا دفاع کریں۔ (حٰم السجدہ:35)
13۔کسی فرد یا قوم سے استہزاء نہ کریں۔ (الحجرات:12)
14۔کھانے پینے میں میانہ روی اختیار کریں۔ (الاعراف:13)
15۔معاشرہ میں آپس میں تحائف کا تبادلہ کریں۔ (النساء:87)
16۔ اور سب سے بڑھ کر حسن معاشرت کے لئے عبادالرحمٰن بن کر عاجزی سے زمین پر چلیں۔
(الفرقان:64)
ان کے علاوہ قرآن کریم میں رسول خدا ﷺ سے ملاقات کرنے کے آداب، مجالس کے آداب، گھروں میں داخل ہونے کے آداب، چلنے کے آداب اور سفر پر جانے کے آداب وغیرہ وغیرہ کا تذکرہ واضح طور پر ملتا ہے۔ احادیث میں بھی بہت سے آداب کی تشریح و تفصیل ملتی ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’میری تمام جماعت جو اس جگہ حاضر ہیں یا اپنے مقامات میں بودوباش رکھتے ہیں اس وصیت کو توجہ سے سنیں کہ وہ جو اس سلسلہ میں داخل ہو کر میرے ساتھ تعلق ارادت اور مریدی کا رکھتے ہیں اس سے غرض یہ ہے کہ تا وہ نیک چلنی، نیک بختی اور تقوی کے اعلیٰ درجہ تک پہنچ جائیں اور کوئی فساد اور شرارت اور بدچلنی ان کے نزدیک نہ آ سکے۔ وہ پنج وقتہ نماز باجماعت کے پابند ہوں۔ وہ جھوٹ نہ بولیں۔ وہ کسی کو زبان سے ایذا نہ دیں۔ وہ کسی قسم کی بدکاری کے مرتکب نہ ہوں اور کسی شرارت اور ظلم اور فساد اور فتنہ کا خیال بھی دل میں نہ لاویں غرض ہر ایک قسم کے معاصی اور جرائم اور ناکردنی اور ناگفتنی اور تمام نفسانی جذبات اور بیجا حرکات سے مجتنب رہیں اور خدا تعالیٰ کے پاک دل اور بے شر اور غریب مزاج بندے ہو جائیں اور کوئی زہریلا خمیر ان کے وجود میں نہ رہے… اور تمام انسانوں کی ہمدردی ان کا اصول ہو اور خدا تعالیٰ سے ڈریں اور اپنی زبانوں سے اور اپنے ہاتھوں سے اور اپنے دل کے خیالات کو ہر ایک ناپاک اور فساد انگیز طریقوں اور خیانتوں سے بچاویں اور پنچ وقتہ نماز کو نہایت التزام سے قائم رکھیں اور ظلم اور تعدّ ی اور غبن اور رشوت اور اتلافِ حقوق اور بے جا طرفداری سے باز رہیں اور کسی بد صحبت میں نہ بیٹھیں۔‘‘
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس طرف توجہ دلائی ہے کہ اپنے اندر اعلیٰ اخلاق پیدا کرو۔ آپس میں محبت اور پیار سے رہو۔ ایک دوسرے کے حقوق ادا کرو…… اپنے ساتھیوں، اپنے بھائیوں، اپنے ہمسایوں یا اپنے ماحول کے لوگوں کے لئے ان کی غلطیاں تلاش کرنے کے لئے ہر وقت ٹوہ میں نہ لگے رہو …..اس لئے ہر احمدی کا یہ فرض بنتا ہے کہ کسی کے عیب اور غلطیاں تلاش کرنا تو دور کی بات ہے اگر کوئی کسی کی غلطی غیر ارادی طور پر بھی علم میں آجائے تو اس کی ستاری کرنا بھی ضروری ہے… ہمیں واضح حکم ہے کہ جو باتیں معاشرہ میں بگاڑ پیدا کرنے والی ہوں یا بگاڑ پیدا کرنے کا باعث ہو سکتی ہوں ان کی تشہیر نہیں کرنی ان کو پھیلانا نہیں ہے۔ دعا کرو اور ان بُرائیوں سے ایک طرف ہو جاؤ۔ اور اگر کسی سے ہمدردی ہے تو دعا اور ذاتی طور پر سمجھا کر اس بُرائی کو دور کرنے کی کوشش کرنا ہی سب سے بڑا علاج ہے۔‘‘
قرآن کریم کی تلاوت کے آداب
قرآن کریم کی ظاہری و باطنی عزت و تذکرہ کے متعلق قرآن کریم، احادیث اور سنتِ نبویہ کی روشنی میں آداب و امور پیش ہیں۔
قرآن مجید عزت والا کلام ہے۔ اس لئے اسے پاکیزگی کی حالت میں چُھوا اور پڑھا جائے۔ قرآن کریم کی تلاوت کرنے کے لئے ہم پر لازم ہے کہ ہم پاک صاف اور پاک دل ہو کر قرآن کریم کو چھوئیں۔ جنبی، محتلم، حائضہ اور مستحاضہ ہونے کی حالت میں قرآن کریم کو نہ پکڑا جائے۔ قرآن مجید کی تلاوت کرنے سے پہلے تعوّذ پڑھنا چاہئے۔قرآن مجید کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے سے غلطی کا امکان نہیں رہتا۔ ہمیشہ رموز و اوقاف کالحاظ رکھ کر قرآن کریم کی تلاوت کرنی چاہئے۔ آنحضرت ﷺ کی قرأت بالکل واضح ہوتی اور ہر حرف جدا جدا ہوتاتھا۔
(ترمذی شریف)
قرآن کریم کی ہر روز باقاعدگی کے ساتھ تلاوت کرنی چاہئے۔ اس کے پڑھنے کے لئے وقت کی تخصیص نہیں ہوتی۔ جب بھی وقت میسر ہو۔ اس پاک کلام کو پڑھنا چاہئے۔ انسان جب چاہے اور جس وقت چاہے وہ کلام پاک کی تلاوت کر سکتا ہے۔ لیکن فجرکے وقت قرآن کریم پڑھنا ایک مقبول عمل ہے۔قرآن کریم کو اس وقت تک پڑھتے رہنا چاہئے جب تک اس میں دل لگا رہے۔ پس جب طبیعت اکتا جائے تو اٹھ کھڑےہوں۔ قرآن کریم کو خوش الحانی کے ساتھ پڑھنا چاہئے کیونکہ قرآن کریم کی تلاوت دلوں کے زنگ دُور کرتی ہے اور روحانی بیماریوں سے شفا حاصل کرنے میں مدد دیتی ہے۔ قرآن کریم کی آیات میں اتصال اور مناسبت ہے۔ اس لئے قرآن کریم کی تلاوت کرتے وقت ترتیب اور ربط کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔
قرآن مجید کی تلاوت درمیانی آواز میں کرنی چاہئے۔ نہ بہت بلند آواز سے اور نہ بہت ہی آہستہ آواز سے، قرآن کریم کی بلند آواز سے تلاوت کرنے میں بھی اجرو ثواب ہے۔قرآن مجید کی تلاوت خشوع و خضوع کے ساتھ کرنی چاہئے۔قرآن کریم کو ہمیشہ سوز وگداز اور حضور قلب سے پڑھنا چاہئے۔ قرآن مجید کو غور و فکر اور تدبّر کے ساتھ پڑھنا چاہئے تا کہ اس کے معنی اور مطالب سے واقفیت ہو سکے اور اوامرونواہی پر عمل کیا جا سکے۔ قرآن کریم کو قوّالوں اور گویّوں کی طرز پرنہیں پڑھنا چاہئے۔ آنحضرت ﷺ نے اسے ناپسند فرمایا ہے۔آپؐ فرماتے ہیں۔ تم عربوں کے طریق اور ان کے لحن اور لہجہ پر قرآن کریم پڑھا کرو اور ان کی آوازوں کو اختیار کرو۔
(مشکوٰۃ : جلد2)
قرآن مجید کی تلاوت کے وقت خاموش رہنا چاہئے اور پوری توجہ اور انہماک کے ساتھ قرآن مجید سننا چاہئے تاکہ خدا تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں سے حصہ حاصل کیا جا سکے۔ قرآن مجید کو اس یقین کے ساتھ پڑھنا چاہئے کہ اس کے اندر معارف اور علوم کے غیر محدود خزانے ہیں اور یہ’’شِفَاءٌ لِمَا فِی الصُّدُوْر‘‘ کا مصداق ہے اور فتنوں سے بچنے کا ایک بھاری ذریعہ ہے۔قرآن کریم کی تلاوت کرتے وقت اگر سجدے کی آیات آجائیں تو خواہ انسان کھڑا ہو یا بیٹھا اسے سجدہ تلاوت بجا لانا چاہئے۔بامرمجبوری بعد میں بھی سجدہ کیا جا سکتا ہے۔
قرآن کریم کی تعلیم پرعمل کرنا چاہئے تاکہ ہم حاملین قرآن بن کر خدا تعالیٰ کے مقرب شمار کئے جا سکیں۔ قرآن کریم پڑھ کر، سیکھ کر یا حفظ کر کے بھلانا نہیں چاہئے۔ تلاوت کرتے وقت جہاں عذاب کا ذکر ہو وہاں یہ دعا کرنی چاہئے۔اَللّٰھُمَّ لَا تُعَذِّبْنَا۔ اےاللہ! ہم کو عذاب میں مبتلا نہ کر اورجہاں جنت کا ذکر ہو تو دعاکریں۔ اَللّٰھُمَّ اَدْخِلْنَا فِی رَحْمَتِکَ اے اللہ! ہم کو اپنی رحمت میں داخل فرما۔
قرآن کریم پڑھانے کا معاوضہ طلب نہ کیا جائے۔ حضور ﷺ فرمایا کرتے تھے۔ وَلَاتُعْجِلُوْاثَوَابَہٗ اس کا بدلہ (دنیا میں) طلب نہ کرو۔ کیونکہ آخرت میں اس کے لئے بڑا اجر ہے۔قرآن کریم کو عزت و احترام کے ساتھ بلند جگہ پر رکھنا چاہئے تا کہ آتے جاتے اس کی طرف پشت نہ ہو۔ رکوع اور سجود میں قرآنی آیات کی تلاوت نہیں کرنی چاہئے بلکہ عبودیت کے رنگ میں رنگین ہو کر اپنی زبان میں دعائیں کرنی چاہئیں۔ سجدہ اور رکوع فروتنی کا وقت ہے اور قرآن کریم بزرگ و برتر اور خدائے ذوالجلال والاکرام کا کلام ہے اور خدا تعالیٰ کا کلام عظمت کا تقاضا کرتا ہے۔ اس لئے قرآن نماز میں ہمیشہ کھڑے ہو کر پڑھا جاتا ہے اور رکوع اور سجدہ انتہائی تذلل کا مقام ہے۔
قبروں پر بیٹھ کر قرآن مجید کی تلاوت نہیں کرنی چاہئے اور احادیث سے بھی یہ بات ثابت نہیں کہ کبھی صحابہؓ نے حضور اکرم ﷺ کی قبر پر بیٹھ کر قرآن مجید پڑھا ہو۔ میت کے لئے صف بچھا کر اور بیٹھ کر قرآن کریم نہیں پڑھنا چاہئے۔ کیونکہ یہ طریق آنحضرتﷺ اور صحابہؓ سے ثابت نہیں۔یہ بدعت اور رسم ہے اور نہ ہی روٹیوں پر قرآن کریم کی تلاوت کرنی چاہئے۔ یہ سب بدعت کے دروازے ہیں۔ قرآن کریم کو ایک رات یا دو تین راتوں میں ختم نہیں کرنا چاہئے کیونکہ یہ طریق آنحضرت ﷺ سے ثابت نہیں ہے۔ آپؐ نے کبھی اس طریق سے قرآن مجید ختم نہیں کیا۔ بلکہ چھوٹی چھوٹی سورتوں پر آپؐ نے اکتفا کیا۔ہفتہ بھر میں قرآن کریم مکمل پڑھنا اور اس کا دور ختم کرنا مسنون ہے۔