• 11 دسمبر, 2024

خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ 24؍ فروری 2023ء

خلاصہ خطبہ جمعہ

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 24؍ فروری 2023ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آبادٹلفورڈ یو کے

مَیں پاکستان کے احمدیوں کے لئے دعا کے لئے کہنا چاہتا ہوں،دعا کریں الله تعالیٰ اُن پر جو سخت حالات ہیں وہاں آسانیاں پیدا کرے اور انصاف کرنے والوں، قانون نافذ کرنے والوں اور خدا اور اُس کے رسولؐ کے نام پر ظلم کرنے والوں کو الله تعالیٰ عقل دے یا اُن پر پکڑ کے سامان کرے۔ دوسرے برکینا فاسو کے لئے بھی دعا کریں وہاں بھی سختیاں ہیں ابھی اور جو دہشت گرد ہیں، شدت پسند ہیں اُن کے وہی عمل ہیں، الله اور رسولؐ کے نام پر ظلم کر رہے ہیں۔ پھر الجزائر کے لوگوں کے لئے بھی وہاں بھی بعض حکومتی کارندے یا عدالتیں جو ہیں غلط قسم کے ظلم روا رکھ رہی ہیں احمدیوں سے۔ الله تعالیٰ سب کو اپنی حفاظت میں رکھے، خاص طور پر دعاؤں اور صدقات پر بہت زیادہ زور دیں، الله تعالیٰ مخالفین کے شر سے ہر ایک کو بچائے

حضور انور ایدہ الله نے تشہد، تعوذ نیز سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد ارشاد فرمایا!بدری صحابہؓ جن کا ذکر پہلے ہو چکا ہے، اِن کے حوالہ سے بعض باتوں کا ذکر رہ گیا تھا جو مَیں بیان کر رہا تھا، اِس حوالہ سے آج بھی بیان کروں گا۔ جس کے بعد بدری صحابہؓ کے بارہ میں یہ سلسلہ جو مَیں بیان کرنا چاہتا تھا وہ ختم ہو جائے گا، بعد ازاں اِسی تسلسل میں 9 بدری اصحابؓ کا مزید تذکرۂ خیر ہوا۔

حضرت عامرؓ بن ربیعہ

والد کا نام ربیعہ بن کعب بن مالک بن ربیعہ تھا اور آپؓ سے بعض روایات بھی ملتی ہیں نیز آپؓ کی وفات کے بارہ میں اختلاف پایا جاتا ہے۔

مجھے اپنے جنازوں کے لئے بلایا کرو

عبداللهؓ بن عامرؓ اپنے والدحضرت عامرؓ بن ربیعہ سے روایت کرتے ہیں: ایک مرتبہ رسول اللهؐ ایک قبر کے پاس سے گزرے تو آپؐ نے استفسار فرمایا! یہ کس کی قبر ہے؟ لوگوں نے جواب دیا کہ فلاں عورت کی قبر ہے۔ آپؐ نے فرمایا! تم نے کیوں مجھے اطلاع نہیں دی؟ لوگوں نے عرض کیا: آپؐ سو رہے تھے، ہم نے مناسب نہ سمجھا کہ آپؐ کو جگائیں، اِس پر آپؐ نے فرمایا! ایسا نہ کرو، مجھے اپنے جنازوں کے لئے بلایا کرو۔ پھر آپؐ نے وہاں صفیں بنوائیں اور اُس کی نماز جنازہ ادا کی۔


معمولی سا حق مہر مقرر کیا تو وہ بھی جائز ہے

عبداللهؓ بن عامر ؓاپنے والد سے روایت کرتے ہیں: رسول اللهؐ کے زمانہ میں ایک شخص نے بنو فزارہ کی ایک عورت سے دو جوتے حق مہر پر نکاح کر لیا، آنحضورؐ نے اِس نکاح کو جائز قرار دیا۔

سفر میں جدھر بھی سواری کا منہ ہو اُسی طرف نماز پڑھنا جائز ہے

عبداللهؓ بن عامرؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں: اُنہوں نے رسول اللهؐ کو دیکھا کہ آپؐ نے سفر میں اپنی اونٹنی کی پیٹھ پر رات کو نفل پڑھے، آپؐ اُسی طرف منہ کئے ہوئے تھے جس طرف اونٹنی آپؐ کو لئے جا رہی تھی۔

پس اب تمہاری مرضی ہے کہ مجھ پر کم درود بھیجو یا زیادہ

حضرت عامرؓ بن ربیعہ بیان کرتے ہیں: رسول الله ؐ نے فرمایا! جو مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے، الله اُس پر دس مرتبہ سلامتی بھیجتا ہے، پس اب تمہاری مرضی ہے کہ مجھ پر کم درود بھیجو یا زیادہ درود بھیجو۔بمطابق ایک دوسری روایت آپؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللهؐ نے فرمایا! جو کوئی بندہ مجھ پر سلامتی کی دعا کرتا ہے تو جب تک وہ اِسی حالت میں ہوتا ہے فرشتے اُس پر سلامتی کی دعا کرتے ہیں، پس بندہ کے اختیار میں ہے چاہے تو زیادہ مرتبہ سلامتی کی دعا کرے اور چاہے تو کم۔

حضرت حَرَامؓ بن مِلْحَان (اِن کی نسل آگے نہیں چلی)

حضرت المصلح الموعودؓ واقعۂ شہادت حفّاظ کو بیان کرتے ہوئے صحابہ کی قربانیوں کے جذبہ کے حوالہ سے فرماتے ہیں: صحابہؓ کے کثرت کے ساتھ اِس قسم کے واقعات تاریخوں میں ملتے ہیں کہ اُنہوں نے خدا کی راہ میں مارے جانے کو ہی اپنے لئے عین راحت محسوس کیا، مثلًا وہ حفاظ جو رسول کریمؐ نے وسط عرب کے ایک قبیلہ کی طرف تبلیغ کے لئے بھیجے تھے اُن میں سے حرام بن ملحان اسلام کا پیغام لیکر قبیلۂ عامر کے رئیس عامر بن طفیل کے پاس گئے اور باقی صحابہؓ پیچھے رہے، شروع میں تو عامر بن طفیل اور اُس کے ساتھیوں نے منافقانہ طور پر اِن کی آؤ بھگت کی لیکن جب وہ مطمئن ہو کر بیٹھ گئے اور تبلیغ کرنے لگے تو اُن میں سے بعض شریروں نے ایک خبیث کو اشارہ کیا اور اُس نے اشارہ پاتے ہی حرام بن ملحان پر پیچھے سے نیزہ کا وار کیا اور وہ گرگئے۔ گرتے ہی اُن کی زبان سے بے ساختہ نکلا کہ اَللّٰہُ اَکْبَرُ فُزْتُ وَ رَبِّ الْکَعْبَۃِ یعنی مجھے کعبہ کے ربّ کی قسم! مَیں نجات پا گیا۔ پھر اِن شریروں نے باقی صحابہ کا محاصرہ کیا اور اُن پر حملہ آور ہو گئے، اِس موقع پر حضرت ابو بکر ؓ کے آزاد کردہ غلام عامرؓ بن فُہَیرہ جو ہجرت کے سفر میں رسول کریم ؐ کے ساتھ تھے اُن کے متعلق ذکرآتا ہے بلکہ خود اُن کا قاتل جو بعد میں مسلمان ہو گیا تھا وہ اپنے مسلمان ہونے کی وجہ ہی یہ بیان کرتا تھا کہ جب مَیں نے اُن کو شہید کیا تو اُن کے منہ سے بے ساختہ نکلا فُزْتُ وَاللّٰہِ یعنی خدا کی قسم! مَیں تو اپنی مراد کو پہنچ گیا ہوں۔ یہ واقعات بتاتے ہیں کہ صحابہؓ کے لئے موت بجائے رنج کے خوشی کا موجب ہوتی تھی۔

حضرت ابو الْہَیْثَمْ ؓبن التَّیِّھَان

اِن کے بھائی کا نام حضرت عُبَیدؓ یا حضرت عتیقؓ بن التیھان تھا جو غزوۂ اُحد میں شریک ہوئے تھے۔ رسول اللهؐ نے حضرت ابو الہیثمؓ اور حضرت اُسَیْد ؓ بن حُضَیْر کو قبیلہ بنی عبد الاشہل پر نقیب مقرر فرمایا تھا۔ جنگ میں دو تلواریں لٹکانے کی وجہ سے آپؓ کو ذو السیفین بھی کہا جاتا ہے، حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے لکھا ہے کہ جنگ صَفِیْن میں حضرت علیؓ کی طرف سے ہو کر لڑے اور شہادت پائی۔

حضرت عاصمؓ بن ثابت

جنگ اُحد میں اُن لوگوں کے بارہ میں جو آنحضرتؐ کے قریب تھےایک آیت کی تشریح میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے بھی بیان کیا: حضرت امام الرازیؒ بعض چودہ آدمیوں کے متعلق قطعٔی شہادت پیش کرتے ہیں کہ نام بنام وہ لوگ موجود تھے اور اُنہوں نے آپؐ کا ساتھ کسی حالت میں نہیں چھوڑا، اِن میں انصار میں سے حضرت عاصمؓ بن ثابت بھی تھے۔

حضرت سَہلؓ بن حُنَیف انصاری

حضرت ابن عبّاس رضی الله عنہما سے مروی ہے کہ جنگ بدر کے موقع پر نبی کریمؐ کے ہمراہ ایک سو اونٹ اور اونٹنیاں اور دو گھوڑے تھے، اُن میں سے ایک پر حضرت مِقْدادؓ بن اَسْوَد سوار تھے اور دوسرے پر حضرت مُصْعَبؓ بن عُمیر اور حضرت سہلؓ بن حنیف تھے۔اُحد میں آنحضرتؐ کے قریب رہنے والوں میں آپؓ کا بھی ذکر ملتا ہے۔ عُمیرؓ بن سعید سے مروی ہے: حضرت علیؓ نے آپؓ کی نماز جنازہ پڑھی اور اُس پر پانچ تکبیریں کہیں، لوگوں نے کہا کہ یہ کیسی تکبیر ہے؟ آپؓ نے فرمایا! یہ سہل بن حنیف ہیں، جو اہل بدر میں سے ہیں اور اہل بدر کو غیر اہل بدر پر فضیلت ہے، مَیں نے چاہا کہ تمہیں اِن کی فضیلت سےآگاہ کر دوں۔

حضرت جبّارؓ بن صخر

رسول اللهؐ نے حضرت علیؓ کو ڈیڑھ سو افراد کے ہمراہ بنو طَے کے بُت فلس کو گرانے کے لئے روانہ فرمایا، اِس سریّہ میں لواء حضرت جبارؓ بن صخر کے پاس تھا نیزحضرت علیؓ کے اپنے ساتھیوں سے رائے مانگنے پر آپؓ نے کہا! رات ہم اپنی سواریوں پر سفر کرتے ہوئے گزاریں اور صبح ہوتے ہی اُن پر حملہ کر دیں، حضرت علیؓ کو آپؓ کی یہ بات پسند آئی۔

حضرت عُمَیرؓ بن ابی وَقّاص

روایت میں ہے کہ آپؓ کو عَمرو بن عبد وُدّ جبکہ بمطابق ایک دوسری روایت عاصم بن سعید نے شہید کیا تھا۔

حضرت قُطبہؓ بن عامر

صفر 9؍ ہجری میں رسول اللهؐ نے آپؓ کو بیس آدمیوں کے ہمراہ قبیلہ خثعم کی ایک شاخ کی طرف بھیجا جوتبالہ کے نواح میں تھے، آپؐ نے اُنہیں حکم دیا کہ وہ ایک دَم سے اِن پر حملہ کریں، یہ اصحابؓ دس اونٹوں پر سوار ہو کر روانہ ہوئے جنہیں باری باری استعمال کرتے۔۔۔قبیلہ والوں کے سونے پر بھرپور حملہ کے نتیجہ میں شدید لڑائی ہوئی اور دونوں فریقوں میں سے کئی افراد زخمی ہو گئے، آپؓ نے کئی لوگوں کو قتل کیا اور پھر اُن کے چوپائے، بکریاں اور عورتیں مدینہ لے آئے، خُمس نکالنے کے بعد ہر ایک کے حصہ میں چار، چار اونٹ آئے اورتب ایک اونٹ دس بکریوں کے برابر ہوتا تھا۔ امام بغویؒ کہتے ہیں کہ آپؓ سے کوئی حدیث مروی نہیں ہے۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ

خطبۂ ثانیہ سے قبل حضور انور ایدہ الله نے چوہدری بشارت احمد صاحب گوٹریالہ ضلع گجرات کے بیٹے مکرم محمد رشید صاحب شہید جنہیں دو معاندین احمدیت نے اِن کے گھر، جہاںوہ اکیلے رہائش پذیر تھےاور علاقہ کے لوگوں کی سہولت کے لئے فری ہومیو پیتھک ڈسپنسری بنا رکھی تھی جس سے گاؤں اور اردگرد کے لوگ استفادہ کرتے، دوائی لینے کے بہانہ داخل ہو کرمؤرخہ 19؍ فروری کو فائرنگ کر کے شہید کر دیا، بوقت شہادت عمر ستّر سال سے زائد تھی، اِسی طرح مؤرخہ 6؍ فروری کو ترکی میں دو بڑے آنے والے زلزلوں میں اسکندرون سے تعلق رکھنے اور ملبہ کے نیچے دب کر وفات پانے والے دو احمدی ماں، بیٹا تئیس سالہ مکرمہ امانی بسلام اجلاوی صاحبہ اور تین سالہ عزیزم صلاح الدین عبدالمعین کتیش، مزید برآں مؤرخہ 15؍ فروری کو بعمر ترپن سال بوجہ ہارٹ اٹیک وفات پانے والے موصی مکرم مقصود احمد منیب صاحب؍ مربّیٔ سلسلہ کا تفصیلی تذکرۂ خیر کیا نیز بعد از نماز جمعۃ المبارک اوّل الذکر شہید اور مؤخر الذکر مرحومین کی نماز جنازہ غائب پڑھانے کا بھی اعلان فرمایا۔

(قمر احمد ظفر۔ نمائندہ الفضل آن لائن جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 فروری 2023

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی