• 19 اپریل, 2024

جماعت احمدیہ سیرالیون کا اپنے ملک کے سماجی، سیاسی اور حکومتی حلقوں میں اثر و رسوخ

افریقن زمین اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور معدنیات سے مالامال رہی ہے۔ اسی وجہ سے یورپین اقوام نے افریقن اقوام کو ہمیشہ محکوم رکھا۔ ان کے مالامال اثاثوں سے فائدہ اُٹھاتے رہے۔ تعلیم سے ناآشنا رکھا اور غلامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کر دئیے گئے۔

آج سےقریباً سو سال قبل جب جماعت احمدیہ افریقہ میں اسلامی تعلیم کا عَلم لے کر ان کے دلوں کو فتح کرنے کے لئے داخل ہوئی۔ تو جماعت کو کوئی مادی یا مالی فائدہ اُٹھانا تو نہ تھا بلکہ اللہ تعالیٰ کا نام بلند کرنے، تعلیمات قرآنیہ کا پرچار کرنے اور سیدنا حضرت محمدمصطفیٰ ﷺ کی احادیث اور تشریحات کو پھیلانا مقصد اولیٰ تھا۔

افریقہ میں احمدیت کاآغاز سیرالیون سے ہوا جب حضرت مولانا عبد الرحیم نیّر گولڈ کوسٹ (غانا) جاتے ہوئے سیرالیون پورٹ پر اُترے اور دو دن قیام فرماکر احمدیت کا پیغام دے گئے اور آغاز میں ہی ایک افریقن دوست نے احمدیت قبول کر لی۔ اوائل میں ہی جماعت احمدیہ کو شدید مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔اسلام احمدیت قبول کرنے پر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں۔ لوکل انتظامیہ کی طرف سے جرمانے بھی ہوتے رہے اور تبلیغ میں کئی رکا وٹیں کھڑی کی گئیں۔ مگر جماعت احمدیہ کا پیغام محبت اور پیار ایک پھول کی خوشبو کی مانند تھاجو آہستہ آہستہ بڑھنے اور پھیلنے لگا۔ کون دیوار کھڑی کر کے اس خوشبو کو پھیلنے سے روک سکتا تھا؟ افریقن دلوں میں نوراللہ کی لَو لگی تو یہ روحانی آگ پھیلتی ہی گئی۔ مساجد کا قیام ہونے لگا۔ قرآن کریم پڑھانے اور سکھلانے کے لئے کلاسیں لگنے لگیں۔مادی تعلیم سے بچوں کو آراستہ کرنے کے لئے احمدیہ مسلم پرائمری و سیکنڈری اسکولز کی تعمیر کا سلسلہ شروع ہوا۔ صحت کے لئے ہسپتال کا قیام ہوا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے نصرت جہاں اسکیم کا اعلان فرما کر اس کام کو چار چاند لگا دئیے۔ بیرون افریقہ سے مبلغین کرام کے آنے کے سلسلہ کا تو آغاز حضرت مصلح موعودؓ کے دورسے ہو چکا تھا۔ تاہم ٹیچرز، ڈاکٹرز صاحبان نے اس مبارک اسکیم کے تحت وقف کر کے خدمات بجا لانے کی شروعات کردیں اور اب تک سینکڑوں کی تعداد میں مبلغین، ٹیچرز اور ڈاکٹرز صاحبان سیرالیون کو serve کر چکے ہیں اوریہ فرض ادا کررہے ہیں۔ صرف سیرالیون میں 300 سے زائد احمدیہ مسلم پرائمری اور سیکنڈری اسکولز قائم ہیں۔ جگہ جگہ ان اسکولز کی خوبصورت عالیشان عمارتیں نظر آتی ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں ٹیچرز جہاد میں مصروف ہیں۔ ملک بھر میں تین ہسپتال ہیں جہاں طبّی خدمات بجا لائی جاتی ہیں۔ یہ تعداد دسیوں میں تھی ۔Rabbels کی وجہ سے احمدیہ ہسپتالوں کی کئی عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن گئیں۔اللہ کا نام بلند کرنے کے لئے ملک بھر میں 1400 سے زائد مساجد تعمیر ہو چکی ہیں۔ ان میں سے بعض بہت عالیشان اور خوبصورت ہیں۔ کوشش ہے کہ ہر مسجد کے ساتھ مشن ہاؤس بھی ہو جہاں مرکزی یا لوکل مشنری قیام رکھ کر ان مساجد کو قرآنی و علمی درسگاہوں میں تبدیل کریں۔ اس وقت 25 مرکزی اور 98 لوکل مبلغین جہاد میں مصروف ہیں اور 52 کے قریب جامعہ احمدیہ میں زیرِتعلیم ہیں۔ ملک کے اندر اگر آپ نیشنل ہائی وے یا کسی بڑی سڑک سے گزر رہے ہیں توہر 9-10 میل کے بعد آپ کو سڑک کے کنارے احمدیہ مسلم مسجد یا احمدیہ مسلم پرائمری اسکول یا احمدیہ مسلم مشن کا بورڈ نظر آئے گا۔ اگر مسجد ہوگی تو میناروں کا ایک خاص اسٹائل ہے جو بالعموم برصغیر میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ جن کی تیاری ناصر احمد آرکٹیکٹ نے کروانی شروع کی اور آپ نے بہت محنت کے بعد ایک افریقن معمار ابو بکر کمارا کو اس خاص قسم کے اسٹائل کے مینارے تیار کروانا شروع کر دئیے۔ اس خاص اسٹائل کے مینارے والی مسجد آپ کو ملک بھر میں کسی جگہ بھی نظر آجائے تو وہ احمدیہ مسلم مسجد ہو گی۔

گزشتہ دنوں 57 ویں جلسہ سالانہ کے انعقاد کے بعد مکرم سعید الرحمٰن امیر جماعت احمدیہ غانا کے سفیر کو ملنے غانین ایمبیسی تشریف لے گئے۔ وہ بیرون ملک ہونے کی وجہ سے جلسہ سالانہ میں شامل نہ ہو سکے تھے۔ مگر انہوں نے امیر صاحب کو بتلایا کہ میں بیرون ملک ہونے کی وجہ سے میڈیا کے ذریعہ آپ کے جلسہ میں شامل تھا۔ میں نے افتتاحی تقریب میں وائس پریذیڈنٹ کا خطاب سنا تھا۔ آپ نے امیر صاحب سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گو میں سیرالیون میں نیا appoint ہوکر آیا ہوں۔ لیکن میں نے سارے ملک کا سروے کیا ہے۔ ہر جگہ احمدیہ، احمدیہ لکھا نظر آتا ہے۔

ایسے مقامات جہاں ابتدائی دنوں میں ہی جماعت احمدیہ کا قیام عمل میں آیا اور سالہاسال تک صرف ایک ہی مسجد رہی اب وہاں بفضلہٖ تعالیٰ دسیوں مسجدیں بن چکی ہیں۔ جیسے سیرالیوں کے ہیڈکوارٹر فری ٹاؤں میں 38 خوبصورت مساجد موجود ہیں۔ ساؤتھرون پراونس کے ہیڈ کوارٹر Bo میں 8، ایسٹرن پراونس کے ہیڈ کوارٹر کینمیا میں 5 اور ناتھرن پراونس کے ہیڈ کوارٹر مکینی میں 10 مساجد تعمیر ہو چکی ہیں۔ الحمدللہ علیٰ ذالک

•سیرالیون کی سیاسی تاریخ میں ملک کا سربراہ صدر مملکت کہلاتا ہے جو عیسائی بنتے رہےہیں۔ جب ایک مسلمان آنریبل احمد تیحان کابا صدر کے عہدہ پر منتخب ہو کر آئے تو جماعت احمدیہ کے امیر و مشنری انچارج مکرم سعید الرحمٰن ان کو مبارکباد دینے پریذیڈنسی ہاؤس تشریف لے گئے۔یہ جمعہ کا روز تھا۔ جب نماز جمعہ کا وقت قریب آنے لگا تو امیر صاحب نے صدر مملکت سےیہ کہہ کر اجازت چاہی کہ میں چیف امام ہوں میں نے خطبہ دینا ہے۔ صدر مملکت بولے۔ مجھے کون جمعہ پڑھائے گا؟ میں بھی تو سیاسی چیف ہوں۔ آپ مجھے یہاں جمعہ پڑھایا کریں۔ چنانچہ امیر صاحب نے چار جمعے لگاتار صدارتی محل میں پڑھائے۔ تب مکرم امیر صاحب نے ایک بار پھر اجازت کےطلبگار ہوئے کہ مجھے اپنے احمدیوں سے بھی ملنا ہوتا ہے اور جمعہ کا دن اس کے بہترین دن ہے۔ تب صدر مملکت نے اس شرط کے ساتھ اجازت دی کہ مہینہ میں ایک جمعہ صدارتی محل میں پڑھائیں۔

امیر صاحب نے مجھے بتلایا ایک دفعہ صدارتی محل میں کیبینٹ اجلاس میں کوئی پروگرام تشکیل دینا زیر بحث تھا۔ بعض نے فروری کی رائے دی کہ اس مہینہ کر لیا جائے تو بعض وزراء نے یہ کہہ کر اس کی مخالفت کی کہ یہ تو احمدیوں کا مہینہ ہے۔ اس ماہ تووہ اپنا جشن یعنی جلسہ سالانہ مناتے ہیں۔

•جلسہ سالانہ 2020ء کے معاً بعد کینیڈا سے ایک مربی مکرم طاہر محمود سیرالیون تشریف لائے۔ انہوں نے بتایا کہ میں جب سیرالیون پہنچا تو میں جب clear کروانے ویزہ آفیسر کے کیبن پر آیا تو وہاں ایک خاتون مسافروں کو deal کر رہی تھی۔ میرے سے اس نےبھی کچھ سوالات کئے۔ میں نے اسے کہا کہ

I am Ahmadiyya Muslim Missionary, just to visit Jamaat in Sierra Leone

یہ الفاظ سننے پر اس آفیسر نے کلیرنس کی مہر لگا کر پاسپورٹ اپنے ہاتھ میں پکڑا۔ کھڑے ہو کر لائن میں لگے مسافروںسے مخاطب ہو کر کہا please go to other cabin اور مجھے ساتھ لے کر باہر نکلی اور luggage belt پر مجھے لے گئی۔ سامان کی نشان دہی پر اس خاتون نے سامان بیلٹ سے خود اُتار کر ٹرالی پر رکھا اور ائیرپورٹ کے باہر آکر ہاتھ wave کیا اور یہ کہہ کر اندر چلی گئی۔

Thanks Ahmadiyya, Ahmadiyya has given us too much

سیرالیون لنگی ائیر پورٹ پر land کرنے کے بعد فری ٹاؤن جانے کے لئے فیری پر سمندر عبور کرنا پڑتا ہے۔

خاکسار جلسہ سے دوروز قبل پہنچا۔ خاکسار جب فیری کے ذریعہ سمندر کو عبور کر رہا تھا کہ فیری پر اعلانات کے دوران اچانک جماعت احمدیہ کے جلسہ سالانہ کی announcement شروع ہو گئی اور مسافروں کو جلسہ میں شمولیت کی دعوت دی جا رہی تھی۔فیری پر سمندر عبور کرتے وقت جماعت احمدیہ سے متعلق اعلانات سُننا اپنائیت کے ساتھ ساتھ عجیب مسحورکُن ماحول کی عکاسی کر رہا تھا۔

•ایک دفعہ محترم امیر صاحب کے سیکرٹری نے سیر الیون براڈکاسٹنگ کے چیئرمین کو ملنے کا پیغام بھجوایا کہ امیر صاحب ملنے کیلئے آنا چاہتے ہیں۔ اس نے جواباً کہا کہ ان کومیرے پاس آنے کی ضرورت نہیں He is my papa میں خود ملنے کے آؤں گا۔

•جماعت کی ہر گاڑی پر احمدیہ مسلم جماعت لکھا ہوا ہے۔ جس جگہ سے بھی وہ گاڑی گزرتی ہے۔ اُسے عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ نیشنل ہائی ویز اور بعض دوسری بڑی سڑکوں پر چیکنگ کی غرض سے پولیس نے بیرئیر لگارکھے ہیں۔ مگر جب احمدیہ مسلم مشن کی گاڑی آتی ہے تو بغیر تفتیش کے بیرئیر اُٹھا دیا جاتا ہے اور کم و بیش اس پوسٹ پر بیٹھا ہر پولیس مین اُٹھ کر سیلوٹ کرتے ہوئے الفاظ بولتا ہے ۔

احمدیہ ’’السلام علیکم‘‘

•جلسہ سالانہ کے دنو ں میں بعض پرائیویٹ اورپبلک ٹرانسپورٹ پر جلسہ سالانہ کے بینر لگے تھے اور بغیر کسی روک کے ان کو جانے دیا جا رہا تھا۔ ایک وقت تھا ہم پیراماؤنٹ چیفس سے رابطے کرتے تھےکہ احمدیت کا پیغام پہنچانے کے لئے اجازت دی جائے۔ اب پیراماؤنٹ چیفس خود جماعت کو پیغام بھجواتے نظر آتے ہیں کہ میری چیفڈم میں آ کر پیغام بھی دیں اور مسجد اور اسکولز بھی بنائیں۔

• ابھی تو ملٹی نیشنل کمپنیوں کے پیغامات موصول ہونے شروع ہو گئے جن پر غور ہو رہا ہے کہ آپ اپنے اشتہارات ٹی وی، ریڈیو، اخبارات میں دیں اور سڑکوں پر بھی لگائیں۔ ہم سپانسر کریں گے۔

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 مارچ 2020

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ