• 26 اپریل, 2024

پہلے تولو پھر بولو

معروف صوفی شاعر مولانا جلال الدین رومی المعروف مولانا روم فرمایا کرتے تھے کہ ہر آدمی کو کچھ کہنے سے قبل اپنے ما فی الضمیر کو تین دروازوں سے گزارنا چاہیئے۔ پہلا دروازہ سچ کا دروازہ ہے جو بولنے لگے ہو وہ سچ بھی ہے یا نہیں۔ دوسرا دروازہ اہمیّت کا دروازہ ہے۔ یعنی جو کہنے جا رہے ہو وہ اہم بات ہے۔ کہیں اول فول تو نہیں۔ تیسرا دروازہ اور آخری دروازہ مہربانی کا دروازہ ہے۔ جو کلام آپ سے متوقع ہے وہ نرم الفاظ پر مشتمل ہے اور لہجہ بھی نرم ہے یا نہیں۔

گویا کہ زبان پر الفاظ آنے سے قبل انسان کے دماغ اور دل کا بھی عمل دخل ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ زبان انسان کو پیدائش کے ساتھ ہی عطا کر دیتا ہے ۔ لیکن بچہ جب توتلی زبان میں بولنے کے قابل ہوتا ہے تو اس کی حفاظت کے لئے اللہ تعالیٰ دودھیا دانت (Milk teeth) عطا کرتا ہے اور بچہ پھر جب سچ اور جھوٹ ، نیکی اور بدی ، اور اچھائی و برائی میں ذرا تمیز کرنے لگتا ہے تو اس کے اصل دانت آنے لگتے ہیں جو زبان کو کنٹرول کرتے ہیں۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ الفاظ چابیوں کی مانند ہوتے ہیں۔ ان کا صحیح چناؤ کئی دلوں کو کھول دیتا ہے۔ اور کئی زبانوں کو بند کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ والدین اور عزیز و اقارب سے حسنِ سلوک کے تعلق میں فرماتا ہے: وَقُوۡلُوۡا لِلنَّاسِ حُسۡنًا (البقرہ: 84) کہ لوگوں سے عمدہ اور اچھی بات کہو۔ آنحضور ﷺ نے فرمایا ہے : البلاءُ مُوَكَّلٌ بالمَنْطِقِ۔ کہ بلا اور مصیبت بغیر سوچے سمجھے کہی بات پر موقوف ہے۔

اللہ تعالیٰ نے ایک اور جگہ فرمایا کہ۔ قَوۡلٌ مَّعۡرُوۡفٌ وَّ مَغۡفِرَۃٌ خَیۡرٌ مِّنۡ صَدَقَۃٍ یَّتۡبَعُہَاۤ اَذًی (البقرہ:264) اچھی بات کہنا اور قصورمعاف کر دینا زیادہ بہتر ہے ایسے صدقہ سے کہ کوئی ایذا رسانی اُس کے پیچھے آ رہی ہو۔ اس آیت میں کمال حکمت سے جہاں اچھی بات کو صدقہ قرار دیا وہاں بُری بات کو ایذا رسانی قرار دیا جو صدقہ کے ثواب کو ختم کر دیتی ہے۔ اسی لئے تو آنحضور ﷺ نے فرمایا ہے: الْـکَلِمَۃُ الطَّیِّبَۃُ صَدَقَۃٌ (بخاری) کہ اچھی بات (اچھے الفاظ) صدقہ ہیں۔ آنحضور ﷺ نے تو حکمت کی بات کو مومن کی گمشدہ شئے قرار دیا ہے اسے وہ جہاں بھی ملے، لے لیا جائے۔

مختلف کتب میں کسی کی شخصیّت کو جانچنے کے مختلف طریق درج ہیں جیسے کسی نے کہا کہ اگر کسی انسان کا بڑا پن دیکھنا ہو تو ڈائیننگ ٹیبل پر اسے پرکھو۔ اسی طرح لکھا ہے کہ انسان کی شخصیّت اس کے بول سے جانی پہچانی جاتی ہے۔ اس لئے انسان کو کچھ بولنے سے قبل سوچنا چاہئے۔ اسی لئے کہتے ہیں پہلے سوچو پھر بولو۔ بلکہ صُوفیا کے متعلق لکھا ہے کہ ان کی تین خوبیاں نمایاں ہوتی ہیں۔ وہ کم کھاتے ہیں، وہ کم سوتے ہیں ، اور وہ کم بولتے ہیں۔

انٹر نیشنل نصاب وقفِ نو پارٹ ٹو کے صفحہ 114 پر قرآن کریم کی آیت وَ قُوۡلُوۡا لِلنَّاسِ حُسۡنًا (البقرہ: 84) کے تحت بعض بولنے کے آداب درج ہیں۔ جو چھوٹوں اور بڑوں کے لئے یکساں طور پرسانجھے ہیں اور وہ یہ ہیں:

دورانِ گفتگو انسان سچ پر قائم ہو اور Straightforward ہو ۔

گفتگو کو بڑھا چڑھا کر بیان نہ کرے۔

غیر معیاری گفتگو سے بچے۔

گفتگو سچائی پر مبنی ہو۔ حدیث میں ہے نیکی صدقہ ہے۔ جو آگ سے انسان کو محفوظ رکھتی ہے۔

چغلی اورغیبت سے بچے۔

کسی کو دِل دکھانے والی بات نہ کہے۔

بات کرتے وقت غصّہ میں نہ ہو۔

سنی سنائی بات (hearsay) کو آگے بیان نہ کرے۔

بولنے سے پہلے سوچے۔

صاف ستھری اور نیکی کی بات جنت کا وارث بنا دیتی ہے

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے ہر کلام اور بات کو اسلامی اصولوں کے مطابق کرنے اور بنانے کی توفیق دے۔ آمین

٭…٭…٭

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 مارچ 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 مارچ 2021