• 26 اپریل, 2024

تقویٰ اور خدا تعالیٰ کا قرب

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔

’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
قرآنِ شریف میں تمام احکام کی نسبت تقویٰ اور پرہیز گاری کے لئے بڑی تاکید ہے۔‘‘

(ایام الصلح روحانی خزائن جلد14 صفحہ342)

پس یہ تقویٰ ہی وہ بنیادی چیز ہے جو خدا تعالیٰ کا قرب دلاتی ہے۔ اس آیت میں جو میں نے تلاوت کی جیسا کہ سب نے سن لیا اور ترجمہ بھی مَیں نے بیان کر دیا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا (النحل: 129) یقینا اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جنہوں نے تقویٰ اختیار کیا، پہلی بات یہ بیان کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کے ساتھ ہے جنہوں نے اُن راستوں کو اختیار کیا جو تقویٰ پر لے جانے والے راستے ہیں۔ پس اس بات سے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ دنیا میں دو طرح کے انسان ہیں، ایک وہ جو تقویٰ پر چلنے والے ہیں اور خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اعمالِ صالحہ بجا لانے والے ہیں اور ہر نیکی یا ہر اچھے عمل کو کرنے کی کوشش کرنے والے ہیں تا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کریں، تا کہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو۔ دوسرے وہ لوگ جو گو بعض اچھی باتیں اور نیک کام کر لیتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ اُن کے سامنے نہیں ہوتا، یا وہ ہر کام کرتے وقت اس بات کو نہیں سوچتے کہ خدا تعالیٰ ہر وقت ہماری نگرانی فرما رہا ہے، ہمیں دیکھ رہا ہے۔

اس دوسری قسم میں وہ لوگ بھی ہیں جو خدا تعالیٰ پر یقین رکھتے ہیں یا کم از کم اتنا مانتے ہیں کہ ایک خدا ہے جو زمین و آسمان کا پیداکرنے والا ہے۔ لیکن کوئی کام کرتے ہوئے، کوئی عمل کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا اُن لوگوں کے پیشِ نظر نہیں ہوتی۔ کوئی نیک کام بھی کر رہے ہوں تو یہ مقصدنہیں ہوتا کہ خدا تعالیٰ کو راضی کرنا ہے۔

اور دوسرے وہ جو سرے سے خدا تعالیٰ پر یقین ہی نہیں رکھتے۔ اللہ تعالیٰ کے وجود پر یقین نہیں رکھتے۔ اللہ تعالیٰ کے وجود کے منکر ہیں۔ ان دونوں قسم کے لوگوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں نہیں ہوتا۔ میں اُن لوگوں کے ساتھ ہوتاہوں جو پہلی قسم کے لوگ ہیں جو تقویٰ پر چلنے والے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی صفتِ ربوبیت تقویٰ پر نہ چلنے والوں کو بھی بعض چیزوں سے، بعض نعمتوں سے اتنا ہی نواز رہی ہوتی ہے جتنا ایک متقی کو لیکن یہ صرف دنیاوی چیزوں میں حصہ ہے۔ مثلاً سورج کی روشنی ہے، ہوا ہے۔ ان چیزوں سے ایک مومن متقی بھی اُتنا ہی فیض پا رہا ہوتا ہے جتنا ایک دہریہ۔ یا دنیاوی چیزیں ہیں مثلاً سائنس میں ترقی سے یا جو نئی دنیاوی تعلیم ہے، تجربات ہیں، نئی ایجادات ہیں، اُن کے لئے دماغ لڑانے کے بعد اُن سے حاصل شدہ نتائج سے ایک دہریہ بھی محنت کا اُتنا ہی پھل لے گا جتنا کہ ایک متقی اور پرہیزگار۔ زمین کی کاشت کرنے میں مثلاً ایک زمیندار کی جو محنت ہے، اس سے ایک دہریہ بھی فائدہ اُٹھاتا ہے اور متقی بھی۔

(خطبہ جمعہ 3؍ فروری 2012ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 اپریل 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 اپریل 2021