• 26 اپریل, 2024

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتاب‘‘اَلْھُدیٰ’’ میں بادشاہوں اور مختلف طبقوں کو مخاطب کر کے توجہ دلائی ہے…

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
فرمایا ’’… کیا تم خیال کرتے ہو کہ وہ اسلام کی حدوں کو کفار سے بچا سکیں گے؟ …… کیا تم گمان کرتے ہو کہ وہ اسلام کی پناہ میں ہیں۔ سبحان اللہ بڑی بھاری غلطی ہے بلکہ وہ تو بدعتوں سے دین خیرالانام کی بیخ کنی کرتے ہیں۔ تمہارا اختیار ہے کہ تم ان کی نسبت نیک گمان کرو اور بدکرداریوں سے اُن کی بریت ثابت کرو۔ لیکن کن علامتوں سے تم ایسا دعویٰ کرو گے۔ کیا تمہارا خیال ہے کہ وہ حرمین شریفین کے خادم اور محافظ ہیں۔ ایسا نہیں بلکہ حرم انہیں بچا رہا ہے اس لئے کہ وہ اسلام اور رسول خدا کی محبت کے مدعی ہیں‘‘۔ (دعویٰ تو اُن کا ہے کہ ہم اسلام سے محبت کرنے والے ہیں یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والے ہیں، اس لئے وہ حرمین شریفین کی حفاظت نہیں کر رہے بلکہ وہ اُن کو بچا رہا ہے) ’’اور اگر وہ سچی توبہ نہ کریں تو سزا سر پر کھڑی ہے۔ سو تم میں کوئی ہے جو انہیں بُرے دنوں سے ڈرائے۔ تم دیکھتے نہیں کہ اسلام بیدادگر زمانہ کے ہاتھوں سے چُور ہو گیا ہے اور موسلا دھار مینہ کی طرح فتنے اس پر برس رہے ہیں۔ اور دشمنوں کی فوجیں شکاری کی طرح اس کے پھانسنے کو آمادہ ہیں۔ اور اب ایسی کوئی بات نہیں جو دِلوں کو خوش کرے اور دُکھوں کو دور کرے۔ اور مسلمان جنگل کے پیاسے یا اُس مریض کی طرح ہیں جو سانس توڑ رہا ہو… ‘‘۔

فرمایا ’’… بعض لوگ تو مسلمانوں پر ہنسی اُڑاتے گزرجاتے ہیں اور بعض روتے ہوئے ان کی طرف دیکھتے ہیں۔ اور تم دیکھتے ہو کہ دل سخت ہو گئے ہیں اور گناہ بڑھ گئے ہیں۔ اور سینے تنگ ہو گئے اور عقلیں تیرہ و تار ہوگئیں اور غفلت اور سُستی اور عصیان کی ترقی اور جہالت اور گمراہی اور فساد کا غلبہ ہو گیا ہے اور تقویٰ کانام و نشان نہیں رہا۔ اور دِلوں میں وہ نور جس سے ایمان کوقوت ہو نہیں رہا اور آنکھیں اور زبانیں اور کان پلید ہوگئے ہیں اور اعتقادبگڑ گئے اور سمجھیں چھینی گئیں اور نادانیاں ظاہر ہوگئی ہیں اور عبادت میں نمود اور زہد میں خود بینی داخل ہو گئی ہے۔ …… سعادت کے نشان مٹ گئے ہیں اور محبت اور اتفاق جاتا رہا اور بغض اور پھوٹ پیدا ہوگئی ہے اور کوئی گناہ اور جہالت نہیں جو مسلمانوں میں نہیں اور کوئی ظلم اور گمراہی نہیں جو ان کی عورتوں اور مردوں اور بچوں میں نہیں۔ خصوصاً ان کے امیروں نے راہ حق کو چھوڑ دیا ہے… ‘‘۔

اور جیسا کہ مَیں نے پہلے کہا سب کچھ چھوڑنے کے باوجود علماء نے ان کو اس طرح بگاڑ دیا ہے کہ عوام بھی احمدیت کی مخالفت میں آگے بڑھے ہوئے ہیں۔ گزشتہ دنوں مَیں ایک مشنری کی رپورٹ میں دیکھ رہا تھا، اُن کا ایک عیسائی دوست ہے جو اُن کے پاس ہندوستان میں اپنے کسی مسلمان واقف کار کے ہاں آیا۔ اس کو پتہ تھا کہ وہ مسلمان شراب پیتا ہے۔ تو کہتا ہے مَیں نے جان کر اسے سنانے کے لئے کہا، باتوں باتوں میں اسے بتایا کہ بعض احمدی بھی میرے دوست ہیں۔ اور وہ مسلمان اس وقت اُس کے سامنے بیٹھا شراب پی رہا تھا۔ وہ کہتا ہے احمدی تو مسلمان ہی نہیں ہیں۔ تم کیا باتیں کر رہے ہو۔ کہتا ہے مَیں نے اسے کہا کہ قرآنِ کریم میں شراب کی حرمت ہے، احمدی شراب نہیں پیتے، اس کے باوجود وہ مسلمان نہیں۔ احمدی نمازیں پڑھتے ہیں۔ اس کے باوجود تمہارے مطابق وہ مسلمان نہیں۔ وہ کہتا ہے احمدی (جن کو مَیں نے دیکھا ہے) قرآنِ کریم کی تعلیم پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن تم کہتے ہو کہ وہ مسلمان نہیں اور تم باوجود اس کے کہ ابھی میرے سامنے شراب پی رہے ہو اور قرآنِ کریم کی تعلیم کی خلاف ورزی کر رہے ہو، تم مسلمان ہو۔ تو کہتاہے پہلے سنتا رہا اور بولا کچھ نہیں۔ خاموش ہو گیالیکن شراب کا گلاس بھی ہاتھ میں ہی تھا۔ تو پھر مَیں نے اس کو کہا (یہ عیسائی تھا) کہ پریشان نہ ہویہ تو ایسے ہی بات سے بات نکل آئی تھی مَیں نے کر دی۔ تم یہ شراب پی رہے ہو بیشک پیتے رہو۔ اس نے بغیر کسی انتظار کے فوراً دوبارہ پینی شروع کر دی۔ تو یہ مسلمانوں کی حالت ہے۔ لیکن احمدی (ان کے نزدیک) مسلمان نہیں۔ پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’… نشان ظاہر ہوئے پر انہوں نے قبول نہ کیا۔ سو خدا کا غضب اُترا۔ اور جب انہوں نے عذاب دیکھا کہنے لگے کہ تیرے وجود کو ہم نجس سمجھتے ہیں‘‘ (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وجود کو گندہ سمجھتے ہیں ) ’’اور یہ طاعون تیرے جھوٹ کی وجہ سے پھیلی ہے‘‘۔ (خدا تعالیٰ کے جو عذاب آ رہے ہیں نعوذ باللہ۔ یہ اس لئے آ رہے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نعوذ باللہ جھوٹا دعویٰ کیا ہے۔ آج بھی یہی اُن کا حال ہے)اور پھر فرماتے ہیں ’’کہا گیا تمہاری نحوست تمہارے ساتھ ہے…‘‘۔ (نعوذ باللہ)

فرمایا کہ ’’… خدا نے کوئی رسول نہیں بھیجا جس کے ساتھ آسمان اور زمین سے عذاب نہ بھیجا گیا ہو اس لئے کہ وہ باز آئیں‘‘…۔ پس یہ عذاب اور آفتیں جو ہیں یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تائیدات میں ہیں۔

(ایضًا صفحہ 295تا 304)

پھر فرماتے ہیں: ’’… مجھے بتاؤ کہ تمہارے بادشاہوں سے کس بادشاہ نے اس طوفان کے وقت کشتی بنائی بلکہ وہ خود بھی ڈوبنے والوں کے ساتھ ڈوب گئے اور زمانہ کی قینچی نے ان کے ناخن قلم کر ڈالے اور ان کے منہ کو گردوغبار نے ڈھانک لیا اور زمانہ نے اُن کا پانی خشک کردیا اور اقبال ان سے الگ ہوگیا‘‘۔ (اُن کی شان جو تھی وہ ختم ہو گئی) ’’اور انہوں نے حیلے تو کئے پر اُن سے کچھ نفع نہ پایااور ایسے فتنے آشکار ہوئے کہ وہ اپنی کمیٹیوں اور پارلیمنٹوں کے ذریعہ اور دشمنوں کی سرحدوں پر فوجوں کی چھاؤنی ڈال دینے کے وسیلہ ان کی اصلاح نہ کرسکے۔ بسا اوقات انہوں نے ہتھیار سجائے اور بڑے بڑے لشکر بھیجے مگر نتیجہ سوائے شکست اور بڑی ذلت کے کچھ نہ ہوا…‘‘۔

(ایضًا صفحہ 305)

فرماتے ہیں ’’…اب بتاؤ اے طبیبو! تمہارے نزدیک علاج کا کیا طریق ہے؟ کیا تمہاری رائے میں یہ امراء اس بلا کو دفع کرسکتے ہیں؟ اور کیا تم امید کرتے ہو کہ یہ بادشاہ ان کانٹوں سے دین کے باغ کو پاک کرسکیں گے؟ یا تم خیال کرتے ہو کہ یہ بیماریاں اسلامی سلطنتوں اور ان کی معلوم کوشش سے اچھی ہو جائیں گی؟ نہیں نہیں یہ بات اس سے زیادہ دشوار ہے کہ تم تھوہر سے تازہ کھجوروں کی امید رکھو‘‘۔ (تھوہر کے پودے سے تازہ کھجور کی امید رکھو)۔ ’’اور ان سے کیا توقع کی جائے اور وہ تو بڑے پتھروں کے نیچے دبے ہوئے ہیں اور وہ کیونکر سر اٹھائیں اور وہ ہزاروں غموں کے نیچے آئے ہوئے ہیں۔ مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ ان آفتوں کا دفع کرنا بادشاہوں اور امیروں کامقدور نہیں۔ کیا کبھی اندھا اندھے کو راہ بتا سکتا ہے۔ اے دانشمندو!۔

علاوہ بریں اگرچہ یہ بادشاہ مسلمان یا مخلص ہمدرد بھی ہوں لیکن پھر بھی ان کے نفوس پاک کاملوں کے نفوس کی مانندنہیں ہیں اور مقدسوں کی طرح انہیں نور اور جذب نہیں دیا جاتا۔ اس لئے کہ نور آسمان سے اسی دل پر اترتا ہے جو فنا کی آگ سے جلایا جاتا ہے۔ پھر اُسے سچی محبت دی جاتی ہے اور رضا کے چشمہ سے اُسے غسل دیا جاتا اور بینائی اور سچائی اور صفائی کا سرمہ اس کی آنکھوں میں لگایا جاتا ہے۔ پھر اسے برگزیدگی کے لباس پہنائے جاتے ہیں اور پھر اسے بقا کا مقام بخشا جاتا ہے۔ اور جو آپ ہی اندھیرے میں بیٹھا ہو وہ اندھیرے کو کیونکر دُور کرسکتا ہے۔ اور جو آپ ہی لذات کے تختوں پر سوتا ہو وہ کسی کو کیا جگا سکتا ہے۔ اور حق بات یہ ہے کہ اس زمانہ کے بادشاہوں کو روحانی امور سے کوئی مناسبت نہیں۔ خدا نے ان کی ساری توجہ جسمانی سیاستوں کی طرف پھیر دی ہے۔ اور کسی مصلحت سے انہیں اسلام کے پوست کی حمایت کے لئے مقرر کررکھا ہے‘‘۔ (یعنی ظاہری حمایت کے لئے مقرر کر رکھا ہے۔) ’’سیاسی اُمور ہی ان کے پیشِ نظر رہتے ہیں۔ …… اُن کا فرض اس سے زیادہ نہیں کہ اسلام کی سرحدوں کی نگہداشت کا اچھا انتظام کریں اور ظاہر ملک کی خبر گیری کرکے دشمنوں کے پنجوں سے اسے بچائیں۔ رہے لوگوں کے باطن اور ان کا پاک کرنامیل کچیل سے۔ اور بچانا لوگوں کو شیطان سے۔ اوران کی نگہبانی کرنا آفتوں سے دعاؤں کے ساتھ اور عقد ہمت کے ساتھ۔ سو یہ معاملہ بادشاہوں کی طاقت اور ہمت سے باہر اور بالا تر ہے‘‘ (روحانیت میں انہیں کوئی دخل نہیں) اور دانشمندوں پر یہ بات پوشیدہ نہیں۔ اور بادشاہوں کو مُلک کی باگ اس لئے سپرد کی جاتی ہے کہ وہ اسلامی صورتوں کو شیاطین کی دستبرد سے بچائیں۔ اس لئے نہیں کہ وہ نفوس کو پاک صاف کریں اور آنکھوں کو نورانی بنائیں‘‘۔

(ایضًا صفحہ 307تا 309)

(خطبہ جمعہ 15؍ اپریل 2011ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 اپریل 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 اپریل 2021