عاشق تو وہ ہے جوکہ کہے اور سنے تری
دنیا سے آنکھ پھیر کے مرضی کرے تری
جو کام تجھ سے لینا تھا وہ کام لے چکے
پرواہ رہ گئی ہے یہاں اب کسے تری
امیدِ کامیابی وشغلِ سرود و رقص
یہ بیل چڑھ سکے گی نہ ہرگز منڈھے تری
ہو روحِ عشق تیری مرے دل میں جاگزیں
تصویر میری آنکھ میں آکر بسے تری
مٹ جائے میرا نام تو اس میں حرج نہیں
قائم جہاں میں عزت و شوکت رہے تری
میداں میں شیرِنر کی طرح لڑ کے جان دے
گردن کبھی نہ غیر کے آگے جھکے تری
دل مانگ ،جان مانگ کسے عذر ہے یہاں
منظور ہے ہمیشہ سے خاطر مجھے تری
نکلے گی وصل کی کوئی صورت کبھی ضرور
چاہت تجھے مری ہے تو چاہت مجھے تری
یکتا ہے تُو، تو میں بھی ہوں اک منفرد وجود
میرے سوا ہے آج محبت کسے تری
(کلام محمود صفحہ202)