• 26 اپریل, 2024

مَیں اور میری پیاری یادیں

ہم ربوہ کے رہنے والے ہیں اور ہر سال ربوہ میں جلسہ سالانہ پر مہمانوں کی آمد آ مد ہوتی تھی۔ ایک دفعہ لندن سے میری ممانی جان بھی ربوہ کے 1977ء کے جلسہ پر تشریف لائیں۔ اُن کو میں نے اپنی زندگی میں پہلی بار ہی دیکھا تھا اور ساتھ میں اُن کایہ مقصد بھی تھا کہ وہ اپنے بیٹے کے لئے دلہن ڈھونڈیں گی۔ میری ممانی نے میرے سر پر ہاتھ رکھ دیا اور مجھے اپنی بہو بنانے کا سوچ لیا اور میرے والدین سے میرا رشتہ مانگا۔ یہ امر میرے والدین کے لئے بھی خوشی کا موجب تھا۔ اُن دنوں میرے ابا جان مکرم عبد الباسط شاہد صاحب افریقہ میں بطور مبلغ خدمات بجا لا رہے تھے۔ میری عمر اُس وقت صرف سولہ برس تھی اور اس طرح میری منگنی اپنے ماموں زاد سےجن کو میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا، طے ہو گئی۔ میری والدہ صاحبہ نے اس مبارک تقریب کے لئے محترمہ چھوٹی آپا صاحبہ (مکرمہ سیدہ اُم متین صاحبہ) کے علاوہ چند اور خاندان مسیح موعود کی معزز خواتین کو بلایا ہوا تھا۔ اور حضرت چھوٹی آپا اُمِ متین صاحبہ نے مجھے اپنے ہاتھوں سے انگوٹی پہنا کر منگنی کی رسم ادا کی۔ یہ میری زندگی کا ایک نہایت ہی اہم اور مبارک موقع تھا۔

میرے ابو جان کے دادا جان یعنی حضرت فضل محمد ہرسیاں والےؓ صحابی حضرت مسیح موعودؑ سے احمدیت ہمارے خاندان میں آئی۔ خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے میرے دادا جان مکرم عبد الرحیم صاحب درویش قادیان اور میرے ابو جان مکرم عبد الباسط شاہد صاحب افریقہ میں بطور مبلغ خدمات بجا لا رہے تھے۔ ہمارے گھر میں تعلیم اور جماعت احمدیہ کی تعظیم، عزت وقار اور خدمت دین کے لئے تیار رہنے کا درس ہر وقت دیا جاتا تھا۔ میری عمر پانچ سال کی تھی جب میرے اباجان کی تقرری افریقہ میں ہو گئی اور ہمارے لئے یہ ہی بہتر سمجھا گیا کہ ہماری رہائش ہماری دادی جان کے پاس ربوہ میں ہو۔ میں نے پہلے پرائمری اور پھر نصرت گر لز ہائی سکول اور پھر جامعہ نصرت سے تعلیم حاصل کی۔ پڑھائی کے دوران ہی میرا رشتہ اپنے ماموں زاد سے طے پا گیا۔ الحمد للہ معزز مبارک ہستیوں کے ہاتھوں منگنی کی رسم بھی ادا ہو گئی۔ اب اپنے گھر سے اور ملک سے رخصتی کا وقت آگیا تھا یہ اُن دنوں کی بات ہے جب ایک ملک سے دوسرے ملک جانا بہت بڑی بات تھی اور میں دوسرے ملک بہت دور جا رہی تھی۔

میری زندگی کا اہم ترین سفر شروع ہونے جا رہا تھا۔ خوف بھی تھا اورڈر بھی تھا کہ کیسے یہ سفر شروع کروں گی۔ اس سے پہلے جہاز کا سفر نہیں کیا تھا۔ میرا رشتہ میرے چھوٹے ماموں مکرم عبدالغفور صاحب (مرحوم) کے بیٹے کے ساتھ طے ہوا تھا۔ اس لئے میرے سارے ننھال والے سسرالی بن گئے۔ ایک دن میرے بڑے ماموں جان کا کراچی سے فون آیا۔ یہ فون ربوہ میری اُمی کے ماموں جان مکرم مولوی صدیق صاحب کے گھر آیا تھا کہ بچی کو لینے کےلئے کل ربوہ پہنچ رہے ہیں اور بچی کو (یعنی مجھے) فیصل آباد سے کراچی اپنے ساتھ جہاز میں لیکر جائیں گےتاکہ جہاز میں سفر کرنے کا کچھ اندازہ ہو جائے۔ پھر چار پانچ دن کراچی میں رُکنا ہوگا۔ میری اُمی جان نے بھی مجھےسوار کروانے کراچی آنا تھا۔ میرا بھائی عزیزم آصف محمود جو کہ اُس وقت پانچ سال کا تھا، میری اُمی جان کے ساتھ ٹرین سے کراچی پہنچ گئے۔ نانا جان اور نانی اماں کے گھر خوب خوب رونق لگی رہی۔ کراچی سے ہم نے کچھ شاپنگ کی اور جو پیپر ورک ہونے والا تھا وہ بھی مکمل کیا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کی طرف سے یہ ہدایات تھیں کہ وہ واقفِ زندگی جو ملک سے باہر ہوں اور اُن کی بچیوں کی جب شادیاں ہوں تو وہ یہ محسوس نہ کریں کے وہ اکیلی ہیں۔ میں خود اُنہیں رخصت کروں گا۔ جب میری رخصتی کا وقت آیا تو میری امی جان بہت پریشان تھیں کہ حضور اُس وقت ربوہ میں موجود نہیں تھے۔ حضور کراچی میں تھے اور میں جب کراچی پہنچی تو مجھے تین چار دن کراچی میں رکنا تھا۔ اُمی جان نے خط لکھ کر حضورؒ سے ملاقات کا وقت لیا۔ اگلی صبح دس بجے کے قریب ہم ملاقات کے لئے حضور ؒکی رہائش گاہ پر پہنچ گئے۔ یہاں پہنچ کر علم ہوا کہ حضورؒ باہر دورے پر جانے والے ہیں۔ ہم بھی ایک کمرے میں باقی عورتوں کے ساتھ بیٹھ گئے۔ حضورؒ نے اُوپر اپنی رہائش گاہ سے نیچے آنا تھا اور ملاقات کرنی تھی۔ اتنے میں اطلاع آئی کہ حضورؒ کے پاس وقت بہت کم ہے۔ باقی عورتوں سے آج ملاقات نہیں ہو سکے گی۔ صرف وہ بچی جس کی رخصتی ہے وہ یہیں رُ کیں۔ کچھ خواتین چلی گئیں چند ایک حضور کے دیدار کے لئے پیچھے رُکی رہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ اور حضرت بی بی منصورہ بیگم صاحبہ مرحومہ تشریف لائیں۔ آگے حضور تھے.اور پیچھے اُن کی بیگم صاحبہ۔ سیڑھیوں سے نیچے آئے ۔حضور نے میرے بارے میں دریافت کیا۔ مَیں پاس گئی میرے سر پر ہاتھ رکھ کر دعائیں دیں اور حضرت بی بی منصورہ بیگم صاحبہ کو فرمایا کہ بچی کو سلامی دے دیں۔ اُ نہوں نے اپنے بیگ سے مجھے 200 روپے سلامی نکال کر دی۔ دو نوٹ یعنی سَو سَو کے دو نوٹ تھے۔ جو ایک میں نے اور ایک عبد الشکور (مرحوم) میرے شوہر نے ہمیشہ اپنے اپنے والٹ میں رکھا۔ اللہ نے ہمیں ہمیشہ نعمتوں اور بر کتوں سے نوازا۔ الحمد للہ

28 فروری 1980ء کو میں نے پاکستان کو خدا حافظ کہتے ہوئے لندن کا سفر شروع کیا۔ جہاز میں بیٹھی اور سیٹ بیلٹ لگائی اور کھڑکی سے باہر دیکھنے کی کوشش کی تو دھندلائی آ نکھوں سے سوائے بادلوں کے کچھ نظر نہ آیا۔ میں جو ماں اور بھائی اور اپنے پیاروں کے گلے لگ کر نہ رو سکی تھی جہاز میں بیٹھتے ہی آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی۔ مَیں نے بھی اِن آنسوؤں کو خوب بہنے دیا۔ ماں، باپ، بہن اور بھائی تمام محبتوں کے رشتے ربوہ اور اپنا ملک چھوڑ کر ایک انجانے ملک اَن دیکھے رشتوں کے پاس جا رہی تھی۔ ساتھ ہی اپنے خدا تعالیٰ پر پورا یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے لئے آ گے بھی محبتوں بھرے رشتے بنائے ہوں گے اور اپنے والدین پر بھی پورا یقین تھا کہ اُنہوں نے میرے لئےبہت اچھا سوچا ہوگا۔ اسی یقین کے ساتھ سفر شروع کیا اور جہاز کا جائزہ لیا۔ جہاز نے اُڑان بھری اور میں اپنے گھر، اپنی ماں اور بچپن کی یادوں سے دور کی دنیا میں پہنچ گئی۔

میری پیدائش ربوہ میں ہوئی جس پر مجھے ہمیشہ فخر محسوس ہوتا ہے۔ الحمد للہ۔ابوجان کے مربی ہونے کی وجہ سے ہم کراچی، ملتان، بورے والااور جہلم رہے۔ سکول لائف جہلم سے شروع ہوئی۔ ابوجان سائیکل پر سکول چھوڑنے جاتے۔ میں دوسری جماعت میں تھی کہ ہم ربوہ شفٹ ہو گئے اور ربوہ سکول میں داخلہ لے لیا۔ ہمارے ساتھ ہماری دادی جان بھی رہتی تھیں۔ 1968ء میں میرے ابو جان کو بطور مبلغ تنزانیہ افریقہ بھجوا دیا گیا۔ ربوہ میں ہم نے اپنی پڑھائی کے ساتھ ناصرات کے اجلاسوں میں حصہ لینا شروع کیا اور ہم اجتماعات انجوائے کرتے۔ پھر نصرت گرلز ہائی سکول اور جامعہ نصرت سے تعلیم حاصل کی۔ ناصرات سیکر ٹری کی مدد کرتی۔ میری امی جان 1977ء میں حلقہ دار الرحمت وسطی 2 کی لجنہ کی صدر منتخب ہوئیں۔ اپنی اُ می جان کے ساتھ مختلف کاموں میں مدد کی۔ اُن دنوں فون کا زمانہ نہیں تھا۔ گروپ لیڈر گھر گھر پہنچ کر پیغام پہنچاتیں تھیں۔یہ بھی اچھی طرح یاد ہے جب انڈیا پاکستان کی جنگ لگی تو فوجیوں کے لئے واسکٹ بنائی گئیں۔ اس کے لئے میری اُمی جا ن نے کیسے بھاگ بھاگ کر کام کئے۔ کپڑا لینا اور کٹوانا پھر سلوانا۔ اس جذبہ سے وہ یہ کام کروا رہی تھیں کہ آج بھی یہ سب میری یادوں میں ہے۔

ائیر ہوسٹس آئی اور یوں میری یادوں کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔

الحمد للہ۔ P I A کی دس گھنٹے کی فلائیٹ سے انگلینڈ لندن ہیتھروائیرپورٹ پر پہنچ گئی۔ ائیر پورٹ پر بہت گہما گہمی تھی ۔ سب لوگ اجنبی تھے ۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کدھر کو جانا ہے۔ کونسا راستہ مجھے اپنوں سے ملائے گا۔ جہاز میں ایک دو اور لڑکیاں میرے ساتھ تھیں وہ بھی منگیتر کے طور پر شادی کے لئے پہلی بار ہی سفر کر رہی تھیں۔ مگر انگلینڈ آنے کا مقصد ہما را ایک ہی تھا۔

ضروری کارروائی ہونے تک ہم اکٹھے رہے۔ اُس کارروائی کے بعد اُن دونوں لڑکیوں کو ایک اور لائن میں بٹھا دیا گیا اور مجھے کہا گیا کہ آپ باہر جا سکتی ہیں۔ اب میں نے Exit کا سائن فالو کرنا شروع کر دیا۔ کوئی اندازہ نہیں تھا کہ کتنی دور جاکر مجھے اپنے ماموں ممانی نظر آئیں گے۔ جب ائیرپورٹ کے دروازہ سے باہر میری نظر پڑی تو سامنے میرے اپنے ماموں، ممانی، میرے شوہر اور باقی تمام رشتے دار کھڑے تھے۔ جو ایک منی بس اور دو کاروں کے قافلہ کے ساتھ تشریف لائے ہوئے تھے۔ میرا استقبال مٹھائی اور پھولوں کے ہاروں سے بہت پُر جوش طریقے سے ہوا۔ ہم تقریباً ڈیرھ دو گھنٹے میں اپنی منزل مقصود یعنی اپنے گھر پہنچے۔ میرا خیال ہے کہ رات کے آٹھ یا نَو تو بج ہی گئے ہونگے۔ زردے پلاؤ کی خوشبوؤں سے گھر مہک رہا تھا۔ مگر میں اتنی تھکی ہوئی تھی کہ کھانے کو بالکل دل نہیں چاہ رہا تھا۔ دل تھا کہ کہیں بستر ملے اور میں تھوڑا آرام کر لوں لیکن اب یہ شادی والا گھر تھا اور خوب رونق تھی۔

نئی جگہ نئے لوگ سب کو میں پہلی بار ہی مل اور دیکھ رہی تھی (صرف میری ایک خالہ زاد بہن عزیزہ اِرشاد سلیم تھی جس کو میں پہلے سے جانتی تھی) یہاں تک کے اپنے شوہر جو کہ میرے کزن بھی تھے، پہلی بار ہی ان کا دیدار ہو رہا تھا ۔سوچیں کہ میرے دل کی کیا کیفیت ہوگی۔ بہت گھبرائی ہوئی تھی۔ میں نے اپنے شوہر کو پہلی بار ائیر پورٹ پر دیکھا۔ اُس کے بعد مجھے وہ اپنی رجسٹریشن پر نظر آئے۔ نکاح اور رجسٹریشن کے باوجود ہمارا پردہ رہا۔ رجسٹریشن اپریل 1980ء کو ہوئی اور شادی یعنی رُخصتی کی تقریب 5 جولائی 1980ء کو ہوئی۔

میرے ماموں جان مکرم عبد الغفور صاحب (مرحوم) ایک لمبا عرصہ یعنی 1960ء سے انگلینڈ میں مقیم تھے۔ اس لئے انہوں نے ولیمہ پر اپنے تمام دوست احباب کوشرکت کے لئے مدعو کیا اور ہمارے مہمان خصوصی حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحبؓ تھے۔ اُن دنوں اُن کی طبیعت کے متعلق سنا تھا کہ ٹھیک نہیں ہے۔ فکر تھی کہ جانے وہ تشریف لا سکیں گے کہ نہیں۔ لیکن الحمد للہ اُنہوں نے دعوت نامہ قبول کیا اور دعوت ولیمہ میں شرکت فر مائی اور بہت اچھی مفصل علمی تقریر فرمائی اور دعا کروائی۔ الحمد للہ۔

سسرال میں تو سب میرے ننھیال والوں کی ہی فیملیز تھیں۔ میرے ابوجان کی طرف سے یعنی ددھیال میں سے جنہوں نے میری شادی میں شرکت فرمائی ان میں میرے ابو جان کی پھپو جان محترمہ حلیمہ صاحبہ اور پھوپھا جان مکرم شیخ محمد حسن صاحب تھے جو 1969ء سے یہاں انگلینڈ میں مقیم تھے۔

شادی کے چند دن بعد میرے ابا جان کا خط میرے نام آ یا۔ وہ ہمیشہ مجھے بیٹا کہہ کر بلاتے تھے لیکن اس خط میں مجھے انہوں نے مبشرہ بیٹی کہہ کر مخاطب کیا اور بتایا کہ بیٹی کہہ کر میں تمہیں تمہاری آنے والی نئی زندگی کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔

میں نے اپنے ابو جان کے خط کا ذکر کیا ہے کہ اُ نہوں نے میری ذمہ دایوں کی طرف توجہ دلائی تو سوچا کہ تھوڑا ذکر کردوں کہ جب میں انگلینڈ آئی تو یہاں سسرال میں میرے ماموں جان اپنے علاقہ لیمگٹن سپا کے صدر تھے۔ یہاں 1979ء میں جماعت کا قیام ہوا تھا۔ میں آئی تو اداس بھی تھی اور کوئی خاص کام بھی نہیں تھا تومیں نے جماعتی کاموں میں حصہ لینے کا پروگرام بنایا۔ میرے ماموں جان نے مجھے نیشنل صدر صاحبہ سےرابطہ کرنے کو کہا۔ اُس وقت ہماری نیشنل صدر محترمہ مسز ڈا کٹر عبد السلام صاحبہ تھیں۔ اُنہوں نے خوشی کا اظہار کیا اور 100 میل کا سفر طے کر کے وہ عاملہ کے ساتھ ہمارے گھر تشریف لائیں اور لیمنگٹن و کاونٹری میں لجنہ کے قیام کا افتتاح فر مایا۔ یہاں سے میری دینی خدمات کا آ غاز ہو ا۔ الحمد للہ

بحیثیت صدر لجنہ اماءاللہ لیمنگٹن سپا کاونٹری چھ سال، پھر نائب صدر چھ سال، جنرل سیکرٹری سولہ سال خدمت کی۔ اس وقت باقی سیکرٹری کا کام خود ہی سنبھالا۔ 2005ء میں پہلی بار مکرم حافظ فضل ربیّ صاحب کی تعلیم القران کلاس جو بیت الفتوح میں اٹینڈ کرنے کا موقعہ ملا۔ میں 100 میل کے فاصلہ سے تین ویک اینڈ پر لندن آتی رہی۔ الحمد للہ حافظ صاحب کے پڑھانے کا طریقہ بہت خوبصورت ہے۔ اُن کی بتائی ہوئی ہر بات آج بھی یاد ہے۔ آج بھی حافظ صاحب کی ٹیم کے ساتھ وابستہ ہوں اور پڑھانے کا کام کر رہی ہوں الحمد للہ۔

میرے شوہر مکرم عبد الشکور صاحب مرحوم ایک بہت ہی نیک دیندار اور محبت کرنے والے شوہر ثابت ہوئے۔ جہاں وہ اپنی فیملی لائف کو بہت اہمیت دیتے وہیں وہ جماعت احمدیہ کے بھی ایک سر گرم رُکن تھے (میرے سسر ماموں جان بھی لیمنگٹن سپا کاونٹری کے پہلے صدر منتخب ہوئے اور 26 سال تک صدر کے عہدہ پر فائز رہے) گھر کا ماحول خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت دینی تھا۔ میرے شوہر خدام لاحمدیہ کے قائد اور مختلف عہدوں پر کام کرتے رہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے آپ کو انٹر نیشنل ایسوسی ایشین آف آرکیٹیکٹ و انجنیئر (IAAAE) کا پہلا چیئرمین مقرر فرمایا۔ ہم ایک ایسے شہر میں مقیم تھے جہاں انگلش لوگ زیادہ تھے۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی کہ غیر اسلامی لوگوں کےلئے بڑے پیمانے پر عید ملن پارٹیز کا اہتمام کرتے جس میں زیادہ تر انگلش لوگ ہی شامل ہوتے اور خوشی کا اظہار کرتے۔ آپ ایک الیکٹرانک ٹیلی کیمیو نیکیشن انجنیئر تھے اور تعلیم کے شعبہ سے منسلک رہے۔ جہاں آپ نے اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلوائی وہاں اپنے سٹوڈنٹس کو بھی اچھی تعلیم حاصل کرنے کی تلقین کرتے تھے۔ میرے بچوں نے بھی اپنے باپ کی خواہش کا احترام کیا۔ بڑا بیٹا ماشاءاللہ فارمسسٹ بنا اور بڑی بیٹی ڈاکٹر بنی۔ دوسرے نمبر کے بیٹے نے وکالت کی ڈگری حاصل کی جبکہ سب سے چھوٹی بیٹی نے خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے ٹیچنگ میں ڈگری حاصل کی الحمد للہ۔ خدا کے فضل وکرم سے اب سب بچے شادی شدہ ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے میری اس وقت تین نواسیاں اور دو پوتے اور دو پوتیاں ہیں الحمد للہ۔

میرے شوہر اپنوں اور غیروں میں ہر دلعزیز تھے۔ جو ایک بار آپ سے مل لیتا تھا وہ آپ کو کبھی نہیں بھولتا تھا۔ اسی طرح آپ اپنے شاگردوں میں بہت مقبول تھے۔آپ اُن کے مشکل سے مشکل سوالوں کے جوابات آسانی سے دے دیتے تھے۔ گھر میں اپنے والد صاحب کی وفات کے بعد اپنی والدہ اور بہن بھائیوں کی خدمت کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے۔ مشکلوں سے کبھی نہیں گھبراتے تھے۔ یہ بات صرف فیملی کی ہی نہیں بلکہ سب دوست ، رشتہ دار اور جاننے والے ان سے اپنے ضروری امور کیلئے صلاح مشورہ لیتے۔ عمر میں زیادہ بڑے نہیں تھے مگر سب اِن کو صاحب الرائے سمجھتے اور اِن سے مشورہ لیتے تھے۔

آپ کو اپنی لوکل Community میں 20 سال مجسٹریٹ کے فرائض انجام دینے کی توفیق ملی۔ آپ کی وفات کے بعد لارڈ چانسلر نے مجھے میرے میاں کی وفات پر اظہار افسوس کا خط لکھا اور مکرم عبد الشکور صاحب کی سروسز کو سراہا اور بتایا کہ مکرم عبد الشکور صاحب چیلٹنھم کے پہلے اور اکیلے ایشیائی مجسٹریٹ تھے

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی چلڈرن کلاسز کے لئے اپنے چاروں بچوں کو ہر ہفتہ کے دن کلاس میں شامل ہونے کے لئے لے کر جاتے۔ یہ کوئی معمولی کام نہیں تھا کیونکہ ہمارے گھر سے مسجد فضل کا فاصلہ 100میل تھا۔ کلاس اور نماز کے بعد پھر 100 میل واپسی کا ہوتا۔ ایک طرف کا راستہ دو سے تین گھنٹے یا کبھی ٹریفک کی وجہ سے زیادہ بھی ہو جاتا۔

خلافت سے بے پناہ محبت تھی۔ اسکی ایک مثال یہ ہے کہ صد سالہ خلافت جوبلی ڈے منانے کے لئے ایک مختلف جگہ پر سب نے اکٹھے ہونا تھا۔ فیملی کے لئے سب ارینج منٹ ہوچکے تھے۔ مگر اُس دن مکرم عبد الشکور صاحب کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی اور کوئی بھی وہاں نہ جا سکا البتہ ایم ٹی اے کے ذریعہ سب نے گھر بیٹھ کر ہی پروگرام دیکھا۔ سب نے حضور کا خطاب سُنا۔ جب حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ عہد کے لئے سب کھڑے ہو جائیں تو بچوں کو کہا مجھے سہارا دے کر کھڑا کریں۔ اس طرح اُ نہوں نے پورا عہد سہارے کے ذریعہ کھڑے ہو کر دہرایا۔

خلافت سے محبت کی ایک اور مثال یوں ہے کہ ہمارے دو بچے وقفِ نَو کی تحریک کے بعد پیدا ہوئے ۔دونوں اللہ کے فضل سے اس بابرکت سکیم میں شامل ہیں۔ بیٹا جس کی پیدائش تحریک کے سات ماہ بعد ہوئی۔ بیٹی اس سے تین سال چھوٹی ہے۔ مجھے اور بڑے بچوں کو سمجھایا کہ وقفِ نَو بچوں کا خود دھیان رکھیں۔ جماعت پر کسی قسم کا بوجھ نہیں ڈالنا۔

آپ ایک ہر دلعزیز انسان تھے۔ مہربان، شفیق، رحم دل، مہمان نواز اور خوش اخلاق۔ سیرو تفریح کو پسند کرتے۔ بچوں کے اچھے شوق کو پورا کرنے کی کوشش کرتے۔ اپنا ہر کام اور گھر کے تمام کام خود ہی کر لیتے تھے۔ ایسے وفا شعار خاوند کی بیوی ہونا میرے لئے باعث فخر ہے۔ گو میری زندگی کا بہت کم عرصہ جو کہ 28 سال ہے، اُن کے ساتھ گزرا ہے لیکن جتنا وقت بھی میرا میرے شوہر کے ساتھ گزرا وہ ایک یاد گار اور نہ بھولنے والا خوشیوں سے بھر پور تھا۔ الحمد للہ

آپ میری خوشیوں کو پورا کرنے کے لئے ہمیشہ کوشش کرتے۔ مجھے اور میرے بڑے بیٹے کو 2005ء میں قادیان کا جلسہ اٹینڈ کرنے کے لئے بھیجا اور مجھے تسلی دلائی کہ آپ اس بابرکت جلسہ میں شامل ہوں جس میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس اید ہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز تشریف لے جا رہے ہیں۔ گھر کا اور بچوں کا فکر نہ کرنا۔ میں ان شاء اللہ دھیان کر لوں گا۔ اس طرح میری زندگی میں قادیان کا یہ تیسرا با برکت سفر تھا۔

ہم دونوں کی ہمیشہ یہ دلی خواہش تھی کہ ہم ان شاء اللہ اکٹھے مل کر حج کیلئے جائیں گے۔۔۔۔۔ مگر یہ ہو نہ سکا۔۔۔ یہ خواہش اُن کی زندگی میں تو پوری نہ ہو سکی البتہ 2016ء کو اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضلوں سے میرا حج پر جانے کا غیب سے انتظام کیا۔ باوجود راستہ کی مشکلات کے اللہ تعالیٰ نے ہر ہر قدم پر آ سانیاں پیدا فر مائیں۔ ایسے مجھے حج پر جانے کی سعادت نصیب ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے شوہر مکرم عبد الشکور صاحب (مرحوم) کے نام کا عمرہ کرنے کی بھی توفیق عطا فر مائی۔ باقی سب کیلئے بھی جی بھر کے دعائیں کرنے کا موقع ملا۔الحمد للہ

مارچ 2008ء میں آپ کو کینسر کی بیماری کی تشخیص ہوئی۔ باوجود اپنی تکلیف دہ بیماری کے خلیفۂ وقت کو خود اپنی بیماری کی اطلاع دیتے رہے۔ حضور اقدس بھی گاہے بگاہے آپ کا حال دریافت فر ماتے۔ ایک بار جب حضور گھانا کے دورے پر گئے ہوئے تھے تو وہاں سے پیغام ملا کہ حضور آپ کا حال پوچھ رہے ہیں۔ آپ صرف چھ ماہ بیمار رہے۔

آخر وہ دن آگیا جو ہماری جدائی کا دن تھا اور میرے شوہر کا اپنے پیارے پیدا کرنے والے خدا کے پاس جانے کا دن تھا۔ 20 اکتوبر 2008ء کو وفات ہوئی اور 23 اکتوبر 2008ء کو ازراہِ شفقت پیارے آقا نے مسجد فضل میں نماز جنازہ پڑھائی۔ اُس وقت اُن کی عمر 48 سال تھی۔ جہاں ہماری جماعت کے کثیر احباب نے نماز جنازہ میں شرکت فرمائی وہاں ہماری لوکل جماعت کے علاوہ آپ کے ساتھ کام کرنے والے ساتھیوں اور شاگردوں نے بھی شرکت فر مائی۔ منی بس کرو اکے چیلٹنھم سے لندن تک سب آ ئے۔ مسجد فضل جنازے کے بعد تدفین تک کے سب مراحل میں ساتھ ساتھ رہے۔

آپ اپنے کام پر اکیلے ہی مسلم اور ا یشین ٹیچر تھے۔ مکرم عبدالشکور صاحب کو فٹ بال کی گیم بہت پسند تھی۔ ویسے آپ بیڈمنٹن اور سکائش بھی پسند کرتے تھے۔ آپ نے اپنے کالج میں فٹ بال ٹور نا منٹ شروع کروادیا۔ اس ٹورنا منٹ کا نام اور ٹرافی کا نام عبد الشکور کے نام کے ساتھ جاری کیا گیا۔ پہلی ایوارڈ سرمنی کیلئے کالج والوں نے مجھے اور میری فیملی کو با قاعدہ انو یٹیشن دیا۔

اس تقریب کےمہمان خصوصی Sir Geoff Hurst تھے جو کہ انگلینڈ کے مشہور ورلڈ کپ ونر ہیں (1966ء میں سر جیف نے انگلینڈ کیلئے آخری winning goal سکور کیا تھا) آپ کے سکول کی انتظامیہ نے مین گیٹ پر آپ کے نام کا چشمہ لگوایا اور آپ کے نام کی تختی لگائی۔ آپ کے نام سے اچھے سٹودنٹ کو ہر سال ایوارڈ دینے کا سلسلہ شروع کیاگیا جو آج بھی صدقہ جاریہ کے طور پر جاری ہے۔ الحمد للہ۔

ایسا انسان جس میں نہیں تھی
جس نے وابستہ رکھی تھی مجھ سے وفا
ذات میری کو جس کا تحفظ
تھا میرا ہمسفر یہ تسلی تو تھی!

زندگی رُکتی نہیں ہے۔ الحمد للہ اپنے وفا دار اور نیک دل شوہر کے ساتھ گزارے ہوئے دنوں کی یادوں کے سہارے بہت اچھا وقت گزر رہا ہے۔ یاد تو کب ہے جب نہیں آتی مگر اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوش نودی کی خاطر دن گزریں تو بہت اچھا ہے۔ دعا کرتی ہوں کہ اے اللہ تعالیٰ! اس غم کی حالت میں کوئی ایسا ناشکری کا کلمہ منہ سے نہ نکلے اور ہم تیری رضا اور تیرے ہر حکم پر سجدہ بجا لانے والے بنیں آمین۔ اے اللہ! تو ہمیں اپنی رحمت کی چادر میں لپیٹ لینا اور ہمیں صبر جمیل عطا فرمانا۔ اور میرے زندگی کے ساتھی مکرم عبد الشکور صاحب کو جنت الفردوس میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطا فرمانا۔ آمین ثم آمین۔

(مرسلہ مبشرہ شکور لندن اہلیہ مکرم عبد الشکور صاحب (مرحوم))

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 اپریل 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 اپریل 2021