• 16 اپریل, 2024

اٹلی کا پیسا مینار اور نامور سائنس دان گلیلیو

پیسا ٹاور

صدیوں پہلے کی بات ہے کہ اس دور کا مشہور سائنس دان ماہر فلکیات، فلاسفر گلیلیو اپنے شہر کے مشہور ’’پیسا ٹاور‘‘ کے پاس کھڑا تھا اور اس کے کچھ شاگرد بھی اس کے ساتھ تھے ۔ اپنے شاگردوں کو دو پتھر پکڑائے ایک وزنی تھا اور دوسرا ہلکا اور کم وزنی تھا، شاگردوں کو پتھر پکڑاتے ہوئے پوچھا کہ اگر ان دونوں کو ایک ساتھ اوپر سے نیچے گرائیں تو پہلے کونسا زمین پر گرے گا؟ عام خیال کی طرح شاگردوں نے بھی یہی سوچا کہ جو وزنی ہے وہ پہلے گرے گا اور یہی بات انہوں نے اپنے استاد سے کہہ دی۔ اس پر گلیلیو نے انہیں تجربہ کرنے کو کہا جس پر شاگردوں کو سخت حیرانی ہوئی، کیونکہ وہ صدیوں سے یہی سنتے، پڑھتے آئے ہیں کہ بھاری چیزیں پہلے زمین پر گرتی ہیں۔ بحرحال انہوں نے استاد کے کہنے پر تجربہ کیا اور ان کو اس وقت شدید حیرت کا جھٹکا لگا جب انہوں نے دونوں پتھروں کو ایک ساتھ زمین پر گرتے دیکھا۔ اس تجربہ کے بعد گلیلیو نے یہ ثابت کردیا کہ ہوا کے اثر کو کم یا ختم کر دینے سے تمام اشیا ءیکساں رفتار سے زمین پر گرتی ہیں، خواہ وہ وزن میں کم ہوں یا زیادہ ۔ اور یوں اس نے کئی صدیوں پرانے ارسطو کے نظریہ کو غلط ثابت کردیا تھا کہ بھاری اشیا پہلے گرتی ہیں اور ہلکی اشیا بعد میں۔ گلیلیو کے اس نظرے کی تصدیق ناسا کے خلابازوں نے اپالو15 مشن کے دوران چاند پر پرندے کا پر اور ہتھوڑی ایک ساتھ گرایا تو ثابت ہوا تھا کہ گلیلیو کا نظریہ درست ہے۔ گلیلیو کے اس تاریخی سائنسی تجربہ نے پیسا ٹاور (مینار) کی اہمیت کو اور بڑھا دیا تھا۔

گلیلیو سائنس دان

گلیلیو (Galileo) کو جدید طبیعات (فزکس) کا باپ کہا جاتا ہے۔ یہ دور بین کا بھی موجد ہے۔ اس نے اشیاء کی حرکات، دوربین اور فلکیات کے بارے میں انتہائی قیمتی معلومات دنیا کو فراہم کیں جن پر بعد میں آنے والی سائنس نے گراں قدر ترقی کی۔ اس نے جنوری 1642ء میں وفات پائی تھی۔ اس سائنسدان کا پورا نام گلیلیوگلیلی تھا۔ یہ 15فروری 1564ء کو اٹلی کے شہر پیسا میں پیدا ہوا تھا۔ بنیادی طور پر وہ سائنس دان تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ فلسفہ، میتھمیٹکس اور فزکس میں بھی اس نے شہرت پائی ۔ پیسا کی ایک یونیورسٹی میں داخلہ لیا بعد میں اسی یونیورسٹی میں پڑھاتا رہا اور نت نئے تجربات و تحقیق کا کام بھی جاری رکھا۔ گلیلیو نے اپنے شہر کے مشہور ’’پیسا مینار‘‘ سے مختلف تجربات کئے اور ارسطو کے صدیوں پرانے نظریات کو غلط ثابت کیا اور پیسا کے مینار سے اس نے ہلکے اور بھاری اجسام گرا کر تجربات کئے اور ثابت کیا کہ اجسام خواہ وزنی ہوں یا ہلکے، زمین پر ایک ہی رفتار سے گرتے ہیں اگرچہ ان کی رفتار پر ہوا کی رگڑ ضرور اثر کرتی ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے۔

پیسا مینار Leaning Tower of Pisa ایک کیتھیڈرل چرچ آف پیسا کا حصہ ہے جو اٹلی کے شہر پیسا میں واقع ہے ۔ اس مینار کی وجہ شہرت اس کا ایک طرف کا جھکاؤ ہے، جس سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا یہ گر رہا ہے ۔ چرچ کا حصہ ہونے کی وجہ سے اس کو Romanesque طرز پر تعمیر کیا گیا تھا ۔ اس ٹاور اور چرچ کی تاریخ کا پس منظر بھی تاریخی ہے۔ 1172ء میں سسلی نے جنگ میں فتح کی خوشی میں ایک چرچ، گرجا گھر اور ایک ٹاور تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا،اس وقت پیسا میں جمہوریت تھی۔ سلطنت روما کے زوال کے بعد اٹلی چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹ کر رہ گیا تھا۔ انہی ریاستوں میں جنوب میں واقع ایک پیسا نامی ریاست بھی تھی، یہ ایک شہری ریاست تھی جو ساحل کے ساتھ آباد تھی اور سسلی کا جزیرہ اس سے کچھ ہی دور واقع تھا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اٹلی کے امراء کو میناروں کی تعمیر کا جنون کی حد تک شوق تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی اٹلی میں سینکڑوں کی تعداد میں مینار نظر آتے ہیں ۔ مینار کی تعمیر سے پہلے پورے کتھیڈرل چرچ کی تعمیر سفید اور ہلکے سبز رنگ کے سنگ مر مر سے کی گئی تھی ۔ اس کی اندرونی دیواریں اور بنیادیں گرینائٹ سے بنائی گئی تھیں جو دنیا کامظبوط ترین پتھر مانا جاتا ہے۔ اس پتھر کی تعمیر سے عمارت صدیوں سال تک محفوظ رہتی ہے

پیسا مینار کی تعمیر اگست1173 میں شروع ہوئی تھی اور 1350 میں اس کی تعمیر مکمل ہوئی ایک طرف جھکے مینار کی کل آٹھ منزلیں ہیں ۔

پہلی منزل بیس فٹ بلند ہے، اس کے بعد ہر منزل چودہ فٹ بلندی پر ہے اور گھنٹہ گھر والی آخری منزل بیس فٹ کی بلندی پر ہے ۔

مینار جھکی ہوئی جانب سے183.27 فٹ (86۔55میٹر) بلند جبکہ بلند جانب186.02فٹ (56.70 میٹر) اونچائی ہے ۔ اس کی تعمیر کے وقت کی گھنٹیاں ابھی بھی موجود ہیں لیکن وہ بجائی نہیں جاتیں ۔ اس ٹاور کی تعمیر مختلف مسائل کا شکار رہی تھی اور یوں اس کی مکمل تعمیر کو دو صدیاں لگ گئیں لیکن تعمیر ہونے کے بعد یہ دنیا کے عجائبات میں شامل ہو گیا تھا اور کہا جاتا ہے کہ آج بھی دنیا کے پہلے دس مشہور ترین میناروں میں اس کا نمبر پہلا ہے اور ایفل ٹاور اس کے بعد آتا ہے۔ پہلی بار تعمیر میں رکاوٹ اس وقت پیداہوئی جب اس کی تین منزلیں تعمیر ہو چکی تھیں اور عملے کو محسوس ہوا کہ مینار ایک طرف زمین کو دھنستا محسوس ہورہا ہے اور پہلی بار اس کی تعمیر روک دی گئی جو 100سال تک رکی رہی تھی، اس کی جب وجوہات کا پتہ چلایا گیا تو علم ہوا کہ اس کے منظور شدہ ڈیزائن میں تعمیراتی بنیادی اصولوں کو نظر انداز کردیا گیا تھا۔ بلند مینار کی تعمیر کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ جس جگہ یہ تعمیر کئے جائیں وہاں کی زمین سخت اور پتھریلی ہو، اور بنیاد اتنی چوڑی ہو کہ پوری عمارت کا بوجھ سنبھال سکے، اور یہ دونوں باتیں اس مینار کی تعمیر میں نظر انداز کردی گئی تھیں۔ اسی لئے ایک سو سال کا وقٖفہ ڈالا گیا کہ اس دوران زمین سخت اور پتھریلی ہو جائے۔ 1275ء میں اس کے جھکاؤ کو ختم کرنے کی پہلی کوشش کی گئی نیز از سر نو تعمیرکا سلسلہ شروع ہوا۔ یوں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی منزلوں کی تعمیر جاری رہی۔ 1301ء تک اس کی 6 منزلیں تعمیر ہو چکی تھیں اور بالآخر 1350ء میں 8 منزل کے ساتھ ہی اس ٹاور کی تعمیر مکمل ہوئی یوں جو تعمیر کا سفر1173ء میں شروع ہوا تھا، اس کا اختتام 1350ء میں ہوا۔ شاید یہ دنیا کا واحد ٹاور ہوگا جو تقریباً دو صدیوں کے دوران مکمل ہوا۔ ساڑھے سات سو سال گزرجانے کے باوجود اس کے جھکاؤ کو ختم نہیں کیا جا سکا اور یہی جھکاؤ اس کی مشہوری اور دنیا کی توجہ کا باعث بنا ہوا ہے ۔ حکومتی اور عالمی اداروں کے مطابق یہ مینار اب تک اپنی اصل جگہ سے چھ میٹر تک جھک چکا ہے اور اس کا یہ جھکاؤ ہر سال 0.25 انچ یعنی ایک ملی میٹر کی رفتار سے مسلسل جاری ہے ۔ ماہرین کے مطابق ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب یہ بالآخر گر جائے گا۔ لیکن اس دن کے بارے میں نہیں بتایا جاسکتا کہ کب آئے گا ۔ بعض خطرات کی وجہ سے گیارہ سال بند رکھنے کے بعد 2001ء میں اس کو دوبارہ عوام کے لئے کھول دیا گیا تھا۔ ماضی میں بھی تعمیرات کے ماہرین نے اس مینار کے جھکاؤ کو دور کرنے اور روکنے کی منصوبہ بندی کی لیکن سب کچھ دھرے کا دھرا رہ گیا تھا ۔ صدیوں میں آنے والے زلزلوں اور جنگوں میں بھی یہ پیسا مینار حیرت انگیز طور پر محفوظ رہا، جنگ عظیم دوم میں اٹلی پر بموں کی بارش کے باوجود یہ مینار محفوظ رہا۔ اب اٹلی کے لوگوں کی اس مینار سے عقیدت انتہا کی ہو چکی ہے اور وہ اس کی حفاظت کو اپنا قومی فریضہ سمجھتے ہیں۔ موجودہ ماہرین کے مطابق اس کی جدید ترین طریقوں سے اس طرح دیکھ بھال کی گئی ہے کہ اس کو اگلے 300 سال تک کے لئے مزید محفوظ کرکے گرنے سے بچا لیا گیا ہے۔

ٹاور کا بالائی حصہ

(منور علی شاہد(جرمنی))

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 اپریل 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 اپریل 2021