• 26 اپریل, 2024

آج کی دعا

رَبَّنَا اصۡرِفۡ عَنَّا عَذَابَ جَہَنَّمَ ٭ۖ اِنَّ عَذَابَہَا کَانَ غَرَامًا

(الفرقان: 66)

یعنی اے ہمارے ربّ! ہم سے جہنم کا عذاب ٹال دے یقیناً اس کا عذاب چمٹ جانے والا ہے۔

یہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے بچنے اور جہنم کے عذاب سے بچنے کی دعا ہے۔ آنحضور نے اس آخری عشرہ کو جہنم سے نجات دلانے والا قرار دیا گیا ہے۔

سوال ہے کہ جہنم سے کیا مراد ہے؟ اس کی لغوی اور معنوی وضاحت حضرت مصلح موعودؓ نے یوں بیان فرمائی ہے:
جہنم سے گواخروی جہنم بھی مراد ہے جس سے ہر سچا مومن اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتا ہے مگر دنیوی نقطہ نگاہ سے ہر وہ امر جو انسان کے لئے دُکھ اور تکلیف کا موجب ہو اور جو اسے قوم اورملک کی نظروں میں گرانے اور ذلیل کرنے والا ہو وہ بھی اس کے لئے جہنم کا ہی رنگ رکھتاہے۔ اصل جہنم جھن اور جھم سے مرکب ہے۔ جھن کے معنیٰ کسی چیزکے قریب ہونے کے ہوتے ہیں جو جھم کے معنیٰ منہ کے بگڑجانے کے ہیں۔ پس جہنم کے لفظ کا اطلاق ہر ایسی چیز پر ہو سکتاہے جس کی طرف انسان پہلے تو بڑے شوق اور حرص کےساتھ بڑھے مگر جب وہ قریب پہنچے تو اس کا منہ بگڑ جائےاور وہ گھبرانے لگ جائے۔

آپؓ نے مزید فرمایا
اس نام میں درحقیقت جہنمی افعال کی حقیقت پر روشنی ڈالی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ انسان پہلے تو عیاشیاں اور بدکاریوں کو بڑا اچھا فعل سمجھتا ہے اور ان کےقریب پہنچنے کی کوشش کرتا ہے مگر جب وہ ان بدیوں میں ملوث ہو جاتا ہے اور ان کا بُرا انجام آنکھوں کے سامنے آتا ہے تواس کا منہ بگڑ جاتا ہے اور وہ رونےاور چیخیں مارنے لگ جاتا ہے۔ اور کہتا ہےکہ میں نے تو بڑی غلطی کی۔

(تفسیر کبیر جلد6 صفحہ565)

(مرسلہ:مریم رحمٰن)

پچھلا پڑھیں

اختتام قاعدہ یسرناالقرآن و آغاز قرآن کریم

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 اپریل 2022