• 8 مئی, 2024

چاہئے کہ خدا تعالیٰ کے ذکر میں مصروف رہے تاکہ تبتّل اور انقطاع حاصل ہو

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’تیسری بات جو اسلام کا رُکن ہے، وہ روزہ ہے۔ روزہ کی حقیقت سے بھی لوگ ناواقف ہیں … روزہ اتنا ہی نہیں کہ اس میں انسان بھوکا پیاسا رہتا ہے، بلکہ اس کی ایک حقیقت اور اس کا اثر ہے جو تجربہ سے معلوم ہوتا ہے۔ انسانی فطرت میں ہے کہ جس قدر کم کھاتا ہے اُسی قدر تزکیۂ نفس ہوتا ہے اور کشفی قوتیں بڑھتی ہیں۔ خدا تعالیٰ کا منشا اس سے یہ ہے کہ ایک غذا کو کم کرو اور دوسری کو بڑھاؤ۔ ہمیشہ روزہ دار کو یہ مدّنظر رکھنا چاہئے کہ اس سے اتنا ہی مطلب نہیں ہے کہ بھوکا رہے بلکہ اُسے چاہئے کہ خدا تعالیٰ کے ذکر میں مصروف رہے تا کہ تبتّل اور انقطاع حاصل ہو۔ پس روزے سے یہی مطلب ہے کہ انسان ایک روٹی کو چھوڑ کر جو صرف جسم کی پرورش کرتی ہے، دوسری روٹی کو حاصل کرے جو روح کی تسلی اور سیری کا باعث ہے۔ اور جو لوگ محض خدا کے لئے روزے رکھتے ہیں اور نرے رسم کے طور پر نہیں رکھتے، اُنہیں چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی حمداور تسبیح اور تہلیل میں لگے رہیں جس سے دوسری غذا اُنہیں مل جاوے۔‘‘

(ملفوظات جلد5 صفحہ102 ایڈیشن 2003ء)

اس ارشاد میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو فرمایا کہ جس قدر انسان کم کھاتا ہے اُسی قدر تزکیۂ نفس ہوتا ہے، تو اس سے خیال پیدا ہو سکتا تھا کہ شاید بھوکا پیاسا رہنا ہی تزکیۂ نفس ہے اس لئے آگے واضح فرما دیا کہ صرف بھوکا پیاسا رہنا تزکیۂ نفس نہیں، نہ اس سے روزے کا مقصد پورا ہو سکتا ہے۔ یہ تو قرآنی ارشاد کے خلاف ہے کیونکہ مقصد تو تقویٰ کا حصول ہے۔ پس فرمایا کہ اگر روزہ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے رکھا ہے تو پھر جتنا بھی روزے کا وقت ہے یہ بھی ذکرِ الٰہی میں گزارو۔ ایک دوسری جگہ آپ نے فرمایا کہ بھوکے پیاسے رہنے سے تو بعض جوگیوں میں بھی ایسی حالت پیدا ہو جاتی ہے کہ اُن کو بھی کشف ہو جاتے ہیں لیکن یہ ایک مسلمان کی زندگی کا مقصد نہیں ہے۔ ایک مومن کی زندگی کا مقصد تبتّل اور انقطاع ہے اور یہ عبادت سے، ذکرِ الٰہی سے پیدا ہوتا ہے اور نمازیں اس کا بہترین ذریعہ ہیں جو روح پر اثر ڈالتی ہیں، جو خدا تعالیٰ کے قرب کا باعث بنتی ہیں۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد2 صفحہ696-697 ایڈیشن 2003ء)

پس اصل روزہ وہ ہے جس میں خوراک کی کمی کے ساتھ ایک وقت تک جائز چیزوں سے بھی خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے رُکے رہناہے۔ یہ تقویٰ ہے اور ان چیزوں سے رُکے رہ کر صرف دنیاوی کاموں اور کاروباروں میں ہی وقت نہیں گزارنا بلکہ نمازوں اور ذکرِ الٰہی کی طرف پوری توجہ دینی ہے۔ نمازیں اگر پہلے جمع کرتے تھے یا بعض دفعہ قضا ہو جاتی تھیں تو اِن دنوں میں اس طرف خاص توجہ کہ ذکرِ الٰہی اور عبادت ہر دوسری چیز پر مقدم ہو جائے۔
آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی حمد کی طرف توجہ ہو۔ اور ہم اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ جو کہتے ہیں تو یہ صرف منہ سے ہی نہ ہو بلکہ آپ نے اس طرف ہماری توجہ دلائی کہ جب اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کہو تو ہمیشہ یہ بات مدّنظر رکھو کہ حمد صرف ربّ جلیل سے مخصوص ہے۔ یہ ذہن میں ہو کہ ہر قسم کی حمد خدا تعالیٰ کی ذات کے لئے ہے اور اُس کی طرف ہی حمد لوٹتی ہے۔ ہم اُس خدا کی حمد کرتے ہیں جو گمراہوں کو ہدایت دینے والا ہے۔ پس اگر ہم سارا سال خدا کی طرف اُس طرح نہیں جھکے جو اُس کا حق ہے تو اس مہینہ میں ہمیں یہ ہدایت دے تا کہ اس ہدایت کے ذریعہ ہم آئندہ گمراہی سے بھی بچیں اور حمد کے فیض سے فیضیاب ہوتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنے والے بھی ہوں۔ آپ علیہ السلام نے اس طرف بھی رہنمائی فرمائی کہ حمد کرتے وقت یہ سامنے ہو کہ ہر عزت خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ پس اس رمضان میں ہمیں یہ دعا بھی کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ وہ نیکیاں کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو اُس کا قرب دلانے والی ہوں۔ اور دنیا کی عزت اور تفاخر کی طرف ہم جھکنے والے نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے ہوئے یہ بھی خیال رہنا چاہئے کہ ہمیشہ ہمارا انحصار خدا تعالیٰ کی ذات پر ہو گا، کسی دنیاوی سہارے پر نہیں ہو گا۔

پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح کی طرف رمضان میں توجہ رکھو۔ صرف سُبْحَانَ اللّٰہِ کہہ دینا کافی نہیں ہے بلکہ جہاں اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی بیان ہو وہاں یہ دعا ہو اور درد سے دعا ہو کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دنیا کی ہر قسم کی دنیاوی آلائشوں سے بھی پاک کر دے۔ اور یہ رمضان ہمارے اندر حقیقی تقویٰ پیدا کرنے والا بن جائے۔

پھر فرمایا تہلیل کرو۔ اپنی دعائیں اس یقین کے ساتھ کرو کہ عبادت کے لائق ذات صرف خدا تعالیٰ کی ذات ہے۔ اگر ہمیں کوئی کسی قسم کے نقصان سے بچا سکتا ہے تو وہ صرف خدا تعالیٰ ہے۔ جب ہمیں کسی سہارے کی ضرورت ہو تو خدا تعالیٰ کا سہارا ہم نے لینا ہے اور انسان کو ہر وقت خدا تعالیٰ کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لئے اس معبودِ حقیقی کی طرف ہر وقت جھکا رہنے کی کوشش ہو۔ رمضان میں روزوں کے ساتھ یہ دعا کرے کہ خدا تعالیٰ تُو ہمیشہ ہمیں اپنی پناہ میں رکھنا۔ اے اللہ! روزوں کے ساتھ جو تبدیلیاں تُو نے روزوں سے فیض پانے والوں کے لئے مقدر کی ہوئی ہیں اُن سے ہمیں بھی حصہ دے اور ایسا یہ حصہ ہو جو تا زندگی ہمیں فیضیاب کرتا رہے۔ آپ نے فرمایا کہ تمہاری یہ حمد، تسبیح اور تہلیل ایسی ہے جو تبتّل کی حالت پیدا کر دے۔ اور تبتّل الیٰ اللہ کا مطلب یہ ہے کہ اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہر قسم کی دنیاوی خواہشات سے علیحدہ کر لینا۔ خداتعالیٰ کے ساتھ کامل وفا کا تعلق پیدا کر لینا۔

پھر فرمایا کہ انقطاع حاصل ہو۔ یعنی تمام دنیاوی لہو و لعب سے اپنے آپ کو علیحدہ کر لو اور خدا تعالیٰ کی عبادت کی طرف توجہ کرو۔ جب یہ ہو گا تو وہ مقصد حاصل ہو گا جو خدا تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ روزے دار تقویٰ حاصل کرنے والا ہو گا۔

پس یہ رمضان جو دو دن سے شروع ہوا ہے اور انتیس تیس دن تک چلنا ہے، تبھی ہمیں فائدہ دے سکتا ہے جب ہم اس مقصد کو اپنے سامنے رکھنے والے ہوں گے اور یہ مقصد اتنا بڑا ہے کہ اس کے لئے بہت محنت کی ضرورت ہے۔ اپنے روزے کا حق ادا کرنے کی بھی ضرورت ہے اور اپنی دوسری عبادتوں کا حق ادا کرنے کی بھی ضرورت ہے اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کا حق ادا کرنے کی بھی ضرورت ہے کیونکہ ان سب کی مشترکہ ادائیگی کا نام ہی تقویٰ ہے۔

(خطبہ جمعہ 12؍ جولائی 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

اختتام قاعدہ یسرناالقرآن و آغاز قرآن کریم

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 اپریل 2022